ازدواجی اور معاشرتی احوال کی درستی کے لیے عہدِ الست کے بعد دنیا کے پہلےعہد’’عقدنکاح‘‘ کے تقاضوں کی یاد دہانی ہوتی رہنا چاہیے ۔
مسابقت کے اس میدان میں اتارنے سے پہلے آدم و حوا کو آزمائشی طور پہ جنت میں رکھا گیا تھا۔ اور آزمائش کے طور پہ ایک درخت کا پھل کھانے سے منع کیا گیا۔اس درخت کے پھل میں برائی نہیں تھی۔ بھلا جنت میں کسی برائی کا کیا موقع! یہ تو حکم ماننے اور نہ ماننے کی مشق تھی۔
معاشرے میں مشہور و معروف جملہ بولا جاتا ہے کہ عورت، آدم کو جنت سے نکالنے کا موجب بنی، ذرا اس فرمان الٰہی پہ توجہ دیجیے ۔
’’ہم نے آدم سے شروع میں ہی ایک عہد لیا مگر وہ بھول گیا اور ہم نے اس میں عزم نہ پایا ‘‘ ( طہٰ 115)
آدم علیہ السلام کو ہی مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
’’پھر ہم نے آدمؑ سے کہا کہ دیکھو، یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے، ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنت سے نکلوا دے اور تم مصیبت میں پڑ جاؤ ‘‘ (طہ117)
یعنی آدم کو متنبہ کیا جارہا ہے کہ خود بھی دشمن سے ہوشیار رہنا اور اپنی بیوی کو بھی بچانا اور جب شیطان نے…
تعلیم کی ابتدائی جماعت سے ہی سب جانتے ہیں کہ کامیاب ہونے اور اگلے درجے میں ترقی حاصل کرنے کے لیے کسی ایک یا زیادہ لازمی مضمون میں پاس ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اور ہر مضمون کے امتحانی پرچہ میں کوئی ایک سوال لازمی حل کرنا ہوتا ہے۔
زندگی بھی ایک امتحان ہے اور جسمانی یا روحانی طور پہ زندہ رہنے کے لیے کچھ امر لازمی ہیں۔ جسم کی مشین میں دل وہ لازمی پرزہ ہے جس کے حرکت میں نہ رہنے سے جسمانی موت واقع ہو جاتی ہے۔
روح بھی دل کے سہارے قائم و زندہ رہتی ہے۔ روح کو زندہ رکھنے والا دل بھی اِسی دھڑکتے اور خون پمپ کرنے والے دل سے ہی منسلک ہے۔ مگر دھڑکتا دل زندہ محسوس کیا جا سکتا ہے اور اس کی بنا پر انسان کو تندرست قرار دیا جا سکتا ہے۔ مگر وہ دل جو روح کو زندہ رکھتا ہے وہ بیمار ہو، کام کرنا چھوڑ دے، زنگ لگ جائے، سیاہ ہوجائے، یا مُردہ ہو جائے تو دنیا کی کوئی مشین اس کی حالت زار کا عکس پیش نہیں کر سکتی۔ بظاہر زندہ انسان، مُردہ روح کے ساتھ پھرتا ہے…… اللہ تعالیٰ نے فرمایا سورہ الاعراف 179 میں:
’’اور یہ حقیقت ہے کہ بہت…
گھر ایک ایسا مقام ہے جہاں انسان بے فکری سے اپنا وقت اپنی مرضی کے مطابق گزارتا ہے، گھر ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ گھر کوئی لگی بندھی، متعین شکل کی عمارت کا نام نہیں۔ چار دیواری اور چھت کے ساتھ ایک دروازہ ہو تو وہ بھی گھر کہلا سکتا ہے۔ چھت گھاس پھونس کی ہو، دیواریں کپڑے کی ہوں اور ٹاٹ کا ٹکڑا دروازے کا کام دیتا ہو تو وہ بھی گھر ہی ہے۔ کسی بھی جگہ پہ چھوٹا یا بڑا مکان بنایا جا سکتا ہے مگر اس کے مکین اس مکان کو گھر بنانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
مرد اپنے گھر کا مالک و حاکم ہوتا ہے، اور یہ بات معاشرے میں معروف ہے کہ عورت باپ کے گھر میں رہتی ہے، شادی کے بعد وہ شوہر کے گھر چلی جاتی ہے۔ اور اگر باپ اور شوہر نہ رہیں تو وہ بھائی کے گھر میں رہتی ہے۔ جب بیٹے بڑے ہو جائیں تو وہ بیٹے کے گھر میں رہتی ہے۔ عوام الناس (الا ماشاءاللہ) کے رویے یہ تاثر دیتے ہیں کہ
’’عورت کا اپنا کوئی گھر نہیں ہوتا‘‘۔
بے شک مرد کے سربراہ ہونے کا تاثر بالکل درست ہے۔ یقیناً مرد ہی عورت کا ’’قوام‘‘ ہے۔ عورت…
ہر طرف سرخ رنگ بکھر رہا ہے کہ یہ محبت کا رنگ ہے، خوشی کی تلاش ہے، محبت کی امنگ ہے۔ اس دل کے نشان اور سرخ رنگ کے پیچھے کیا کہانی ہے؟ اور اس کہانی کی آڑ میں کتنے دل بہلاوے ہیں۔ دل کی خلش کو ختم کرنے کے کتنے جواز ہیں؟ ’’محبت‘‘ کے لفظ کے پردے میں کیا کیا تماشے ہیں؟ ہر تماشے پہ نفس کی اجارہ داری ہے۔ شیطان کی پھیلائی ہوئی دل فریبیوں میں کتنے ایمان والوں کا امتحان ہے۔ اور اس امتحان کے کتنے رنگ ہیں۔ ایک پرائی تہذیب اچانک، ایک دن یا ایک عمل سے کسی تہذیب پر قبضہ نہیں کر سکتی۔ خوشیوں محبتوں کے رنگ اتنی آسانی سے غیروں کے رنگ میں نہیں رنگ جاتے۔ قوموں کی زندگی پل بھر میں نہیں بدل جاتی۔ پہلے کسی ایک فرد کی سوچ کا رنگ تبدیل ہوتا ہے وہ فرد اپنی سوچ کو دیوار پر چپکا دیتا ہے جیسے مٹھائی والے کی دکان پر کوئی انگلی شیرے میں ڈبو کر اس انگلی سے دیوار پر ایک میٹھا قطرہ لگا دے اور پھر اس دکان کے سارے منظر بدل جاتے ہیں۔ ابتدا تو بس ایک ذرا سی مٹھاس سے ہوئی، جس کی بظاہر کوئی وقعت بھی نہ…
انسان کے اندر خود اعتمادی ہو تو وہ ایک کامیاب اور مثالی شخصیت مانا جاتا ہے۔ اپنی ذات پہ بھروسہ یا اپنی قابلیت کا یقین خود اعتمادی کہلاتا ہے۔ لیکن درحقیقت خود اعتمادی اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ ہمت اور حوصلہ اور پختہ خیال ہے جو کسی بھی چھوٹی یا بڑی مہم کو سر انجام دینے کے لیے کسی فرد میں پیدا ہوتا ہے۔ اور یہ منزل کی طرف اٹھنے والا پہلا قدم ہے۔ بےشک انسان کی قوتِ ارادی کو دوام اور ثبات بخشنے والی صفت ’’توکل علی اللہ‘‘ ہے۔
’’پھر جب تمہارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسہ کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اُسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں‘‘۔ (آل عمران: 159)
دراصل خود اعتمادی کا وصف’’اعتماد علی اللہ‘‘ سے نشوونما پاتا ہے۔
اگر قرآن و حدیث کی رو سے دیکھیں تو خود اعتمادی دراصل اللہ تعالیٰ پہ توکل کرنا ہے۔ انسان کی ہر وہ سوچ جو اسے کسی عمل پہ ابھارتی ہے وہ توکل علی اللہ سے حُسنِ عمل میں تبدیل ہوتی ہے۔
توکل علی اللہ وہ قرآنی صفت ہے جس کی بدولت ایک نہتّا شخص پوری قوم سے اپنا آپ منوا لیتا ہے۔ اور اس سے قربِ الٰہی کی مزید راہیں…
اشتہاری کمپنیاں جب کسی چیز کی فروخت کے سلسلے میں سلوگن بناتی ہیں تو وہ کوئی سیدھا سادہ معاملہ نہیں رہتا۔ عوام الناس میں پذیرائی کے بعد وہ ایک نظریہ بن جاتا ہے۔
’’جیسے چاہو جیو‘‘ بھی اسی کی ایک مثال ہے۔ گھر میں رہنے والے سب افراد جب اس سلوگن کے ساتھ اپنی زندگی کو آزاد سمجھتے ہیں تو میاں بیوی کے درمیان فاصلوں کا آغاز ہو جاتا ہے۔ بچے والدین کی مداخلت سے اپنے طرزِ حیات پہ قدغن محسوس کرتے ہیں۔پھر اس کی اگلی منزل ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا نعرہ ہوتا ہے۔
بظاہر چھوٹے چھوٹے معاملات انجام کار فتنہ عظیم بن کر سامنے آتے ہیں۔اسلام نے ہر بڑے فتنے کے نمودار ہونے کے پہلے ہی مرحلے پہ راستے کی بندش کا انتظام کر دیا ہے۔
مرد کوعورت کی مشابہت اور عورت کومرد کی مشابہت اختیار نہ کرنے کا حکم ہے۔ یہ مشابہت چہرے مہرے کی ہو، بالوں کی تراش خراش کی یا لباس کی۔ مردوں کے لیے ہاتھوں پہ مہندی اور سونے کا زیور اور ریشم کا استعمال منع ہے۔ لباس کے رنگوں میں بھی شوخ رنگ عورتوں کے اور ہلکے رنگ مردوں کے لیے ہؤا کرتے تھے۔
لباس کی یکسانیت نے مرد و عورت کی تفریق پہ پانی پھیر دیا۔…
ہر برسرِ روزگار فرد گھر بسانے سے پہلے اپنے ٹھکانے کی فکر کرتا ہے۔ چھوٹا سا مکان ہو جو زندگی کو آگے چلا سکے۔ اور اس کے لیے باعث سکون ہو۔
جب انسان تھک جاتا ہے تو تھوڑی دیر آرام کرنے کے لیے صوفہ کرسی استعمال کرتا ہے مگر آرام کی اصل جگہ انسان کا بستر ہوتا ہے۔ دنیا میں آتے ہی بچے کو بستر کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر یہ ضرورت ساری عمر رہتی ہے۔
مشترکہ خاندان میں بھی ایک نئے جوڑے کے لیے ذاتی کمرے کا انتظام لازمی امر ہے۔ وسیع و عریض گھر میں بھی وہی ایک کمرہ ذاتی ملکیت کا احساس دلاتا ہے جہاں فرد اپنی ذاتی اشیاء رکھتا اور رات گزارتا ہے۔ اور اس کمرے میں بھی ہر فرد کی مکمل دلچسپی اس بستر سے ہوتی ہے جہاں اس نے سونا ہے بلکہ بستر کی دائیں یا بائیں طرف اور اپنا ہی تکیہ نیند کے مزے لینے کو آسان بناتا ہے یعنی انسان کو جس چیز اور جگہ سے انسیت ہو جاتی ہے وہی باعثِ سہولت ہے۔ اسی لیے اکثر لوگوں کو کسی نئے مقام تکیے یا بستر پہ نیند نہیں آتی۔
انسان اپنی آرام گاہ کا انتظام کرتا ہے، اس سے مانوس ہوتا ہے اور اس…
(Emotion Quotient) EQ درحقیقت ایک اصطلاح ہے جو جذباتی ذہانت یا ’’Emotional Intelligence‘‘ کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ یہ ایک مکمل علم ہے اور یہ علم دراصل اپنے اور دوسروں کے جذبات کو بھانپنے اور اُنہیں کنٹرول کرنے کی صلاحیت کا نام ہے۔
یہ دوسروں کے ساتھ معاشرتی و سماجی رویے، رشتوں کو جوڑے رکھنے اور گھر یا معاشرے میں امن برقرار رکھنے، وقت کی پابندی، ذمہ داری، وفا داری، ایمانداری، حدود کا احترام، عاجزی کی صلاحیت کا پیمانہ ہے۔ گویا کہ اگر’’آئی کیو‘‘ دماغی یا عقلی ذہانت ہے تو ’’ای کیو‘‘ قلبی یا جذباتی ذہانت کا نام ہے۔
ہر شخص یہ بات جانتا ہے کہ اپنے جذبات کا اظہار اور انہیں قابو کرنے کی صلاحیت، پرسکون زندگی کے لیے کس قدر اہمیت کی حامل ہے۔ اسی طرح دوسروں کے جذبات کو سمجھنا، حقائق اَخذ کرنا اور ان کے جذبات پر ردِّعمل دینا بھی اتنا ہی اہم ہوتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات، اس صلاحیت کو جذباتی ذہانت کا نام دیتے ہیں۔ کچھ ماہرین اسے عقل سے بھی زیادہ اہم کہتے ہیں۔
بہت سے لوگ EQ اور IQ دونوں سے مالا مال ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ دونوں میں سے کسی ایک سے زیادہ نوازے جاتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ اپنے شعبے میں ماہر اور…
زندگی میں ہر انسان کو اکثر ایسے حالات سے واسطہ پڑتا ہے جو اس کے لیے غیر متوقع ہوتے ہیں۔ جس کی امید نہیں ہوتی، انسان کی منصوبہ بندی میں شامل نہیں ہوتے، اور کسی بھی عمل کا غیر متوقع اچھا یا برا انجام حیران کن ہو جاتا ہے۔ کسی بھی فیصلہ کن امر میں غیر متوقع معاملہ کا سامنا انسان کو تعجب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ انسان کی محنت کے مقابلے میں کامیابی کا تناسب کم یا زیادہ ہو جاتا ہے، سفر کے منصوبہ میں خلل پڑجاتا ہے۔ طے شدہ ملاقاتیں یا پروگرام کسی بھی وجہ سے ملتوی ہو جاتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
انسانی زندگی میں ایک اور لفظ’’اچانک‘‘ کا بھی بہت عمل دخل ہے۔
یعنی یکایک، ناگہانی، اتفاقی یا بغیر کسی پیشگی اطلاع کے کچھ رونما ہو جانا۔ عربی میں ’’مفاجات‘‘ انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات‘‘
دراصل یہ انسانی زندگی میں وہ لازمی مرحلہ ہے جو انسان کو اس کی اوقات یاد دلاتا رہتا ہے۔ انسان کو احساس ہوتا ہے کہ اس کے منصوبوں میں کسی ایسی مقتدر ہستی کا عمل دخل ہے جو عین آخری لمحے میں ساری کارگزاری اور منصوبے کے انجام کو بدل سکتی ہے۔
اگر ہر انسان اپنی زندگی کے…
شارجہ کورنیش پہ ایک بلڈنگ میں اس صبح بہت دیر سے ایک لفٹ کسی منزل پہ رکی ہوئی تھی۔ دوسری لفٹ اوپر جانے والوں کے ہاتھوں میں تھی … نیچے جانے والے لوگ اکٹھا ہوتے جارہے تھے۔ کوئی پانچ منٹ میں اوپر جانے والی لفٹ ساتویں منزل پر واپس آ کر رکی تو سب لفٹ میں داخل ہونے میں پہل کرنے کی کوشش میں تھے۔ زیادہ مرد تھے تو صائمہ اور ایک اور خاتون باہر ہی کھڑی رہ گئیں۔
’’مردوں کو لیڈیز فرسٹ والا اصول اب بھول گیا ہے‘‘۔ صائمہ نے رنجیدہ ہو کر کہا۔
ہلکے نیلے رنگ کی ساڑھی میں ملبوس پچاس پچپن کے لگ بھگ دوسری خاتون نے نو عمر صائمہ کو مسکرا کر دیکھا اور تسلی آمیز لہجے میں بولیں:
’’وہ تعداد میں جیادہ تھے … زمہوری دور ہے نا!‘‘
صائمہ نے ان بنگالی خاتون کی بات پر سر ہلا کر تائید کی ۔
’’آنٹی! آپ آئیے نا! ہماری طرف، میری امی آپ سے مل کر بہت خوش ہوں گی۔ آپ کون سے فلور پہ رہتی ہیں؟‘‘ باتونی صائمہ کو خیال آیا کہ شاید وہ یہاں نہ رہتی ہوں … کسی کو ملنے آئی ہوں۔
’’میں نیچے تیسرے فلور پہ رہتی ہوں‘‘۔
’’اچھا!‘‘ صائمہ نے سوچا میری امی کی ہم عمر ہیں ان سے…
پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے جو حالات نظر آرہے ہیں ان کے اثرات مدتوں تک رہیں گے۔
ہر شعبہ زندگی کے دانشور اس آفت کی اپنی اپنی توجیہہ بیان کر رہے ہیں اور ہر کسی کا نقطہ نظر درست ہو سکتا ہے۔ کوئی دین سے دوری کے حوالے سے دیکھتا ہے اور اسے عذاب کہتا ہے، کسی کو آزمائش لگتی ہے اور کوئی حکومت کی نا اہلی کو ثابت کرتا ہے۔ اور کسی کی نظر میں عوام کا اپنا قصور ہے یا یہ گلوبل وارمنگ کا نتیجہ ہے۔
سب کے تجزیے درست ہو سکتے ہیں اور ہر تجزیہ کو غلط بھی ثابت کیا جا سکتا ہے۔
اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ سیلاب کی وجہ اگر مذہب کی خلاف ورزی ہوتی تو کیا صرف کچی بستیوں والے غریب مسلمان ہی گنہگار ہیں؟ دولت مندوں کے گناہ تو کہیں زیادہ خوفناک ہوتے ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ سیلاب، قدرت کے مادی اور اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی پہ آیا ہے۔ کرہ ارضی کی موسمی تبدیلیوں اور ان کی وجوہات کو نظر انداز کرنا۔ جنگلات کو کاٹنا، ڈیم نہ بنانا، بارشوں کے زیادہ ہونے کے امکانات کے پیش نظر بر وقت سدباب نہ کرنا بھی قدرت کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ یہ بات…
اسلام آفاقی دین ہے رب العٰلمین نے سیدناﷺ کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا اور قرآن مجید فرقان حمیدھدی للعالمین ہے۔اس دین کا قرآن پاک اور اسوہ رسول صلعم کی تعلیم کا لب لباب یا خلاصہ انسانیت کی فلاح ہے اور اس فلاح کا بنیادی فلسفہ انسانیت کے لیے دعا اور نصیحت ہے۔ نصیحت کے بارے میں واضح ہے کہ’’ الدین النصیحہ‘‘ دین خیر خواہی کا دوسرا نام ہے۔ یہ خیر خواہی زمین و آسمان کے درمیان موجود ہر شے کے ساتھ ہے۔
محبت کا پیمانہ ،تعلق کا درجہ جیسا ہوگا خیر خواہی اسی قدر اپنا رنگ دکھائے گی۔ دعا اور نصیحت کرنا وہ دلی خیر خواہی ہے جس کے نتیجے میں دنیا اور آخرت کی حسنات میسر آتی ہیں.لیکن قرآن نے’’ فزکر ان نفعت الزکریٰ‘‘ کی بھی تعلیم دی ہے۔گر کوئی نصیحت مشورہ رائے یا خیر خواہی کو قبول نہ کرے یا بے رخی بے توجہی اختیار کرے تو اپنی مقدور بھر کوشش کرنے کے بعد اسے اس کے حال پہ چھوڑ دینے کی بھی تلقین ہے۔نصیحت اس کا حق ہے جو اس کی طلب رکھتا ہو۔ لیکن دعا کرنا ایسا عمل ہے جو کسی طور بھی چھوڑا نہیں جا سکتا، کوئی چاہے یا نہ چاہے پسند کرے یا نہ…
اللہ الخالق سے بڑھ کر اور کس کو علم ہو سکتا ہے کہ انسان کی بنیادی ضروریات کیا ہیں!
سیدنا آدم اور سیدہ حوا علیہما السلام کو اللہ رب العزت نے جنت میں داخل ہونے کا اذن فرمایا تو وہاں ان دونوں کے لیے جو نعمتیں تیار تھیں وہ بفراغت کھانا (روٹی) عمدہ لباس (کپڑا) اور رہنے کو جنت (مکان) تھی۔فرمایا سورہ طٰہٰ کی آیت ۱۱۸ میں:
’’یہاں (جنت میں) تو تمہیں یہ (نعمتیں) حاصل ہیں کہ نہ بھوکے رہتے ہو نہ ننگے‘‘۔
جب آدم و حوا دنیا میں اتارے گئے تو زمین ان کے لیے بطور مکان پہلے سے موجود تھی اور ہر نئے آنے والے انسان کی ضرورت اسی ترتیب سے منسلک ہے۔ہر بچے کے لیے ماں کا پیٹ اگر مکان تھا تو اس کی خوراک کا انتظام اسی مکان میں مہیا تھا البتہ ماں کے پیٹ سے جدا ہونے کے لیے کوئی جگہ بھی ضروری تھی جہاں وہ جنم لے سکے اور پھر فوری ضرورت کسی کپڑے کی تھی جس میں اس کا احساسِ تحفظ برقرار رہے اور انسانی فطرت کا پہلا استعارہ اس کے نام ہو جائے کیونکہ لباس ہی انسان اور جانور میں امتیازی نشان ہے۔
اس کے بعد دنیا میں آتے ہی اولادِ آدم پہ بھوک کا احساس…
محرم الحرام کا اصل پیغام یہ ہے کہ حق کا بول بالا کرنے کو مقصدِ زندگی بنایا جائے
قرآن پاک کی سورۃ توبہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔
’’حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اُس کے ( اللہ تعالیٰ کے) نوشتہ میں بارہ ہی ہے ۔ اور ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ( رجب، ذیقعد،ذالحج،محرم)۔یہی ٹھیک ضابطہ ہے ( کیلنڈر کا ) لہٰذا ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے سب مل کر لڑو۔ جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں اور اچھی طرح جان لو کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کے ہی ساتھ ہے (یعنی متقیوں کا حق ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کا ساتھ دے ) ان چار مہینوں میں محرم کی اہمیت مزید رسولﷺکے اقوال مبارکہ سے بھی عیاں ہوتی ہے ۔ محرم کا معنی ہے بہت زیادہ قابل تعظیم، ان مہینوں کی حرمت ابتدائے آفرینش سے ثابت ہے۔‘‘
حج الوادع میں نبی ؐنے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا۔
’’لوگو! زمانہ گھوم پھر کر اپنی اصلیت پر آگیا ہے ۔ سال کے بارہ مہینے ہؤا کرتے ہیں ۔ جن میں سے چار حرمت والے ہیں ۔…
رائے قائم کرنے کا مطلب کسی واقعہ، معاملہ، خبر، یا کسی بات کی اطلاع ہونے کے بعد اپنے علم و فہم، ذہن، تعلیم و تربیت، حالات، ماحول، خصوصاً مزاج اور نیت کے مطابق اظہارِ بیان کرنا یا ردِّعمل ظاہر کرنا ہے۔ اور یہی بیان یا ردِّعمل انسان کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔
سب سے پہلا اظہارِ بیان جس کا ذکر قرآن پاک میں ہے وہ آدم کے زمین پہ خلیفہ بنائے جانے کی خبر پہ فرشتوں کی طرف سے تھا۔ فرشتوں نے اپنے علم کے مطابق یہ رائے قائم کی کہ’’وہ تو خلیفہ بن کر فساد کرے گا‘‘ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ زمین پہ جنات کو اختیارات دیے گئے تھے تو انہوں نے زمین کو فساد سے بھر دیا تھا۔ دوسری رائے فکر و اندیشے لیے ہوئے تھی کہ ایسا تو نہیں کہ ہم الله رب العزت کی حمد و ثنا میں کوتاہی کے مرتکب ہو رہے ہوں۔
اس کے بعد شیطان کی طرف سے اظہارِ بیان، اور رائے آتی ہے تو یہ کہ’’میں اس سے بہتر ہوں‘‘ اور ردِّعمل میں اولادِ آدم سے انتقام کا جذبہ سامنے آتا ہے۔ گویا کہ شیطان نے اپنا تعارف خود کرا دیا… الله الخالق نے فرشتوں کی رائے پہ اظہار فرمایا’’انی اعلم…
’’لہور لہور اے‘‘ کا احساس قلب و جان پر حاوی تھا۔ زندہ دلانِ لاہور نے ادبی لوگوں سے ملاقات کروا کے میرا لہو گرما دیا تھا اور خلوص و محبت کی جو پوٹلیاں ہر فرد اور ہر گھر سے حاصل ہوئی تھیں ان کو رکھنے کے لیے دل میں بھی خود بخود وسعت پیدا ہو گئی تھی۔ دل محبتیں پا کر کیسے کھِل جاتا ہے… جیسے ننھی سی کلی پھول بن جاتی ہے! اور مجھے لاہور کو الوداع کہنا تھا۔ میرا اگلا سٹاپ مری تھا۔
میرے شوہر نے فون پہ ہدایت کی (جو کہ خود مری میں تشریف رکھتے تھے) ’’لاہور سے بس پکڑو اور پنڈی فیض آباد پہنچو، وہاں سے وین لو جو کہ چند قدم کے فاصلے سے مل جائے گی اور بس آرام سے مری آ جائو‘‘۔
ان کی حاکمانہ سی معلومات کو سنتے سنتے میں نے فیض آباد بس سٹاپ پر دو بیگ اٹھائے چند قدم چلنے کا تصور کیا اور کہا۔
’’میں اس بس پہ آئوں گی جو سیدھی مری آتی ہو گی‘‘۔
ان کی طرف سے بہادری کے جذبات کو ابھارنے او رعورت کی کمزوری کا احساس دلانے والے لہجہ میں ارشاد ہؤا۔
’’مرد بنو‘‘۔
میں نے مردانہ زندگی کی ناہمواریوں کا سوچا اور کہا۔
’’ٹھیک ہے، میں مرد بن جاتی…
دروازہ ہماری زندگی کا ایک اہم جز ہے ۔ دروازہ کھلا ہو یا بند اس کے ساتھ ہماری بہت سی نفسیاتی جہتیں وابستہ ہیں ۔
بند دروازے بھی نعمت ہیں ۔حفاظت اور رازداری اور ذاتی معاملات کی پردہ داری رکھتے ہیں ۔اگر دروازے بند نہ ہوسکتے کسی الماری کے گھر یا کمرے کے تو کتنی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا۔اس موضوع پہ جتنا غور کریں تو بند کواڑ کی اہمیت سمجھ آتی ہے۔
لیکن یہی بند دروازے جب کھل نہ سکیں یا کوئی ہمارے لیے کھولنا نہ چاہے تو کتنی کوفت ہوتی ہے۔ اور در کے نہ کھلنے یا نہ کھولنے کے ساتھ بھی کس قدر جذباتی اتار چڑھاؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ غرض ہر شے کے دو پہلو ہوتے ہیں اور دونوں اپنے مقام ، موقع و محل کی نسبت سے اہم ہوتے ہیں ۔
کسی زمانے میں شہروں کے بھی دروازے ہوتے تھے جو شہریوں کی حفاظت کے لیے بنائے جاتے تھے ۔اجنبی لوگوں کا داخلہ شہر میں آسان نہ ہوتا تھا۔ بڑے گھروں میں بیرونی اور داخلی دروازے ہوتے۔ مردان خانے اور زنان خانے کے درمیان بھی پردہ داری ہوتی تھی ۔ ہر شہر ، محل، حویلی ، گھر چھوٹا ہو یا بڑا یا جھونپڑی اندر داخل ہونے کا…
دنیا میں انسان نے خود اپنے لیے جو سب سے بڑا فساد کھڑا کر رکھا ہے وہ ’’حق لینے‘‘ کا ہے۔ اپنے بنیادی انسانی حقوق حاصل کرنے کی ایک لا متناہی لسٹ ہے جس میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا میں آرام و آسائش کے وسائل وافر، وسیع اور سہل الحصول ہوتے جا رہے ہیں تو حقوقِ انسانی بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔
چند دہائیاں پہلے زندگی کس قدر ہلکی، آسان اور پر سکون تھی۔ جب وصول کرنے کی نسبت دینے کی فکر رہتی اور اسی میں قلبی خوشی و راحت محسوس کی جاتی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ نفسانی خواہشات، ذاتی حقوق کا حصول مقصد زندگی نہیں بنا تھا اور اپنے حقوق کےبارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں اور نہ ہی یہ اس قدر گھمبیر مسئلہ تھا۔ اب ہر انسان وہ نابالغ بچہ ہی کیوں نہ ہو اپنے حقوق کا پرچم لیے پھرتا ہے۔ والدین سر توڑ کوشش میں لگے ہیں کہ بچوں کو مطمئن کر سکیں مگر اولاد اپنے حقوق پہ سمجھوتہ کرنے پہ راضی نہیں۔
میاں بیوی نے ایک دوسرے سے حقوق لینے والی آنکھ کھلی رکھی ہوئی ہے۔ اسی طرح باہم سمدھیانوں کے دل ایک اندھا کنواں بنتے جارہے ہیں۔ ہر رشتہ، تعلق جو…
تبدیلی ایسا پرکشش لفظ ہے جس کے پیچھے یقینی بہتری اور امید کا تصور ہی غالب رہتا ہے۔ تبدیلی کی ایک حقیقت وہ ہے جو خالق نے انسان کے اندر فطرتاً ودیعت کر دی ہے۔ بہتر سے بہترین کی تلاش اسے ہر وقت متحرک رکھتی ہے۔ غذا سے لے کر بودوباش تک تبدیلی کی خواہش جسمانی و ذہنی آ سودگی کا باعث بنتی ہے۔ گھروں میں ہر ممکن آرام و آسائش کے مالک معمول کے لیل و نہار سے نکل کر دریا و صحرا دیگر قدرتی مناظر میں خیمے لگا کر شب وروز گزار کر تبدیلی کا شوق پورا کرتے ہیں۔ کیونکہ کسی کے پاس سارے قدرتی مناظر گھروں کے اندر قید کر لینے کی قدرت نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بھی کائنات میں دن کے پہر اور سال کے موسم بدلنے کی ترتیب رکھ دی ، موسم کے لحاظ سے پھل سبزیاں مہیا کر دیں، کہیں خشک سالی ہے تو کسی خطے میں بارشوں کا لا متناہی سلسلہ ہے۔
کرۂ ارضی میں کچھ تبدیلیاں ترتیب وقت سے ہٹ کر بھی لائی جاتی ہیں۔ طوفان بادو باراں سیلاب اور زلزلے، وبائیں ,ناگہانی حادثے جو تبدیلی کا مظہر ہوتے ہیں تو مصائب کا پیام بھی ہوتے ہیں۔
ہر مصیبت انفرادی ہو یا اجتماعی انسانی…