۲۰۲۲ بتول اگست

جنت کے پھول – بتول اگست ۲۰۲۲ -بشری تسنیم

انسان خوابوں اور خیالوں میں لامتناہی خواہشوں، آرزئووں اور تمناوں کے چمن میں بستا ہے۔ اس چمن خیال پہ کچھ خرچ نہیں ہوتا، کسی کی مداخلت کا ڈر نہیں ہوتا، کسی متعین جگہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ فرصت ہو یا نہ ہو تصور جاناں لیے زندگی کے جھمیلے نپٹاتے رہو۔ فی زمانہ مادی اسباب و علل میں یہ واحد چیز ہے جس پہ مال خرچ نہیں ہوتا بس انسان کا زندہ ہونا ضروری ہے جب کہ ہوش و حواس میں ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔
تصوراتی دنیا دراصل اگر محرومیوں، حسرتوں کا نوحہ ہے تو کبھی کچھ حاصل کر لینے کا یقین و انبساط بھی ہے۔ تصور اور خواب و خیال انسان کی ذہنی، جسمانی اور روحانی صحت کا پیمانہ ہیں۔
انسانی عمر کی ہر منزل اس پیمانے میں مثبت یا منفی تبدیلیاں لاتی ہے۔ ماحول، تعلیم و تربیت، حالات و واقعات بھی اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
تصوراتی دنیا ہر فرد کا ایک ایسا ذاتی سیارہ ہے جہاں وہ اپنی مملکت کا خود بادشاہ ہوتا ہے۔ مستقبل کے سارے کردار اس کی رعایا ہوتے ہیں۔ اور وہ جس کو چاہے جس مقام پہ رکھے۔ یہ کیفیت منفی ہو یا مثبت حد سے تجاوز کر جائے تو پاگل پن کہلاتی ہے۔…

مزید پڑھیں

لڑکی اور لڑکے کی تربیت میں فرق ؟شخصیت کی تعمیر کن بنیادوں پر ہونی چاہیے – بتول اگست ۲۰۲۲- آسیہ عمران

بات بچوں کی تربیت کی ہو رہی تھی اور چلی مرد کی مردانگی پر گئی۔ کچھ کے خیال میں گھر کے کام صرف عورتوں سے منسلک ہیں لہٰذا مردوں سے جوڑنا مناسب نہیں چاہے وہ بچے ہی کیوں نہ ہوں۔ لڑکوں کے تربیتی مراحل میں ایسا کوئی حصہ نہیں ہونا چاہیے جس کا تعلق گھر کے کاموں کچن وغیرہ سےہو کہ اس سے ان کی مردانگی پر حرف آئے گا۔ ایک صاحبہ کا کہنا تھا گھر کے کام سکھا کر انھیں ہیجڑا نہ بنائیں مردوں سے مردانہ کام ہی کروائیں۔
اس بحث کے تناظر میں بچوں کی تربیت کے حوالے سے کاموں کو علیحدہ کرنے کا سوچا تو کئی الجھنیں در آئیں ۔کچھ بنیادی سوالات بھی تھے ۔ نفسیات کی ایک پروفیسر سے ملاقات میں کچھ الجھنیں کہہ ڈالیں۔
گویا ہو ئیں ایک بچے کی کامیابی کا سفر اس بات سے شروع ہوتا ہے کہ وہ مختلف کاموں کا خود تجربہ کرےکسی بھی کام کو غیر اہم اور چھوٹا نہ سمجھےخود سےسوچے غور کرے اپنے عمل کی راہ نکالے۔
یہی چیز انسان کی فطرت میں بھی ہے۔ بچہ ابتدا میں ہر کام کی نقل کی کوشش کرتا ہے اسے ہر کام ہی اہم لگتا ہے۔آہستہ آہستہ وہ اپنا دائرہ کار سمجھ کر اپنا…

مزید پڑھیں

اک آگ کا دریا تھا! آگ اور خون سے عبارت سچی داستانِ آزادی – بتول اگست ۲۰۲۲ – فریحہ مبارک

ہماری نانی جان جنھیں ہم بڑی محبت اور دلار سے بڑی امی کہہ کر پکارتے تھے ، اسکول کی دو ماہ کی چھٹیاں گزارنے ان کے پاس سرگودھا رہنے جاتے۔
کبھی کبھی گھر کے کاموں میں بظاہر مصروف بڑی امی کی خوبصورت آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ۔ کبھی کسی خاص موسم کو دیکھ کر ، کسی خاص پکوان کو تیار کرتے ہوئے۔ اس کی خوشبو میں شاید کسی کی یادیں چٹکیاں لیتی تھی ۔کبھی بچوں کو ان کے اپنے بچپن کے تانبے اور پیتل کے برتنوں سے’’ آپا بوا‘‘کے کھیل میں منہمک دیکھ کر ان کے ضبط کے بندھن ٹوٹ جاتے ۔ان کے شوہر، بیٹیاں اور بیٹا جان جاتے کہ پریشانی کیا ہے۔موسم کے رنگوں،پکوان کی خوشبو ،مخصوص کھیل کے تانے بانے کہاں سے جا کر ملتے ہیں ۔وہ سب ان کی دلجوئی کی خاطر جمع ہو جاتے۔تسلیاں دیتے ،دل بہلاتے لیکن ان کی طبیعت کسی غم کے بوجھ تلے دبی سسکتی رہتی۔
کبھی بے کلی کے ان لمحات میں وہ اپنی ایک پرانی کتاب کا ورق کھول کر کافی دیر اسے دیکھتی رہتیں ۔اس میں جذب اور گم ہو جاتیں ۔ آنکھوں سے آنسو قطاراندر قطار بہتے چلے آتے ،پھر وہ اس میں سے ایک پیاری سی چھوٹی سے…

مزید پڑھیں

اللہ کا شکر – بتول اگست ۲۰۲۲ – ڈاکٹر میمونہ حمزہ

اللہ کا شکر ان خوبصورت اشیاء میں سے ہے جس کا صدور اچھے انسانوں سے ہوتاہے۔شکر تین حروف پر مشتمل مختصر سا لفظ ہے لیکن اس کے معنی بہت جامع اور بہت خوبصورت احساس لیے ہوئے ہیں۔اور کیوں نہ ہو کہ جب ہم ’’اللہ تیرا شکر‘‘ کے کلمات دل کے شعور اور احساس کے ساتھ ادا کرتے ہیں تو پورا انسانی وجود ہی نہیں، اس کی روح بھی مسکرا اٹھتی ہے۔
ہمارے بہت سے اعمال ایسے ہیں جن کا تعلق انسان کی اندرونی کیفیات سے ہوتا ہے، تو شکر کی پیدائش کا مقام بھی دل ہے۔مومن بندہ اپنے دل کی حفاظت کرتا ہے اور اس کی تربیت اس انداز میں کرتا ہے کہ وہ اللہ کا ’’شکر گزار بندہ‘‘ بن جائے۔
شکر کے لغوی معنی ’’عرفان الاحسان‘‘ کے ہیں۔ یعنی کسی کے احسان کو پہچاننا اور اس کا اظہار کرنا۔ شکر حقیقت میں ہر نرمی اور آسانی پر راضی اور خوش ہونا ہے۔ اصطلاح میں شکر نعمت کا سامنا معروف طریقے سے کرنا ہے خواہ شکر زبان سے کیا جائے یا ہاتھ سے یا دل سے۔ اس میں بندہ عطا کرنے والی ذات کا شکر ادا کرتا ہے۔یعنی بندے کی شکر گزاری یہ ہے کہ وہ اللہ کی نعمتوں کا ذکر کر…

مزید پڑھیں

اچھے اخلاق – بتول اگست ۲۰۲۲ – ندا اسلام

حقیقی اخلاق اور مصنوعی اخلاق میں زمین آسمان کا فرق ہے، رویے باطن کے گواہ ہوتے ہیں اور اصل اخلاق وہ ہے جو رویوں میں سامنے آتاہے
حسن خلق کیا ہے ؟ اور یہ باہمی تعلقات کی بہتری کے لیے کیوں اہم ہے۔ آئیے احادیث کی روشنی میں دیکھتے ہیں ۔
حسن اخلاق افضل مومن کی نشانی ہے: رسول اللہ _ﷺنے فرمایا ’’مومنوں میں افضل ترین مومن وہ ہے جس کا اخلاق اچھا ہے‘‘ (صحیح الجامع)۔
حسن اخلاق کامل ترین مومن کی نشانی ہے: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’مومنوں میں ایمانی اعتبار سے اکمل وہ ہیں جن کا اخلاق اچھا ہے‘ جو اپنے پہلوؤں کو لوگوںکے لیے جھکانے والے ہیں اور لوگوں سے محبت کرتے ہیں اور لوگ ان سے محبت کرتے ہیں۔ اس آدمی میں بھلائی نام کی کوئی چیز نہیں جو نہ لوگوں سے محبت کرتا ہے اور نہ ہی لوگ اس سے مانوس ہوتے ہیں‘‘ (صحیح الجامع)۔
حسن اخلاق والا روزے دار اور تہجد گزار کے اجر کا ہم پلہ ہے: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’انسان اپنے اچھے اخلاق کے سبب رات کا قیام اور دن کو روزہ رکھنے والے کے درجات کو حاصل کرلیتا ہے‘‘ (صحیح الجامع)۔
حسن اخلاق محبت الٰہی کی دلیل ہے: رسول اللہ ؐ نے فرمایا:…

مزید پڑھیں

ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کا قیام ’’آہنگِ باز گشت‘‘ کا ایک باب – بتول اگست ۲۰۲۲ – مولوی محمد سعید

وہ کیا عوامل تھے جو مسلمانوں کو یہاں تک لے آئے تھے ۔ روز مرہ کی زندگی میں تو چند اہم وغیر اہم حقوق و مراعات کے لیے جدوجہد تھی لیکن ذہنوں کی گہرائیوں میں حفاظت ملی کا جذبہ اور عظمتِ رفتہ کی بازیابی کی تمنا کار فرما تھی۔ ہر تحریک نے حکمرانوں کے دبدبہ کو کم کیا اور مسلمانوں میں احساس خوداری پیدا کیا ۔ خلافت کی تحریک نے مسلمانوں کی نگاہ کو ہندوستان کی سرحدوں سے باہر تک وسیع کر دیا ۔ سرخ پوشوں نے انگریز کے دبدبے کو وہاں دھچکا لگایا جہاں اُس نے اپنی پوری عسکری قوت مجتمع کر رکھی تھی ۔ احرار نے تحریکِ آزادی کو گھر گھر پہنچا دیا ۔ خاکساروں نے خلافتِ ارضی کے نام پر مسلمانوں کے عزائم کو بے باکی اور خدمت خلق کے نام پر اُن کی نگاہ کو عفت عطا کی ۔ آج اُن تحریکوں کے نفع و نقصان کے گوشوارے زیر مطالعہ آتے ہیں تو لوگ انہیں وقت اور خون کا زیاں سمجھتے ہیں ۔ہر انفرادی تحریک کے ابھار اور انحطاط پر غور کرنے پر شاید یہی تصور ابھرتا ہو لیکن بہتی ہوئی ندی کو ایک مقام پر رُک کر دیکھیے تو لہریں اُبھرتی ، کناروں سے ٹکراتی…

مزید پڑھیں

بتول میگزین – بتول اگست ۲۰۲۲ – حنا سہیل

یہ دردوغم!
حنا سہیل۔ جدہ، سعودی عرب
ہر دور کے مختلف درد ہوتے ہیں !
بچپن کے درد بھی کتنے معصوم ہوتے ہیں کہ میری سہیلی نے اگر کسی دوسری لڑکی سے بات کرلی یا اس کو دوست بنانے کی کوشش کی تو سارا دن دل میں کھدبد ہوتی رہتی تھی اور ایک درد سا محسوس ہوتا ۔اس کو ہم دکھ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کہیں میں اپنی عزیز ترین دوست کو کھو نہ دوں یا اس سے الگ نہ ہوجائوں ۔ ٹیچر نے کلاس میں ڈانٹ دیا ،اب یہ اتنا بڑا درد ہے کہ اگلے دن بھی دل میں رہے گا، رات کو بھی سوتے ہوئے یہ سوچ رہے گی کہ سب دوست کیا سوچیں گے۔
اگلی منزل جوانی کی ہے۔ اس کے تو سارے درد میٹھے میٹھے ہوتے ہیں ، محبت کا درد میٹھا اور سرور دینے والا ہوتا ہے، بندہ اس درد کو بہت عزیز رکھتا ہے ،اس درد میں جیتا ہے ۔اگر جس کو وہ چاہتا ہے کسی وجہ سے جدائی مقدر ٹھہرے تو یہ درداور سوا ہوجاتا ہے ، انسان بولایا بولایا پھرتا ہے اس کو سمجھ نہیں آتی کہ اس درد کا مداوا کیسے کرے، کس سے اس کا ذکر کرے یا چپ رہے دل میں اس…

مزید پڑھیں

بندروں کی توبہ – بتول اگست ۲۰۲۲ – قانتہ رابعہ

’’مجھے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ انسان اتنا بھی پریکٹیکل اور محب وطن کیسے ہو سکتا ہے جتنا کہ محترمہ تسنیم عبدالقدوس ہیں ،استغفراللہ ،حد ہی ہو گئی ویسے ‘‘ نیلم نے ناک منہ چڑھاتے ہوئے اپنی اردو کی نئی ٹیچر کی شان میں کلمات ادا کیے۔
’’واقعی آنٹی ،نیلم بالکل صحیح کہہ رہی ہے۔ بلکہ سچ پوچھیں تو اس سے بھی زیادہ ،جب سے وہ ہمارے کالج میں آئی ہیں سارے کالج میں ان کی ذات کو ہی ڈسکس کیا جاتا ہے ۔عجیب سی عادتیں ہیں…. چلیں جی دوپٹہ سے چوبیس گھنٹے سر ڈھانپنا ،اپنی چیسٹ کو کور کرنا تو سمجھ میں آتا ہے اسلامیات کی منزہ عباسی بھی اسی طرح کی ہیں ویل کرنے والی…. دس سال کا بچہ بھی گزر جائے تو منہ ڈھانپ لیتی ہیں، مالی بابا تک سے پردہ کرتی ہیں ۔لیکن یہ تو بھئی ان سے سات ہاتھ آگے ہیں ،کوئی انڈین فلمیں نہ دیکھے انڈین فلمسٹاروں کو ڈسکس نہ کیا جائے کوئی بسنت یا ہولی کی بات نہ کرے اور تواور ہماری جی آر نے بولتے ہوئے چنتا کا لفظ بول دیا توبہ توبہ انہوں نے اس کا جو کریا کرم کیا جو شامت بلائی اللہ ہی معاف کرے ‘‘نیلم کی دوست عالیہ…

مزید پڑھیں

ایک رات کی کہانی – بتول اگست ۲۰۲۲ – عالیہ حمید

یہ 1947کی ایک اداس رات ہے مگر سیاہ اور خاموش نہیں ۔ چاندنی اور ریل نے اسے سفید اور شور زدہ کر دیا تھا۔ چاندنی کسے نہیں اچھی لگتی مگر آج اس ریل پر سوار ہر مسافر کی یہی دعا تھی کہ چاند بادلوں میں چھپ جائے اور ریل بنا آواز کے سفر کرے۔ چاندنی کی ہر کرن اور ریل کی مسلسل چھکا چھک ان کے سینے میں تار کول انڈیل رہی تھی کہ وہ ایسے سفر کے راہی تھے جہاں قدم قدم پر موت کی سنسناہٹ سنائی دیتی تھی۔
یہ پریشان حال مسافر ہجرت کی صعوبتیں برداشت کرتے بھار ت سے پاکستان جانے والی ریل میں دھڑکتے دلوں کے ساتھ محو سفر تھے۔ ریل نے اپنی استطاعت سے زیادہ وزن اٹھا رکھا تھا۔ جن کو اندر جگہ نہ ملی وہ چھتوں ، کھڑکیوں اور دروازوں میں چپکے تھے،ہاتھ سن ہو چکے تھے مگر دشمن سے بچ کر پاکستان پہنچنے کی خواہش نے گرفت ڈھیلی نہ ہونے دی۔ سامان کی گٹھڑیاں اور انسانوں کے سمٹے سمٹائے اجسام میں کوئی فرق نہیں تھا سب مسلے جا رہے تھے۔ بچوں کی رونے کی آوازوں کو جھوٹی تسلیوں سے دبایا جا رہا تھا ،کھڑکیوں سے چپکے لوگ دور افق کے پار پاکستان کی سرحدوں…

مزید پڑھیں

ایمان دار – بتول اگست ۲۰۲۲

کریم تپتی دھوپ میں ویران سڑک پر بھاگا جارہا تھا _یہ سڑک مارکیٹ سے کچی آبادی کو ملانے والا ایک مختصر راستہ تھی جس پر ٹریفک بہت کم ہوتی تھی اور اس وقت ویسے بھی گرمیوں کی دوپہر تھی جب لوگ عموماً آرام کر رہے ہوتے ہیں۔
بھاگتے بھاگتے کریم کا سانس پھول رہا تھا لیکن وہ رکنا نہیں چاہتا تھا۔سڑک کے آس پاس خوبصورت بنگلے تھے جن کو وہ کبھی کبھار رک کر دیکھا کرتا تھا لیکن اس وقت اس کا دھیان گھر کی طرف تھا ۔کریم مکینک کی دکان پر کام کرتا تھا،اس سے جو قلیل سی تنخواہ ملتی اس سے بمشکل گھر چلتا۔اس کی چار چھوٹی چھوٹی بیٹیاں تھیں اور اب اس کی بیوی دوبارہ امید سے تھی ۔کریم اور اس کی بیوی نے بہت دعائیں مانگی تھیں کہ رب اس بار انھیں بیٹا دے دے ۔
امید…. جو اندھیرے میں روشنی کی مانند ہے ،امید جس پہ دنیا قائم ہے….یہ امید کسی انسان کی بجائے خدا کی ذات سے ہو تو اس میں یقین شامل ہو جاتا ہے کہ وہ زمین و آسمان کا مالک سب کی سنتا ہے !
سڑک کے کنارے ایک پتھر سے کریم کو ٹھوکر لگی تو وہ رک کر اپنا زخمی پاؤں دیکھنے لگا…

مزید پڑھیں

اِن زخموں سے خوں رِستا ہے – بتول اگست ۲۰۲۲ – شاہدہ اکرام

جیسے ہی اطلاعی گھنٹی بجی ،تینوں بڑے بچوں نے دروازہ کی طرف دوڑ لگا دی ، شازیہ نے کچن سے آواز لگائی ’’ کون ہے ؟‘‘
’’ ماسی بی بی آگئیں ماسی بی بی آگئیں ‘‘بچوں نے جالی والے دروازہ میں سے دیکھ کر کورس میں جواب دیا۔
شازیہ کام چھوڑ تولیہ سے ہاتھ صاف کرتی تیزی سے دروازہ کی طرف لپکی اور جھٹ سے کُنڈی کھول دی ، ماسی بی بی حسب سابق و عادت ڈھکنے والی پلاسٹک کی ٹوکری اور دو تین گٹھڑیاں دائیں بائیں رکھے بیرونی برآمدہ میں کھڑی تھیں دروازہ کھلتے ہی بچوں نے لپک کر اُن کا سامان اٹھایا اور اندر کی طرف دوڑلگا دی ، وہ جانتے تھے کہ گٹھڑیاںان کے پسندیدہ سامان سے بھری ہوئی ہیں ۔
’’ ماسی بی بی کو اندر تو آنے دو ‘‘شازیہ کی ڈانٹ بے کار رہی ، ماسی بی بی مسکراتی ہوئی شازیہ کے گلے لگ گئیں شازیہ نے پیار سے اُن کے بڑے کمرہ میں بچھے پلنگ پربٹھایا اور بولی ۔
’’میں آپ کے لیے شربت بنا کر لاتی ہوں ‘‘۔
’’ نہیں شازی نہیں ، میں ابھی کچھ نہیں لوں گی میرا من بہت بھرا ہؤا ہے ، بس تم میرے پاس بیٹھ جائو ‘‘انہوں نے محبت سے شازیہ کا…

مزید پڑھیں

جب قائد اعظم ؒ نے ہمیں راستہ لے کر دیا – بتول اگست ۲۰۲۲ – ڈاکٹر مقبول احمد شاہد

سرسہ سے بیکانیر کے راستے فورٹ عباس پہنچنے کا حال…جب موت چاروں طرف منڈلاتی تھی
ملازمت چھوڑنے کے بعد انہوں نے سرسہ میں ہی مستقل رہائش اختیار کرنے کا ارادہ کر لیا ، اور فیئر ڈیلرز ٹریڈنگ کمپنی کے نام سے ایک تجارتی ادارہ قائم کیا ،رہائش کے لیے والد صاحب نے حکیم محمد عبد اللہ صاحب اورجماعت اسلامی سے متعارف اور کئی ساتھیوں سے مل کر شہر سے باہردارالسلام کے نام سے ایک بستی تعمیر کی ۔مقصد یہ تھاکہ ایک ایسی بستی بنائی جائے جہاں مکمل طور پر اسلامی اخوت کاماحول ہو اوربچے اس پاکیزہ فضا میں پروان چڑھیں۔
اس سے پہلے سیدابو الاعلیٰ مودودی ؒ پٹھانکوٹ میںدارالسلام کے نام سے بستی تعمیر کر چکے تھے اوردارالسلام سرسہ کی تعمیر میں بھی وہی جذبہ کار فرما تھا۔1946ء کے آغاز تک اس نئی بستی میں تقریباً پندرہ گھر آباد ہوچکے تھے اور ایک مسجد بھی تعمیر کرلی گئی تھی ۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ محترم الطاف حسن قریشی مدیراردو ڈائجسٹ کا گھرانہ بھی سرسہ شہر میں ہی آباد تھا اور جب 1946ء ء میں رمضان المبارک آیا تو ان کے برادر بزرگ حافظ افروغ حسن نے ہمیں تراویح کی نماز پڑھائی ۔
1946ء 1947ء کادور ہندوستان میں سیاسی سرگرمیوں کے عروج…

مزید پڑھیں

ڑیں – بتول اگست ۲۰۲۲ – جویریہ شاہ رخ

’’یار یہ پھوپھیاں ہوتی ہی فساد ہیں۔ دماغ کھا گئیں جاوید انکل کا کہ حصہ دو ہمارا… اوپر سے وہ عبداللہ! اپنے ابا کے پیچھے ہے کہ بابا حق دار کو حق دے دیں۔ابھی جاوید انکل سے نیچے ملاقات ہوئی وہ کہہ رہے تھے تم ہی عبداللہ کو سمجھاؤ، کہتا ہے دین یہی ہے مشکل حل کرنے والا اللّٰہ ہے دوکان بیچنے سے رزق کے دروازے بند نہیں ہوں گے۔ اس کو کون سمجھائے کہ میں چار بہنوں کا اکلوتا بھائی ہوں ،کیا ملے گا حصے میں!‘‘
’’عبداللہ کے دادا کے انتقال کو ڈیڑھ سال ہوگیا ناں؟‘‘
میں نے اپنے میاں سے پوچھا جو اپنے پڑوسی جگری دوست کے گھر کے متعلق بات کر رہے تھے اور کافی پریشان تھے ۔
’’ ہاں دو سال ہوگئے ۔ مگر دیکھو مجبوری بھی کوئی چیز ہے یوں بنی بنائی دوکان کا بٹوارہ آسان نہیں‘‘۔
’’ہمم… مگر اپنا ہی حق تو مانگ رہی ہیں‘‘۔
’’ان کا ہی ہے کون منع کرتا ہے مگر تھوڑے صبر سے کام لیں ان لوگوں کو کہیں اور اپنے قدم جمانے دیں پھر دے دیں گے ۔یہ عبداللہ جب سے جماعت میں جانا شروع ہؤا ہے یک طرفہ بات کرنے لگا ہے۔ بھئ دین دنیا دونوں دیکھنے چاہئیں ۔اپنے باپ کی مجبوری کو…

مزید پڑھیں

کچی مٹی – بتول اگست ۲۰۲۲ – عینی عرفان

’’مجھے نہیں کھانے یہ بینگن…. آپ کو کچھ بھی اچھا پکانا نہیں آتا مما…. ہر وقت یہ سبزیاں پکا کر رکھ دیتی ہیں‘‘ تابش نے ناگواری سے ٹرے پیچھے کھسکائی۔
’’تمہارے بابا کوئی مل اونر نہیں ہیں جو روز مرغ مسلّم بناؤں گی۔اتنی مہنگائی ہے اتنی مشکل سے خرچہ پورا کرتی ہوں پر نواب صاحب کے نخرے ہی ختم نہیں ہوتے‘‘۔
مریم غصےمیں ذرا اونچی آواز میں بولی، پر آج کے بچے کب کسی کی اونچی آواز برداشت کرتے ہیں خواہ سامنے والدین ہی کیوں نہ ہوں۔
’’تو یہ بینگن بھی نہ پکاتیں، اپنی بچت کا گلّہ بھر لیتیں…. ہم بھوکے مریں آپ کو اس سے کیا‘‘ تابش نے چیخ کر جواب دیا اور ٹرے کو مزید زور سے دھکیلتا ہوا تن فن کرتا اپنے کمرے میں بند ہوگیا۔ مریم بھی غصہ میں اس کو مارنے کو لپکی پر تابش دروازہ مقفل کرچکا تھا۔
مریم کا دماغ کھولنے لگا، وہ بڑبڑاتی ہوئی فرش پر گری سبزی صاف کرنے لگی۔
مریم کے تین بچے تھے بڑا بیٹا تابش جو چودہ سال کا تھا اور دس سال کی جڑواں بیٹیاں ثانیہ اور ہانیہ ‘تابش حد سے زیادہ خود سر ہوگیا تھا نہ آنکھ میں مروت رہی تھی نہ زبان میں لحاظ ‘بچپن ہی سے تھوڑا ضدی تو…

مزید پڑھیں

تعمیر وطن – بتول اگست ۲۰۲۲ – ناعمہ ثمر

بھرتے ہیں وہ لمحے میری یادوں میں شرارے
جب راہ میں ہر سمت اندھیروں کے ستوں تھے
اک آگ کے دریا کا سفر تھا ہمیں در پیش
ہم قافلہ درقافلہ اس آگ سے گزرے
جلتے ہوئے شہروں کی فضائوں سے گزر کر
ہم نورِ یقین دل میں بسائے ہوئے آئے
اس آگ سے ہم نے کئی گلزار بنائے
پرچم پہ اتر آیا ہلال اور ستارا
چوکس رہے برجوں میں جمائے ہوئے نظریں
جب بھی کسی دشمن نے ہمیں گھور کے دیکھا
دھرتی پہ ، سمندر میں، ہوائوں میں لڑے ہم
یہ دیس ہے پائندہ سبھی مل کے پکارے
افلاک سے اترے کئی رحمت کے اشارے
پھر آج ہر اک سمت یہ نفرت کا دھواں ہے
آواز دو وہ جذبہِ تعمیر کہاں ہے
وہ نورِ یقیں پھر سے اندھیروں سے نکالو
طوفان ہے طوفان ہے کچھ خود کو سنبھالو
تخریب کے طوفان سے پھر لڑنا ہے ہم کو
تعمیر وطن کے لیے ہر سمت بڑھیں گے
تنظیم کے سورج کی بکھرتی ہوئی کرنیں
ہم اپنے ارادوں میں نگاہوں میں بھریں گے
ہم کل بھی بپھرتی ہوئی ظلمت سے لڑے تھے
ہم آج بھی نفرت کے اندھیروں سے لڑیں گے

مزید پڑھیں

پناہ – بتول اگست ۲۰۲۲ – اسماء اشرف منہاس

اسما اشرف منہاس کوہم بتول کے صفحات پر خوش آمدید کہتے ہیں ۔ قائداعظم یونیورسٹی سے تاریخ کے مضمون میںایم فل کیا ہے اور خواتین کے مختلف مقبول ڈائجسٹوں میں اسما طاہر کے نام سے لکھتی ہیں۔
’’ ائے ہئے ہندوستانی ہے کیا ؟‘‘ اماں نے ہرے دھنیے اور سبزمرچوں سے سجی کڑھی دیکھتے ہی کہا۔ ’’ اماں اب کڑھی کا کوئی وطن نہیں رہا ۔یہ جتنی ہندوستانی ہے اتنی ہی پاکستانی بھی ہے ‘‘۔ سعدیہ نے فوراً وضاحت کی حالانکہ جانتی تھی اماں کڑھی کا نہیں بلکہ کڑھی بنانے والی یعنی کہ عالیہ باجی کا وطن جاننے کی کوشش کررہی تھیں جنہوں نے کچھ دن پہلے ہی ساتھ والا گھرخریدا تھا ۔ ’’ اللہ عالیہ باجی کو خوش رکھے آج کڑھی کھانے کو بہت جی چاہ رہا تھا اور بنانے کو بالکل بھی نہیں اور انہوں نے ڈونگہ بھر کے بھیج دیا ۔رات کے لیے بھی کافی ہے ‘‘۔ سداکی چٹوری مگر سست ہانیہ کو اپنا ہی فائدہ نظر آ رہا تھا ۔ ’’افوہ تمہیں دوسروں کی بنائی چیزیں کھانے کا کتنا شوق ہے کبھی خود بھی کچن کی شکل دیکھ لیا کرو ‘‘۔سعدیہ اس کی سستی سے سخت نالاں تھی۔ ’’ارے اس کچن میں کون جائے ۔ہاں اگر امریکن…

مزید پڑھیں

تحریک پاکستان سے لے کر قائد اعظم ؒکے پاکستان تک – بتول اگست۲۰۲۲ – ڈاکٹر صفدر محمود

قائد اعظمؒ کا فکری پس منظر کیا تھا ، وہ خلوص نیت سے کیا محسوس کرتے تھے ، اور انہوں نے پاکستان کا تصور کہاں سے لیا تھا ، ڈاکٹر صفدر محمود کی چند فکر انگیز تحریروں سے انتخاب
سب سے پہلے تصور پاکستان اور تحریک پاکستان کے پس منظر کو واضح طور پر سمجھ لیں تاکہ اس کے بعد زیر بحث آنے والے انفرادی پہلوئوںکو سمجھ سکیں ۔ سوال یہ ہے کہ قیام پاکستان کی بنیاد کب رکھی گئی ۔ آسمانی فیصلوں کی تکمیل اور خواب کو حقیقت بنتے صدیاں گزر جاتی ہیں ۔ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں ’’ تاریخ فرشتہ ‘‘ سے رہنمائی لینی پڑے گی کیونکہ ’’ تاریخ فرشتہ ‘‘ ہندوستان کی ایک قدیم تاریخ پر ایک مستند کتاب سمجھی جاتی ہے ۔’’ تاریخ فرشتہ‘‘ کے صفحہ نمبر 101پر وہ خط درج ہے جو 1192-93ء میں شہاب الدین غوری نے پرتھوی راج کو لکھا تھا۔ پس منظر کے طور پر یاد رہے کہ شہاب الدین غوری اور پرتھوی راج کے درمیان 1192ء میں جنگ ترائن ہوئی جو اس لحاظ سے ایک فیصلہ کن معرکہ سمجھا جاتا ہے کہ اس جنگ نے ہندوستان میں مسلمانوں کے مستقبل کا فیصلہ کردیا اور مقامی ہندو راجائوں کی کمر…

مزید پڑھیں

خوشگوار اور کامیاب زندگی گزارنے کے لیے صرف سوچ بدلنے کی ضرورت ہے – بتول اگست۲۰۲۲ – ڈاکٹر اختر احمد

عالمگیرشہرت کی حامل کتاب ’’مثبت سوچ کی طاقت‘‘ کا مصنف ونسنٹ پلے ایک روز اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ ایک فون آیا۔ فون پر موجود شخص رو رہا تھا کہ اس کا سب کچھ لٹ چکا ہے۔ ہر چیز تباہ ہو چکی اور وہ مکمل طور پر برباد ہو چکا ہے اب اس کے پاس جینے کا کوئی جواز نہیں۔ ونسنٹ نے اس شخص کو اپنے دفتر آنے کا کہہ کر فون بند کر دیا۔
اگلے روزوہ شخص ونسنٹ پیلے کے آفس میں موجود تھا، ملاقات کی ابتدا اس نے آہ و بکا سے کی۔ وینسنٹ نے مسکرا کر اسے تسلی دی اور سکون سے بیٹھنے کو کہا جب وہ قدرے اطمینان سے بیٹھ گیا تو مینجمنٹ کے اس معروف ماہر نے کہا کہ آئو مل کر تمہارے حالات کا مفصل جائزہ لیتے ہیں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ تمہارے مسائل کیا ہیں اور ان کا حل کیا ہے؟ ونسنٹ نے ایک کاغذ لے کر اس کے درمیان ایک عمودی لکیر کھینچی اور کاغذ اس شخص کے سامنے رکھتے ہوئے کہامیں تم سے بہت سی باتیں پوچھوں گا۔ جو باتیں تمہاری زندگی میں مثبت ہیں انہیں کاغذ پر دائیں کالم میں لکھنا اور جو منفی ہیں انہیں بائیں طرف لکھو…

مزید پڑھیں

فر ابھی طے کرنا ہے – بتول اگست۲۰۲۲ – زینب جلال

صبح کے دس بج رہے تھے۔ نور فاطمہ سست روی سے گھر کے کام سمیٹ رہی تھیں ۔ آج نجانے کیوں ان کا دل زیادہ ہی بوجھل ہورہا تھا۔ شاید موسم کا اثر تھا یا گزرتے حالات کا۔اگست کا آخر ہونے کو آیا اور برسات کا سلسلہ رکنے کو نہ آرہا تھا۔
کام والے لڑکے نے ڈیوڑھی کا کنڈا بجا کر متوجہ کیا اور کہا۔
’’بی بی بیگم کھیت سے کامو کاکا آئے ہیں‘‘۔
کاموکی آمدبھی ایک کام ہی کا آغاز ہوتی ۔ وہ ڈیوڑھی کے دروازے پر آم اور ناشپاتی کے ٹوکرے رکھوارہے تھے ۔
’’ کاکا آپ بھی بس ذرا بارش رکنے کے منتظر تھےجیسے… ابھی کل ہی اناج کے بورے رکھواکر گئے ہیں اور آج یہ اتنے پھل !ابھی گودام میں رہتے تو حفاظت رہتی برسات میں گھر پر سنبھالنا مشکل ہوگا‘‘۔
نور بی بی نے پردے کی اوٹ سے ذرا سخت لہجے میں کہا۔
کامو کاکا پردے کے باوجود نظریں جھکائے بیٹھے تھے مؤدب ہوکر بولے۔
’’بی بی ہر سال کی طرح برسات نے پھلوں میں رس اور خوشبو تو بسادی لیکن یہ کیسی ہوا چلی ہے کہ انسان کڑوا ہوگیا ۔بھری برسات میں بیرسٹر صاحب کے گودام ان کے مزارع نے بلوائیوں سے مل کر لوٹ لیے کھیت اجاڑ دیے ۔ تب…

مزید پڑھیں

روشن چراغ – بتول اگست ۲۰۲۲ – شہلا خضر

’’ثوبیہ تم تو بالکل پاگل ہو ، آجکل کے زمانے میں کون ایسی باتیں کرتا ہے؟خاندانی ،ویل سیٹلڈ لڑکے کو ٹھکرانا ناشکری نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘
زرمین نے اپنی بیٹی ثوبیہ کے مسلسل انکار سے زچ آکر کہا۔
بہروز ان کا لاکھوں میں ایک بھتیجا تھا ۔ اس نے اسلام آباد کی ٹاپ یونیورسٹی سے الیکٹریکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی تھی ۔اس کے بنائے سولر اینیرجی کار کے ماڈل کی پورے ملک میں دھوم مچی تھی ۔ حال ہی میں اسے بہت شاندار پیکیج پر امریکہ میں نوکری کی پیشکش ہوئی جو فوری طور پر اس نے قبول بھی کر لی ۔زرمین کے بھائی بھابھی ثوبیہ کے لیے اپنے بیٹے بہروز کا رشتہ مانگ چکے تھے۔ثوبیہ اور بہروز ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے ۔بہروز کے والدین اسے امریکہ بھجوانے سے پہلے ان دونوں کی شادی کروا دینا چاہتے تھے تاکہ وہ ثوبیہ کو بھی ساتھ لے کر جائے ۔
’’ماما مجھے بہروز کے پروپوزل پر کوئی اعتراض نہیں ہے مگر آپ جانتی ہیں نا میں اپنا وطن چھوڑ کر کہیں نہیں جانا چاہتی ‘‘۔
ثوبیہ نے اپنے لمبے گھنے بالوں کو لپیٹ کر کلپ لگاتے ہوئے کہا:
’’وہ ہمیشہ کے لیے تو نہیں جا رہا ‘ اس کے والدین گھر بار سب…

مزید پڑھیں

صبح اُمید – بتول اگست ۲۰۲۲ – عفت طفیل

ہم کھڑے ہیں منتظر
آنے والے وقت کے
لائے گا جو ساتھ اپنے سر خوشی
آج ہم میں سے ہر اک تنہا ہے کتنا
ذات کے الجھائو میں کھویا ہؤا
ذات کے اس پار کیا ہے دیکھ ہی سکتا نہیں
سوچتا ہے زندگی بے کیف ہے
کس قدر نا مطمئن ہے یہ ہماری نسلِ نو
گھل گئی ہے روح میں گہری تھکن
سانس ہے الجھا ہؤا
ہر اندھیرے میںچھپی ہوتی ہے لیکن روشنی
کل انہی جذبوں سے ابھرے گی سحر امید کی
پھیل جائے گا شفق پر چار سو رنگِ نشاط
لہلہائیں گے چمن میں ہرطرف رنگین پھولوں کے علم
آئے گی وہ صبح فردا وہ سحر امید کی
اپنے دامن میں لیے تازہ بہاروں کی مہک
صبح کا تارہ نئی امید لے کر آئے گا
یاس کے بادل چھٹیں گے
چار سو چھائے

مزید پڑھیں

غزل – بتول اگست ۲۰۲۲ – تہمینہ عثمان

وہ ملا تو ایسا تھا اجنبی کہ کبھی تھا جیسے ملا نہیں
کوئی بات اس نے کہی نہیں کوئی قول اس نے دیا نہیں
نہ سوال تھا ، نہ جواب تھا ، نہ نگاہ میں کوئی بات ہی
تھی جو دل کی دل ہی میں رہ گئی جو کہا تو اس نے سُنا نہیں
یہ وہی نویدِ بہار ہے جو تری نظر کا حجاب تھی
جو ہے رائیگاں تری جستجو یہ مری نظر کی خطا نہیں
یہ ہے اور بات بچھڑ کے تم کسی اور سمت چلے گئے
کبھی ساتھ ساتھ چلے تھے ہم یہ خیال دل سے گیا نہیں
یہ گئے دنوں کا ہے تذکرہ کہ جوکہہ دیا سو وہ کر دیا
ہے روش یہ دورِ جدید کی جوکہا کبھی وہ کیا نہیں
یہ جہاں ہے عالمِ کشمکش کہیںدار ہے کہیں تاج ہے
جو فرازِ دار سے ڈر گیا اسے تاج و تخت ملا نہیں
میں بھٹک کے آپ ہی راہ سے ترے پیچھے پیچھے تھی چل پڑی
مرے راہبر نہ ہو بد گماں مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں
بڑی ابتلا کا یہ دور ہے بڑے چارہ گرہیں قدم قدم
ہیں زباں پہ لاکھ فسوں مگر کوئی ان میں ردِّ بلا نہیں
جو عزیز ہوتی یہ زندگی کبھی چلتے راہ نہ عشق کی !
مرے مہرباں ، مرا امتحاں ، یہ بجا نہیں ، یہ…

مزید پڑھیں

وطن کا گیت – بتول اگست۲۰۲۲ – ڈاکٹر صائمہ اسما

دعا یہ ہے وطن میرے !
اجالا امن و راحت کا تری ساری شبوں میں ہو
محبت کی ضیا بکھری ہوئی سب راستوں میں ہو
دعا یہ ہے وطن میرے!
خدا رکھے گا خود تجھ کو مگر میری تمنا ہے
وسیلہ میرے جسم و جاں بنیں تیری حفاظت کے
مرے دستِ ہنر سے تیرے سب گیسو سنور جائیں
مرا ذہنِ رسا تیرا مقام آفاق پر ڈھونڈے
ان آنکھوں میں جو ساون ہے ترے صحرائوں پر برسے
بدن میں جولہو ہے منتقل تیری رگوں میں ہو
دعا یہ ہے وطن میرے!
کوئی ضرب ِعدو میں دست و بازو پر ترے دیکھوں
تو میری آنکھ جل تھل روح بوجھل ہونے لگتی ہے
بگولے نفرتوںکے بستیوں میں گھومتے پائوں
تو سچ مانو کہ طاقت سوچ کی شل ہونے لگتی ہے
اندھیرے چھانٹ کر گلیوں میں تیری روشنی بھر دوں
تمنا ہے سکت اتنی تو میرے بازئووں میں ہو
دعا یہ ہے وطن میرے!
کبھی ہوتا ہے یوں بھی مصلحت پیشِ نظر آئے
کئی چاہت کے دعویدار دامن چھوڑ جاتے ہیں
مرے جیسے وفا کے گیت لکھتے ہیں کئی شاعر
مگر خود ہی بھرم اپنی وفا کا توڑ جاتے ہیں
دعا یہ ہے مرے مولا! مرے دعوے کی سچائی
مرے اس دیس سے ہر حال میں ساری رتوں میں ہو
دعا یہ ہے وطن میرے
میرے کشمیر!
میرے کشمیر مرے پاک وطن کی شہ رگ
کون کہتا ہے فضائیں تری آزاد…

مزید پڑھیں