دسمبر ۲۰۲۴

ابتدا تیرے نام سے ۔ صائمہ اسما

قارئین کرام !سلام مسنون
ملک کے حالات مخدوش ہیں۔ بلوچستان میں کشیدگی بدستور ہے۔ساتھ پارا چنار میں ایک بار پھر فسادات پھوٹ پڑے ہیں جبکہ ابھی اکتوبر میں شدید خون خرابے کے بعد حالات کچھ نارمل ہوئے تھے۔پارا چنار میں جھگڑے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔مقامی نظام قبائلی ہے اور آبادی میں شیعہ اور سنی دونوں گروہ شامل ہیں۔بنیادی تنازع دونوں کے بیچ زمین کی ملکیت کا ہے جو فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرلیتا ہے۔آٹھ لاکھ آبادی کے اس قبائلی علاقےکو ۲۰۱۸ میں خیبر پختونخوا کا حصہ بنایا گیا۔افغانستان سے سرحد کے اشتراک کے باعث یہ علاقہ بھی دیگر قبائلی علاقوں کی طرح افغان جنگ اور اس کے بعد امریکہ کی دہشت گردی کی جنگ کے منفی اثرات سےمتاثر ہؤا۔ حالیہ کشیدگی کے بعد طے پایا تھا کہ یہاں فوج اور ایف سی کے تعاون سے امن قائم کیا جائے گا۔ مگر اس کے باوجود شیعہ مسافروں کی بسوں کا قافلہ معمولی سیکیورٹی کے ساتھ روانہ کردیا گیا جس کی وجہ سے معصوم لوگ پھر قتل وغارت کا شکار ہوئے۔ بظاہر ان واقعات کو مخالف گروہوں کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے مگر تازہ واقعے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی نہ ہی حکومت نے کسی کو نامزد…

مزید پڑھیں

حیاتِ دنیا کی حقیقت ۔ ڈاکٹر میمونہ حمزہ

دنیا کی زندگی کا آغاز حضرت آدم ؑ کے زمین پر قدم رکھنے سے، اور اختتام آخری انسان کی موت اور قیامت کا وقوع پذیر ہونا ہے۔یہ اس دنیا کی طبعی عمر ہے۔ اس میں ہر انسان کی دنیا اس کی پیدائش سے موت تک کا سفر ہے۔ حدیث ہے: جس کی موت آگئی اس کے لیے وہی قیامت ہے‘‘۔ دنیا کی زندگی انسان کے لیے امتحان گاہ ہے۔ یہ دکھوں کا گھر بھی ہے اور نعمت کدہ بھی! یہ کسی مخلوق کے لیے بھی ابدی قیام کی جگہ نہیں ہے، بلکہ ایک مستقر ہے۔ عارضی ٹھکانا جس میں مسافر سفر کی منزلیں طے کرتے ہوئے کچھ وقت ٹھہر کر سستا لیتا ہے۔ یہ دنیا اس کے لیے ایک پلیٹ فارم سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی جس میں کسی کی گاڑی جلد آ جاتی ہے اور کوئی دم بھر تاخیر سے رخصت ہوتا ہے۔
حیاتِ دنیا کا لغوی مفہوم
جب کوئی شے بالکل قریب ہو تو اس کے بیان کے لیے ’’دنی، ادنی، اور دنا‘‘ کا لفظ آتا ہے۔ادنی مشکل زندگی لیے بھی آتا ہے، اور اسفل یعنی گھٹیا زندگی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ (دیکھیے سورۃ البقرۃ، ۶۱)اسی طرح یہ اکبر کے مقابلے میں اصغر یعنی چھوٹے کے مفہوم میں…

مزید پڑھیں

(دولہا کی بارات ۲) بھاری تحفہ ۔ سعد حیدر

وقت بھی کیا عجیب شے ہے۔ کبھی تو یہ ایسا لطیف ہو جائے گا کہ باد صبا کی طرح سبک رفتاری سے گزرنے لگے گا۔ اور کبھی یہی وقت ایسا بھاری کہ آپ کو ایک ایک لمحہ گزارنا مشکل ہو جائے گا اور آپ کو یوں معلوم ہو گا جیسے آپ کے کمرے میں لگی گھڑی کی سوئیوں کی رفتار نہایت بوجھل اور سست ہو گئی ہے۔ اس فالج زدہ ٹانگ کی طرح جو بمشکل گھسٹ گھسٹ کر چلتی ہے اور ہر قدم پر سر تا پا تکلیف و اذیت میں مبتلا کر دیتی ہے۔
میرا بھی ان دنوں کچھ یہی حال تھا کہ وقت گزرتا ہی نہیں تھا۔ ہر دم بے چینی ، قلق اور پریشانی نے مجھ پر سایہ کر رکھا تھا۔عمار کی شہادت کے بعد چند دن تو فاطمہ اور عائشہ سے بذریعہ انٹرنیٹ رابطہ قائم رہا مگر پھر اچانک ہی یہ رابطہ ایسا منقطع ہؤا کہ بہتیری کوششوں کے باوجودبحال نہ ہو سکا۔ اور میرا دل ایک مرتبہ پھر وسوسوں اور بے شمار خدشات کی آماجگاہ بن گیا۔چار ماہ ایسے گزرے کہ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ میری بہترین دوست فاطمہ اور اس کی لاڈلی بہن عائشہ کو آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی۔روزانہ کی…

مزید پڑھیں

بتول میگزین ۔ جویریہ ریاض

ننھے پھول
جویریہ ریاض
اڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میں
پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے
بچپنا کب کیسے اتنی جلدی گزر جاتا ہے پتہ ہی نہیں چلتابند مُٹھی سے جیسے ریت سرکتی چلی جاتی ہے ویسے ہی پلک جھپکتے ہی بچے بڑے بھی ہو جاتے ہیں۔ قدرت کا بیش بہا قیمتی تحفہ والدین کے لیے اولاد ہے۔ آنگن میں بھاگتے دوڑتے، شور و غل مچاتے بچے زندگی کا احساس دلاتے ہیں۔ اٹھکیلیاں کرتی یہ تتلیاں۔چونچ لڑاتے ننھے منھے سے طوطے۔ افسردہ دل میں جان ڈال دیتے ہیں۔ بچے جب اپنے دماغ کی ننھی سی پوٹلی میں سے، محفوظ ہوئے چند الفاظ نکال کر اپنا مدعا بیان کرتے ہیں تو دنیا بھر کی زبانیں گونگی لگنے لگ جاتی ہیں۔ ان جملوں سے زیادہ شیرینی شاید ہی کسی اور چیز میں ہو۔ بچوں کی معصومیت بھری ادائیں، ان کی چھوٹی چھوٹی تخریب کاریاں، ان کی اپنی پہنچ سے بڑھ کر کوئی کام کرنے کی جستجو۔ یہ سب معمول کا حصہ نہ ہوں تو زندگی کتنی روکھی پھیکی سی لگے۔
وہ کہتے ہیں نا’’خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے‘‘ اس لیے جب یہ مخلوق خدا خاموش ہو تو سمجھ جائیں کہ سونامی آنے والا ہے۔ ایسی کئی خاموشیوں کے بعد…

مزید پڑھیں

بیٹیوں کی تربیت ۔ صائمہ اکرم چوہدری

وہ اٹھائیس سالہ لڑکی PHD کا انٹری ٹیسٹ دینے کراچی آئی تھی اور کچھ وجوہات کی بنا پر اسے دو دن کی بجائے، میرے گھر میں پورا ہفتہ رہنا پڑا اور یہ پورا ہفتہ میری قوت برداشت پر ایک عظیم امتحان تھا، اور میرا ارادہ تھا کہ اس کی والدہ جہاں کہیں مجھے ملیں گی میں اسے اونچی ٹانگ والا سیلوٹ ضرور ماروں گی جو ہمارے فوجی واہگہ بارڈر پر پڑوسیوں کے سامنے مارتے ہیں۔
اس لڑکی کے قیام کے دوران میری ہیلپر سوشیلہ نے کوئی چھتیس بار مجھے کہا کہ باجی اگر اس لڑکی کی ماں نے اسے کچھ نہیں سکھایا لیکن تعلیم نے اسے اتنا تو شعور دیا ہوگا کہ وہ کم ازکم اپنی ذاتی صفائی اور اپنے اردگرد کے ماحول کو صاف ستھرا رہنا سیکھ لیتی، اور صفائی تو آپ لوگوں کے مذہب میں نصف ایمان ہے۔ سوشیلہ کا کہنا بھی ٹھیک تھا۔
پانچ دن میں اس کی نئی بیڈ شیٹ انتہائی غلیظ ہوچکی تھی، اسے اپنے بیڈ پر ٹرے رکھ کر کھانا کھانے کی بُری عادت تھی جس کے نتیجے میں نئی بیڈ شیٹ پر کئی داغ لگ چکے تھے۔ ڈریسنگ پر رکھا اس کا ہئیر برش بالوں سے بھرا ہؤا تھا۔ سائیڈ ٹیبل پر چائے کے گندے…

مزید پڑھیں

دل وہیں رہ گیا ۔ کوثر خان

’’۲ جون کی صبح تھی۔ گھر میں افرا تفری پھیلی ہوئی تھی۔ یہ اس وجہ سے تھی کہ ہماری امی کی دعاؤں کی قبولیت کا وقت آن پہنچا تھا۔ بیت اللہ کی زیارت ہماری امی کی سب سے بڑی خواہش تھی اور اس خواہش کے پورا ہونے کا وقت آگیا تھا۔سامان تیارتھا، امی دو بجے گھر سے نکلیں اور جناح ٹرمینل پہنچیں وہاں سے جہاز میں سوار ہوئیں اور سعودی عرب روانہ ہوگئیں۔ یہ ہماری امی کا جہاز میں پہلا سفر تھا اور ہمارے لیے ایک یادگار واقعہ‘‘۔
یہ احساسات تھے ایک بچے کے جس کی ماں کے دل میںکئی سال سے بسی ایک مقدس خواہش پوری ہونے جا رہی تھی ۔ وہ ماں میں ہی ہوں اور وہ بچہ میرا چھوٹا بیٹا ہے جس نے اسکول کی کاپی کے ایک صفحے پر اپنے معصوم احساسات تحریر کیے۔
طبرانی کی حدیث مبارکہ ہے’’حج اور عمرے کے لیے جانے والے اللہ کے خصوصی مہمان ہوتے ہیں، وہ اللہ سے دعا کریں تو اللہ قبول فرماتا ہے اور مغفرت طلب کریں تو بخش دیتا ہے‘‘۔
یہ مبارک سفر میں نے اپنی والدہ اور ماموں کے ساتھ کیا۔ شریک حیات ناگزیر وجوہات کی بنا پر نہ جا سکے لیکن ان کی اجازت اور تمام تر تعاون…

مزید پڑھیں

اک ہاتھ جو رہتا تھا دعا کی طرح سر پہ ۔ شمیم لودھی

عوام الناس کا آنا جانا لگا رہتا تھا اُس ادارے میں ۔ مروجہ اور سرسری طریقے پر آمد و رفت جاری ہی تھی کہ یکا یک کچھ تبدیلیاں سب کی نظروں میں آگئیں مثلاً طالبات کا مرد کلرک کے کمرے تک جانا ہوتا تو اس کے دفتری میز تک پہنچ ہوتی مگر اب بیرونی کھڑکی کا صرف اتنا حصہ کٹوا کر راستہ رکھ دیا گیا جہاں طالبات کمرہ کلرک سے باہر رہ کر اپنے واجبات اورفنڈز جمع کرائیں ۔ ہوسٹل کی لڑکیاںبراہ راست گیٹ پر آکر مطلوبہ اشیا چوکیدار سے کہہ کر بازار سے منگوایا کرتیں ۔ انہیںروک دیا گیا اور حد بندی کی پابندی لگادی گئی ۔ کالج کے تمام مرد نوکروںکا داخلہ ممنوع قرار دیا جن کی رہائشی کمروں تک سیدھی رسائی تھی ۔ مجھے یعنی شمیم لودھی کو پرنسپل صاحبہ کے کمرے میں طلب کیا جہاں سارا سٹاف نصف دائرے میںموجود تھا ۔ مجھے متعا رف کروانا مقصود تھا ۔ انگلش کی لیکچرار گورڈن کالج پنڈی سے تعلیم یافتہ ، فزکس کی گولڈ میڈلسٹ ، بیالوجی کی پنجاب یونیورسٹی لاہور کی سند یافتہ…..یوں سب شخصیات سے آگاہی کروائی ۔مندرجہ بالا کالج میں سب تبدیلیاں جس بڑی شخصیت کی مرہون منت تھیں وہ تھے میرے پیارے ابا جان…

مزید پڑھیں

تلخ مشروب کا میٹھا ذائقہ ۔ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

انسان دنیا میں آنے کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ مختلف ذائقوں سے آشنا ہوتا ہے۔ نومولود صرف ماں کے دودھ کی لذت سے آشنا ہوتا ہے۔ پہلی بار کھٹا ذائقہ زبان پہ آتے ہی بچے کا سارا جسم منفی ردعمل کا اظہار کرتا ہے، دوا کی کڑواہٹ اس کو پیٹ کی ہر شے اگلنے پہ مجبور کر دیتی ہے۔
بچے کوعمر گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف ذائقوں سے شناسائی ہوتی جاتی ہے اور پھر کڑوی دوا کا استعمال بھی آسان ہو جاتا ہے کیونکہ شعور اس کے فائدے سے واقف ہو جاتا ہے۔
انسان نے پیٹ پوجا کی تسکین کے لیے زبان کے ذائقے کا ایک پورا جہان آباد کر لیا ہے۔ میڈیا نے زندگی کی دیگر رنگینیوں کا پرچار کرنے کے ساتھ نت نئے ذائقوں کے پکوان کا بازار سجا رکھا ہے گویا کہ زندگی کا مقصد صرف نت نئے ذائقوں کی شناسائی سے وابستہ ہے۔
انسان کی جسمانی طاقت کو بر قرار رکھنے کے لیے بہترین غذا اور مختلف نعمتوں سے مستفید ہونا مستحسن ہے اسی لیے رب العالمین نے بے شمار مختلف چیزیں پیدا کر کے حلال اور طیب غذا کا انتظام کیا اور اسے ہی اپنی بہترین مخلوق کے لیے پسند فرمایا، لیکن جب جسمانی بیماری کا علاج…

مزید پڑھیں

اقبال فراموشی ایک المیہ ۔ پروفیسر ڈاکٹر فارحہ جمشید

1915 سے 2024 تک اقبال کے فلسفہ خودی کا سفر ایک صدی سے اوپر محیط ہے ۔ فکر اقبال کے حوالے سے اس کا احاطہ کرنا چند اقتباس میں ممکن نہیں ، مگر عصر حاضر کی سیاسی ، سماجی ، معاشی اور معاشرتی زندگی متقاضی ہے کہ غوروفکر کریں کہ کیا واقعی اقبال’’ آج ‘‘ سے زیادہ’’ کل‘‘ کے شاعر ہیں ؟
میرے نزدیک اقبال فراموشی ایک المیہ ہے ۔صاحب علم ودانش ہوں یا ارباب اختیار ، عام خاص ہوں یا جوئیدگانِ علم، سب کے ہاں فکر اقبال اکیسویں صدی میں ایک معمہ بنی ہوئی ہے ۔ حیرت تو یہ ہے کہ بعض ذی شعور تو یہاں تک بھی کہتے ہیں کہ اقبال کی تخیلاتی باتیں فی زمانہ ممکن نہیں مگر کیا اس ترقی کی خاطر احترام آدمیت اور انسانیت کو کچل دیا جائے ؟ کیا فرقوں میں بٹ جانا ترقی ہے ؟ کیا امت محمدیہ ملت ابراہیمی سے منہ موڑ لے یہ ترقی ہے ؟
اقبال کی سوچ کا مرکز اور محور امت مسلمہ ہے ۔وہ امت کی حالت پر سراپا درد ہیں ۔ ان کی خواہش ہے کہ امت محمدی گدائی کے خوف اور غلامانہ ذہنیت کے چنگل سے آزاد ہو ، منفی خیالات سے گریز کرے مثبت انداز فکر…

مزید پڑھیں

خلافت اورملوکیت کا فرق ۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی

مسلمانوںکا خلافت راشدہ جیسے بے نظیر مثالی نظام کی نعمت سے محروم ہو جانا کوئی اتفاقی حادثہ نہ تھا جو اچانک بلا سبب رونما ہو گیا ہو، بلکہ اس کے کچھ اسباب تھے اور وہ بتدریج امت کو دھکیلتے ہوئے خلافت سے ملوکیت کی طرف لے گئے ۔ اس المناک تغیر کے دوران میں جتنے مراحل پیش آئے ، ان میں سے ہر مرحلے پر اس کو روکنے کے امکانات موجود تھے ،مگر امت کی ، اور در حقیقت پوری نوع انسانی کی یہ بد قسمتی تھی کہ تغیر کے اسباب بہت زیادہ طاقت ور ثابت ہوئے ،حتیٰ کہ ان امکانات میں سے کسی ایک کا فائدہ بھی نہ اٹھایا جا سکا۔
اب سوال یہ ہے کہ خلافت اور ملوکیت کے درمیان اصل فرق کیا تھا ، ایک چیز کی جگہ دوسری چیز کے آجانے سے حقیقت میں کیا تغیر واقع ہؤا،اور اس کے کیا اثرات مسلمانوں کی اجتماعی زندگی پر مرتب ہوئے ۔
-1تقررِ خلیفہ کے دستور میں تبدیلی
اوّلین بنیادی تبدیلی اُس دستوری قاعدے میں ہوئی جس کے مطابق کسی شخص کو امت کا سر براہ بنایا جاتا تھا۔
خلافتِ راشدہ میں وہ قاعدہ یہ تھا کہ کوئی شخص خود خلافت حاصل کرنے کے لیے نہ اٹھے اور اپنی سعی و تدبیر…

مزید پڑھیں

کوئی سمجھے تو ۔ ام ایمان

صارم کی کمر میں درد تھا شاید ہوا لگ گئی ہے اس نے سوچا اورکرسی سے کھڑے ہو کر کمر پر دونوں ہاتھ رکھ دیے۔ ایک دو قدم چل کر واپس اپنی کرسی پر بیٹھ گیا ۔
دوسرے کیبن میں بیٹھے لوگ اپنے کاموں میں منہمک تھے انہوں نے اس پر ایک اچٹتی نظر بھی نہ ڈالی ۔ حالانکہ شیشے کی دیواریں سب پر سب کی حرکتیں عیاں کرتی ہیں ۔
پردیس میں رہنا آسان نہیں…… سب سے زیادہ کمی تو لوگوں کی لگتی ہے کس سے بات کی جائے کس کو اپنا دکھ بتایا جائے …… کون آپ کی بات کو سمجھے گا ۔ویسے لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ پردیس میں غیر بھی اپنوں سے بڑھ کر قریب آجاتے ہیں اس نے سارے لوگوں کو ایک دفعہ دیکھا اور پھر اپنے کام پر جھک گیا ۔
گھر پہنچاتوروم میٹ نہیں تھا ۔ ورنہ وہ ہوتا تو کچھ دو چار باتیں کرلیتا…. صارم نے دل میں سوچا ابھی دن ہی کتنے ہوئے ہیں یہ دوسرا مہینہ ہی تو ہے ۔ اللہ کرے کچھ اچھے دوست بن جائیں تو بن باس کاٹنا آسان ہو جائے ….
کچھ آرام کر کے شرمین سے بات کروں گا ابھی تو وہ شاید باورچی خانے میں ہو گی…

مزید پڑھیں

محشر خیال ۔ شگفتہ عمر صاحبہ

پروفیسر خواجہ مسعود ۔ اسلام آباد
’’ چمن بتول‘‘ شمارہ نومبر 2024ء اب کے خوشنما پھولوں سے سجا ’ چمن بتول‘‘ کا ٹائٹل نگاہوں کو بھلا لگ رہا ہے ۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ سب سے پہلے آپ نے لاہور کی مسموم فضا پر اظہار افسوس کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کے تمام شہروں کو سموگ اور جرائم سے محفوظ بنا دے (آمین) آپ کے تبصرے کا دوسرا اہم موضوع غزہ کی صورت حال ہے۔ آپ نے وہاں کی تشویش ناک صورت حال کا صحیح نقشہ پیش کیا ہے ۔ آپ کے یہ جملے رونگٹے کھڑے کر دیتے ہیں ۔ ’’فلسطین کا ہر بچہ اب حماس ہے اور اپنے وطن پر قبضے کے خلاف مزاحمت کا جذبہ بن کر ڈٹ گیا ہے ….دن رات غزہ کے معصوم پھول اور غمزدہ والدین آنکھوں کے سامنے آتے رہتے ہیں ، ایک بے بسی نے گھیر رکھا ہے ہمیں نعمتیں استعمال کرتے ہوئے ضمیرمجرم محسوس ہوتا ہے‘‘۔
’’ بد گمانی ‘‘ ( ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ کا بصیرت افروز مضمون) ڈاکٹر صاحبہ نے وضاحت سے بتایا ہے کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بد گمانی سے پرہیز کرنے کی تلقین کی ہے کیونکہ بعض بد گمانیاں گناہ ہوتی ہیں اچھاگمان رکھنا…

مزید پڑھیں

مزا ہے امتحاں کا آزما لے جس کا جی چاہے ۔ زید محسن

جب محبت کرنے والے نہ پاس آتےنہ آنکھیں ملاتے تھے،مگردلوں میں تڑپ لیے کن اکھیوں سے دیکھتے اور منتظر رہتے۔اس کی کہانی جس پر زمین تنگ ہوگئی تھی

یہ اس زمانے کی بات ہے جب جہالت کا دور دورہ تھا اور ہر سو ایک وحشت ناک اندھیرا تھا ۔پھراس مہیب اندھیرے میں آمنہ کے لعل کے ہاتھوں ایک روشنی سی پھیلنا شروع ہوئی ۔گند میں رہنے والا کیڑا خوشبو سونگھے تو بے ہوش ہو جاتا ہے ، ادھر بھی یہی حال تھا کہ جہالت کے ماروں کو علم کی روشنی ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔
مگر آہستہ آہستہ فردِ واحد کا پیغام مٹھی بھر لوگوں تک پہنچا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سلیم الفطرت لوگوں کی طبیعتوں کا میلان اس ماہتاب کی طرف ہونا شروع ہؤا، چلتے چلتے ایسا دور آیا کہ مکہ کی بلند پہاڑی پر کھڑا وہ اکیلا شخص اب وضو بھی کرتا تو اس کا ہر قطرہ مانندِ مشک و عنبر سنبھالا جاتا ، اس کے لعابِ دہن سے شفایابی ہوتی۔اور بھلا ایسا کیوں نہ ہوتا؟ کل وہ جس رب کی خاطر تنِ تنہا نکلا تھا آج اسی عظیم ذات نے اس کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا تھا۔پہلے چہار سو دشمنِ جاں نظر آتے تھے تو اب ہر…

مزید پڑھیں

شہید یحییٰ سنوار کے لیے ۔ اسما صدیقہ

تمھارے دم سے ہمیں بھی اذنِ حیات اب تک ملا ہو&ٔا ہے
خزاں کے موسم میں دل کے اندر گلاب سا اک کھلا ہوا ہے

وفا شعاری وجاں نثاری کی سب مثالیں ہیں تم پہ نازاں
شہِ زمانہ کی بےحسی کا خراج تم نے اداکیا ہے

ڈرون حملوں کاوار جس نے بس اک چھڑی سے کیا ہے پسپا
شکستہ بازو کی بےبسی میں بھی وقتِ آخر ڈٹا ہؤا ہے

وہ بدر کاکربلا کاوارث،احد کے میداں میں ڈٹنے والا
حسینیت کا علم اٹھائے اکھڑتی سانسوں میں لڑ رہا ہے

حَسَن حسین و بلالِ حبشی ،علی وعثمان وعمر وحمزہ
قرون اولیٰ کی ہرشہادت کا باب پھر سے کھلاہؤا ہے

نبیِؐ رحمت کادست ِشفقت ردائے فردوس بن کے چھائے
زمین ِاقصیٰ کی ہرامانت کا قرض جس نے اداکیا ہے

 

نصیب
لوگوں کے ہاتھوں میں آپ کا نصیب نہیں ہوتا
وہ آپ کے مالک رازق نہیں ہیں۔
انہوں نے آپ کو تخلیق نہیں کِیا ہے۔
سو انہیں اس بات کی اجازت ہی کیوں دی جائے کہ وہ آپ کے اندرمایوسی کا زہر بھر دیں۔
آپ سے آپ کے خواب چھین لیں۔
آپ کو آپ کی نظروں میں بے وقعت کر دیں۔
آپ نے صرف اﷲ پر ہی بھروسہ رکھنا ہے۔
جس نے آپ سے خود آسانیوں کا وعدہ کیا ہے۔
ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے کہ اپنی اطاعت اور فرمانبرداری کرنے کی توفیق…

مزید پڑھیں

سورج کا پیغام ۔ ڈاکٹر اسلم عزیز درانی ترجمہ: فرحت زبیر

صبح سویرے ابھی مرغوںنے بانگ بھی نہ دی تھی کہ مدھانی رڑکنے کی آواز آنے لگی ۔ دور افق پر پھو پھٹنے لگی اور ہلکی ہلکی روشنی چار سو پھیل گئی ۔ کوئوں کی کائیں کائیں اور چڑیوں کی چوں چوں کا شور مچ گیا ۔ لوگ باگ اپنے کام کاج کے لیے گھروں سے نکل آئے تھے ۔ شاد و مدھانی کو چاٹی میں چھوڑ کر اٹھی اورباہر صحن میں آکر افق کی سمت ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگی ۔ سورج آہستہ آہستہ طلوع ہو رہا تھا ۔
پہلے ذرا سا کنارا ظاہر ہؤا پھر ہولے ہولے پورا نکل کر سونے کی پتری کی طرح چمکنے لگا ۔ وہ سوچنے لگی چڑھتا سورج ہر روز ہمیں یہ پیغام دیتاہے کہ ہر فجر کی رات ہوتی ہے اور ہر اندھیرے کے بعد اُجالا ہے ۔ وہ نہ جانے دل ہی دل میں اور کیا کچھ سوچ رہی تھی کہ ماں کے پکارنے کی آواز کان میں پڑی۔
’’ شادو! او شادو! کدھر ہے ؟‘‘
’’اماں میں ادھر صحن میں ذرا سورج کو نکلتے دیکھ رہی تھی ‘‘۔ شادو نے جواب دیا۔
’’ اچھا اچھا، چپ کر کے اپنا کام کر ۔ میںروٹی ڈال رہی ہوں ، جا کرباپ کو دے آ۔ ہاں دیکھ ،…

مزید پڑھیں

تین نصیحتیں ۔ امام نوویؒ

’’ حضرت ابو ذر جندب بن جنادہؓ اور ابوعبد الرحمٰن معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے رسول اکرم ؐ نے فرمایا : تم جہاں کہیں بھی ہو اللہ سے ڈرو اور خطا ہو جانے کے بعد نیکی کرو کہ وہ برائی کو مٹا دیتی ہے اور لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آئو ‘‘۔(ترمذی مسند احمد )
تَمحُھا کا مطلب ہے مٹانا ، ختم کرنا ۔ مراد ہے کہ جب بھی کوئی غلطی ہو جائے تو فوراً نیکی کرے تاکہ غلطی کا ازالہ ہو جائے ۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
ان الحسنات یذھبن المسیات
اس حدیث مبارکہ میں حضور نبی کریمؐ نے حضرت معاذبن جبلؓ کو تین نصیحتیں فرمائیں ۔
(۱) تقویٰ
تم جہاں کہیں بھی ہو اللہ سے ڈرتے رہو۔ اس میں لفظ ’’تقویٰ‘‘ استعمال ہؤا ہے ۔ جو اپنے مفہوم کے اعتبار سے بہت وسیع ہے ۔ قرآن مجید میں اس سے زیادہ اور کوئی لفظ اتنی مرتبہ استعمال نہیں ہؤا ہے ۔تقویٰ کی حیثیت یہ ہے کہ بندہ اپنے اور اس سے جس سے ڈرتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے درمیان ایک دیوار حائل کر لے اور بندے کا اپنے رب سے ڈرنا یہ ہے کہ وہ اپنے رب کے غضب اور ناراضگی اور اس کی سزا سے بچے…

مزید پڑھیں

وہ دسمبر ۔ روزینہ خورشید

یہ تقریباً 25 سال پرانی بات ہے ۔ اس دن کالج کینٹین میں بہت زیادہ رش تھا ۔ایسا لگ رہا تھا ساری طالبات نے ایک ساتھ ہی دھاوا بول دیا ہے۔اتفاق سے میرا بھی چنا چاٹ کھانےکا بڑا دل کر رہا تھا لہذا ہمت کر کے رش میں گھس گئی، بڑی تگ و دو کے بعد آخر کار میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو ہی گئی لیکن افسوس جیسے ہی باہر نکلنے لگی پیچھے سے ایک دھکا لگا اور میں پلیٹ سمیت سامنے کھڑی لڑکی سے جا ٹکرائی ۔
شرمندگی اور افسوس کے مارے مجھے رونا آرہا تھا کہ ایک تو اس لڑکی کا یونیفارم میری وجہ سے خراب ہوگیا دوسرے بھوک اب ناقابل برداشت ہو رہی تھی۔اس سے پہلے کہ میں معذرت کرتی وہ الٹا مجھ سے کہنے لگی ’’ اوہو آپ کی تو ساری چاٹ مجھ پرہی الٹ گئی یہ تو خیر میں صاف کر لوں گی مگر آپ اب کیا کھائیں گی ،چلیں کوئی بات نہیں میرے ساتھ لنچ کر لیں آج امی نے مجھے آلو کے پراٹھے اور شامی کباب دیے ہیں ‘‘ ۔
یہ تھی افشین زہرہ سے میری پہلی ملاقات، جس کی بے تکلفانہ گفتگو اور بہترین اخلاق نے مجھے اس سے دوستی کرنے پر مجبور…

مزید پڑھیں

زبیر کی کہانی ۔ نادیہ سیف

صبح امی سے پیٹ کے درد کا بہانہ لگایا ۔ آنکھیں نہیں کھل رہی تھیں۔ اب وہ ہر دوسرے دن جانے کا منع کر دیتا ۔ کچھ دن ابو دیکھتے رہے پھر سختی کی حتیٰ کہ نوبت پٹائی پر آگئی ۔ ماں ہمیشہ ڈھال بن کر سامنے آ جاتی تو اکثر حفظ کروانے نہ کروانے ،روٹین کے بدلنے پر دونوں میاں بیوی کی بحث ہونے لگتی۔نند نے دبے لفظوں میں سمجھایا کہ حافظ بنانے کے لیے صرف مسجد بھیج دینا کافی نہیں ہوتا ،اپنے گھر کے ماحول کو بھی اس کے لیے آسان بناؤ ۔سب جلدی سوئیں اور سویرے بچے کے ساتھ اٹھیں، ہمیں دیکھو ہماری روٹین میں بچے کو مسجد اور گھر دونوں میں ایک ہی جیسا ماحول ملتا ہے ۔ لیکن انہیں یہ سمجھ نہ آرہی تھی کہ حافظ بنانے کے لیے صرف مدرسے بھیج کر جان نہیں چھوٹ جاتی بلکہ مدرسے سے زیادہ گھر میں بچے کواس عظیم کام کے لیے تقویت پہنچانی ہوتی ہے۔
رفتہ رفتہ حال یہ ہو گیا کہ وہ نہ صرف گھر والوں سے بدظن ہؤا بلکہ اپنے آپ کو مظلوم سمجھنے لگا ۔ حتیٰ کہ ہر رشتہ اسے خود غرض اور منافق لگنے لگا ۔ آج وہ گیارہ سال کا ہونے کے باوجود…

مزید پڑھیں