حبیب الرحمن

غزل – بتول فروری ۲۰۲۱

غزل
پھر سے اچھے بن جاتے ہیں
ہم بچہ سے بن جاتے ہیں
کیا محفل وہ جس محفل میں
جھوٹے سچے بن جاتے ہیں
سیدھے سادے مجنوں پاگل
ہم سے تم سے بن جاتے ہیں
خود کو دیکھیں تو دیکھا ہے
دشمن اپنے بن جاتے ہیں
کیا ہے اْس کی ہٹ کی خاطر
ہم ہی چھوٹے بن جاتے ہیں
دریا کا رستہ روکیں تو
دریا رستے بن جاتے ہیں
بستی والو اب گھر جاؤ
ہم بھی اپنے بن جاتے ہیں
سوچا ہے کیوں چہرے والو
بندے بن کے بن جاتے ہیں
بن جاتے ہیں اپنے دشمن
لیکن کیسے بن جاتے ہیں
سوچا تو تھا جیسا ہے وہ
ہم بھی ویسے بن جاتے ہیں
وہ جو بن کا بن بیٹھا ہے
ہم بھی اس کے بن جاتے ہیں
حبیب الرحمن

مزید پڑھیں

مستقبل کی سرحد پر – بتول فروری ۲۰۲۱

دو گھروں کے درمیان بے شک مجبوریوں کی دیواریں حائل تھیں لیکن اتنی اونچی بھی نہیں ہو گئی تھیں کہ کسی سہارے کھڑا ہو کر ان کے دوسری جانب جھانکا بھی نہیں جا سکتا ہو۔ اکثر دیوار کے اس پار کے گھر والے دیواروں پر کھڑے ہوکر بات چیت بھی کر لیا کرتے اور موقع ملے تو ایک دوسرے کی دیواریں ٹاپ کر بالمشافہ ملاقاتیں بھی ہوجایا کرتی تھیں۔ گزشتہ 70 برسوں سے یہ سلسلہ جاری تھا اور اس دوران دونوں جانب نہ جانے کتنے پھول سے چہرے عمر رسیدگی کا شکار ہو کر اپنی آخری منزل کی جانب روانہ ہو چکے تھے اور کتنی ہی کلیاں کھل کر گل و گلزار کا روپ دھارے مزید گل ہائے رنگا رنگ کی خوشبوئیں مہکاتی جا رہی تھیں ۔ پھرایک دن اچانک یہ ٹوٹی پھوٹی فصیلیں ناقابل عبور قلعے کی فصیلوں میں تبدیل ہو کر رہ گئیں اور وہ دو گھرانے جو دشمنوں سے آنکھیں بچا کر ایک دوسرے کے پیار کی خوشبو سے اپنی روحوں اور سانسوں کو مہکا لیا کرتے تھے، ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنے سے محروم ہو کر رہ گئے۔
ایک شب ڈاکوؤں نے ہماری دیوار کے اْس جانب آباد میرے ہی بہن بھائیوں کے گھر پر ایسا…

مزید پڑھیں

مُنّا – بتول جنوری ۲۰۲۲

میں ڈھاکہ میں رہنے والی نہایت معمولی شکل و صورت کی ایک غریب لڑکی تھی۔ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد۔ والد نسلی فسادات کی نظر ہو چکے تھے۔ والد صاحب بے شک محنت مزدوری ہی کیا کرتے تھے لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان کے ہوتے ہم ماں بیٹی نہ صرف دو وقت کی روٹی بڑے آرام سے کھا لیا کرتی تھیں بلکہ دیگر بنیادی ضروریات بھی کافی حد تک پوری ہو جایا کرتی تھیں۔ پاکستان کا یہ مشرقی حصہ غربت کا شکار ضرور تھا لیکن ایک خوبی اس میں مغربی حصے سے بہت زیادہ تھی اور وہ تھی تعلیم کے اوسط کا فرق۔ سنہ ساٹھ اور ستر کی دھائی میں بھی پاکستان کے مشرقی حصے میں تعلیم کا اوسط پچاس فیصد سے زیادہ تھا۔ میرے والد صاحب معاشی مجبوریوں کی وجہ سے آٹھ جماعتیں ہی پڑھ سکے تھے لیکن اس زمانے میں آٹھ جماعت پاس بھی بہت پڑھا لکھا کہلاتا تھا اور عام لوگوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
1965کی جنگ کے بعد سے پاکستان کے اس مشرقی حصے کے حالات کافی تیزی کے ساتھ بگڑنے لگے تھے اور نہ جانے کیوں بھائیوں کی طرح آپس میں رہنے والے آہستہ آہستہ ایک دوسرے سے دور…

مزید پڑھیں

غزل – بتول فروری ۲۰۲۲

جو یونہی روٹھ گئے ہوں انھیں منائیں کیا
نہ چاہتے ہوں اگر دل سے مسکرائیں کیا
ہمارے دل میں تمہارے سوا نہیں پہ یہ دل
جو دیکھنا ہی گوارہ نہیں دکھائیں کیا
اگر ہے بات میں سچائی لکنتیں کیسی
یہ اوپرا لب و لہجہ یہ آئیں بائیں کیا
قبول ہیں سبھی اچھی بری صفات ہمیں
کریں گے صرف تری لے کے ہم بلائیں کیا
ہزارعیب ہیں ہم میں، نہیں ہے تم میں کوئی
’’ہمارے پاس بھی ہے آئینہ دکھائیں ‘
وہ بے وفا ہی سہی ہم وفاؤں کے خوگر
وہ ہم کو بھول گئے ہیں تو بھول جائیں کیا
بس ایک تو ہی نہیں جانِ بزم بزم میں کیوں
ہر ایک سمت مچی ہے یہ سائیں سائیں کیا
محبتوں کا سمندر تو بے کنارہ ہے
کہ چاہتوں کی بھی ہوتی ہیں انتہائیں کیا
حبیبؔ وقت تھا سب تھے، گیا گئے، کہو اب
پلٹ کے دیکھ رہے ہو یہ دائیں بائیں کیا

مزید پڑھیں

غزل – بتول جون ۲۰۲۲

غزل
ہنس کے طوفاں کو ٹالتے رہیے
رنگ ہر سو اُچھالتے رہیے
اپنے دل کے حسین جذبوں کو
لفظ و معنی میں ڈھالتے رہیے
زیست کے بیکراں سمندر سے
سچ کے موتی نکالتے رہیے
پھیل جائے نہ تیرگی ہر سو
زخمِ دل کو اُجالتے رہیے
درد و غم کے اُمڈتے طوفان کو
دل کے دریا میں ڈالتے رہیے
علم و دانش چھپی ہوئی شے ہے
لمحہ لمحہ کھنگالتے رہیے
بارِ غم تو متاعِ ہستی ہے
یہ امانت سنبھالتے رہیے
با کرامتؔ ہے یہ سخن گوئی
اس روایت کو پالتے رہیے
کرامتؔ بخاری
 

 

 
غزل
کہاں دل کو اتنا تھا حوصلہ مری بات بیچ میں رہ گئی
ترے سامنے رکھوں مدعا مری بات بیچ میں رہ گئی
میں جو دیکھتا، نہیں دیکھتا، جو نہ دیکھتا، مجھے دیکھتا
یونہی وقت سارا گزر گیا مری بات بیچ میں رہ گئی
اٹھا اپنی بات بتا کے وہ، گیا اپنا درد سنا کے وہ
میں تو رہ گیا اسے روکتا مری بات بیچ میں رہ گئی
کبھی لے کے جب بھی چراغ مَیں، گیا، اپنا بزمِ ایاغ میں
مجھے دل کا داغ دکھا دیا مری بات بیچ میں رہ گئی
کہا میں نے درد سناؤں کیا تجھے دل کا راز بتاؤں کیا
سنی بات میری تو ہنس پڑا مری بات بیچ میں رہ گئی
کہا مدعا، وہ ہنسا، پہ کیوں، سبب اس سے پوچھتا، راہ میں
وہ ملا تو کب مجھے ہوش تھا مری بات بیچ…

مزید پڑھیں

غزل – بتول فروری ۲۰۲۳

یہ کیا کہ سچی رفاقتوں کی گھنیری چھاؤں کو ڈھونڈتے ہو
ہرے بھرے کھیت بستیوں میں بدل کے گاؤں کو ڈھونڈتے ہو
اندھیرے گھر میں گری ہوئی سوئی ڈھونڈنا جب نہیں ہے ممکن
تو کیوں یہ پھیلائی جھوٹی باتوں کے ہاتھ پاؤں کو ڈھونڈتے ہو
کسی کے آنچل نہیں ہیں محفوظ گر سروں پر تمہارے ہاتھوں
تو کس بنا پر تم اپنے گھر کے لیے رداؤں کو ڈھونڈتے ہو
یہ نیک لوگوں کی بستیاں ہیں یہاں بنے گا مذاق ہر سو
تمہای سادہ دلی کا یارو جو ہمنواؤں کو ڈھونڈتے ہو
بتاؤ کیا اس زمیں کے تم پر تمام در بند ہو چکے ہیں
تلاش کرنے نئے ٹھکانے جو تم خلاؤں کو ڈھونڈتے ہو
نہ کوئی کنکر نہ اینٹ پتھر کسی نے مارا نہ روکا ٹوکا
تو اجنبی شہر میں بھلا تم کن آشناؤں کو ڈھونڈتے ہو
بہت پکارا تڑپ تڑپ کر پلٹ کے دیکھا نہیں تھا اب کیوں
زمین گنبد نہیں ہے جو تم مری صداؤں کو ڈھونڈتے ہو
نہیں تھا یاں آشنا ہی کوئی تو چاہیے کس کی راکھ، جو یوں
تڑپ کے مرگھٹ میں ہر طرف تم جلی چتاؤں کو ڈھونڈتے ہو
کرو بھی احسان اور احسان کرکے ہر دم جتاتے رہنا
ہے ایسا جیسے جزاؤں میں تم کڑی سزاؤں کو ڈھونڈتے ہو
وہ جھوٹے وعدے، وہ بے وفائی، وہ فرقتوں کی سیاہ راتیں
عجیب ہو…

مزید پڑھیں

غزل – بتول جنوری ۲۰۲۳

اپنے سینے سے لگالے مجھے اکمل کر دے
ماں میں انسانِ مجمل ہوں مفصل کردے
اے مرے ابر معاصی تو مری آنکھوں سے
ٹوٹ کر اتنا برس روح کو جل تھل کردے
تیرا یک ٹک مجھے یوں دیکھتے جانا جاناں
مجھ سے پاگل کو کہیں اور نہ پاگل کردے
خوف آتا ہے ترا قرب یہ لمحے بھر کا
زندگی بھر نہ مری روح کو بے کل کردے
اپنی آنکھوں میں سجانے کو دکھا کر جلوہ
تو مجھے طور بنادے مجھے کاجل کردے
وہ مرا ہے، وہ نہیں، اور کا، اِس کا، اُس کا
یہ تردد نہ مری سوچ کے پر شل کردے
تو جو چاہے تو مری روح کے اندر بس کر
لاکھ برسوں کے برابر مرا پل پل کردے
کام چلتا ہے کبھی یار فقط دعووں سے
عمر بھر ساتھ مرا، ساتھ ذرا چل کر دے
انتہائیں ہیں اگر راس تو اللہ میرے
موجِ دریا سا بنا دے یا مجھے تھل کر دے
میں گنہ گار ہوں واللہ مگر رحمت سے
مجھ کو سر مست بنادے مجھے سچل کردے
پھینک کر یاد کی جھیلوں میں حبیبؔ اک کنکر
ایک طوفان اٹھا دے کوئی ہلچل کردے

مزید پڑھیں

بے مہرکورونا – بتول مارچ ۲۰۲۲

سچ ہی کہتے ہیں کہ جب تک کسی بھی قسم کی آزمائش خود پر نہ پڑے اس وقت تک اس کی شدت یا خوفناکیت کا اندازہ ہونا ممکن نہیں۔ ایسا ہی کچھ میرے ساتھ ہؤا۔ یہ بھی نہیں کہ کوویڈ 19 کی تباہ کاریوں سے میں بالکل ہی بے خبر تھا یا معاشرے میں گھومنے پھرنے والے دیگر افراد کی طرح ان تمام احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنا جن کی ہدایات بار بار ذمہ دار محکموں کی جانب سے جاری کی جارہی تھیں، اجتناب کر رہا تھا۔ شاید ہی کبھی ایسا ہؤا ہو کہ میں نے گھر سے باہر ایسی حالت میں قدم باہر رکھا ہو کہ میرے چہرے پر ماسک نہ ہو یا میں بلا ضرورت گھر سے باہر نکلا ہوں۔ نماز پڑھنے کے لیے بھی صرف اور صرف ایسی مساجد میں جایا کرتا تھا جہاں حکومتی ہدایات کے مطابق نماز ادا کی جاتی تھی۔ بازاروں میں تو آناجانا بالکل ہی بند کر دیا تھا۔ محلے میں بھی اگر کسی ایسے اجنبی کو آتا جاتا دیکھتا جس سے شناسائی نہ ہو تو گھر کے اندر لوٹ آتا تھا۔ اکثر افراد کہا کرتے تھے کہ کورونا جیسی بیماری کا شور محض ایک ڈراوا ہے تو میں ان کو پاکستان اور…

مزید پڑھیں

غزل – بتول مارچ ۲۰۲۳

غزل
اندر کا غم کہہ ڈالے تو
گر چشمِ نم کہہ ڈالے تو
تنگ آکر جو مرضی کر لو
زیادہ سے کم کہہ ڈالے تو
وہ بھی اک دن اچھا جاؤ
ہو کر برہم کہہ ڈالے تو
زخمِ دل، ہونٹوں کا اپنے
رکھ دے مرہم کہہ ڈالے تو
چپ ہوں پر آنکھوں کا بادل
دل کا موسم کہہ ڈالے تو
وہ اب تک تو میں ہے لیکن
اک دن گر ہم کہہ ڈالے تو
جھوٹی برکھا گر وہ تجھ سے
برسو چھم چھم کہہ ڈالے تو
کیا گزرے محرابوں پر کچھ
زلفوں کا خم کہہ ڈالے تو
کیا ہے کوئی قوسِ قزح کو
سُر کا سَرگم کہہ ڈالے تو
کوئی، عجب کیا ان آنکھوں کو
جاموں کا جم کہہ ڈالے تو
مٹی پانی، بارش، کوئی
پی جا تھم تھم کہہ ڈالے تو
کیوں آنکھوں کا کاجل پھیلا
زلفِ برہم کہہ ڈالے تو
تم بھی سکھیوں میں ہو، آ کر
ہم سے پونم کہہ ڈالے تو
حبیب الرحمٰن

 

 
غزل
کچھ اس طرح سے تمہیں پُر وقار کرنا تھا
تمہارا عشق ہی سر پر سوار کرنا تھا
تمام رات ہی اپنی تلاشی لینا پڑی
توُ گمشدہ تھا تجھے بازیاب کرنا تھا
میں تیرے درد ہی بازار میں سجا لایا
اسی نگر میں ہمیں کاروبار کرنا تھا
وہ کہہ رہا تھا محبت بھی نقد سودا ہے
میں لُٹ چکا تھا مجھے تو اُدھار کرنا تھا
نگاہِ یار سے موسم چُرا کے لایا ہوں
لُٹی بہار نے پھر سوگوار کرنا تھا
تم ایک…

مزید پڑھیں

اوت نپوتے – بتول جولائی۲۰۲۲

میں ملک کے سب سے بڑے شہر کے سب سے بلند ٹاور کی نویں منزل کے ایک اپارٹمنٹ کا مالک تھا۔ اپارٹمنٹ اور اپنی زمین اپنا گھر کا مقابلہ تو نہیں لیکن جو بھی آتا وہ یہی کہتا کہ بے شک آپ ایک فلیٹ میں رہتے ہیں لیکن یقین مانیں فلیٹ میں آنے کے بعد یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ کوئی فلیٹ ہوگا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ اپارٹمنٹ کی ڈیزائیننگ کی ہی کچھ اس انداز میں گئی تھی جیسے کوئی مکان ہو۔ ہر فلیٹ کارنر فلیٹ تھا اور اس کے دو ٹیرسوں میں سے ایک ٹیرس کو چھوٹے سے باغیچے کی شکل دے کر ایک عجب سا منظر دے دیا گیا تھا۔ شہر کی سب سے بڑی شاہراہ پر ایسی کئی عمارتیں تھیں لیکن ان میں سے کسی کو بھی ایسی انفرادیت حاصل نہیں تھی۔ میرا مناسب سا کار و بار تھا اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی تھی اس سے مناسب آمدنی ہوا کرتی تھی۔ کار و بار کا یہ سلسلہ پشتنی تھا۔ میرے والد صاحب میرے دادا کے اکلوتے تھے اور اکلوتے ہونے کا سلسلہ پردادا سے بھی پہلے کا تھا۔ میں بھی اپنے والد کی اکلوتی اولاد تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہر آنے…

مزید پڑھیں

مولانا مودودی ؒ کی شخصیت کے چند پہلو – بتول دسمبر۲۰۲۲

شروع شروع جب پاکستان میں کمپیوٹر اتنا عام ہونے لگا کہ گھروں کے دروازوں پر اس کی دستک سنائی دینے لگی تو مجھے اس بات کی تو بے حد خوشی ہوئی کہ اس میں نہ صرف ہر فرد کے مزاج کے مطابق بہت کچھ دیکھنے، سننے اور پڑھنے کے بصارتی، صوتی اور تحریری لوازمات موجود ہیں بلکہ ہر قسم کی تحریریں، کتابیں، اخبارات اور رسائل بھی ہیں جن کو دیکھ کر، سن کر اور مطالعہ کرکے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن دکھ اس بات کا ہؤا کہ اردو کے زبان و ادب سے تعلق جوڑنے والے بہت بڑے بڑے ذخیرے دور دور تک دکھائی نہیں دیا کرتے تھے۔ اب اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہر قسم کی علمی معلومات مکڑی کی اس جالے، جس کو ویب سائٹ اور انٹر نیٹ کے نام سے پکارا جاتا ہے،میں دیکھی، سنی اور پڑھی جا سکتی ہیں۔ بے شک اب بھی کسی بھی قسم کے اردو ادب کا تمام تر ذخیرہ تو موجود نہیں لیکن پھر بھی لائقِ ستائش ہیں وہ لوگ جو اردو کے علمی ذخیرے کو جدید دور کے مکڑی کے جالے میں محفوظ کرنے میں رات دن کوشاں ہیں اور اگر ان کی کوششیں بنا تکان جاری…

مزید پڑھیں

غزل – بتول اپریل ۲۰۲۳

میں ظلمتوں سے بغاوت میں مارا جاؤں گا
اے روشنی تری چاہت میں مارا جاؤں گا
جہالتوں کی نحوست مجھے نگل لے گی
میں زعم فہم و فراست میں مارا جاؤں گا
میں بچ گیا بھی اگر ظالموں کے چنگل سے
تو منصفوں کی عدالت میں مارا جاؤں گا
میں سر بچا کے عدو سے اگر نکل بھاگا
تو ساری عمر، ندامت میں مارا جاؤں گا
جو آ گئی تو کوئی بھی نہیں ٹلا سکتا
ہر ایک حال میں صورت میں مارا جاؤں گا
تھی رہبروں سے شکایت، نہ تھی خبر مجھ کو
میں آج اپنی قیادت میں مارا جاؤں گا
خدا کا حکم اگر ہوں تو کیسے سمجھاؤ
میں مر گیا تو حقیقت میں مارا جاؤں گا
عدو سے پھر بھی ہے امید میں مرا جب بھی
تو دوستوں کی معیت میں مارا جاؤں گا
خدا پہاڑ سی دولت بھی گر مجھے دے دے
میں اور اور کی چاہت میں مارا جاؤں گا
جہاں میں چرب زبانی کے فن نے گر مجھ کو
بچا لیا تو قیامت میں مارا جاؤں گا
میں جب بھی مارا گیا دوستوں کے ہاتھوں سے
حبیبؔ انھیں کی محبت میں مارا جاؤں گا

مزید پڑھیں

غزل- بتول مئی ۲۰۲۳

اخلاص و محبت سا وہ پیکر نہ ملے گا
باہر سے ہے جیسا مرا اندر نہ ملے گا
حق گوئی پہ سر کاٹنا ہے کاٹ دو لیکن
تم کو مری آنکھوں میں کوئی ڈر نہ ملے گا
پا کر نہ تجھے جیتے جی مر جاؤںگا، میرا
گر تیرے مقدر سے مقدر نہ ملے گا
ہاں سرمہ لگی آنکھ سا دو رنگ کا موتی
جز اشکِ بتاں ایک بھی گوہر نہ ملے گا
یوں چاہنے والے تجھے مل جائیں گے لیکن
کوئی بھی مرے قد کے برابر نہ ملے گا
ہو جس میں پیاسوں کے لیے دریا دلی بھی
دنیا میں کوئی ایسا سمندر نہ ملے گا
جھک جائے گا ظالم جو ترے جبر سے ڈر کر
شانوں پہ مرے ایسا تجھے سر نہ ملے گا
سکہ، کوئی سونے کا نہ چاندی کا ہوں، مجھ میں
ہاں کھوٹ تجھے ذرہ برابر نہ ملے گا
ہر اک کو سبق رہ سے بھٹک جانے کا لیکن
مل جائے گا کھائے بنا ٹھوکر نہ ملےگا
وہ چاہے تو قارون سے بڑھ کر ہمیں دے دے
ورنہ کسی چوکھٹ سے بھی چوکر نہ ملے گا
واللہ حبیبؔ ہاں یہ ترے در کا بھکاری
اک تیرے سوائے کسی در پر نہ ملے گا

مزید پڑھیں

غزل – بتول جون ۲۰۲۳

بس بہت ہو گیا اپنے دل میں ذرا الفتوں چاہتوں کو جگہ دیجیے
مدتوں سے جما نفرتوں کا غبار اپنے ذہن و نظر سے اڑا دیجیے
ظلمتِ شب سے شکوہ بجا آپ کا پھر بھی لازم ہے یہ روشنی کے لیے
ہو سکے اپنے خونِ جگر سے کوئی اک دیا راستے میں جلا دیجیے
مر چکے ہیں اگر دل تو غم کس لئے ان کو زندہ کریں حشر برپا کریں
صور اک پھونک دیں ہر طرف اور پھر ہر قدم پر قیامت اٹھا دیجیے
آپ بیشک نہیں راہبر مہرباں رہنما ہی سہی، راہ میں جو کئی
لے کے جائے جو منزل کی جانب مجھے ان میں وہ راستہ تو بتا دیجیے
دشمنوں کی نہ باتوں میں آپ آئیے شک نہیں کیجئے میرے اخلاص پر
میں نہیں بے وفا بے وفائی کروں پھر جو دل چاہے مجھ کو سزا دیجیے
منزلیں دور ہیں اور رستہ کٹھن ،کوئی تو لے مرے ہاتھ کو ہاتھ میں
سن کے میں نے بڑے عزم و امید سے کان میں اس کے جاکر کہا دیجیے
تھا مرے زیبِ تن ریشمی پیرہن ،تھے سبھی جو مرے دائیں بھی بائیں بھی
اب کڑے وقت میں کس سے جاکر کہوں مجھ کو ان دوستوں کا پتا دیجیے
اس کا وعدہ تھا جیسے فسانہ کوئی اور دعویٰ کہانی کا عنوان سا
آپ بھی زیرِ لب…

مزید پڑھیں

غزل – حبیب الرحمٰن

نہ ہم نے کھلتے گلاب دیکھے نظر نہ شکلِ ببول آئی
عجیب منزل تھی جس کی راہوں میں گرد دیکھی نہ دھول آئی
لکھے تھے قسمت میں اس کی شاید نشاط کے صرف چند جھولے
وگرنہ خواہش درختِ جاں کی تمام شاخوں پہ جھول آئی
جو چند اچھے سمے مقدر سے میری جھولی میں آ گرے تھے
انھیں بھی ظالم یہ دشمنِ جان موت جا کر وصول آئی
یہ سچ ہے میں زندگی کے ہاتھوں کئی برس پہلے مر چکا تھا
اے موت اب میری جان لینے تو آئی ہے تو فضول آئی
جو شرک و تثلیث و بت پرستی کی رد میں اخلاص میں اتاری
اُس آیتِ لم یلد کی لوگو سمجھ میں وجہِ نزول آئی
نہیں تھا جب میری آنکھوں، چہرے، جبیں پہ غم کا کوئی تاثر
تو پھر کوئی آہ میرے اندر سے ہو کے کیسے ملول آئی
مجھے تو لگتا ہے زندگی بھی فقط کوئی ایک دائرہ ہے
دنوں میں جس کے نہ عرض دیکھے نہ کوئی شب مثلِ طول آئی
عجب ہے بے کیفیت کا عالم میں ہوکے بھی جیسے میں نہیں ہوں
خدارا اے زندگی مجھے تو بتا کہاں جا کے بھول آئی

مزید پڑھیں

غزل – حبیب الرحمٰن

ہم چلو دودھ کے جلے ہوئے ہیں
آپ کیوں چھاچھ سے ڈرے ہوئے ہیں
جاگتی ہی نہیں ہے شرم و حیا
لوگ چکنے گھڑے بنے ہوئے ہیں
چین سے وہ نہ جی سکیں گے کبھی
تیری باتوں کے جو ڈسے ہوئے ہیں
آپ سے ہم ہی شکوہ سنج نہیں
آپ بھی تو بہت بھرے ہوئے ہیں
کامیابی بہت بڑی ہے مگر
امتحاں بھی بڑے کڑے ہوئے ہیں
اجنبی کب ہیں ایک ساتھ ترے
کھیلتے کودتے بڑے ہوئے ہیں
کیا عجب دور آ گیا ہے کہ اب
کھوٹے سکے بھی سب کھرے ہوئے ہیں
فتح حاصل ہوئی ہے جب بھی کبھی
ایک پرچم کے ہم تلے ہوئے ہیں
سب کی سب سے یہاں ٹھنی ہوئی ہے
اپنی اپنی پہ سب اڑے ہوئے ہیں
کچھ بتائیں ہمیں خدا کے لیے
روٹھ بیٹھے ہیں یا بنے ہوئے ہیں
تیر و تیغ و تبر کی چھاؤں کہاں
ہم درختوں تلے پلے ہوئے ہیں
پار اتریں گے کیا ہے ڈر کہ اگر
کچی مٹی سے ہم گھڑے ہوئے ہیں
سچ بتائیں کہ کیا عدو کے لیے
ہم کبھی لوہے کے چنے ہوئے ہیں
آپ نے جتنے، آپ سے وہ دیے
جو جلائے تھے، سب جلے ہوئے ہیں
وقت پر تجھ کو سارے چھوڑ گئے
دیکھ ہم آج بھی ڈٹے ہوئے ہیں
بات کیا ہے حبیبؔ آپ سے وہ
کچھ دنوں سے کھنچے کھنچے ہوئے ہیں

مزید پڑھیں

غزل

غزل
نہیں ہے بیری تو کیوں مرے گھر برس رہے ہیں
سبب تو ہوگا جو اتنے پتھر برس رہے ہیں
خطاؤں کے داغ سب دھلیں گے جو آنسوؤں کے
اگر یہ بادل جو دل کے اندر برس رہے ہیں
بجھے گی کس طرح پیاس دھرتی کی میری یارو
جو سارے بادل سمندروں پر برس رہے ہیں
بشر میں شر ہے تو کیوں یہ پتھر ملامتوں کے
ہر اک طرف سے مرے ہی سر پر برس رہے ہیں
جو کوئی بولا ہمیں بھی حق دو تو حاکموں کے
انھیں پہ غیظ و غضب کے خنجر برس رہے ہیں
تجھے خبر ہے جہاں بھی ظلمت کی کھیتیاں ہیں
انھیں پہ کیوں تیرے بادل آ کر برس رہے ہیں
جہاں بھی قانونِ عدل و انصاف حکمراں ہے
انھیں زمینوں پہ لعل و گوہر برس رہے ہیں
جو ظلمتوں کے مقابلے پر ڈٹے ہوئے ہیں
انھیں پہ ابرِ ستم برابر برس رہے ہیں
جو چاہتے ہیں جہاں میں ظلمت کا خاتمہ ہو
انھیں پہ تاریکیوں کے لشکر برس رہے ہیں
حبیبؔ ہمارے سوا قفس میں کہیں ہیں زندہ
دکھائیں ہم کو بھی جو پچھتر برس رہے ہیں

مزید پڑھیں

غزل – حبیب الرحمٰن

وہ جو ماں کے تلخ سے تند سے مجھے چھٹ پنے میں رلا گئے
وہی لہجے ڈانٹ کے پِیٹ کے مری زندگی کو بنا گئے
مرے سب گناہ مٹا گئے، ترا آسمان ہلا گئے
مرے نالے تیری جناب میں عجب ایک حشر اٹھا گئے
نہ وہ چہرہ اب ہے گلاب سا نہ رہا ہوں مثلِ شہاب سا
وہ جو دن تھے ہجر و فراق کے مرے رنگ روپ کو کھا گئے
وہ جو بت تھے ریت کے راکھ کے وہ تو دودھ تھے کسی آکھ کے
نہ تھے اہل عزت و ساکھ کے جنھیں ہم سے جانے خدا گئے
وہ جو روز و شب تھے وصال کے وہ جو روز و شب تھے فراق کے
کبھی یاد آکے رلا گئے کبھی یاد آ کے ہنسا گئے
وہ جو اٹھے لے کے کتاب کو بنا حرص اجر و ثواب کو
کیے ترک چنگ و رباب کو وہی اس جہان پہ چھا گئے
وہ جو ظلمتوں سے جہاد میں کبھی اپنے خوں سے جلائے تھے
یہ و ہی تو گھر کے چراغ ہیں جو مرے ہی گھر کو جلا گئے
میں تو اب بھی ان کا غلام ہوں، میں غلام ابنِ غلام ہوں
وہ عجب تھے لوگ سفید سے مرا خوں سفید بنا گئے
کبھی نیم شب کی دعاؤں میں جو گرے خطا کی چتاؤں میں
وہی چند اشک…

مزید پڑھیں

غزل – حبیب الرحمٰن

سر کی یہ آگ پیروں تک آنی ہے اور بس
اتنی سی شمع تیری کہانی ہے اور بس
پھر دیکھیے وہ جوش وہ جذبہ عوام کا
جھوٹی امید ان کو دلانی ہے اور بس
نفرت کی وہ مچے گی قیامت ہر ایک سے
ایک ایک کی ہزار لگانی ہے اور بس
ہاں آج تک اسی کی سزا کاٹتا ہوں میں
آنکھیں ہیں اور ان آنکھوں میں پانی ہے اور بس
کُل زندگی، بڑھاپا و بچپن کے درمیاں
اک مختصر سا دورِ جوانی ہے اور بس
تم کیا ہو، کس لیے ہو، کہاں لوٹ جاؤ گے
اتنی سی بات سب کو بتانی ہے اور بس
بھولا ہے مان لے گا کہاں دیر ہو گئی
گھر جاکے کوئی بات بنانی ہے اور بس
پھر دیکھیے گا رات کی سیماب پائیاں
ہر دل میں ایک جوت جگانی ہے اور بس
اُس کے حبیبؔ سارے فسانے حقیقتیں
لیکن مری کہانی کہانی ہے اور بس

مزید پڑھیں

غزل – حبیب الرحمٰن

کسی کو نرم بنا ئے کسی کو سخت کرے
سلوک آگ ہر اک شے کے حسبِ بخت کرے
جو کذب و جھوٹ کا تکیہ سفیرِ رخت کرے
وہ سچ پہ کیسے بھلا اپنی مہر ثبت کرے
یہ کس کے لمس کی تاثیر تھی کہ سوکھا ہؤا
اکھاڑ دینے پر آہ و بکا درخت کرے
امیر شہر کا حق فقط، اُسے مارو
غریب شہر جو لہجہ کبھی کرخت کرے
غلام نے جو کیا رحم ایک ماں پہ، کہا
خدا صلے میں عطا تجھ کو تاج و تخت کرے
کہے، نہیں ہے مساوات یاں، جو اس سے کہو
وہ اور ہی نہیں جینے کا بندوبست کرے
یہ بالا دست کا حق ہے فقط، اٹھاؤ اسے
کوئی جو رائے کا اظہار زیرِ دست کرے
گو انقلاب یہاں پر بہت ضروری سہی
مگر یہ کام کوئی کیسے ابنِ وقت کرے
جو پست پست ہے اور جو بھی ہے بلند تو بس
کوئی نہ بحث یہاں پر بلند و پست کرے
ہے فرق کیا کسی اپنے میں غیر میں وہ ذرا
بیاں جو ہم سے کبھی اپنی سر گزشت کرے
کہاں کا صبر کہ وہ ہے بہت حریصِ جزا
سو اتنا حوصلہ کیسے خدا پرست کرے
ہے سخت کاذب و مخبوطِ ہوش و عقل و خرد
ترے سوا جو کوئی دعوئے الست کرے
حبیبؔ دل میں کسی سے بھی دوریاں نہ رہیں
اگر حساب ہر ایک اپنا بود و ہست…

مزید پڑھیں

غزل – حبیبؔ الرحمٰن

اے کاش جرمِ معاصی پہ اتنا رولوں میں
جو داغ دامنِ دل پر لگے ہیں دھولوں میں
تمام عمر ہی گزری اسی کشاکش میں
وہ پہلے پہل کرےگاکہ پہلے بولوں میں
کسی کے دل کو کوئی ٹھیس کیسے پہنچے گی
ہر ایک بات جو کہنے سے پہلے تولوں میں
اک اور رنگ کی دنیا ہو سامنے، آنکھیں
جو بند کرکے کبھی دل کی آنکھیں کھولوں میں
سبب ہے کیا سبھی مجھ سے کھچے کھچے کیوں ہیں
کبھی اکیلے میں خود کو ذرا ٹٹولوں میں
نہ کٹ سکیں گے اکیلے یہ عمر کے رستے
نہ دے جو ساتھ کوئی، ساتھ اپنے ہولوں میں
میں جھوٹ، جھوٹ کو اور سچ کو سچ ہی کہہ کہہ کر
کیوں زندگی کے فسانے میں زہر گھولوں میں
جہاں بھی سچ پہ زبانوں کو کاٹا جاتا ہو
وہیں تو فرض ہے مجھ پر کہ سچ ہی بولوں میں
جو اہلِ بیت سے نسبت اگر نہ ہو مجھ کو
تو شہرِ علم کا دروازہ کیسے کھولوں میں
جو شب گزار کے لوٹا ہو، گھر کا دروازہ
تو ایسے صبح کے بھولے پہ کیسے کھولوں میں
کبھی لگے نہ زمانے کی بد نظر، سر سے
حبیب بڑھ کے تمہارے بلائیں تو لوں میں

مزید پڑھیں

غزل- بتول جون ۲۰۲۱

غزل
مسئلہ کوئی بھی ہو حل بڑے آرام سے ہو
کام ہر فرد کو اپنے ہی اگر کام سے ہو
تذکرہ تیری جفاؤں کا بھی لازم ٹھہرا
غم کے ماروں کو دلاسہ مرے انجام سے ہو
عقل ہر درد کا احساس کہاں کرتی ہے
روح انجان اگر اپنے ہی اندام سے ہو
ضبط ایسا ہے کہ ہر صبح فراموش کروں
حوصلہ یہ ہے کہ ہر شام ترے نام سے ہو
بات کرتے ہیں بہت سوچ سمجھ کر جیسے
رابطہ اُن کے خیالات کا الہام سے ہو
(اسامہ ضیاء بسمل)
 
غزل
ہو وقت کڑا ڈھال بھی تلوار بھی ہم ہیں
ٹل جائے تو دہشت گر و غدار بھی ہم ہیں
جب دیس پکارے تو ہتھیلی پہ رکھیں سر
اور لائقِ تعزیر و سزاوار بھی ہم ہیں
موقع ہو تو چھوڑیں کوئی مردار نہ زندہ
کہنے کو بڑے صاحبِ کردار بھی ہم ہیں
ہے جس میں مہک آج بھی پُرکھوں کے لہو کی
اس گھر کے شکستہ در و دیوار بھی ہم ہیں
یاروں کیلئے ریشم و کمخاب ہیں لیکن
دشمن کیلئے حیدرِ کرار بھی ہم ہیں
اے آسماں اب تیری ضرورت ہی رہی کیا
اپنے ہی اگر در پئے آزار بھی ہم ہیں
اب عشق مفادات کا تابع ہوا یعنی
اقرار بھی ہم ہیں کبھی انکار بھی ہم ہیں
ہے سلطنت کون و مکاں اپنی اسی کے
ہم تخت بھی ہم تاج بھی دربار بھی ہم ہیں
جرأت ہے کسی…

مزید پڑھیں

غزل-بتول جنوری ۲۰۲۱

دل سے ہر شک نکالیے صاحب
اب نہ شجرے کھنگالیے صاحب
چاند کا دل دھڑک رہا ہوگا
اپنا آنچل سنبھالیے صاحب
اک ذرا سی زبان نے کتنے
دوست دشمن بنا لیے صاحب
تم بھی اپنی کمر کو کس رکھو
ہم نے لنگر اٹھالیے صاحب
کتنے کلیوں سے پھول چہروں کے
وقت نے، رنگ کھالیے صاحب
خون کیوں آنکھ میں اتر آیا
شک کو دل سے نکالیے صاحب
بعد مدت ملیں کفِ افسوس
وقت اتنا نہ ٹالیے صاحب
ایک ہم کیا، عطا ہوئے لمحے
کس نے کتنے بچالیے صاحب
آپ ہی کچھ کہیں کہ اس دل کو
کتنے سانچوں میں ڈھالیے صاحب
کب پلٹ جائیں دن، کسی سر کی
پگڑیاں مت اچھالیے صاحب
جلوہ گر آج حبیبؔ ہوتے ہیں
اپنی آنکھیں سنبھالیے صاحب

مزید پڑھیں

ہمارا جسم اور اللہ کی نعمتیں- بتول جون ۲۰۲۱

پس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے
جب کوئی انسان پیدا ہوتا ہے تو فطرت کی جانب سے اس کے دماغ میں ہزاروں لاکھوں ’’سافٹ ویئر‘‘ ڈال دیے جاتے ہیں جو اس کی عمر کے ساتھ ساتھ دنیا میں پیش آنے والی ضرورتوں کے مطابق اجاگر سے اجاگر تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ابتداً اسے یہ شعور دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی غذا کیسے اور کہاں سے حاصل کرے گا اور اپنی راحتوں اور مشکلات کا اظہار کیسے کرے گا۔
کوئی بھی بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے منہ میں دانت نہیں ہوتے۔ اگر بچے کو دانت پیدائشی طور پر عطا کر دیے جاتے تو ماؤں کا براہِ راست انھیں دودھ پلانا کسی طور ممکن ہی نہ ہو پاتا۔
عمر کے ساتھ ساتھ شعور بھی پختگی اختیار کرتا جاتا ہے اور دانت بھی ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں لیکن دودھ پلانے کا عمل ابھی باقی رہتا ہے۔ اس دوران ماؤں کو یقیناً دقت اٹھانا پڑتی ہے لیکن ایک جانب بچہ ہلکی پھلکی ڈانٹ کا مطلب سمجھنے لگتا ہے تو دوسری جانب اسے کسی کو اذیت یا راحت پہنچانے کی بھی پہچان ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے ماؤں کی پریشانی نہایت عارضی ثابت ہوتی…

مزید پڑھیں