ابتدا تیرے نام سے ۔ صائمہ اسما
قارئین کرام !سلام مسنون
ملک کے حالات مخدوش ہیں۔ بلوچستان میں کشیدگی بدستور ہے۔ساتھ پارا چنار میں ایک بار پھر فسادات پھوٹ پڑے ہیں جبکہ ابھی اکتوبر میں شدید خون خرابے کے بعد حالات کچھ نارمل ہوئے تھے۔پارا چنار میں جھگڑے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔مقامی نظام قبائلی ہے اور آبادی میں شیعہ اور سنی دونوں گروہ شامل ہیں۔بنیادی تنازع دونوں کے بیچ زمین کی ملکیت کا ہے جو فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرلیتا ہے۔آٹھ لاکھ آبادی کے اس قبائلی علاقےکو ۲۰۱۸ میں خیبر پختونخوا کا حصہ بنایا گیا۔افغانستان سے سرحد کے اشتراک کے باعث یہ علاقہ بھی دیگر قبائلی علاقوں کی طرح افغان جنگ اور اس کے بعد امریکہ کی دہشت گردی کی جنگ کے منفی اثرات سےمتاثر ہؤا۔ حالیہ کشیدگی کے بعد طے پایا تھا کہ یہاں فوج اور ایف سی کے تعاون سے امن قائم کیا جائے گا۔ مگر اس کے باوجود شیعہ مسافروں کی بسوں کا قافلہ معمولی سیکیورٹی کے ساتھ روانہ کردیا گیا جس کی وجہ سے معصوم لوگ پھر قتل وغارت کا شکار ہوئے۔ بظاہر ان واقعات کو مخالف گروہوں کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے مگر تازہ واقعے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی نہ ہی حکومت نے کسی کو نامزد…

