اسما اشرف منہاس

اک ستارہ تھی میں – بتول فروری ۲۰۲۳

پون بی بی کے سامنے اپنے بارے میں سارے چھپے راز کھولنا چاہتی ہے مگر اسے ایک ہی ڈر ہے کہ کہیں اس وجہ سے وہ بی بی کی محبت اورآخری پناہ کھو نہ دے ۔ مگر اس سے پہلے ہی حمیرا کی شادی میں کوئی اسے دیکھ کر پہچان لیتا ہے ۔ بی بی کی بیٹی ماریہ اچانک فوت ہو جاتی ہے ۔ بی بی جب بیٹی کے گھر سے واپس آتی ہیں تو اگلے ہی دن پولیس آجاتی ہے اور پون کو گرفتار کر کے لیے جاتی ہے ۔
 
سلمیٰ بہت دیر سے انہیں دیکھ رہی تھی وہ کس قدر گھبراہٹ اور بے چینی کا شکار تھیں ۔ کبھی لیٹ جاتیں کبھی اُٹھ کر بیٹھ جاتیں ، دوبارہ لیٹ جاتیں، کبھی چادر اوڑھتیں کبھی اتار تیںجیسے کوئی فیصلہ نہ کر پا رہی ہوں ۔ سلمیٰ نے پہلی بار انہیں اتنا بے چین اور بے قرار دیکھا تھا ، اُن کا چہرہ بالکل سفید ہو رہا تھا ہونٹ خشک اور بے رنگ تھے ۔ہاتھوں میں کپکپاہٹ تھی۔وہ گلاس لیے پاس کھڑی تھی۔
’’ بی بی آپ پانی پی لیں ۔‘‘
’’ نہیں پی سکتی‘‘ وہ سر گوشی کے سے انداز میں بولی تھیں ۔’’ میرا حلق بالکل بند ہو رہا ہے ‘‘۔
وہ…

مزید پڑھیں

اک ستارہ تھی میں 4 – بتول جنوری ۲۰۲۳

پون کا باغیچہ سانس لے رہا ہے ۔ بہاروں کو آواز دے رہا ہے ۔مگر پون کی اپنی زندگی میں یادوں کی خزاں کا موسم ہے ۔ ایک بچہ اسے اظفر کی یاد دلا دیتا ہے ۔ اظفر جوکبھی بہت ضروری تھا مگر اب محض گزرا ہؤا وقت ہے ماریہ واپس جا چکی ہے ۔ بی بی اور پون دونوں ہی اس کی کمی شدت سے محسوس کر رہی ہیں ۔ گھر کی مرمت کے دوران بی بی کی کچھ پرانی کتابیں ملتی ہیں ۔ جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی بی ایک پڑھی لکھی خاتون ہونے کے باوجود ایک سادہ اور عام عورت کی زندگی گزار رہی ہیں ۔ پون نے قرآن پڑھنا شروع کر دیا ہے ۔ اور وہ اس بات پہ بہت خوش ہے
’’ اچھا تو تم نے وہ کتابیں دیکھ لی ہیں ۔ مجھے کتابیں پڑھنا بہت زیادہ پسندہے۔ خاص طور پر اردو انگریزی ادب لیکن میں نے انہیں جان بوجھ کر ڈبے میں بند کر کے نظروں سے اوجھل کردیا ہے کیونکہ اب میں صرف اس زندگی کا نصاب پڑھنا چاہتی ہوں جو ہمیشہ رہنے والی ہے ، جو میری آنکھیں بند ہونے کے بعد شروع ہو گی اور مجھے ہمیشہ گزارنی ہے ۔…

مزید پڑھیں

اک ستارہ تھی میں -قسط6 – بتول مارچ ۲۰۲۳

پوّن گرفتار ہو چکی ہے ۔ بی بی شدید بے چینی اور گھبراہٹ کاشکار ہیں ۔ تھانے داران کے سامنے پون کے بڑے بڑے جرائم کا ذکر کرتا ہے اور یہ بھی کہ اس سارے معاملے کو اب خفیہ والے دیکھیں گے ۔ زرک صلاح الدین جس کا تعلق ایک خفیہ ادارے سے ہے ، اس پر اس کا کوئی دشمن سوتے میں حملہ کرتا ہے مگر وہ بچ جاتا ہے ۔ پون کا نام سن کر اسے شک ہوتا ہے کہ یہ لڑکی یونیورسٹی میں اس کی کلاس فیلو تھی ۔ وہ اس سے تفتیش کے بہت سخت انداز اختیار کرتاہے ۔ جب وہ اس کے سیل سے باہر جاتاہے تو پون جو شدید خوف اور گھبراہٹ کا شکار ہے بے ہوش ہوجاتی ہے۔
وہ بڑی دیر سے اپنی پسندیدہ راکنگ چیئر پر بیٹھا آگے پیچھے جھول رہا تھا ۔ نظریں سامنے دیوار پر مگر ذہن دور کہیں بہت پیچھے جا چکا تھا۔جب سے وہ آفس سے آیا تھا اسی طرح بیٹھا تھا کپڑے نہیں بدلے تھے جوتے تک نہیں اُتارے تھے جیسے ابھی کہیں اٹھ کر چل دے گا ۔
’’ صاحب کھانا ابھی لگا دوں یا تھوڑی دیر تک کھائیں گے ؟‘‘ شاہد اس کا ملازم اس کے پاس…

مزید پڑھیں

اک ستارہ تھی میں -قسط۷ – بتول اپریل ۲۰۲۳

زرک شدید اُلجھن کا شکار ہے۔اس کے ساتھ پڑھنے والی لڑکی ایک وطن فروش دہشت گرد کا الزام لے کر اس کے سامنے ہے۔اس معاملے کی تفتیش اس کے ذمے لگائی گئی ہے۔ وہ اس پر رپورٹ بنا کر فوراً اس لڑکی سے الگ ہو جانا چاہتا ہے۔اس کے لیے وہ کسی بھی طرح کا تشدد کرنے کو تیار ہے۔پون جئے یا مرے اسے کوئی پروا نہیں۔پون سیل میں شدید خوف اور کمزوری کا شکار ہے۔اسے زرک سے سخت ڈر لگ رہا ہے۔وہ مسلسل اس کی موت کی دعائیں مانگتی ہے۔اسے اپنا سکول،بچے،پودے اور سب سے بڑھ کر بی بی بہت یاد آتی ہیں۔
ابھی کل کے زخم اس کے ہاتھ کی پشت پر اور پون کے دل پرتازہ تھے کہ وہ آج پھراس کے سیل میں موجود تھا اور سوال پر سوال کیے جا رہا تھا۔تکلیف دہ سوال…
چبھتے ہوئے سوال…
طنز سے بھرپور سوال…
’’تمہاری حساس جگہوں کے اردگرد بہت سارے گائوں ہیں اوراُن میں بے شمار لوگ بستے ہیں کیا سب کو پکڑ پکڑ کر اسی طرح سوال کیا کرتے ہو یایہ عنایت صرف مجھی پر ہے ؟‘‘پون زچ ہو گئی تھی اس کے سوالوں سے ۔
’’ نہیں یہ عنایت صرف تمھی پر ہے ‘‘ وہ بڑے اطمینان سے بولا تھا…

مزید پڑھیں

اک ستارہ تھی میں – قسط۸ – بتول مئی ۲۰۲۳

پون سے تفتیش جاری ہے۔زرَک روزانہ آکر اس سے گھما پھرا کر طرح طرح کے سوالات پوچھتا ہے مگر ابھی تک اسے کسی سوال کا تسلی بخش جواب نہیں ملا۔ زرَک کو یقین ہے کہ وہ اپنی معصوم صورت کا فائدہ اٹھا کر بہت سارے ایسے کام کر چکی ہے جو وطن کے خلاف ہیں مگر اس کے باوجود وہ سخت بے چینی محسوس کرتا ہے۔اسے کبھی کبھی یہ خوف محسوس ہوتا ہے کہ کہیں پون کے ساتھ وہ زیادتی تو نہیں کر رہا؟ شدید خوف اور ذہنی اذیت کا شکار پون اللہ سے رابطہ بحال کرنا چاہتی ہے مگر نہیں کر پارہی۔اسے لگتا ہے کہ اس کی آزمائش اس کے اور اس کے خدا کے بیچ کھڑی ہے۔
 
آج پھر اُس پر مایوسی کادورہ پڑا ہؤا تھا ۔ بے زاری اپنی انتہا کوپہنچی ہوئی تھی ۔ بے چارگی اور اکیلے پن کا احساس تھا کہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ اُسے لگر رہا تھا وہ یہاں سے کبھی نکل نہیں پائے گی، یہیںپر ختم ہوجائے گی۔
مگر کاش وہ ختم ہی ہو جاتی… ایسا بھی تو نہیں ہو رہا تھا ناں !
وہ زندگی اور موت کی کیفیت کے بیچ میں معلق تھی کوئی سہارا نہیں تھا کوئی کنارا نہیںتھا۔
تب ایک بار…

مزید پڑھیں

اک ستارہ تھی میں – قسط٩ – بتول جون ۲۰۲۳

زرَک کئی دنوں سے پوَن سے تفتیش کرنے نہیں آیا۔وہ کسی انسان کی شکل کو ترس جاتی ہے۔اسے یاد آتا ہے بی بی کے گھر آخری دن کا سبق تھا اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جانا یہ سوچ کر ہی اسے نئے سرے سے امید ملتی ہے۔زرَک پون کے شہر جا کر اس کے والدین اور سہیلی سے ملتا ہے۔اس پر کچھ ایسے انکشافات ہوتے ہیں جو ناقابلِ یقین ہیں۔مگر اصل بات تو پون ہی بتا سکتی ہے ۔
اور آج پورا ایک ہفتہ گزر چکا تھا وہ نہیں آیا تھا۔ وہ چاہتی تھی وہ اسے سزا دے رہا ہے۔ ایسی سزا جو اسے پاگل بنا دے اور واقعی وہ آہستہ آہستہ پاگل ہوتی جا رہی تھی۔ کبھی اسے لگتا اس کا دماغ اس کے اختیار میں نہیں ، ایسی ایسی عجیب و غریب سوچیں آتیں کہ اسے یقین ہو جاتا اس نے اپنے ہوش و حواس گم کر دیے ہیں۔
کبھی اسے لگتا وہ مرنے والی ہے اس کی موت بالکل قریب ہے۔ پھر اسے قبر کا خیال آتا وہ کہاں ہوگی۔ شاید وہیں کسی تہہ خانے میں… اگر وہ مرنے سے بچ بھی گئی، رہا بھی ہو گئی تب بھی اپنے ہوش و حواس گم کر چکی ہو…

مزید پڑھیں

قسط11 – اک ستارہ تھی میں – اسما اشرف منہاس

ایک جملہ ہے جس نے پون کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔وہ اسے کسی خزانے کی چابی سمجھ رہی ہے مگر اس کی سہیلی خدیجہ بتاتی ہے کہ یہ کلمہ شہادت ہے۔خدیجہ سے مل کر ماضی کی یادوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ایک خواب اسے اکثر بے چین رکھتا ہے۔وہ ہر طرف آگ لگی دیکھتی ہے۔اس کی زندگی عجیب کش مکش کا شکار ہے۔وہ آگ سے شدید خوف زدہ بھی ہے مگر اس سے بچنے کے لیے جو اسے کرنا چاہیے وہ سب کرنے کی ہمت نہیں ہے اس میں۔اور پھر ایک دن وہ فیصلہ کر لیتی ہے۔اسلام قبول کرنے کا فیصلہ۔
عائشہ کو اس کی حالت پر تشویش ہو رہی تھی ۔
’’ خوش ہوں ….اب تو بہت خوش ہوں ‘‘ وہ بڑے یقین کے ساتھ بولی تھی ’’ آج تو میرا ذہن بہت سکون میں ہے ، ورنہ آج سے پہلے تک سوتے میں وہ سب کچھ پریشان کرتا تھا جو لا شعور میں تھا اور جاگتے میں وہ جوشعور میں تھا ۔ ایک وقت پر تو مجھے لگتا تھا کہ مجھے پاگل ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔ میری بھوک باقاعدہ طور پر مر گئی تھی ۔مگر آج تو میرا دل بہت مطمئن ہے ۔ اس سے بھی…

مزید پڑھیں

قسط۱۰ – اک ستارہ تھی میں – اسما اشرف منہاس

زرک پون کے متعلق مزید معلومات کے لیے اس کے ماں باپ سے ملتا ہے ۔ اور پھر اظفر سے بھی ۔ اظفر جو نوکر شاہی کی بد ترین مثال ہے بے حس ، حرام خور اور عیش پسند ۔ اسے عوام اور ان کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ وہ اپنے مقام ، مرتبے اور آسائشوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے ۔پون زرک کو کئی سال پرانے واقعات بتا تی ہے ۔ جب وہ سکول میں تھی اور ان کا ٹرپ پہلی بار شہر سے باہر گیا تھا تب وہاں اس کے ساتھ عجیب و غریب معاملات پیش آتے ہیں ۔
اس چھوٹے سے جملے میں کچھ تو تھا جومسلسل اس کے دماغ میں چبھ رہا تھا ،ہلچل مچا رہا تھا۔اس نے سنا تھا کہ حقیقی زندگی کے کسی واقعے کے بارے میں جب لگے کہ یہ واقعہ دوسری بار ہو رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ نے اس سے پہلے ایسا ہی کوئی خواب دیکھا ہوتا ہے۔ تو کیا اس نے بھی یہ جملہ خواب میں سنا تھا؟ واقعی وہ اسے دوسری بار سن رہی تھی۔
آخر یہ ہے کیا؟ اس کا مطلب کیا ہے؟
اس کا دماغ مسلسل کھوج میںتھا۔ وہ تھک چکی…

مزید پڑھیں

قسط12 – اک ستارہ تھی میں – اسما اشرف منہاس

پون اور عائشہ کی باتیں اظفر نے سن لی تھیں۔بعد میں اس نے خود اس بات کا اعتراف کیا اور پون کو ہر طرح کی مدد کا یقین دلایا حتٰی کہ شادی کی پیش کش بھی کی جو پون کے لیے ان حالات میں بہت بڑی امید اور تسلی بن گئی۔یونیورسٹی میں اظفر بہت بدل گیا تھا وہ پون سے باہر ملنا چاہتا تھا جو اسے قبول نہیں تھا۔یونیورسٹی کے دو سال ختم ہونے کے بعد اظفر نے شادی کا کوئی ذکرنہیں کیا تھا،تب پون نے اس کے دفتر جا کر اس سے ملنے کا فیصلہ کیا۔
’’ کہو کیسے آنا ہؤا کوئی خاص کام تھامجھ سے ؟ اُس کے پہلے ہی سوال نے اس کی ہمت توڑ دی تھی۔
’’ نہیں کام تو کوئی نہیں تھا ۔ بس ایسے ہی اس طرف سے گزر رہی تھی سوچا تم سے بھی ملتی چلو ں‘‘ اس نے اپنا بھرم رکھنے کی کوشش کی تھی ۔
’’ سوری میں نے بھی بہت دنوں سے فون نہیں کیا سخت مصروف تھا ‘‘۔
’’ کیا کام کر رہے ہو تم آج کل ؟ ‘‘اس نے برسبیل تذکرہ پوچھاتھا۔
’’ ہر وہ کام جو میرا بینک بیلنس بڑھائے‘‘ وہ مزے سے بولا تھا ’’تم تو جانتی ہو میں نے بہت…

مزید پڑھیں

قسط13 – اک ستارہ تھی میں – اسما اشرف منہاس

اظفر سے ملاقات نے پون کو مایوسیوں میں دھکیل دیا۔وہ ملک اور قوم کے مجرم کے روپ میں اس کے سامنے تھا۔ پون نے قبولِ اسلام کا اعلان کردیا اس کے والد اور بھائی سخت ناراض ہیں۔اور اس کا رشتہ چچا زاد انیل سے طے کر دیتے ہیں۔ پون خدیجہ کے گھر آ جاتی ہے جو لاہور منتقل ہو گئی تھی۔ زندگی ایک بہت بڑی آزمائش بن چکی ہے۔مگروہ تنہا نہیں ہے۔اسے یقین ہے کہ اللہ اسے ضائع نہیں ہونے دے گا۔
اُس پر آج کل کام کا بہت بوجھ تھا۔ صالحہ آنٹی اپنے کسی عزیز کی وفات کی وجہ سے دوسرے شہر گئی ہوئی تھیں لہٰذا اب ساری ذمہ داری اُسی پر تھی ۔ سارا دن کیسے گزرتا پتہ بھی نہ چلتا ۔ نین تارا کی پیشکش کے بارے میں سوچنے کا وقت ملا تھا نہ ہی وہ صالحہ آنٹی سے کوئی بات کر پائی تھی ۔ اُن سے واپس آتے ہی وہ بات کرے گی اُس نے سوچ رکھا تھا ۔
اور پھر اس نے یہی کیا تھا ۔ اُس کی بات سن کر وہ بے حد پریشان ہو گئی تھیں جس کی اسے توقع نہیں تھی۔
’’ آپ اتنا پریشان کیوں ہو رہی ہیں ؟ اگر آپ کومیرے لیے یہ نوکری…

مزید پڑھیں

قسط14 – اک ستارہ تھی میں – اسما اشرف منہاس

خلاصہ:نین تارا غیر ملکی مذموم مقاصد کو پورا کرتی ایک این جی او چلا رہی ہے۔وہ پون کو نوکری کی پیشکش کرتی ہےجو کہ صالحہ آنٹی کے مطابق ایک خطرناک پیش کش ہے۔مگر نین تارا خود ہی لا پتہ ہو جاتی ہے۔پون کو ہاسٹل میں ایک لڑکی نظر آتی ہے جو اسی کے محلےکی رہنے والی تھی۔وہ اس سے ڈر کرگائوں کے سکول میں استانی کی نوکری کے لیے درخواست دے دیتی ہے۔حمیرا اس کی سہیلی ہاسٹل چھوڑ کر جا رہی ہے۔خود پون کا اگلا ٹھکانہ کیا ہو گا وہ نہیں جانتی۔
 

وہ بہت دیر پہلے خاموش ہو چکی تھی اور اب گھٹنوں پہ سر رکھے بیٹھی تھی ۔ ماضی کا سفر بہت تکلیف دہ ثابت ہؤا تھا ۔ وہ ذہنی طور پر بُری طرح سے تھک گئی تھی مگر اتنا ضرورہؤا تھا کہ اس نے وہ سب کچھ کہہ ڈالا تھا جو وہ آج تک کسی سے نہیں کہہ پائی تھی۔ وہ سارے دکھ وہ ساری تکلیفیں وہ ساری یادیں جواس کے اندربیماری بنتی جا رہی تھیں ، آج اس نے نکال کراس شخص کے سامنے رکھ دی تھیں جوبیک وقت اجنبی بھی تھا اور اپنا بھی…جو بے نیاز تھا ، لا تعلق اور خود پسند تھا … پھر بھی…

مزید پڑھیں

آخری قسط – اک ستارہ تھی میں – اسما اشرف منہاس

پون رہا ہو چکی ہے۔اسے ہر الزام سے بری قرار دیا گیا ہے۔زرک کے کام سے اس کے افسران خوش ہیں۔رہائی کے بعد زرک اعتراف کرتا ہے کہ اس نے پون پر بہت سختی کی مگر یہ اس کی نوکری اور اس کا فرض تھاکہ وہ درست رپورٹ تیار کرتا ،لیکن اب وہ نادم ہے اور اپنے کیے کی تلافی کرنا چاہتا ہے۔
وہ دروازہ جو صبح و شام لوگوں کوپکارتا ہے، آئومیری طرف آئو میں تمہیں باغوں نہروں اورچشموں کی سر زمین پر لے جائوں ….تمہیں کامیاب کردوں۔
وہ بھلا اسے یہاں کیوں لایا تھا ؟ اُس نے بہت راز داری کے ساتھ خود سے سر گوشی کی تھی ۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوتی جا رہی تھی …. اتنی کہ اسے سانس لینا دشوار ہو رہا تھا ۔ ہاتھ پائوں ٹھنڈے اوربے جان ہو رہے تھے ۔ لگتا تھا وہ اپنی ایک انگلی بھی نہیں ہلا پائے گی ۔ اب بھلا زندگی کون سا رنگ دکھاتی ہے ! وہ سامنے موجود دروازے کودیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی۔
’’ پون !‘‘ بہت دیر بعد گاڑی میں اس کی آواز گونجی تھی ۔ اُس نے اپنا سارا رخ اس کی طرف پھیر لیا تھا ۔ اور زرک اس کے چہرے کوبہت غور…

مزید پڑھیں