۲۰۲۴ بتول جون

ابتدا تیرے نام سے ۔ سمیہ اسما

قارئین کرام سلام مسنون!
حج اور قربانی کے مناسک اس بارشدت کی گرمی میں آئے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ان جسمانیاورمالی عبادات کو قبول و منظور فرمائے اور اپنے بندوں کااجر محفوظ کرلے۔آگ برساتے موسم میںسڑک پہ چلنے والوں ،محنت مزدوری کرنے والوں کا خیال رکھنا، ان سے نرمی سے پیش آنا، ان کےلیے آسانی کرنا وہ کم سے کم صدقہ ہے جو ہم اپنی سہولتوں بھری زندگی کے بدلے دے سکتے ہیں ۔ملک میں گندم کی پیداوار سے متعلق ایک نیا بحران پیدا ہو گیاہے۔ پنجاب حکومت نے سرکاری سطح پرگندم خریدنے سے انکار کر دیا ہے۔طلب کم ہونے سے گندم کی قیمت لاگت سے کم پہ چلی گئی ہے جس کی بنا پہ کسان طبقہ بے حد پریشان ہے۔اکثر کسان قرض لے کرفصلیں اگاتے ہیں اور فصل بکنے پر ادائیگی کرتے ہیں۔ان کی دن رات کی محنت رائگاں جارہی ہے۔ہمارے ملک کی معیشت زراعت پر کھڑی ہے۔ کسان ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔نیز ہماری آبادی کی بڑی اکثریت کا روزگار زراعت سے وابستہ ہے۔کسان کو خوشحال رکھنا اور زرعی شعبے کے لیے دانشمندانہ پالیسیاں بنانا بہت اہم ہے۔ ہم جو پہلے ہی بیرونی امداد پہ چل رہے ہیں، حکومتی سطح پر کسان دشمن اقدامات…

مزید پڑھیں

لہو کے چراغ – ڈاکٹر بشری تسنیم

اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ سرزمینِ فلسطین نہایت مبارک اور محترم ہے ، یہ سرزمین آسمانی پیغامات اور رسالتوں کا منبع اور سرچشمہ رہی ہے ، اس سرزمین پر بکثرت انبیا ء و رسل آئے ہیں ، یہی وہ سرزمین رہی ہے جہاں سے معراج کی ابتدا اور انتہا ہوئی ، یہ آسمان کا دروازہ ہے ، یہ سرزمین میدانِ حشر بھی ہے۔اللہ عزوجل نے سرزمین فلسطین کو خیر وبرکت والی زمین فرمایا ہے ۔
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ:
’’جس سرزمین کے تعلق سے اللہ عزوجل نے یوں فرمایا ہے ’’بَارَکْنَا حَوْلَہُ‘‘اس سے مراد ملک شام اور اس کا گردو نواح ہے‘‘ ۔
سریانی زبان میں ’’شام ‘‘ کے معنی پاک اور سر سبز زمین کے آتے ہیں اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ملک شام کے گردونواح کو مبارک اس لیے کہا گیا کہ یہ انبیاءؑ کا مستقر، ان کا قبلہ اور نزول ملائکہ اور وحی کا مقام رہا ہے ، حضرت حسن ؓاور حضرت قتادہؓ سے مروی ہے کہ اس مبارک سرزمین سے مراد ملک شام ہے۔ عبد اللہ بن شوذب کہتے ہیں :
’’اس سے مراد سرزمین فلسطین ہے ‘‘۔سرزمین فلسطین کو قرآن کریم میں متعدد مواقع پر بابرکت زمین سے مخاطب…

مزید پڑھیں

حجِ بیت اللہ – ڈاکٹر میمونہ حمزہ

حج بیت اللہ اسلام کا ایک رکن ہے جو ایک معین اور مقرر وقت پر خاص مذہبی قصد اور ارادہ کے ساتھ مقدس سفر اور اس میں عائد کردہ مناسک کی ادائیگی کا نام ہے۔ یہ سفر مکہ شہر میں داخل ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنائی ہوئی عبادت گاہ خانہ کعبہ کے گرد چکر لگانے اور مکہ کے مختلف مقدس مقامات میں حاضر ہو کر کچھ آداب اور اعمال بجا لانے کا نام ہے۔ یہ انسان کی خدا پرستی اور عبادت کا سب سے پہلا اور قدیم طریقہ ہے۔ اللہ کے دیوانے پوری دنیا کے اطراف و اکنار سے ذی الحج کے مہینے میں مقرر کردہ وقت کے دوران اللہ کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے حاضر ہوتے ہیں اور اللہ کے خلیل ’’ابراہیم علیہ السلام‘‘ کی اداؤں اور طور طریقوں کی نقل کر کے ان کے سلسلے اور مسلک سے اپنی وابستگی اور وفاداری کا ثبوت دیتے ہیں اور اپنی استعداد کے مطابق ابراہیمی جذبات اور کیفیات سے مناسکِ حج ادا کرتے ہیںاور اپنے آپ کو ان کے رنگ میں رنگتے ہیں۔
کعبے کی اہمیت
کعبے کی تعمیر تقریباً چار ہزار سال قبل حضرت ابراہیم ؑ واسماعیلؑ کے ہاتھوں ہوئی۔ اس کی تعمیر اور حکم دونوں اللہ کی…

مزید پڑھیں

خطبہ حجۃ الوداع کے اہم نکات – ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی

آپؐ حجۃ الوداع کے لیے ۲۵ ذیعقدہ بمطابق ۲۲ فروری بروزہفتہ ۲۳۲ء کو مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ مدینہ سے تقریباً 9کلومیٹر ذی الحلیفہ(جواہل مدینہ کے لیے میقات ہے) پہنچ کر۲۶ ذیعقد کو احرام زیب تن فرمایا ۔ تمام ازواج مطہرات آپ ؐ کے ہمراہ تھیں ۔واقدی کے مطابق ہزاروں جانثاروں کے ساتھ تلبیہ پڑھتے ہوئے یہ ذی الحجہ۱۰ بمطابق ۲ مارچ بروز اتوار ۶۳۲ ءمیں مکہ میں داخل ہوئے مکہ معظمہ میں چاردن قیام فرمانے کے بعد آپ ؐ جمعرات ۸ ذی الحجہ کومنیٰ کے لیے روانہ ہوئےجہاں ظہر،عصر ، مغرب ، عشاء کی نمازیں ادافرمائیں ۔نمازِ فجر اورطلوع آفتاب کے بعد منیٰ سے ۹ ذی الحجہ کو روانہ ہو کر عرفات میں وقوف فرمایا ۔ اسی دن آپ ؐ نے زوال آفتاب کے بعد اپنی اونٹنی قصویٰ پرسوارہو کرخطبہ ارشاد فرمایا۔ ظہراورعصر کی قصرنمازوں ،تکبیراور تلبیہ دعائوں اور غروب آفتاب کے بعد مزد لفہ کے لیے روانہ ہوئے ۔ مزد لفہ پہنچ کر آپ ؐ نے مغرب اورعشا کی نمازیں ایک ساتھ ادا کیں ،کچھ دیر آرام فرما کرطلوع فجر کے ساتھ نماز فجر ادا فرما کرطلوع آفتاب سے قبل ہی روانہ ہوکرمشعرالحرام اوردادی المحسر سےتیزی سے گزرتے ہوئے ۱۰ ذی الحجہ کو منیٰ میں حجرہ کبریٰ( یعنی بڑے…

مزید پڑھیں

اگلی عید پر – عشرت زاہد

چوں….چوں….چرر….چوں…. چرر
چنیوٹی جھولے کی ناگوار آواز مسلسل آ رہی تھی۔ لیکن اس سے بےنیاز اس پر بیٹھی رخشی کا ہاتھ ننھے اسجد کو تھپکنے میں مصروف تھا۔ رمضان کا اٹھائیس واں روزہ تھا۔ عصر کی نماز پڑھ کر اس نے بھابی کا کچھ ہاتھ بٹایا۔ ابھی روزہ کھلنے میں آدھا گھنٹہ باقی تھا۔ ان کے گھر کا اصول تھا کہ روزے کے آخری لمحات کچن میں ضائع نہیں کرنے، پہلے سے فارغ ہو کر افطار تک دعا کے وقت کا فائدہ اٹھانا ہے،خوب دعائیں مانگنی ہیں۔سوڈرائنگ روم میں سب گھر والے جمع تھےاور امی با آواز بلند دعائیں مانگ رہی تھیں۔
تین ماہ کا چھوٹا سا اسجد کافی دیر سے سونے کے لیے مچل رہا تھا۔ اس کے رونے سے سب ڈسٹرب ہو رہے تھےاس لیے رخشی اس کو اٹھا کر برآمدے میں چلی آئی۔
’’ارے گڑیا تم یہاں کیوں بیٹھی ہو۔ چلو نا اندر‘‘احمد بھائی اسے ڈھونڈتے ہوئے برآمدے میں پہنچے۔
’’جی بھائی۔ میں اس کو سلا رہی تھی‘‘۔
’’اچھااچھا۔ یہ جھولا کتنی آواز کر رہا ہے۔ اس کے کنڈوں میں گریس ڈالنا پڑےگا۔ ہر چیز توجہ مانگتی ہے۔ مینٹ ننس نہ ہو سکی، ذرا چوک ہوئی اور گڑبڑ شروع‘‘۔
احمد بھائی کہہ رہے تھے۔
رخشی کا دماغ لفظ مینٹ ننس میں الجھ کر رہ…

مزید پڑھیں

اگلی عید پر – عشرت زاہد

چوں….چوں….چرر….چوں…. چرر
چنیوٹی جھولے کی ناگوار آواز مسلسل آ رہی تھی۔ لیکن اس سے بےنیاز اس پر بیٹھی رخشی کا ہاتھ ننھے اسجد کو تھپکنے میں مصروف تھا۔ رمضان کا اٹھائیس واں روزہ تھا۔ عصر کی نماز پڑھ کر اس نے بھابی کا کچھ ہاتھ بٹایا۔ ابھی روزہ کھلنے میں آدھا گھنٹہ باقی تھا۔ ان کے گھر کا اصول تھا کہ روزے کے آخری لمحات کچن میں ضائع نہیں کرنے، پہلے سے فارغ ہو کر افطار تک دعا کے وقت کا فائدہ اٹھانا ہے،خوب دعائیں مانگنی ہیں۔سوڈرائنگ روم میں سب گھر والے جمع تھےاور امی با آواز بلند دعائیں مانگ رہی تھیں۔
تین ماہ کا چھوٹا سا اسجد کافی دیر سے سونے کے لیے مچل رہا تھا۔ اس کے رونے سے سب ڈسٹرب ہو رہے تھےاس لیے رخشی اس کو اٹھا کر برآمدے میں چلی آئی۔
’’ارے گڑیا تم یہاں کیوں بیٹھی ہو۔ چلو نا اندر‘‘احمد بھائی اسے ڈھونڈتے ہوئے برآمدے میں پہنچے۔
’’جی بھائی۔ میں اس کو سلا رہی تھی‘‘۔
’’اچھااچھا۔ یہ جھولا کتنی آواز کر رہا ہے۔ اس کے کنڈوں میں گریس ڈالنا پڑےگا۔ ہر چیز توجہ مانگتی ہے۔ مینٹ ننس نہ ہو سکی، ذرا چوک ہوئی اور گڑبڑ شروع‘‘۔
احمد بھائی کہہ رہے تھے۔
رخشی کا دماغ لفظ مینٹ ننس میں الجھ کر رہ…

مزید پڑھیں

آخر بلاوا آ ہی آگیا – روزینہ خورشید

خانہ کعبہ اور روضہ رسول ﷺپر حاضری ہر مسلمان کے دل کی سب سے بڑی آرزو ہے۔ لیکن اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب تک رب کی طرف سے بلاوا نہیں آجا تا آپ نہیں جا سکتے۔ میرے اندر بھی یہ تڑپ موجود تھی کیونکہ بچپن سے ہی نعتیں پڑھنے کا شوق تھا تو دل میں ایک خواہش ہمیشہ جنم لیتی تھی کہ کاش یہ نعتیں نبیؐ کے روضہ مبارک پر کھڑی ہو کر پڑھ سکوں۔ لہٰذا جب بھی کسی کے عمرے پر جانے کا سنتی ، دل میں ایک ہوک سی اٹھتی تھی اور نہ چاہتے ہوئے بھی دل شکوہ کناں ہو جاتا تھا کہ اللہ ان کا بلاوا تو آگیا میرا کب آئے گا ۔پھر اپنے دل کو تسلی دیتی تھی کہ شاید رب کو میرے مانگنے کا انداز پسند نہیں یا ابھی وقت نہیں آیا اس لیے دیر ہو رہی ہے۔ آخر کار سال 2023 ء میں اللہ نے دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا اور میری تڑپتی روح کو اپنے دربار میں حاضری کی اجازت دے ہی دی۔ بے شک وہ بڑا مہربان رب ہے جس نے ہر چیز کا وقت مقرر کر رکھا ہے،میں بھی اپنے وقت مقررہ پر عمرے کے لیے روانہ…

مزید پڑھیں

اللہ سے اچھا گمان – بنتِ سحر

ایک مشہور شخص دورانِ انٹرویو : ”ٹھیک ہے کہ میں یہ اور وہ گناہ کے کام کرتا ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ سے معافی مل جائے گی کیونکہ وہ تو غفور الرحیم ہے“۔
ایک نوجوان : ”میں حرام ریلیشن شپ کو نہیں چھوڑ سکتالیکن مجھے اللہ الرحیم سے گمان ہے کہ وہ مجھے معاف کر دے گا“۔
یہ اور ایسے کئی جملے ہمیں عام سننے کو ملتے ہیں۔ ان کے پیچھے ایک مکمل سوچ ہے، کئی بہانے ہیں، جن میں سے ایک اس حدیث کی غلط سمجھ بوجھ ہے کہ :
” میں اپنے بندے کے ساتھ اپنے متعلق اس کے حسنِ ظن کے مطابق سلوک کرتا ہوں جیسا وہ چاہے مجھ سے گمان رکھے “۔ (حدیث قدسی ۔ مسند احمد)
بعض لوگوں نے اس حدیث سے یہ مطلب لے لیا ہے کہ چاہے ان کے اعمال جیسے بھی ہوں اور وہ جان بوجھ کر جو گناہ مرضی کریں، لیکن سب کچھ کرتے ہوئے اگر وہ اللہ سے معافی کا صرف ”گمان“ ہی رکھ لیں گے تو اللہ ان کو معاف کر دے گا۔جب کہ اسلام کی دیگر تعلیمات بتاتی ہیں کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ حسن ظن نہیں، غلط گمان ہے جو خود سے گھڑ لیا گیا ہے۔…

مزید پڑھیں

بد نصیب – عینی عرفان

گلابی پشواز پہ بنفشی چنری اور چاند بالیاں پہنے کتنی ہی دفعہ آئینہ میں وہ خود کو نِہار چکی تھی۔ چہرے پہ پھیلتے دھنک رنگ لباس کا عکس معلوم ہوتے پر یہ تو اس کا دل ہی جانتا تھا کہ یہ ملن کی چمک ہے جو اس کے وجود سے پھوٹی پڑ رہی ہے۔
جس کے لیے دل انوکھی لے پہ دھڑک رہا تھا وہ اس سے چند ہی میل دور، غازہ مل کے چہرے پہ پڑنے والی وقت کی چھاپ چھپا رہی تھی۔ دس سال کم عرصہ نہ تھا ہیئت بدلنے کے لیے۔ جب آزمائش کی بھٹی بھڑکتی ہے تو صرف روح ہی نہیں جلتی، دلکشی ہو یا رعنائی سب جھلس جاتی ہے۔ فاصلے سمٹ رہے تھے۔ کچھ ہی گھر پرے وہ انہماک سے دو تحفوں پہ کاغذ لپیٹ رہی تھی۔ اس کو نہ سجنے کی فکر تھی نہ سنورنے کی ۔ دیکھنے والے کہتے کہ وقت اسے پیار سے چھو کے گزر گیا تھا۔ رکھنے والے نے اسے اپنے پیار کے قفس میں بڑا سنبھال کے رکھا تھا۔مگرقفس چاہے پیار کا ہی کیوں نہ ہو دل مردہ کر دیتا ہے ،پھر نہ ارمان مچلتے ہیں نہ خواہش۔
بچپن کی دہلیز کو اکھڑے قدموں سے اُلانگتی وہ تینوں جڑواں تو نہیں…

مزید پڑھیں

بتول میگزین – سنعیہ یعقوب۔بہاولپور

گھر
سنعیہ یعقوب۔بہاولپور
گھر کیا ہے؟
گھر محض یاداشتیں ہے ۔ کوئی بچپن یا لڑکپن سے جڑیں یادگاریں ، کچھ والدین ،بہن ،بھائیوں ،نانا ابو اور نانی اماں، دادا ابو اور دادی امّاں کے ساتھ گزارے گئے وقت کی یادیں ۔
یہ وہ وقت ہوتا ہے جب ہم اپنی ضروریات اور خواہشات کے لیے ایک دوسرے پہ انحصار کرتے ہیں ۔جب ہماری اپنے ساتھ جڑے رشتوں سے والہانہ جذباتی وابستگی ہوتی ہے ۔ ہم بے لوث محبت ، عزت، احساس اور قدردانی جیسے جزبے سے گندھے ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں ۔ان بے مول رشتوں اور احساسات کی انویسٹمنٹ گھر کو گھر بناتی ہے۔ گھر ایک انوکھے احساس کا نام ہے ۔’’اپنا گھر‘‘ یہ لفظ ہی اتنا پیارا، اتنا مکمل ہے کہ آپ کی پوری دنیا سمائی ہوتی ہےاس میں ۔ آ پ دنیا میں کہیں بھی چلےجائیں ،کیسے ہی شاندار ریزورٹ ، ہوٹل یا تفریحی مقامات یا بہت پیار کرنے والے کسی عزیز رشتے دار کے گھر ! پر جو اپنائیت جو سکون اپنے گھر میں آ کے ملتا ہے وہ دنیا میں کہیں نہیں ۔ گھر جیسی محفوظ جگہ دنیا میں کہیں نہیں ہے ۔
گھر کی بھی ا پنی ایک مخصوص خوشبو ہوتی ہے جیسے ماں کی خوشبو ہوتی ہے۔ہم میں…

مزید پڑھیں

چچاجان کے نام ! – عالیہ حمید

السلام علیکم!
 امید ہے بخیریت ہوں گے۔
یہ ایک بھتیجی کا اپنے’’ چاچا جی‘‘ کے نام بذریعہ ماہنامہ بتول،ایک خط کا چھوٹا سا تراشہ ہے ۔
آپ کی بہو اور بیٹا، عزہ اور سعد کافی عرصہ بعد کراچی سے پنجاب آئے ہیں تو ہم سے بھی ملاقات ہوئی۔ کچھ دیر باتیں کرنے کے اور رسمی حال احوال پوچھنے کے بعد عزہ نے مجھے بتایا کہ چچا جان آپ کو بہت یاد کرتے ہیں اور بتول میں آنے والی آپ کی ہر تحریر کو پڑھتے ہیں اور مجھے بھی پڑھنے کے لیے دیتے ہیں کہ یہ پڑھو یہ عالیہ نے لکھی ہے۔
اس بات پر ایک شاک سا لگا مجھے ۔ میں بہت حیران ہوئی ۔ اور دل خوش بھی ہؤا ۔ ایک جھماکے سے سالوں پہلے والا چاچا جی اور بھتیجی کا وہ رشتہ پھر سے تروتازہ ہو گیا ،جس پر مجھے یوں لگتا تھا جیسے وقت کی لمبی مسافت کی گرد پڑ گئی ہے۔ کیونکہ جدید ترین ٹیکنالوجی کے ہونے کے باوجود آپ سے بہت ہی عرصہ ہؤا کوئی رابطہ نہیں ہو سکا۔ لیکن یہ سن کر خوشی ہوئی کہ ’’بتول‘‘ کے ذریعے آپ ابھی تک مجھ سے کنیکٹڈ ہیں ۔ سعد عزہ کے جانے کے بعد میں نے سوچا کہ میں بھی…

مزید پڑھیں

خالو جی – شازیہ بانو

شاید میں چار سال کی تھی جب میری امی نے ادھر ادھر سے معلومات لے کر میری تعلیم کے آغاز کے لیے میری انگلی پکڑی اور خالو جی کے گھر کی طرف چل پڑیں۔
ان کا گھر کوئی 15 منٹ کی پیدل مسافت پر ہو گا۔ گلیوں میں سے چلتے ہوئے ان کے گھر پہنچے جس کے باہر پیلے اور سفید رنگ کی سفیدی ہوئی تھی۔ دروازے کے پاس شہتوت کا درخت لگا تھا۔ دروازے سے اندر داخل ہوئے تو کم چوڑائی والا مگر دو گلیوں کے آر پار لمبا گھر تھا۔ شروع میں صحن تھا جس میں ایک طرف انار کا درخت اور دیوار کے ساتھ ساتھ سبزیاں اگائی ہوئی تھیں۔ دونوں آمنے سامنے کی دیواروں کے ساتھ دو رویہ ٹاٹ بچھے تھے جس پر بچے مناسب فاصلے پر قطار میں بیٹھے سبق یاد کرنے یا تختی لکھنے میں مصروف تھے۔ صحن سے گزر کر بر آمدہ تھا، بر آمدے سے متصل تین کمرے مسلسل آگے پیچھے تھے۔ برآمدے میں بائیں طرف بڑے سائز کی موٹے پایوں والی باریک بان کی چارپائی بچھی تھی جس پر ایک صاحب تشریف فرما تھے جنہیں سب خالو جی کہہ رہے تھے۔
خالو جی جن کا نام( بہت بعد میں مجھے پتہ چلا) شیخ عبد…

مزید پڑھیں

مجرم کون ؟ – آسیہ راشد

۸اکتوبر کو تقریباً گیارہ اور بارہ بجے کے درمیان ویمن ایڈٹرسٹ کا چار رکنی وفد جیل پہنچا ۔ سوشل ویلفیئر آفیسر ہماری منتظر تھیں ۔ جیل کے احاطے میں غیر معمولی گہما گہمی تھی ۔ معلوم ہؤا سو بچوں کے قاتل جاوید اقبال اور اس کے ساتھی نے رات جیل میں خود کشی کرلی ہے ۔
اس خبر کو سنتے ہی دل بے طرح افسردہ وہ گیا ۔ کیا سو بچوں کے قاتل کو اس طرح مرنا چاہیے تھا؟ کیا اس کا انجام وہی ہؤا جس کے وہ قابل تھا اور اس طرح کے بے شمار سوالات ہمارے ذہن میں آنے لگے ۔ ہم لوگ گفتگو کرتے ہوئے ویمن سیل کی جانب روانہ ہو گئے ۔ راستے میں ایک خاص قسم کے سناٹے اورخاموشی کو سبھی نے محسوس کیا ۔ ہوا میںعجب سی پر اسراریت شامل تھی ۔ یوں لگ رہا تھا جیسے فضا میں ان معصوم بچوں کی سسکیاںشامل ہیں ۔ وہ چلا چلا کر کہہ رہے ہیں کہ ہمیں اذیت ناک موت سے دو چار کرنے والے کا اتنا آسان انجام کیوں ہوا؟ اس کے جسم کے سو ٹکرے کیوں نہ کیے گئے ؟ اس کے ٹکڑوں کو تیزاب میں کیوں نہ پھینکا گیا ؟ اسے سر عام پھانسی…

مزید پڑھیں

اٹھتے ہیں حجاب آخر سوالات کے جوابات پر مبنی حکیمانہ گفتگو سے انتخاب؎۱ – پروفیسراحمد رفیق اختر

دلوں پر مہر کیسے
میرےشیخ علی بن عثمان فرماتے ہیںکہ انسان کے دل پر دوطرح کے حجاب وارد ہوتے ہیں ۔ ایک کو وہ خطرات کہتے ہیں ۔ ایک کو وطنات کہتے ہیں ۔ جب پہلی مرتبہ دل پر کوئی خطرہ وارد ہو ، تو وہ کچھ دیر کے لیے ٹھہرتا ہے اور انسان ندامت سے رجعت کرے ، تو وہ خطرہ دور ہو جاتا ہے ۔ اس سے انسان کا دل ، صاف اورشفاف ہو جاتا ہے ۔ مگر اگر خطرے کی نگہداشت نہ کی جائے تو وہ خطرہ وہاں موجود رہتا ہے ۔ اس کی سنس بڑھتی ہے ۔ حتیٰ کہ وہ خطرہ وطن بن جاتا ہے ۔ جب کوئی خطرہ وطن بن جاتا ہے تو وہ خطرہ حجاب اوررہن بن جاتا ہے ۔ حجاب اور رہن دل کو مستقل گرفت میں لے کر حقیقت شناسی خداوند سے دور کر دیتا ہے ۔ اسی کو اللہ تعالیٰ دلوںپرمہر لگانے کے ذکر کی مثال دیتے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ مہر کیسے لگتی ہے ؟ کیا بعض پیدا ہی مہر کے ساتھ ہوتے ہیں یا کہ یہ ایک Degenerating Processہے ۔ ایک ایسا پراسیس جس میںدین فطرت پر پیدا ہؤا بچہ یا ایک انسان اپنی سلامتی صحت کے ساتھ ہوتے…

مزید پڑھیں

امیدِ وصل (بٹیا رانی کے لیے) – شاہدہ اکرام سحر

مری ننھی بٹیا، مرے دل کی رانی
وہ تارا تھی آنکھوں کا، روشن کہانی

تھی کوئل سی آواز اس کی، یہ جانو
وہ ست رنگی تتلی تھی، مانو نہ مانو

گلابوں سی رنگت تھی کلیوں سی خوشبو
مہکتی تھی آنگن میں میرے وہ ہر سُو

شب و روز رونق وہ دوبالا کرتی
شرارت سے سب کو ہنساتی تھی، ہنستی

یہاں روشنی کا وہ ہالہ تھی گویا
ہو گیتوں سے اک ہار جیسے پرویا

وہ نیکی کے کاموں کو کرتے نہ تھکتی
لگن میں انہی کے وہ بےچین رہتی

سبھی موتی چُن چُن کے مالا بناتی
سدا خواب تعمیر کے وہ دکھاتی

تھی شوقینِ علم اور مؤدب بہت تھی
رگوں میں تھی شفقت، مہذب بہت تھی

دلوں میں سبھی کے وہ بستی ہے اب بھی
بہشتِ بریں میں ہے گویا وہ رہتی

 

سفر اس نے غنچے سے گُل تک کیا تھا
حسیں منزلیں، زادِرہ بھی لیا تھا

یہی آس ہے، ہو وہ خالق کی مہماں
جہاں میں تو نیکی ہی تھی اس کی پہچاں

وہ سایہ کی مانند رہی ساتھ میرے
مرے ہاتھ میں ہاتھ اپنے دیے تھے

جدا ہوں گے ہم بھی نہ سوچا کبھی تھا
نوشتۂ قدرت تھا، ہونا یہی تھا

ملاقات ہو گی تو پوچھوں گی اس سے
بتا! مرے بن لمحے گزرے ہیں کیسے

بہارِ چمن تھی مری بٹیا رانی
خزاں چھا گئی، جب گئی بٹیا رانی

شبِ غم کو اس نے سحر میں ہے ڈھالا
ہے طوفاں…

مزید پڑھیں

غزل – مختار جاوی

کہیں بدن ، کہیں محفوظ پر نہیں ہوتے
ہر اک شجر پر پرندوں کے گھر نہیں ہوتے
سفر کے بعد ذرا سا سنبھلنا پڑتا ہے
ر کے بغیر مکمل سفر نہیں ہوتے
ہم اپنا نام نہیں بیچتے کسی بھاؤ!
امیر ہم سے ، بھی اہلِ زر نہیں ہوتے
کسی چراغ تلے کچھ نظر نہیں آتا
چمک دمک میں اندھیرے کدھر نہیں ہوتے
وہ جن کی سوچ کو زنجیر کر دیا جائے؟
رہا بھی ہوں تو رہا عمر بھر نہیں ہوتے
اُڑیں تو روکتی ہے آسمان کی دیوار
چلیں تو پاؤں کے آگے سفر نہیں ہوتے
تمہارا ساتھ میسر نہیں ہوا ورنہ
ہمارے ساتھ زمانے کے ڈر نہیں ہوتے
زمیں
آدمیوں کو اماں نہیں مانتی
فلک پر چاند ستاروں کے گھر نہیں ہوتے
چمن میں نت نئی پرواز کو نکلتے ہیں
قفس میں جیسے پرندوں کے پر نہیں ہوتے

مزید پڑھیں

قولِ برحق – قانتہ رابعہ

راضیہ تبسم ،شریف صاحب کی پانچویں اور آخری اولاد تھی لیکن انداز و اطوار میں سب سے جدا!
دین دنیا دونوں میں پوری لیکن والدین کے لیے بہت بڑا انعام ، خدمت گزار تابعدار اور ہونہار ،آج کے نفسا نفسی اور فتنوں کے دور میں جب سارے ماں باپ اولاد کی نافرمانیوں اور من مانیوں کے گلے شکووں کی پٹاری کھولتے تو راضیہ تبسم بغیر پلکیں جھپکائے ان کے منہ کی طرف دیکھتی راضیہ کے لیے یہ سب سے زیادہ اذیت ناک چیز تھی کہ ماں کی کوکھ سے پیدا ہوئے بچے بھی ماں با پ کے نافرمان ہو سکتے ہیں ؟
کیا چھے سات پونڈ کے بچے جب بڑے ہوتے ہیں تو ماں باپ کا رتبہ بھول جاتے ہیں یا اپنی اوقات؟
شریف صاحب کی خوش قسمتی تھی کہ بڑا بیٹا میٹرک کے بعد سعودیہ چلا گیا اور غم روزگار نے اسے اتنا مصروف کیے رکھا کہ شادی سے پہلے ایک مرتبہ ہی پاکستان آنے کا اتفاق ہؤا مہینہ بھر کے قیام میں اس کی خوب خاطر تواضع کی گئی رشتے داروں میں سے ہی اس کے لیے رشتہ ڈھونڈ لیا گیا اور اس کی فرمانبرداری یا نافرمانی کا لیول چیک کرنے کی نوبت ہی نہ آسکی ۔
شادی کے لیے آیا تو…

مزید پڑھیں

اُس کے شب و روز – الطاف فاطمہ

سالگرہ تو ایک چھوٹے سے بچہ کی تھی ، لیکن تفریح اور محفل بڑوں کی تھی ۔ بچے تو ایک بڑے سے بادبانی جہاز نما کیک پر جلتی ہوئی چار ننھی شمعوں کے گرد کھڑے ہو کر اپنی ننھی ننھی توتلی زبانوں اور چمچماتی ہوئی آنکھوں سے مسکراتے ہوئے سالگرہ مبارک کا نغمہ گا کر اور اپنے حصہ کی مٹھائی اور پیسٹریاں وغیرہ اُڑا کر لان کے دوسرے سرے پر کھیلنے کودنے لگے تھے اور بالکل چھوٹے بچے اپنی آیائوں یا امائوں کے آنچل تھام کر کھڑے ہو گئے تھے ۔
اب محفل پر بڑے چھائے ہوئے تھے ۔ ہر طرف قہقہے اور ہنسیاں تھیں ۔ کوکا کولا کے کریٹ پر کریٹ کھل رہے تھے اور لڑکیاں اور بعض بیگمات ہنس ہنس کر لٹکے ہوئے غبارے اور کریکرز اُچھل اُچھل کر اُتارنے اور ان کو پھاڑنے میں مصروف تھیں اور پھر اس طوفان کے تھمنے کے بعد مختلف میزوں پر گانے اور پارٹی گیمز کے پروگرام بنتے اور بگڑتے رہے۔
لیکن میری میز سے کچھ فاصلے پر ایک نسبتاً الگ تھلگ بیٹھی ہوئی لڑکی ان میں سے کسی چیز میں بھی حصہ نہیں لے رہی تھی ۔ ایک خاموش تماشائی کی طرح اپنی ہتھیلی پر اپنا گال ٹکائے سب کو دیکھ رہی…

مزید پڑھیں

ذیابیطس بنیادی معلومات -ڈاکٹرناعمہ شیرازی

ذیابیطس کی دو بڑی اقسام ہیں
ٹائپ وَن: جو چھوٹی یا کم عمری میں وجود میں آتی ہے اس کی وجہ جسم میں انسو لین کی انتہائی کم مقدار کا پیدا ہونا ہے لبلبے کے وہ خلیے یعنی بیکٹریا ہیں جو انسو لین پیدا کرتے ہیںان میں موروثی طور پر کمی ہوتی ہے اور یہ بیماری جب ہمارے سامنے آجاتی ہے اس کا علاج عام طور پر انسو لین کے انجکشن کے ذریعے کیا جاتا ہے اور انسو لین کے استعمال کے ساتھ یہ لوگ ایک مکمل متوازن غذا لے کر لوگ ایک مکمل صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں
ٹائپ ٹُو:یہ ذیابیطس کی دوسری قسم ہے۔ یہ عام طور پر خاندانی یاجینیاتی ہوتی ہے۔ چالیس سال کے اوائل میں اگر زیادہ میٹھا استعمال کیا جائے اور خاندانی شوگر بھی ہو تو یہ مرض لاحق ہو سکتا ہے ۔ زیادہ میٹھا کھانا اورموٹاپا بھی اس کا باعث بنتے ہیں۔ ایک اہم بات کہ جن خواتین میں حمل کے دوران (GDM)یعنی شوگر کا مسئلہ ہوتا ہے ان میں آگے چل کر شوگر کی بیماری کا چانس زندگی میں زیادہ ہوتا ہے ۔
شوگر کی بیماری کے خطرے کے عوامل
۱) خاندان میں یعنی ماں باپ ، بہن بھائی ، دادا ، دادی یا نانا نانی…

مزید پڑھیں