جنت کے پھول – بتول اگست ۲۰۲۲
انسان خوابوں اور خیالوں میں لامتناہی خواہشوں، آرزئووں اور تمناوں کے چمن میں بستا ہے۔ اس چمن خیال پہ کچھ خرچ نہیں ہوتا، کسی کی
انسان خوابوں اور خیالوں میں لامتناہی خواہشوں، آرزئووں اور تمناوں کے چمن میں بستا ہے۔ اس چمن خیال پہ کچھ خرچ نہیں ہوتا، کسی کی
بات بچوں کی تربیت کی ہو رہی تھی اور چلی مرد کی مردانگی پر گئی۔ کچھ کے خیال میں گھر کے کام صرف عورتوں سے
ہماری نانی جان جنھیں ہم بڑی محبت اور دلار سے بڑی امی کہہ کر پکارتے تھے ، اسکول کی دو ماہ کی چھٹیاں گزارنے ان
اللہ کا شکر ان خوبصورت اشیاء میں سے ہے جس کا صدور اچھے انسانوں سے ہوتاہے۔شکر تین حروف پر مشتمل مختصر سا لفظ ہے لیکن
حقیقی اخلاق اور مصنوعی اخلاق میں زمین آسمان کا فرق ہے، رویے باطن کے گواہ ہوتے ہیں اور اصل اخلاق وہ ہے جو رویوں میں
وہ کیا عوامل تھے جو مسلمانوں کو یہاں تک لے آئے تھے ۔ روز مرہ کی زندگی میں تو چند اہم وغیر اہم حقوق و
یہ دردوغم! حنا سہیل۔ جدہ، سعودی عرب ہر دور کے مختلف درد ہوتے ہیں ! بچپن کے درد بھی کتنے معصوم ہوتے ہیں کہ میری
’’مجھے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ انسان اتنا بھی پریکٹیکل اور محب وطن کیسے ہو سکتا ہے جتنا کہ محترمہ تسنیم عبدالقدوس ہیں ،استغفراللہ
یہ 1947کی ایک اداس رات ہے مگر سیاہ اور خاموش نہیں ۔ چاندنی اور ریل نے اسے سفید اور شور زدہ کر دیا تھا۔ چاندنی
کریم تپتی دھوپ میں ویران سڑک پر بھاگا جارہا تھا _یہ سڑک مارکیٹ سے کچی آبادی کو ملانے والا ایک مختصر راستہ تھی جس پر
جیسے ہی اطلاعی گھنٹی بجی ،تینوں بڑے بچوں نے دروازہ کی طرف دوڑ لگا دی ، شازیہ نے کچن سے آواز لگائی ’’ کون ہے
سرسہ سے بیکانیر کے راستے فورٹ عباس پہنچنے کا حال…جب موت چاروں طرف منڈلاتی تھی ملازمت چھوڑنے کے بعد انہوں نے سرسہ میں ہی مستقل
’’یار یہ پھوپھیاں ہوتی ہی فساد ہیں۔ دماغ کھا گئیں جاوید انکل کا کہ حصہ دو ہمارا… اوپر سے وہ عبداللہ! اپنے ابا کے پیچھے
’’مجھے نہیں کھانے یہ بینگن…. آپ کو کچھ بھی اچھا پکانا نہیں آتا مما…. ہر وقت یہ سبزیاں پکا کر رکھ دیتی ہیں‘‘ تابش نے
بھرتے ہیں وہ لمحے میری یادوں میں شرارے جب راہ میں ہر سمت اندھیروں کے ستوں تھے اک آگ کے دریا کا سفر تھا ہمیں
اسما اشرف منہاس کوہم بتول کے صفحات پر خوش آمدید کہتے ہیں ۔ قائداعظم یونیورسٹی سے تاریخ کے مضمون میںایم فل کیا ہے اور خواتین
قائد اعظمؒ کا فکری پس منظر کیا تھا ، وہ خلوص نیت سے کیا محسوس کرتے تھے ، اور انہوں نے پاکستان کا تصور کہاں
عالمگیرشہرت کی حامل کتاب ’’مثبت سوچ کی طاقت‘‘ کا مصنف ونسنٹ پلے ایک روز اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ ایک فون آیا۔ فون پر
صبح کے دس بج رہے تھے۔ نور فاطمہ سست روی سے گھر کے کام سمیٹ رہی تھیں ۔ آج نجانے کیوں ان کا دل زیادہ
’’ثوبیہ تم تو بالکل پاگل ہو ، آجکل کے زمانے میں کون ایسی باتیں کرتا ہے؟خاندانی ،ویل سیٹلڈ لڑکے کو ٹھکرانا ناشکری نہیں تو اور
ہم کھڑے ہیں منتظر آنے والے وقت کے لائے گا جو ساتھ اپنے سر خوشی آج ہم میں سے ہر اک تنہا ہے کتنا ذات
وہ ملا تو ایسا تھا اجنبی کہ کبھی تھا جیسے ملا نہیں کوئی بات اس نے کہی نہیں کوئی قول اس نے دیا نہیں نہ
دعا یہ ہے وطن میرے ! اجالا امن و راحت کا تری ساری شبوں میں ہو محبت کی ضیا بکھری ہوئی سب راستوں میں ہو