غزل- بتول مئی ۲۰۲۳
اخلاص و محبت سا وہ پیکر نہ ملے گا باہر سے ہے جیسا مرا اندر نہ ملے گا حق گوئی پہ سر کاٹنا ہے کاٹ
اخلاص و محبت سا وہ پیکر نہ ملے گا باہر سے ہے جیسا مرا اندر نہ ملے گا حق گوئی پہ سر کاٹنا ہے کاٹ
میں ظلمتوں سے بغاوت میں مارا جاؤں گا اے روشنی تری چاہت میں مارا جاؤں گا جہالتوں کی نحوست مجھے نگل لے گی میں زعم
شروع شروع جب پاکستان میں کمپیوٹر اتنا عام ہونے لگا کہ گھروں کے دروازوں پر اس کی دستک سنائی دینے لگی تو مجھے اس بات
میں ملک کے سب سے بڑے شہر کے سب سے بلند ٹاور کی نویں منزل کے ایک اپارٹمنٹ کا مالک تھا۔ اپارٹمنٹ اور اپنی زمین
سچ ہی کہتے ہیں کہ جب تک کسی بھی قسم کی آزمائش خود پر نہ پڑے اس وقت تک اس کی شدت یا خوفناکیت کا
غزل اندر کا غم کہہ ڈالے تو گر چشمِ نم کہہ ڈالے تو تنگ آکر جو مرضی کر لو زیادہ سے کم کہہ ڈالے تو
اپنے سینے سے لگالے مجھے اکمل کر دے ماں میں انسانِ مجمل ہوں مفصل کردے اے مرے ابر معاصی تو مری آنکھوں سے ٹوٹ کر
یہ کیا کہ سچی رفاقتوں کی گھنیری چھاؤں کو ڈھونڈتے ہو ہرے بھرے کھیت بستیوں میں بدل کے گاؤں کو ڈھونڈتے ہو اندھیرے گھر میں
غزل ہنس کے طوفاں کو ٹالتے رہیے رنگ ہر سو اُچھالتے رہیے اپنے دل کے حسین جذبوں کو لفظ و معنی میں ڈھالتے رہیے زیست
جو یونہی روٹھ گئے ہوں انھیں منائیں کیا نہ چاہتے ہوں اگر دل سے مسکرائیں کیا ہمارے دل میں تمہارے سوا نہیں پہ یہ دل
ادارہ بتول کے تحت شائع ہونے والی تمام تحریریں طبع زاد اور اورجنل ہوتی ہیں۔ ان کو کہیں بھی دوبارہ شائع یا شیئر کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ساتھ کتاب اور پبلشر/ رسالے کے متعلقہ شمارے اور لکھنے والے کے نام کا حوالہ واضح طور پر موجود ہو۔ حوالے کے بغیر یا کسی اور نام سے نقل کرنے کی صورت میں ادارے کو قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہو گا۔
ادارہ بتول (ٹرسٹ) کے اغراض و مقاصد کتابوں ، کتابچوں اور رسالوں کی شکل میں تعلیمی و ادبی مواد کی طباعت، تدوین اور اشاعت ہیں تاکہ معاشرے میں علم کے ذریعےامن و سلامتی ، بامقصد زندگی کے شعوراورمثبت اقدار کا فروغ ہو
Designed and Developed by Pixelpk