غزل – بتول فروری ۲۰۲۱
غزل پھر سے اچھے بن جاتے ہیں ہم بچہ سے بن جاتے ہیں کیا محفل وہ جس محفل میں جھوٹے سچے بن جاتے ہیں سیدھے
غزل پھر سے اچھے بن جاتے ہیں ہم بچہ سے بن جاتے ہیں کیا محفل وہ جس محفل میں جھوٹے سچے بن جاتے ہیں سیدھے
دو گھروں کے درمیان بے شک مجبوریوں کی دیواریں حائل تھیں لیکن اتنی اونچی بھی نہیں ہو گئی تھیں کہ کسی سہارے کھڑا ہو کر
میں ڈھاکہ میں رہنے والی نہایت معمولی شکل و صورت کی ایک غریب لڑکی تھی۔ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد۔ والد نسلی فسادات کی نظر
جو یونہی روٹھ گئے ہوں انھیں منائیں کیا نہ چاہتے ہوں اگر دل سے مسکرائیں کیا ہمارے دل میں تمہارے سوا نہیں پہ یہ دل
غزل ہنس کے طوفاں کو ٹالتے رہیے رنگ ہر سو اُچھالتے رہیے اپنے دل کے حسین جذبوں کو لفظ و معنی میں ڈھالتے رہیے زیست
یہ کیا کہ سچی رفاقتوں کی گھنیری چھاؤں کو ڈھونڈتے ہو ہرے بھرے کھیت بستیوں میں بدل کے گاؤں کو ڈھونڈتے ہو اندھیرے گھر میں
اپنے سینے سے لگالے مجھے اکمل کر دے ماں میں انسانِ مجمل ہوں مفصل کردے اے مرے ابر معاصی تو مری آنکھوں سے ٹوٹ کر
سچ ہی کہتے ہیں کہ جب تک کسی بھی قسم کی آزمائش خود پر نہ پڑے اس وقت تک اس کی شدت یا خوفناکیت کا
غزل اندر کا غم کہہ ڈالے تو گر چشمِ نم کہہ ڈالے تو تنگ آکر جو مرضی کر لو زیادہ سے کم کہہ ڈالے تو
میں ملک کے سب سے بڑے شہر کے سب سے بلند ٹاور کی نویں منزل کے ایک اپارٹمنٹ کا مالک تھا۔ اپارٹمنٹ اور اپنی زمین
شروع شروع جب پاکستان میں کمپیوٹر اتنا عام ہونے لگا کہ گھروں کے دروازوں پر اس کی دستک سنائی دینے لگی تو مجھے اس بات
میں ظلمتوں سے بغاوت میں مارا جاؤں گا اے روشنی تری چاہت میں مارا جاؤں گا جہالتوں کی نحوست مجھے نگل لے گی میں زعم
اخلاص و محبت سا وہ پیکر نہ ملے گا باہر سے ہے جیسا مرا اندر نہ ملے گا حق گوئی پہ سر کاٹنا ہے کاٹ
بس بہت ہو گیا اپنے دل میں ذرا الفتوں چاہتوں کو جگہ دیجیے مدتوں سے جما نفرتوں کا غبار اپنے ذہن و نظر سے اڑا
This Content Is Only For Subscribers Please subscribe to unlock this content. I consent to processing of my data according to Terms of Use
This Content Is Only For Subscribers Please subscribe to unlock this content. I consent to processing of my data according to Terms of Use
This Content Is Only For Subscribers Please subscribe to unlock this content. I consent to processing of my data according to Terms of Use
This Content Is Only For Subscribers Please subscribe to unlock this content. I consent to processing of my data according to Terms of Use
This Content Is Only For Subscribers Please subscribe to unlock this content. I consent to processing of my data according to Terms of Use
This Content Is Only For Subscribers Please subscribe to unlock this content. I consent to processing of my data according to Terms of Use
This Content Is Only For Subscribers Please subscribe to unlock this content. I consent to processing of my data according to Terms of Use
غزل مسئلہ کوئی بھی ہو حل بڑے آرام سے ہو کام ہر فرد کو اپنے ہی اگر کام سے ہو تذکرہ تیری جفاؤں کا بھی
دل سے ہر شک نکالیے صاحب اب نہ شجرے کھنگالیے صاحب چاند کا دل دھڑک رہا ہوگا اپنا آنچل سنبھالیے صاحب اک ذرا سی زبان
پس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے جب کوئی انسان پیدا ہوتا ہے تو فطرت کی جانب سے اس کے دماغ