لوگ کیا کہیں گے! – بتول فروری ۲۰۲۳
یہ سوچ سب سے پہلے غالباً قابیل کے دماغ میں اس وقت آئی ہوگی جب اپنے بھائی ہابیل کو اپنے ہاتھوں قتل کر کے لاش پہ نظر پڑی ہوگی۔ کاش قابیل کو یہ خیال قتل سے پہلے آیا ہوتا کہ ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘۔ شاید اس وقت لوگ ہی کم تھے اور لوگوں کی فکر و فہم نے دوسروں کے بارے میں ’’کچھ نہ کچھ‘‘ کہنے کی رسم ایجاد نہیں کی تھی۔
اس پہ بھی تاریخ خاموش ہے کہ پہلے لوگوں نے’’کچھ‘‘ کہنے کی ابتدا کی تھی یا انسان کے ذہن میں یہ خیال جاگزیں ہو&ٔا تھا کہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘
پہلا جرم سرزد ہؤا تو شاید لوگوں کو اس بات کا احساس نہیں تھا کہ’’کچھ کہنا بھی ہوتا ہے‘‘ مگر قابیل نے کوّے کو اپنا استاد مانتے ہوئے یہ ضرور سوچا ہوگا کہ:
’’کوّا میرے بارے میں کیا کہتا ہوگا؟‘‘
یہ بہت تعجب کی بات ہے کہ انسان جرم کرنے سے پہلے نہیں سوچتا کہ لوگ کیا کہیں گے۔سیدنا یوسف کے بھائیوں نے اپنے والد کے چہیتے بیٹے کو کنوئیں میں ڈالتے وقت نہیں سوچا کہ جب پتہ چلے گا تو لوگ کیا کہیں گے۔ عزیزِ مصر کی بیوی کو بھی خیال نہ آیا کہ جب بات کھل گئی تو سارے شہر…