۲۰۲۲ بتول نومبر

محشر خیال – بتول نومبر ۲۰۲۲

بقائمی ہوش و حواس بقلم خود یہ گواہی دینے کو تیار ہوں کہ آج مورخہ پانچ کہ جس کا نصف اڑھائی اور پنجاب زدگان کے لہجہ میں ڈھائی ہوتے ہیں تاریخ کو بتول کا نیا شمارہ موصول ہوا ۔اللہ نظر بد سے بچائے تحفظ آزادی کا دو ماہ یکجا رسالہ شائع ہونے کا یہ سب سے بڑا فائدہ تھا کہ رسالہ چودہ پندرہ سے جست لگا کر پانچ کی صبح مل گیا۔ ڈاکیہ پروفیسر صاحب کا جاننے والا اور راجپوت برادری سے تعلق رکھنے کی وجہ سے موصوف خاصے بے تکلف بھی ہیں اور اس کا بھگتان ہمیشہ پروفیسر صاحب کی نصف بہتر کو بھگتنا پڑتا ہے اور چار کو ملنے والا رسالہ پانچ ،چھے کو ملتا ہے۔ کبھی کبھار یہ بے تکلفی اتنے عروج کو پہنچتی ہے کہ ہفتہ بھر کی ڈاک جمع کر کے تھیلا بھر کر لاتے ہیں۔
خیر نیلی آسمانی رنگ کی زمین پر سفید گہرے گلابی ور لالو لال ادھ کھلے پھول کا سرورق بھی بہت پیارا لگا۔
سیرت پر ڈاکٹر مقبول احمد شاہد اور ڈاکٹر میمونہ حمزہ دونوں کے مضامین بہت اچھے اور عام فہم تھے۔افسانوی حصہ میں نئے ناول کی خبرہی نہیں پہلی قسط بھی موجود ہے ۔اک ستارہ تھی میں ،مجھے یہ پورا مصرع…

مزید پڑھیں

جیسے چاہو جیو – بتول نومبر ۲۰۲۲

اشتہاری کمپنیاں جب کسی چیز کی فروخت کے سلسلے میں سلوگن بناتی ہیں تو وہ کوئی سیدھا سادہ معاملہ نہیں رہتا۔ عوام الناس میں پذیرائی کے بعد وہ ایک نظریہ بن جاتا ہے۔
’’جیسے چاہو جیو‘‘ بھی اسی کی ایک مثال ہے۔ گھر میں رہنے والے سب افراد جب اس سلوگن کے ساتھ اپنی زندگی کو آزاد سمجھتے ہیں تو میاں بیوی کے درمیان فاصلوں کا آغاز ہو جاتا ہے۔ بچے والدین کی مداخلت سے اپنے طرزِ حیات پہ قدغن محسوس کرتے ہیں۔پھر اس کی اگلی منزل ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا نعرہ ہوتا ہے۔
بظاہر چھوٹے چھوٹے معاملات انجام کار فتنہ عظیم بن کر سامنے آتے ہیں۔اسلام نے ہر بڑے فتنے کے نمودار ہونے کے پہلے ہی مرحلے پہ راستے کی بندش کا انتظام کر دیا ہے۔
مرد کوعورت کی مشابہت اور عورت کومرد کی مشابہت اختیار نہ کرنے کا حکم ہے۔ یہ مشابہت چہرے مہرے کی ہو، بالوں کی تراش خراش کی یا لباس کی۔ مردوں کے لیے ہاتھوں پہ مہندی اور سونے کا زیور اور ریشم کا استعمال منع ہے۔ لباس کے رنگوں میں بھی شوخ رنگ عورتوں کے اور ہلکے رنگ مردوں کے لیے ہؤا کرتے تھے۔
لباس کی یکسانیت نے مرد و عورت کی تفریق پہ پانی پھیر دیا۔…

مزید پڑھیں

سنہری دور اور تین بہنیں – بتول نومبر ۲۰۲۲

میٹرک کے بعد نرسنگ کورس میں رکاوٹیں اور جامعہ اسلامیہ برائے خواتین منڈی وار برٹن میں داخلہ میری زندگی کا سنہری دور اور اللّٰہ کی رحمت تھی ۔
آج بھی وہ تین بہنیں میری چشم تصور میں زندہ ہیں !
تین سالہ ڈپلومہ کورس تھا جس میں عالمہ فاضلہ قاریہ کی سند اور پھر ایک ڈگری لغۃ العربیہ کی بھی تھی ۔یہ جامعہ وفاق المدارس العربیہ ملتان پاکستان سے الحاق شدہ تھا۔
کورس ہوسٹل میں رہ کر کرنا تھا ۔گھر آ کر امی سے مشورہ کیا تو امی نہیں مان رہی تھیں ۔فیصلہ یہ ہؤا کہ مجھ سے چھوٹی بہن بھی میرے ساتھ جائے گی ۔ امی کو منانے کی بہت کوشش وہ بھی بڑی باجی کی، میرے دل سے ان کے لیے بہت دعائیں نکلتی ہیں ۔آج جو کچھ بھی ہوں ان کی کاوشوں کا ثمر ہوں ۔والدین کو کیسے اور کتنے جتنوں سے راضی کیا ۔اس بات کا سہرا باجی کے نام ۔
یوں اللّٰہ کی خاص رحمت سے مسز زبیدہ اسلم صاحبہ کے پرخلوص مشورے اور باجی کی کاوش سے میرا اور چھوٹی بہن کا داخلہ جامعہ اسلامیہ برائے خواتین منڈی وار برٹن میں ہو گیا۔آج بھی یہ سوچ کر تشکر سے آنکھیں نم ہو جاتی ہیں کہ اللّٰہ رب عزوجل…

مزید پڑھیں

صنفی شناخت کا بحران کیوں؟ – بتول نومبر ۲۰۲۲

ایک دن شبانہ مسجد کی تیسری صف میں ہاشمی صاحب کے برابر میں آکر کھڑی ہو گئیں ۔ ان کی پڑوسن تھیں حال ہی میں تبدیلی جنس کا آپریشن کرا کے اپنی شناخت بدل لی تھی۔ ہاشمی صاحب ذرا ہچکچائے تو انہوں نے بے تکلف قریب ہو کر کندھے سے کندھا ملالیا، اس لیے کہ نادر ا کے ڈیٹا میں اب وہ شبانہ نہیں ’’ سلیم ‘‘ تھیں !
سندھ کے ایک دور افتادہ گائوں میں نہر سے سر بریدہ لاش ملی ۔ ریشماں کو لواحقین نے پیر کی انگلیوں سےپہچانا ۔ یہ لرزہ خیز قتل ایک جائیداد کے جھگڑے کا شاخسانہ تھا ۔ برادری میں وراثت میں بہنوں کے حقوق غصب کر لیے جاتے تھے مرحوم والد صاحب جو بڑے جاگیر دار تھے ۔ کئی شہروںمیں ہزاروں کینال زمین چھوڑ کر رخصت ہوئے ۔ ریشماں نے اپنا حصہ طلب کیا تو اسے دھمکیاں دی گئیں ۔ وہ بارہ جماعت پاس با شعور لڑکی تھی ۔ بھائیوں کو اعتراض اس کی تعلیم پر تھا کہ ماں نے اس کے لاڈ اٹھا کر اسے اسکول اور کالج نہ بھیجا ہوتا تو آج وہ منہ کو نہ آتی۔
ایک نام نہاد وکیل نے مشورہ دیا کہ نادرا کے آفس جا کر اپنی شناخت تبدیل…

مزید پڑھیں

لیس الذکر کالانثیٰ – بتول نومبر ۲۰۲۲

صنفی شناخت نمبر کو کراچی میں بیٹھ کرترتیب دے رہی ہوں جہاں اردگرد پونے تین سالہ ڈارلنگ پوتاطواف کرتا ہے ،اورجو دوبڑی بہنوں کے ساتھ رہتے رہتے خود کو مونث بلانا سیکھ گیا ہے۔ اس کے ماں باپ بے فکر ہیں کہ کوئی بات نہیں خود ہی درست کرلے گا وقت آنے پر،اور ہم سر ہلا کر خاموش ہوجاتے ہیں کہ ٹھیک ہے بھئی آپ کا بچہ ہے جو مرضی تجربہ کریں!مگر اندر اندر دل دہلا جاتا ہے۔
جیسے ہی باپ دفتر کو سدھارا اور ماں کاموں میں مصروف ہوئی، ہم نے اسے قابو کرنے کی ٹھانی۔ آواز دی۔
’’ جبریل!ادھر آئیں میرے پاس‘‘ اور جواب ملا، ’’ابھی آتی ہوں اماں!‘‘
لا حول ولا قوۃ!
اور جب صاحبزادے تشریف لائے تو جلو میں بہن بھی تھیں ہاتھ میں نیل پالش تھامے۔
’’اماں مجھے لگا دیں‘‘۔
’’مجھے بھی!‘‘
باریک سی آواز آئی اورانابیہ کے ہاتھ کے ساتھ ایک اور چھوٹا سا ہاتھ میرے سامنے پھیل گیا۔
’’ہائیں یہ کیا؟ لڑکے نہیں لگاتے!‘‘ہم نے خفگی سے کہتے اس حبیبِ عنبر دست کوپیچھے کیا۔
’’لگاتے ہیں‘‘ویسا ہی خفگی بھرا جواب آیا۔گنبد کی صدا…. سکواش گیند کی ہِٹ۔ہم نے سوچا لہجہ بدلنا پڑے گا۔
’’دیکھو نا بہن تو لڑکی ہے مگر آپ لڑکے ہیں نا….لڑکے تو نیل پالش نہیں لگاتے،لڑکیاں لگاتی ہیں‘‘۔
صاحبزادے نے ایک…

مزید پڑھیں

نادرہ خان کی کہانی – بتول نومبر ۲۰۲۲

بھاگتی دوڑتی زندگی میں کبھی کبھار کسی خواجہ سرا سے سامنا ہؤا اوردو چار جملوں کا تبادلہ ہؤا تو جی چاہا ان سے روک کر ان کی زندگی کے بارے میں جانا جائے مگر ہر دفعہ یہ خیال آیا اور گزر گیا ۔اب جبکہ چہار طرف خواجہ سرا کا عنوان گردش کر رہا ہے تو اس خیال نےاب بہت مضبوطی سے سر اٹھایا اور ’’بتول‘‘کے خاص نمبر کے لیے مختلف خواجہ سراؤں سے رابطہ کی کوشش کی۔ بالآخر کینیڈا میں مقیم اپنی ایک دوست کے ذریعے سے ہمارا ایک ایسی ہی ہستی سے رابطہ ہؤا اور ان سے تفصیلی بات چیت ہوئی تو ایک شدید پچھتاوا ساتھ دل و دماغ کو کچوکے دینے لگا کہ کاش پہلے ہی ایسا کیا ہوتا! اب تک بہت سے مظلوم طبقوں کے لیے کام کیا ہے۔ پہلے کچھ سوچا ہوتا تو شاید بہت پہلے یہ بات سمجھ میں آ جاتی کہ یہ معاشرے کے بہت بلکہ شاید سب سے مظلوم لوگ ہیں اور نادرہ خان بھی انہی میں سے ایک نمایاں نام ہے۔ ان کو ٹی وی ڈراموں میں ایکٹر کے طور پہ کام کرتے دیکھنے کا اتفاق بھی ہؤا تھا۔
نادر ہ خان کہتی ہیں کہ ہم اپنے گھر میں ہی اجنبی اور غیر…

مزید پڑھیں

عملِ قوم لوط اور آج کے مسلمان – بتول نومبر ۲۰۲۲

ایک بین الاقوامی فتنے کے مشاہدےکی چشم کشا روداد
امریکا میں مسلم ایل جی بی ٹی کمیونٹی سے2015میں اپنے اولین رابطے کے مشاہدات پر مبنی یہ مضمون 2016میں لکھا گیا۔ بعد ازاں میری اس موضوع پر ریسرچ جاری رہی ہے جس کے لیے میں پاکستان کی خواجہ سرا کمیونٹی سے بھی مسلسل رابطے میں رہی ہوں گو ان کا تعلق ایل جی بی ٹی کمیونٹی سے نہیں ہوتا – اپنے یہ تمام مشاہدات کچھ ترمیم اور اضافے کے ساتھ ایڈیٹر بتول صائمہ اسماکی فرمائش پر بتول کے خاص نمبر کے لیے بھیج رہی ہوں۔ تمام نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ تزئین حسن
 
’’وہاں جانے کے لیے آپ کی ایک مخصوص شناخت ہونی چاہیے‘‘۔
ایمن کی مسکراہٹ گہری ہوتی چلی گئی اور میں کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھی بہت کچھ سمجھ گئی۔ اس کے قدرے گول دمکتے ہوئے گورے چہرے پر نازک میٹل فریم کے پیچھے سے جھانکتی ہوئی ذہانت سے پُر آنکھیں شرارت سے چمک رہی تھیں۔
ایمن ، میں اور این، ہارورڈ کے قدیم ترین کیمپس سے کوئی تین چار سو میٹر دور واشنگٹن اسٹریٹ پر واقع کوئی سو سال پرانے بنے ہوئے لکڑی کے مکان کی تین بیڈ روم، لاؤنج اور ایک کچن کم ڈائننگ روم پر مشتمل نچلی منزل شئیر…

مزید پڑھیں

اک ستارہ تھی میں – بتول نومبر ۲۰۲۲

خلاصہ: پون بطور سکول ٹیچر شہر سے گائوں منتقل ہوتی ہے ۔ وہ اپنے ذہن کو پرانی یادوں سے آزاد کرنے کی کوشش میں ہے۔ گائوں کا ماحول اس کے لیے بالکل نیا ہے ۔ یہاں آکر وہ سکول کی حالت پر بہت پریشان ہے ، وہ سکول اور بچوں کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہے مگر خود اس کی اپنی زندگی مشکل میں ہے ۔ وہ میڈم کے گھر کرایہ دار ہے اور وہ اس سے گھر کے سارے کام کرانا چاہتی ہیں ۔ ایسے میں اس کی ملاقات گائوں کی ایک معزز خاتون ’’ بی بی ‘‘ سے ہوتی ہے ، پون ان کے ساتھ رہنے کی اجازت مانگ لیتی ہے اور یوں اسے کچھ سکون میسر آتا ہے ۔
کئی اندیشوں میں گھری اگلی صبح وہ سکول پہنچی تھی ،اُسے معلوم تھا کہ اُس کے یوں چلے آنے پر میڈم سخت ناراض ہوں گی ۔اب یہی خوف اُسے ستا رہا تھا کہ اگر انہوں نے اُس کے خلاف کوئی محاذ بنا لیا یا اس کے خلاف کوئی رپورٹ لکھ دی تو اُس کی نوکری پر بہت برا اثر پڑ سکتا ہے اور اگر یہ نوکری چھن گئی تو وہ کہاں جائے گی کیا کرے گی !
اور اس وقت…

مزید پڑھیں

بس سٹاپ – بتول نومبر ۲۰۲۲

مجھے گمان ہے کہ آج پھر میں ناکام لوٹ جائوں گا۔
معید ہا تھ میں بریف کیس لیے بس اسٹاپ پر کسی حقیقی ضرورت مند کے انتظار میں تھامگر روزمرہ کے فقیر اور خواجہ سرا جو ہرطرح سے کما کر اپنا گزارا کر لیتے تھےعلاوہ اس کو کوئی حقیقی ضرورت مند نظر آیا نہ سمجھ ۔وہ اپنی چالیس سالہ زندگی میں بہت سا تجربہ جمع کر چکا تھا۔
رات خاصی گہری ہو چکی تھی اور سخت سردی کے باعث نیون سائن بھی اونگھ رہے تھے ۔وہ بریف کیس لیے مایوسی سے پلٹ رہا تھاکہ سستے پرفیوم کی تیز مہک نے اس کو پلٹنے پر مجبور کردیا۔ وہ میک اپ اور خوب تراش خراش کے کپڑوں سے آراستہ تھی جن کی فٹنگ نے اس کے جسم کی بناوٹ کو اچھی طرح نمایاں کر دیا تھا۔ حلیے سے وہ خواجہ سرالگ رہی تھی مگر معید کو اس کی حرکات میں کوئی چیز کھٹک رہی تھی۔
اپنے جیسے دوسرے لوگوں کی طرح وہ بھیک نہیں مانگ رہی تھی بلکہ بار بار اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر ٹائم دیکھتی ، پھر بس اسٹینڈ کی یخ بستہ اسٹیل کی بنچ پر بیٹھتی اور پھر کھڑی ہوکر ٹہلنے لگتی ۔ایک دو افرادبھی اس کے پاس آئے، کچھ بات…

مزید پڑھیں

کچرے میں کلی – بتول نومبر ۲۰۲۲

رات کے پچھلے پہر کریم صاحب کی معمول کے مطابق آنکھ کھلی۔وہ اپنے بستر سے اٹھتے ہوئے اللہ کی حمد بیان کر رہے تھے ۔پھر وہ صحن میں لگے نلکے سے وضو کرتے ہوئےآسمان کو دیکھنے لگے جو بادلوں سے ڈھکا ہؤا تھا،یوں معلوم ہوتا تھا جیسے یہ کسی وقت بھی برس پڑیں گے۔
وضو کرکےانہوں نے ایک نظر اپنی بیوی پر ڈالی اور دروازے سے باہر نکل گئے ۔ ان کا رخ مسجد کی جانب تھا جوان کی آبائی مسجد تھی گھر سے کچھ فاصلے پر ۔ کریم صاحب روز تہجد کا اہتمام وہاں ہی کرتے   تھے۔کریم صاحب اللہ سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی راہ چل رہے تھے کہ اچانک کانوں میں پڑنے والی آواز سے ان کے قدم رکے ۔ وہ کسی بچے کی بلک بلک کر رونے کی آواز تھی ۔ کریم صاحب حیران پریشان اپنے ارد گرد کا جائزہ لینے لگے مگرکچھ دکھائی نہ پڑتا تھا ۔ ایک تو نیم اندھیرا تھا دوسرا دائیں جانب بڑا سا کچرے کا ڈھیر لگا تھا ۔ابھی وہ حالات کا جائزہ ہی لے رہے تھے کہ آواز آنا بند ہوگئی ۔ کریم صاحب نے اپنے خیالوں کو ترتیب دیتے ہوئےسوچا کہ یا وہ ان کا وہم ہوگا یا کہیں پاس کے…

مزید پڑھیں

بھید – بتول نومبر ۲۰۲۲

اتنا تو شہناز بیگم نے دو بیٹوں کے آنے ہر بھی خوشی کا اظہار نہیں کیا تھا جتنا بیٹی کے آنے پر ،بیٹی کیا پیدا ہوئی جیسے سترہ سال کی کم سن بچی بن گئی ہو۔ لوگ باگ روتے ہیں کہ مائیں ساری توجہ بیٹوں کو دیتی ہیں ان کے نخرے اٹھاتی ہیں ان کو گھی کی چوری بنا بنا کے کھلاتی ہیں پر شہناز بیگم کے ہاں الٹ معاملہ ہؤا ۔جو پیار اور توجہ انہوں نے بڑی بیٹی سیماب کو دی اتنی تو ساری اولاد کو نہیں دی ۔
پیدا ہوئی تو ہر آئے گئے کے آگے مٹھائی کی پلیٹ رکھی، تاکید کر کر کے سب کو کھلاتیں۔ آپانویدہ کو شوگر کا موذی مرض لا حق تھا ان کو بصد اصرار گلاب جامن کھلائی ۔
اور آپا نویدہ کیا سارے منہ اٹھائے انہیں دیکھ رہے تھے ۔بیٹوں کی مرتبہ تو اتنا اصرار نہیں کیا تھا !
روز نئے کپڑے پہناتیں، آنکھوں میں بطور خاص بنوایا ہؤا کاجل ڈالتیں جو بادام کے چھلکے جلا کر کوری مٹی کے ڈھکن پر مکھن لگا کر بادام کے چھلکوں کے دھوئیں پر رکھ دیا جاتا دس بیس منٹ کے بعد ڈھکن اٹھایا جاتا تو چھلکے راکھ میں بدل چکے ہوتے تھے اور دھواں مکھن میں شامل…

مزید پڑھیں

دشتِ تنہائی – بتول نومبر ۲۰۲۲

زلفی بابا تھا تو چالیس پینتالیس برس کا مگر اپنے ظاہری حلیے سے پچاس ساٹھ کا دکھائی دیتا تھا ۔ قدرے سانولا رنگ ، تاڑ کا سا قد، دبلا پتلا جسم ، سر پر اکا دُکا بھورے بال جو ہر وقت بکھرے رہتے ۔ جنہیں سمیٹنے کی کبھی ضرورت محسوس نہ ہوتی تھی ۔ اس کا لباس بھی اس کی شخصیت کا عکاس تھا ۔ زرد رنگ کا لمبوترا سا کرتا ، دو رنگوں کے ڈبوں والی دھوتی ، لال اور سفید دھاریوں والا رومال جو کندھے پہ رکھا ہوتا اور بوقت ضرورت اسے صافے کے طور پر سر پر باندھ لیا جاتا ۔ اس کی شخصیت کو دیکھ کر اداسی ، ویرانی اور غربت کا احساس ہوتا ۔ ہم سوچتے شاید غریب آدمی ایسے ہی ہوتے ہیں۔
جب وہ دس بارہ برس کا تھا تب وہ پہلی بار بڑی کوٹھی میں آیا تھا ۔ اس کا کوئی عزیز اسے بڑے ابا جی کی سر پرستی میں ان کے پاس چھوڑ گیا تھا۔ وہ کون تھا ، کہاں سے آیا تھا اس کے کوئی اپنے تھے بھی یا نہیں یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔مگر یہ راز صرف بڑے ابا جی جانتے تھے ۔ قسمت کا مارا زلفی پیدائشی ہیجڑا تھا ۔…

مزید پڑھیں

گھنگھرو کی جھنکار – بتول نومبر ۲۰۲۲

حویلی کا آہنی گیٹ دھڑا دھڑ بج رہا تھا ، ڈھول کی تھاپ، گھنگھرئوں کی جھنکار اور تالیوں کی زور دار آوازیں سماعت سے ٹکرا رہی تھیں ۔
جتنا شور باہر تھا اُس سے زیادہ حویلی کے اندر ٹائیگر نے مچا رکھا تھا۔ اُس نے تو پوری حویلی سر پر اٹھا رکھی تھی اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ گیٹ توڑ کر باہر نکلے اور دخل در معقولات کرنے والی مخلوق کی تکہ بوٹی کر دے ۔
ملازم چوہدری کے اشارہ ٔ ابرو کا منتظر تھا ۔ چھ سالہ گڈو حیران کھڑی سب کے چہروںکا بغور جائزہ لے رہی تھی ۔ میٹھی میٹھی مسکان سب چہروں سے عیاں تھی ۔ ابا حُقّہ کا کش لگانے میں مصروف تھے۔
’’ اوئے غلامُو! چُپ کرا اسے ‘‘ انہوں نے حقہ ایک طرف کر کے ملازم کو اشارہ کیا ۔
اِذن پاتے ہی ملازم کی ٹائیگر کی طرف دوڑ لگ گئی۔ جیسے ہی اُس نے ٹائیگر کی گردن پر پیار سے پیر رکھا اُس کی آواز تو بند ہو گئی اور دُم اُتنی ہی تیزی سے حرکت کرنے لگ گئی ، یہ اُس کی طرف سے اطاعت امر کا ثبوت تھا ۔
خاموشی چھاتے ہی باہر کا شور زور پکڑ گیا ۔
’’چوہدری ! تیرے بچے جیون…

مزید پڑھیں

نعت – بتول نومبر ۲۰۲۲

نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم
بلندیِ خیال میں،جواب میں سوال میں
وفا کے ہرکمال میں، عمل کے ہرجمال میں
عروج میں ،زوال میں غرض کسی بھی حال میں
ہیں آگہی کاراستہ، وہی حبیبِ کبریا
منازلِ شعور میں، محافلِ سرور میں
دل و نگہ کے نور میں ، فضائلِ وفور میں
جلالِ کوہ طور میں ،خدا کے ہر غرور میں
وہ روشنی کاسلسلہ، وہی حبیبِ کبریا
نہ نفرتوں کی حدرہے،زباں پہ ردّوکد رہے
کدورتیں ہوں اس قدر،شعورِجاں پہ زد رہے
جہاں جہاں بھی دیکھیے عجیب شدومد رہے
توپھر حیات مصطفٰے ، کرے عطا نئی جلا
کوئی کٹھن ہو مرحلہ، ملے نہ کوئی درکھلا
تو اسوہِ محمدی نظر نظر کا آسرا
شبِ سیہ کے بام پر بنے سحر کاراستہ
وہی حبیبِ کبریا، وہ مل گئے خدا ملا

مزید پڑھیں

انسانیت اس قعرِ مذلت میں کیسے گری – بتول نومبر ۲۰۲۲

ہم جنس پرستی اور ہم جنس شادی، چند حقائق
کائنات میں موجود تمام جاندار اشیامیں فطرت نے نر اور مادہ کا فرق بقائے نوع اور تناسل (reproduction)کے لیے رکھا ہے۔ دونوں کی یکجائی سے ان کی نسل چلتی ہے اور اسی مقصدکے لیے ان کے درمیان کشش رکھی گئی ہے۔ فطرت کے انہی مقاصد کو پورا کرنےکے لیے انسانوں کے درمیان خاندان کا ادارہ وجود میں لایا گیا جو نکاح کے ذریعے شوہر اور بیوی میں باہم رفاقت و تسکین اور اولاد کی پیدائش، پرورش اور تربیت کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ انسان نے اپنے ارادے و اختیار کی آزادی کی بنا پر زندگی کے جن مختلف رویوں میں راہ فطرت سے انحراف کیا، اس میں جنسی خواہش کی تسکین کا انحراف بھی شامل رہا۔ البتہ ان رویوں کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا بلکہ مذہبی اور معاشرتی حوالوں سے مغرب اور دیگر علاقوں میں اسے 19ویں صدی تک ممنوع اور قابل سزا جرم بھی تصور کیا گیا۔
بیسویں صدی کے وسط سے ہم جنس پرستی کی تحریک اجتماعی طور پر مضبوط ہونا شروع ہوئی اور بتدریج پیش قدمی کرتے ہوئے اکیسویں صدی کے آغاز میں ہم جنس شادی کے آغاز پرمنتج ہوئی اور آج 33ممالک میں ایسی شادیوں…

مزید پڑھیں

فطرت کیا ہے – بتول نومبر ۲۰۲۲

فطرت سے مراد ساخت ہے،مگر جب ہم انسانی فطرت کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد وہ ساخت،صفات ہیں جو انسان میں پیدائشی طور پر موجود ہوں اور جو زمانے کے سردو گرم،ماحول کی ناسازگاری کے باوجود انسان کو اپنی جانب کھینچتی ہوں۔
آئیے ذرا فقہا کے اقوال اور احادیث کے تناظر میں فطرت کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں
حدیثِ قدسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’میں نے اپنے بندوں کو موحد پیدا کیا مگر شیاطین نے انہیں بہکا دیا‘‘۔(مسلم)
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فطرت سے مراد ملتِ اسلام ہے۔ (اغاثة اللھفان)
امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فطرت سے مراد دین اسلام ہے۔(تفسیر القرآن العظیم)
امام شوکانی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی فطرت سے مراد اسلام ہے۔ (فتح القدیر)
فطرت کا معنی خلقت جبلت اور ساخت ہے صاحب مصباح اللغات کے نزدیک فطرت کا معنیٰ طبیعی حالت، دین، سنت، طریقہ، پیدائش اور وہ صفت کہ ہر موجود اپنی پیدائش کے وقت جس پر ہو ہے۔
امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فطرت سے مراد دین اسلام ہے۔
کہا جاتا ہے کہ فطرت نہیں بدلتی اور عمومی طور پر اس کے لیے بچھو کو بطور مثال پیش کیا جاتا…

مزید پڑھیں

ہم نے تمہیں جوڑوں میں پیدا کیا – بتول نومبر ۲۰۲۲

اللہ تعالیٰ ساری کائنات کا خالق مالک اور فرمانروا ہے۔ اس کی کائنات بہت وسیع ہے، جس کے ایک حصّے میں اس نے انسانوں کو پیدا کیا، اور انہیں ’’خلیفۃ اللہ فی الارض‘‘ قرار دیا۔اس نے انسانوں کو عقل و شعور اور علم سے مزین کیا، تاکہ وہ جاننے بوجھنے والی سمجھدار مخلوق بن جائیں۔اس نے انہیں زمین پر اسی شعور کے ساتھ اتارا، اور گاہے گاہے اپنے پیغمبروں کے ذریعے ان کی ہدایت کا اہتمام بھی کرتا رہا۔اس نے برائی اور بھالائی کی تمیز ان کے اپنے نفوس میں بھی رکھ دی تاکہ وہ کسی کے بہکاوے میں آنے سے بچیں۔ اس نے پورے اختیار اور ارادے کی قوت کے ساتھ انہیں بھیجا تاکہ وہ اپنے اعمال کے ذمہ دار بنیں۔
یہ عالم ِ بالا کی خاص مشیت ہے کہ اس کائنات میں پیدا کیے جانے والے انسان کو اس زمین کے اختیارات دے دیے جائیں، اور اسے اس دنیا میں آزاد چھوڑ دیا جائے، اور انسان کو اس زمین کی تحلیل و ترکیب، اس کی تبدیلی و ترقی اور اس کے خزانوں کا کھوج لگانے اور اس کے خام ذخائر کا پتا لگانے اور انہیں مسخر کرنے کے کام پر لگا دیا جائے۔ یہ سب کام اللہ کے حکم…

مزید پڑھیں

ابتدا تیرے نام سے – بتول نومبر ۲۰۲۲

قارئینِ کرام سلام مسنون!
وہ موسم ہے کہ بارشیں ختم ہیں اور فضاؤں میں ٹھہری ہوئی گرد کا راج ہے۔ فضا میں آلودگی کا پیمانہ روزبروز بڑھے گا، گلے اور سانس کی بیماریوں میں اضافہ ہوگا اور جب تک بارش نہ ہوگی ہوا صاف نہ ہوگی۔لاہور ابھی سے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں آگیا ہے، آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
گرد شہری ہوا میں ہی نہیں سیاسی فضا میں بھی ہے۔ معروف صحافی کا اندوہناک قتل ایک ایسا سانحہ ہے جس نے صرف آزادیِ اظہار ہی کا گلا نہیں گھونٹا بلکہ آنے والے حالات کے بارے میں بھی شدید تشویش اور اندیشوں کی گرد اُڑا دی ہے۔کئی دیگر صحافیوں کی بھی ملک چھوڑنے کی اطلاعات ہیں۔ حالات ایسے بنا دیے جائیں کہ محض رائے دینے کے نتیجے میں جھوٹے مقدمات قائم ہو جائیں یہاں تک کہ ملک چھوڑنا پڑے تو یہ انتہائی خطرناک صورتحال ہے۔ عمومی طور پہ بے چینی بلکہ خوف پایا جاتا ہے۔دوسری طرف لانگ مارچ کی صورت میں بڑے پیمانے پر عوام کو متحرک کیا جارہا ہے۔اس وقت فوری انتخابی اصلاحات اور اس کے بعد شفاف قومی انتخابات واحد راستہ ہے کہ بہتری کی کوئی امید ہو سکتی ہے۔
توشہ خانہ کیس کا فیصلہ تو آگیا اب انتظار ہے…

مزید پڑھیں