۲۰۲۱ بتول اگست

صبروثبات – بتول اگست ۲۰۲۱

صبر وہ وصف ہے جو انسان کو مصائب برداشت کرنے کے قابل بناتا ہے۔وہ ایسا باہمت ہو ہر مشکل کا مقابلہ کرے، نہ مصیبت کو دیکھ کر دل ہار جائے، اور نہ جزع فزع کرنے لگے، بلکہ صبر ،مصابرت اور تحمل اور برداشت سے کام لے، اور حق کو مضبوطی سے تھام لے۔امت ِ مسلمہ کو پوری دنیا کے سامنے حق کی گواہی پیش کرنے کا منصب سونپا گیا ہے، اسے دنیا میں عدل قائم کرنا ہے اور پوری انسانیت کی اصلاح کا فرض ادا کرنا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دولتِ صبر سے مالا مال ہو۔
ایمان کے دو حصّے ہیں، ایک صبر اور دوسرا شکر۔ مومن ان دونوں کا حریص رہتا ہے،اور وہ ان دونوں کو تھامے ہوئے رب کی راہوں پر چلتا ہے اور اس کی زندگی صبر و شکر کا مجموعہ بن جاتی ہے۔صبر ایسی سواری ہے جو سوار کو اوندھے منہ نہیں گراتی، اور مشکلات میں سیدھا کھڑا رکھتی ہے۔وہ ایسا لشکر ہے جو پسپا نہیں ہوتا، اور ایسا قلعہ ہے جو مضبوط ہے۔صبر کے ساتھ نصرت ملتی ہے اور کرب کے بعد فراخی میسر آتی ہے۔اور تنگی کے ساتھ آسانی ملتی ہے، زندگی کی مشکلات اور مصائب میں صابرین ہی کامیاب ہوتے…

مزید پڑھیں

ابتدا تیرے نام سے – بتول اگست ۲۰۲۱

قارئین کرام!یوم آزادی کا مہینہ اور نئے اسلامی سال کا آغاز ہے۔ اس دعا کے ساتھ شروع کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں ایک صحیح معنوں میں آزاد ،خو دمختار اور اپنے قیام کے مقاصد پورے کرنے والی قوم بنائے،جو بانیان پاکستان کے خوابوں کی تکمیل، دنیا میں باعث عزت و وقارہو، آمین۔
اس بار بارشوں کے نتیجے میں سیلابوں نے دنیا میں کئی حصوں کو متاثر کیا ہے۔ یورپ میں سب سے زیادہ تباہی اور جانی نقصان جرمنی میں ہؤا۔بھارت میں مہاراشٹر بہت بری طرح متاثر ہؤا۔یہاں تک کہ اس غیر متوقع آسمانی آفت کے آگے چین بھی اپنی تمامتر پھرتیوں سمیت بے بس ہو گیا۔ ہم تو ویسے ہی اللہ کے حوالے ہیں ، اسلام آباد کا ایک سیکٹر ڈوب گیا تو کوئی حیرانی نہیں۔ موسموں کی شدت اور تباہ کن بارشوں کا تعلق کرہ ارض پرموسمیاتی تبدیلی سے ہے۔پہلے کہیں صدی بھر میں جو واقعات پیش آتے تھے اب معمول بن گئے ہیںاور موسم کا غیر متوقع روپ ہی اب متوقع موسم ہونے لگا ہے۔ ڈیولپمنٹ کے نام پربلا امتیاز ہر جگہ آباد کاری اور انسانی سرگرمی ، ٹیکنالوجی کا اندھادھند استعمال زمینی ماحول کے قدرتی توازن کو بہت حد تک خراب کر چکا ہے۔ بے شمار سائنسی تحقیق…

مزید پڑھیں

حق لے کر رہنا ہے – بتول اگست ۲۰۲۱

دنیا میں انسان نے خود اپنے لیے جو سب سے بڑا فساد کھڑا کر رکھا ہے وہ ’’حق لینے‘‘ کا ہے۔ اپنے بنیادی انسانی حقوق حاصل کرنے کی ایک لا متناہی لسٹ ہے جس میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا میں آرام و آسائش کے وسائل وافر، وسیع اور سہل الحصول ہوتے جا رہے ہیں تو حقوقِ انسانی بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔
چند دہائیاں پہلے زندگی کس قدر ہلکی، آسان اور پر سکون تھی۔ جب وصول کرنے کی نسبت دینے کی فکر رہتی اور اسی میں قلبی خوشی و راحت محسوس کی جاتی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ نفسانی خواہشات، ذاتی حقوق کا حصول مقصد زندگی نہیں بنا تھا اور اپنے حقوق کےبارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں اور نہ ہی یہ اس قدر گھمبیر مسئلہ تھا۔ اب ہر انسان وہ نابالغ بچہ ہی کیوں نہ ہو اپنے حقوق کا پرچم لیے پھرتا ہے۔ والدین سر توڑ کوشش میں لگے ہیں کہ بچوں کو مطمئن کر سکیں مگر اولاد اپنے حقوق پہ سمجھوتہ کرنے پہ راضی نہیں۔
میاں بیوی نے ایک دوسرے سے حقوق لینے والی آنکھ کھلی رکھی ہوئی ہے۔ اسی طرح باہم سمدھیانوں کے دل ایک اندھا کنواں بنتے جارہے ہیں۔ ہر رشتہ، تعلق جو…

مزید پڑھیں

میں ہی پاکستان ہوں! – بتول اگست ۲۰۲۱

تم مجھے بتاتے ہو کہ پاکستان میں پانی کے کولر سے گلاس باندھنا پڑتا ہے کیونکہ یہاں کے لوگ بے ایمان ہیں ۔
لیکن تم یہ نہیں بتاتے کہ جس کولر کے ساتھ یہ گلاس بندھا ہوا تھا وہ بھی کسی پاکستانی نے کبھی ایصال ثواب کے لیے اپنے کسی عزیز کا نام لکھ کر یا ویسے ہی آخرت میں ثواب کے حصول کے لیے اس چلتی راہ میں لگا دیا ۔
تم مجھے بتاتے ہو کہ مسجد سے جوتے اٹھا لیے جاتے ہیں اب تو اللہ کا گھر بھی محفوظ نہیں لیکن تم یہ نہیں بتاتے کہ اس مسجد کی تعمیر میں کتنے پاکستانیوں نے اپنی محدود اور لامحدود آمدنی سے چند سکے جوڑ کر یا لاکھوں کے چیکس کی صورت میں حصہ ڈالا ہے ۔
تم یہ نہیں بتاتے کہ وہاں لوگوں کے سکون کی خاطر بجلی کا بل کوئی بھر رہا ہے وہاں پنکھے ہیٹرز اور اے سی سسٹم کے لیے کچھ لوگ خاموش رہ کر مسلسل حصہ ڈالتے ہیں ۔
تم مجھے بتاتے ہو کہ کسی ایک جگہ ایکسیڈنٹ ہوا تو لوگوں نے زخمیوں کے بٹوے تک نکال لیے لیکن تم یہ نہیں بتاتے کہ ان رخمیوں کو ہسپتال پہنچانے والے بھی اسی دھرتی کے باسی تھے یہی وہ لوگ…

مزید پڑھیں

محشرِخیال – بتول اگست ۲۰۲۱

پروفیسر خواجہ مسعود ۔ راولپنڈی
شمارہ جولائی 2021ء سامنے ہے وادی ہنزہ اور گلگت کے حسین پہاڑی مناظر سے مزین ٹائٹل دلکش ہے ۔ آج کل تو دل یہی چاہتا ہے کہ اُڑ کے وہاں پہنچ جائیں۔
اداریہ میں مدیرہ محترمہ نے ریلوے کے سانحہ گھوٹکی کے موقع پر ’’الخدمت‘‘والوں کی احسن کار کردگی کا ذکر کیا ہے یہ لائق تحسین ہے ۔ بجٹ سیشن کے موقع پر ہماری پارلیمنٹ میں جو ہنگامہ آرائی ہوئی اس پر آپ نے بڑی درد مندی سے تبصرہ کیا ہے ۔ خواتین پر بڑھتے ہوئے حملوں کے واقعات پر آپ نے صحیح تجزیہ پیش کیا ہے کہ سب سے پہلے انٹر نیٹ پر چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہیے ، پھر ان جرائم پر کڑی سزائیں بھی دی جائیں ۔
’’ عد ل و انصاف‘‘ ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ نے اہم موضوع کا انتخاب کیا ہے اسلام میں انصاف کی بہت تلقین کی گئی ہے ۔ہمارے رسول پاک ؐ سب سے بڑے عادل تھے ۔ عدل و انصاف کسی معاشرے میں امن و سلامتی کی پہچان ہے، ظلم امن عالم کو تباہ کر دیتا ہے ۔
’’ خطبہ حجۃ الوداع‘‘ (ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی ) آپ نے یہ تاریخی خطبہ اردو ترجمہ کے ساتھ لفظ لفظ پیش کیا ہے…

مزید پڑھیں

کینسر قابل علاج ہے – بتول اگست ۲۰۲۱

جتنی جلدی تشخیص ہو گی ، اسی قدر کامیاب علاج ممکن ہوگا
 
انسان کسی بھی نوعیت کے مرض میں مبتلا ہو تو خود کو انتہائی بے بس محسوس کرتا ہے اور بسا اوقات زندگی سے انتہائی مایوس ہو جاتا ہے ۔ اسی بناء پر خوش گوار زندگی کو صحت اور تندرستی سے مشروط سمجھا جاتا ہے ۔ نبی اکرامﷺ کی ایک حدیث مبارکہ بھی ہے جس میں آپ ؐ نے نصیحت فرمائی ہے کہ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ صحت کو بیماری سے پہلے ۔ بعض عوارض اپنی نوعیت کے اعتبار سے کافی خطرناک اور تکلیف دہ ہوتے ہیں ۔ کینسر کا مرض میں انہی میں سے ایک ہے ۔ ٹیکنالوجی ، انفارمیشن اور جدت کی اس دنیا میں اگرچہ کینسر اب لا علاج نہیں رہا تاہم بعض صورتوں میں یہ مرض اب بھی باقی تمام امراض کے مقابلے میں کافی خطر ناک ہے ۔
کینسر کا مرض اور اموات کی شرح
WHOکے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا میں کینسر کے مریضوں کی تعداد18.1ملین ہے ۔ ادارے کی تحقیق کے مطابق کینسر دنیا بھر میں اموات کی وجہ بننے والی بڑی بیماری ہے ۔ گزشتہ سال دنیا بھر…

مزید پڑھیں

کرم کے میڈل – بتول اگست ۲۰۲۱

آج بلوچستان کے ‘نیلگ ‘ ڈیم کے زیریں راستوں سے پہلی دفعہ بہنے والے بارشی پانی کے ریلےاپنے ساتھ خوف ،دہشت اور مایوسی کے اس گند کو بھی بہا کر لے گئے جس نے پچھلے کئی سالوں سے مکران کے دشت کےاس علاقے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہؤا تھا۔
چار سال قبل جب ہمارے مشاورتی ادارے ’’رحمان حبیب کنسلٹنٹس پرائیویٹ لمیٹڈ‘‘ کے انجینئرز سروے کے لیے اس علاقے کی طرف نکلنا چاہ رہے تھے تو پہاڑوں پر موجود بھائی لوگوں کی طرف سے انہیں اس علاقے میں داخلے کی اجازت نہیں ملی تھی۔ مقامی اکابرین کی منت سماجت کے بعدانہیں صرف دو گھنٹے میں اپنا کام مکمل کر کے وہاں سے نکلنے کو حکم دیا گیاتھا۔
یہ خبر ہمارے مین سٹریم میڈیا تک رسائی نہیں پا سکی کیونکہ ان کی ترجیح صرف سیاسی سرکس لگانا ہے۔نیلگ کے آس پاس کے علاقے کی سب سے بڑی نعمت پینے کےپانی تک بروقت رسائی ہے۔اس سے اگلی عیاشی ان کے جانوروں کے لیے پینے کا پانی میسر ہوجانا ہے اور مالک کی بہت مہربانی ہو تو اپنی ضرورت کا اناج کاشت کرنے کے لیے پانی مل جاتا ہے اور وہ بھی ہر سال نہیں۔اور اوپر سے بھائی لوگ آکر پہاڑوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔
خشک…

مزید پڑھیں

پاکستان کے سوئٹزر لینڈ کی سیر – بتول اگست ۲۰۲۱

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ابھی پاکستان پر دہشت گردی کے مہیب بادل نہیں چھائے تھے اور ہماری وادی سوات میں ہر طرف بہار تھی ، رونقیں تھیں امن و سکون تھا ۔ ہمارے خاندان کی چار فیملیز نے وادی کی سیر کا پروگرام بنایا۔ایک کوچ ہائر کی گئی اور ہم اس سفر پر روانہ ہو گئے ۔ ہمارے گروپ میں بچے بھی تھے بڑے بھی ۔ سب ہی اس سفر کے لیے نہایت پر جوش تھے۔
پشاور روڈ پہ کوچ روانہ ہوئی تو ٹیکسلا، واہ کینٹ ، حسن ابدال ، برہان سے گزرتے ہوئے کامرہ اور لارنس پور سے آگے جہانگیرہ آیا۔ اب ہم صوبہ پنجاب کراس کر کے صوبہ سرحد ( کے پی ) میں داخل ہو چکے تھے۔ وہاں سے پھر مشہور شہر نوشہرہ پہنچے۔
نوشہرہ میں ملکی وغیر ملکی کپڑوں کی بہت بڑی مارکیٹ تھی اس لیے خواتین نے تھوڑی دیر رُک کے اپنا شاپنگ کا شوق پورا کیا۔ نوشہرہ کے بعد رسالپور اور پھر رشہ کئی آیا ۔ یہاں بھی غیر ملکی کپڑے کی ایک مشہور مارکیٹ تھی جس میں شاپنگ کے لیے خواتین کا رش تھا ۔ ہمارے ساتھ کی خواتین بھی نہ رہ سکیں اورشاپنگ کا شوق پورا کیا ۔ رشہ کئی اترنے…

مزید پڑھیں

سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ – بتول اگست ۲۰۲۱

انسانوں کے معاشرے خامیوں اور خوبیوں دونوں سے مزین ہوتے ہیں۔مزین اس لیے کہ اگر خامیاں نہ ہوں تو خوبیاں چمک اور نکھر کر سامنے نہ آئیں۔
سعودی معاشرہ بھی یقیناً اس سے پاک نہیں ہے لیکن اب بھی خیر شر پر غالب ہے۔ وطن عزیز اور ہمسایہ ممالک سے جانے والے تو اس مملکت کو جنت محسوس کرتے ہی ہیں، مغرب کے ترقی یافتہ ممالک سے آنے والے بھی کچھ ایسے ہی جذبات رکھتے ہیں۔ بچے من کے سچے ہوتے ہیں ۔ کچھ دن پہلے ایک دعوت میں شرکت کی جہاں زیادہ تر افراد مغرب سے آئے ہوئے تھے۔ بچوں بلکہ بچیوں سے بات چیت ہوتی رہی۔ ایک بچی لاہور سے آئی ہوئی تھیں، اپنے بابا کے ساتھ چھٹیاں گزارنے کے لیے۔ ان سے پوچھا کہ آپ کو کہاں رہنا زیادہ اچھا لگتا ہے۔ انہوں نے جھٹ سے کہا، ریاض میں۔ اسی طرح کچھ بچیاں لندن اور دیگر شہروں سے اب یہاں منتقل ہو چکی ہیں اپنے خاندان کے ساتھ۔ انہوں نے بھی اپنی فوری پسندیدگی ریاض کے لیے ظاہر کی۔ کچھ عرصہ پہلے ہمارے ہاں کچھ دوست جو لندن سے منتقل ہوئے تھے، کھانے پر تشریف لائے۔ ان کی بچیوں نے بھی یہی کہا کہ ہمارا یہاں پر زیادہ…

مزید پڑھیں

جنگی قیدی کی آپ بیتی(آخری قسط) – بتول اگست ۲۰۲۱

ابوکو میں نے اپنی یہ تمام سرگزشت سنائی جو انہوں نے بہت توجہ سے سنی اور اس دوران مسلسل اُن کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ اُن کے لیے یہ ساری صورت حال ناقابل برداشت تھی ۔ میں نے بات ختم کرنے کی کوشش کی مگریہ اذیت کی داستان، ہند و بنیے کی دھوکہ دہی اور مکاری کا قصہ یہاں ختم ہو جائے ایسا ہو نہیں سکتا تھا۔ میرے خاموش ہونے سے یہ ایک حقیقت اور ان کی سیاہ تاریخ بدل تو نہیں سکتی تھی۔
ابو بھی کہنے لگے کہ جنگ آزادی میں بھی ہندوؤں نے مسلمانوں کے ساتھ جو دھوکہ دہی کی، تاریخ آج بھی اس کی گواہ ہے۔ ۱۸۵۷ء میں میرٹھ کینٹ (جہاں مسلمان قید تھے) سے شروع ہونے والی جنگ آزادی کی تحریک میں مسلمان بہت بہادری سے لڑے تھے۔ اس تحریک میں ہندوؤں نے انگریزوں کاساتھ دے کر مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ کیا مگر مسلمانوں کی جدوجہد نے اس تحریک کو پورے ہندوستان میں پھیلایا۔ یہ تحریک مسلمان مجاہدین نے بہت کم وسائل سے شروع کی تھی۔ اس تحریک میں ہزاروں مسلمان شہید ہوئے ۔ ڈھاکہ کالال باغ مسلمانوں کے خون سے نہلا دیا گیا ۔ لوگ ڈھاکہ کے لال باغ سے گزرتے ہوئے ڈرتے تھے کیونکہ…

مزید پڑھیں

دادی جان،فرنگی اورمسلمان بادشاہ کا پاکستان – بتول اگست ۲۰۲۱

گرمیوں کی چھٹیوں میں ہم اکثر اپنی دادی کے پاس گاؤں جایا کرتے۔ ہمارا گاؤں خیبر پختونخوا کے ایک دوردراز پسماندہ علاقے میں ایک خوبصورت دریا کے کنارے آباد تھا اس لیے گرمی بھی پشاور کی نسبت کم ہوتی۔
اس زمانے میں کچھ سیاستدان کہتے کہ واپڈا والے تربیلا ڈیم میں ہمارے پانی سے ساری بجلی نکال کر خالی خولی پانی ہمارے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ تو وہ ’’خالی خولی ‘‘پانی سب سے پہلے ہمارے گاؤں سے گزر کر باقی پاکستان کو سیراب کرتا تھا۔
دریا کے اس طرف ریت کے پہاڑ اور گھنے جنگل تھے جن کو’’بیلے‘‘کہتے تھے۔ گاؤں میں جن کے گھر شادی ہوتی وہ بیلے جا کر بہت ساری لکڑی لے آتے۔
ہم اپنے کزنز کے ساتھ کھیتوں سے ہو کر دریا تک جاتے۔وہاں خوب تیرتے کھیلتے اور جب بھوک لگ جاتی تو اپنی پھوپھی زاد بہنوں سے جو دریا کے ایک طرف کپڑے دھو رہی ہوتیں، پیاز اور رات کی بچی ہوئی تندور کی روٹی لیتے اورکھا کر پھر کھیلنے لگ جاتے۔ میں نے دنیا بھر کے ریستورانوں میں کھایا لیکن اس وقت اس پیاز اور باسی روٹی کا جو مزہ ہوتااس کا کوئی مقابلہ نہیں۔
کچھ بچے دریا پار کرکے ریت کے پہاڑوں سے ہو کر ’’بیلے‘‘ چلے جاتے…

مزید پڑھیں

کتاب پر تبصرہ – بتول اگست ۲۰۲۱

نام کتاب: گوشہِ تسنیم
قیمت: 400 روپے
پبلشرز:ادارہ بتول لاہور
منگوانے کاآرڈر37424409-042
ہمارے اطراف بہت سے لوگ بہت سے کام ’’شوقیہ‘‘کرتے نظر آتے ہیں۔لیکن شوق کی ایک مدت اور موڈ ہوتا ہے۔آپ نے سنا ہوگا کہ:
یہ اس وقت کی بات ہے جب گھڑسواری میرا شوق تھا،
مصوری میرا جنون ہوتا تھا،
سرساز کی دنیا کا میں دھنی تھا….. یا
قلم سے میرا رشتہ بڑا استوار تھا…… وغیرہ۔
ایسے کم لوگ ہوتے ہیں جو شوق کو جنون بنا لیں۔زندگی بھر تسلسل کے ساتھ اس شوق کو پورا کریں اور اس کو عبادت کا درجہ دے دیں۔بلاشبہ لفظ قیمتی ہیں زبان سے نکلیں یا قلم سے۔بشریٰ تسنیم نے ماشاءاللہ قلم سے بہت سوچ سمجھ کر رشتہ استوار کیا ہے۔کئی عشروں پر محیط یہ رشتہ تاریخ بنتا جارہا ہے ان کی کتابوں کی اشاعت کی صورت میں۔
چھبیسواں روزہ ڈاکٹر بشریٰ تسنیم کی کتاب’’گوشہ تسنیم‘‘کے ساتھ گزرا ۔یہ بھی کسی مصنف کی کتنی بڑی کامیابی ہے کہ اس کا قاری کتاب ہاتھ میں لے اور کتاب ختم کرتے ہی بن پڑے۔افطار سے قبل کتاب مکمل ہو چکی تھی۔
ان کی تحریر میں قرآن کی تفسیر بھی ملتی ہے اور کائنات کی تعبیر بھی۔دھیرے سے قاری کا ہاتھ تھامے آفاق کی وسعتوں میں لے جاتی ہیں۔قدم زمین پر اور ذہن آفاق کی نشانیوں میں…

مزید پڑھیں

بُتانِ رنگ و خون – بتول اگست ۲۰۲۱

وہ کہانی جو جافنا کے ساحلوں سے پھوٹتی ہے اور نیو یارک سے ہوکرکولمبو میںڈوبتی ہوئی ہمارے وطن کابہت سا عکس دکھا جاتی ہے
 
پَل کے ہزارویں حصے میں بھی لاریف ہادی اس بات کاتصور تک نہیںکرسکتا تھا کہ اس کا بیٹا’’ لبریشن ٹائیگرز آف تامل‘‘ جیسی جنگجو اور دہشت گرد تنظیم کے اجلاسوں میں شرکت کرتا ہے ۔تنظیم کے بانی ویلو پلائی پربھاکرن سے عقیدت، اس کے مقاصد سے ہمدردی اور تاملوں پرسِنہا لیوں کی زیادتیوں کے خلاف جافنا کے مضافات میں ہونے والے چھوٹے موٹے جلسے جلوسوں میں کچی پکی تقریریں جھاڑتا ہے۔ حالیہ خود کش حملوں میں مرنے والے چند نوجوانوں سے بھی اس کا یارانہ تھا ۔
اس کی آنکھوںمیں حیرت ہی نہیںتھی وہ شدید کرب سے بھی خوفناک حد تک پھیلی ہوئی تھیں ۔اس کا دل وسوسوں کی آماجگاہ بنا ہؤا تھا۔یہ کیسے ممکن ہے ؟وہ اتنا بے خبر تھا ۔کیا وہ اس پر یقین کرے یا نہ کرے ؟اس کابیس سالہ پانچ فٹ گیارہ انچ لمبی قامت والا بیٹا کب اورکیسے اس جال میں پھنسا اورکیوں پھنسا؟یہ سارے سوال جواب وہ خودسے کیے چلا جاتا تھا ۔
ڈاکٹر حسب اللہ نے آہستگی سے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا۔ وہ اس کے اندر کے اتار چڑھائو سے…

مزید پڑھیں

بند دروازہ – بتول اگست ۲۰۲۱

ستّر کی دہائی میں لکھا گیا افسانہ جو جدیدیت کے ہاتھوں تہذیبی کشمکش کا شکار ہوتے مشرقی معاشروں میں ہمیشہ ترو تازہ رہے گا
 
’’دلی جا کرکہیں اپنے ہوش و حواس نہ کھو بیٹھنا‘‘
یہ بات چھوٹی سے پیارے نے کوئی دسویں بار کہی تھی۔
جیسے چھوٹی بالکل ہی سرن دیوانی ہے ۔ وہ خود شہر نہ گئی تو کیا ہؤا، اس کی دو سہیلیاں شہر میں بیاہی گئی تھیں ۔ جب وہ میکے سے لوٹیں تو چھوٹی کی قابلیت میں شدید اضافہ ہؤا تھا ۔ ان کی نقل میں چھوٹی بھی کمر پر سے قمیض کو تنگ کرنے لگی تھی اور خورجے کے میلے سے پیارے اس کے لیے ناخن رنگنے کا رنگ لایا تھا جنہیںناخنوں پر لگانے کے بعد چھوٹی کی انگلیاں چم چم چمکنے لگی تھیں۔
وہ بسولی کی فیشن ایبل بہو کہلاتی تھی جو ہمیشہ پنڈلیوں پر منڈھا ہؤا چست پاجامہ پہنتی تھی ۔مِسّی کی بجائے لاکھا جماتی اور شہر والیوں کے انداز میں آڑی مانگ نکال کر بال کانوں تک نیچے گرا دیتی تھی ایسے بال پیارے نے ایک پرانے فلمی رسالے میں مس لیلاچٹنس کے دیکھے تھے اور فوراً اس نے یہ ہیئر سٹائل چھوٹی کو دکھایا تھا ۔
چھوٹی لیلا چٹنس سے کیا کم تھی !وہ تو کھلا…

مزید پڑھیں

ساون رُت – بتول اگست ۲۰۲۱

’’ بہت بہت شکریہ سر !‘‘ عامر صاحب سے رقم لیتے ہوئے اصغر کے چہرے پر بے انتہا شکر تھا ۔’’ بڑی مہر بانی ۔‘‘
’’ لیکن اصغر ، قرضے کی واپسی ہر ماہ آپ کی تنخواہ میں سے بیس فیصد کٹوتی کی صورت میں ہو گی‘‘ عامر صاحب نے یاد دہانی کرائی۔
’’ جی سر مجھے علم ہے ‘‘ اصغر سلام کرتا ہؤا کمرے سے نکل گیا۔
٭…٭…٭
’’ شکر ہے شائستہ ، اللہ نے بڑا کرم کیا ‘‘اصغر نے رات کو بستر پر نیم دراز ہوتے ہوئے کہا ۔ گو کہ ہر مہینے کا آخر دونوں میاں بیوی کے لیے ایک کٹھن مرحلہ ہوتا اور تنخواہ کی کٹوتی ان مشکلات میں اضافہ ہی کرنے والی تھی لیکن ایسے وقت میں جب کہ بیٹی کی شادی سر پر تھی ، رقم کا انتظام ہو جانا ، اس وقت بہت غنیمت لگ رہا تھا۔
’’ میں کل ہی جا کے فرنیچر کا آرڈر دے آتا ہوں ‘‘ اصغر نے شائستہ سے اپنے فیصلے کی تائید چاہی۔
’’ ہاں بالکل۔ اب ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ‘‘شائستہ نے ہاتھ سے چادر ٹھیک کرتے ہوئے جواب دیا۔
کمرے کے باہر کھڑی ، ماں باپ کی باتیںسنتی شیبا کے چہرے پر قوس و قزاح کے رنگ بکھر گئے ۔ شادی…

مزید پڑھیں

العروس – بتول اگست ۲۰۲۱

سفید ستاروں سا لباس اس کے جسم پر سج سا گیا تھا۔حسن و نور بکھیرتا دمکتا چہرہ دیکھنے والی آنکھوں کو خیرہ کیے دیتا تھا۔ سفید ہی پھولوں کا زیور چہرے سے چھلکتی مسکراہٹ اور آنکھوں کی چمک اسے حوروں سا حسین بنا رہی تھی۔ ہر سُو بس خوشی ،رنگ اور خوشبو اور دور تک پھیلی چاندنی……بس ہر جانب حسن ہی حسن تھا ۔
اس کے بے حد اپنے اس کے ارد گرد اسے اپنی محبتوں کے حصار میں لیے آگے بڑھ رہے تھے۔کچھ ہی دور اس کے سامنے سنہرا چمکتا محل جیسے اس کےآنے کا منتظر تھا اور اس محل کے آگے اس کا شہزادہ جس سے وہ پچھلے چند سالوں سے منسوب تھی آج اسے اپنا بنانے کا عہد نبھانے کے لیے ہاتھ بڑھائے کھڑا تھا۔
’’انس….انس…..‘‘
اس نے اسے پکارنا چاہا مگر اس کی آواز جیسے اسی کے کانوں میں گونج کر رہ گئی……انس اس کی جانب دیکھ کر مسکرا تورہا تھا مگر آہستہ آہستہ وہ دھند میں غا ئب ہوتا چلا گیا ۔
’’انس… انس…..‘‘وہ چلائی۔
اور پھرشیما کی آنکھ کھل گئی۔اس کے سرہانے رکھا اس کا موبائل کسی کا پیغام آنے کی اطلاع دے رہا تھا ۔اس نے گہری سانس لے کر خواب کے اثر سے نکلنا چاہا۔ فون کی…

مزید پڑھیں

غزل – بتول اگست ۲۰۲۱

غزل
ہم سفر پھر نئے سفر میں ہیں
ہم اسی آرزو کے گھر میں ہیں
حالِ دل کی خبر نہ پھیلا دیں
وہ جو بے تابیاں نظر میں ہیں
بیش قیمت ہیں ہر گہر سے وہ
سچے موتی جو چشمِ تر میں ہیں
غم نہ کر ان دیوں کے بجھنے پر
ساعتیں چند اب سحر میں ہیں
حوصلوں کو کمک بھی پہنچے گی
قافلے اب بھی رہگزر میں ہیں
[آمنہ رُمیصا زاہدی]
 
غزل
آنکھیں جلتی رہتی ہیں
تنہائی میں بہتی ہیں
فرقت کے غم سارے یہ
چپکے چپکے سہتی ہیں
چاہت کے سب افسانے
تاروں سے یہ کہتی ہیں
ملن کی آس میںراہوں کو
ہر دم تکتی رہتی ہیں
یادوں کے موتی انمول
دامن میں یہ بھرتی ہیں
فلک تلک جو جاتا ہے
اُس رستے کو تکتی ہیں
جو تقدیر کا مالک ہے
اس کی رضا میں راضی ہیں
شاہدہ اکرام سحرؔ

مزید پڑھیں

کرونا میں گزری عید! – بتول اگست ۲۰۲۱

اسکول اور تعلیمی ادارے اچانک بند ہونے کی خوشی سے سیراب بھی نہ ہوپائے تھے کہ ٹونٹی ٹونٹی منسوخ ہونے کی اطلاع جبران اور شارق پر بجلی بن کر گری…… ایسی چھٹیوں کا فائدہ بھی کیا؟
جی ہا ں یہ فروری 2020 ء کی بات ہے جب کرونا کی وبا نے پاکستان کارخ کرلیا۔ چنانچہ فوری اقدام کے تحت تعلیمی ادارے اچانک بند کردیے گئے۔ بچے ان ناگہانی چھٹیوں کا مصرف کیا کرتے جب بقیہ ساری سرگرمیوں پر بھی پابندی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ سختی بڑھتی گئی اور بچے بھی بیزار ہوتے گئے۔
یہ وہ دن تھےجب ان کے والدین عمرے سے واپس آچکے تھے اور عظمیٰ آپا کی واپسی کی تاریخ قریب آگئی جو ان کے والدین کی غیر حاضری میں دیکھ بھال کے لیے نوشہرہ سے یہاں آئی ہوئی تھیں۔ اس سے پہلے ایک شاندار خاندانی دعوت رکھنی تھی۔ اس کے لیے23مارچ کی تاریخ مناسب سمجھی گئی تھی کہ اس تاریخی دن کے حوالے سےلڑکوں کی تیار کردہ ویڈیوبھی لانچ کرنی تھی۔ مگر ٹھیک اس دن سے لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا۔
یہ اصطلاح بچوں کے لیے دلچسپ تھی تو بڑوں کے لیے حیران کن! انہوں نے کرفیو کو کسی زمانے میں برتا بھی تھا مگر یہ لاک ڈاؤن بھلا…

مزید پڑھیں

یہ ہیں مولانا مودودیؒ کی والدہ – بتول اگست ۲۰۲۱

جماعت اسلامی کے قیام کو اگست2021 میں 80 برس ہو جائیں گے ۔ اس موقع پر آپ مولانا مودودیؒ کی مربوط اور جامع فکر ، ان کے تعلیمی افکار ، لسانی و ادبی خدمات، تشکیل جماعت ، دارالاسلام سے منصورہ تک کے سفر وغیرہ کے بارے میں بہت کچھ پڑھیں گے ۔ مولاناابو الاعلیٰ مودودیؒ جیسی’حکیم جہادآرا‘ شخصیات جس گود میں پروان چڑھی ہوں ان کے بارے میں جاننے کی امنگ پیدا ہوتی ہے!
ہر بڑے آدمی کو جان کر جب اس کی ماں کے بارے میں جانا، تو پتہ یہی چلا کہ گہوارے کی تربیت شخصیت سازی کا لازمی عنصر ہے ۔ ہم کسی فردکو ڈگریوں میں ناپیں تو یہ ہماری کم فہمی ہو گی ۔ تعلیم ، تربیت، خاندانی پس منظر ان کاغذی ڈگریوں سے بہت بلند سطح کی چیز ہے ۔
جب مولانا مودودیؒؒ کی والدہ کے بارے میں پڑھا تو جی چاہا کہ ان کی عظیم ماں کا ذکر بھی بار بار کیا جائے جس نے عالم اسلام کو ایسا فقید المثال مجتہد عطا کیا۔
خواجہ اقبال احمد ندوی ’’ مولانا مودودی کی رفاقت میں‘‘ نامی کتاب جو ان مضامین پرمشتمل ہے جو اخبار ’دعوت ‘ اورماہ نامہ زندگی نو میں شائع ہوئے تھے ۔ سلیم منصور خالد نے…

مزید پڑھیں

نبی مہر بانﷺ – بتول اگست ۲۰۲۱

آپ ؐ انسانوں کے لیے رحمت بن کر آئے
آپ قرآن مجید کی آیات کے مضامین و موضوعات پر توجہ دیجیے اور اندازہ لگائیے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کو اپنے اموال کے استعمال اور خرچ کرنے کا کون کون سا راستہ تجویز کرتا ہے ۔انہیں مخلوق خدا کی خدمت اور مستحقین کی امداد کے لیے کیسے توجہ دلاتا ہے ۔
ان احکام اور ترغیبات کا ایک نقشہ ہمیں عہدِ رسالت مآبؐ کے مکی دور کے تیرہ سالوں اور مدنی عہد کے دس سالوں میں نمایاں دکھائی دیتا ہے ۔حضورﷺ نے زمانہ قبل نبوت میں بھی چالیس سال تک ایک ایسے طرز عمل اور سیرت کا نمونہ پیش کیا ہے جو مخلوق خدا کی خدمت ، رفاہ عامہ کے اقدامات ، قبائل کے درمیان اصلاحی اور تعمیری کاوشوں اور مظلوموں کی داد رسی پر مشتمل ہے ۔ عفوان شباب میں حلف الفضول جیسے تاریخی معاہدے میں شرکت ، پینتیس سال کی عمر میں تعمیر کعبہ کے دوران میں حجراسودکی تنصیب کے موقع پر حکیمانہ روش اور حرب الفجار میں قبائل کو کشت و خون سے نجات دلانے کی تدابیر تو اجتماعی نوعیت کی خدمات ہیں ، انفرادی سطح پر آپؐ کا طرز عمل ایک جدا گانہ حیثیت اور اسلوب کا حامل ہے۔ آپؐ…

مزید پڑھیں