بشری تسنیم

زوجین میں سمجھوتہ – بتول دسمبر ۲۰۲۰

سمجھوتہ کے معنی ہیں ایک دوسرے کو سمجھ لینا اور اسی کو مفاہمت کہا جاتا ہے۔ سمجھوتہ یک طرفہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا، دونوں طرف سمجھوتے کا میلان موجود ہونا چاہئے۔ سب سے پہلے تو اس بات پہ سمجھوتہ ضروری ہے کہ دونوں باہم افہام و تفہیم کے ساتھ ایک دوسرے کے مزاج عادات و اطوار ، سے شناسائی کروائیں گے ۔ بہت ساری چیزیں ہمیں اس وقت ناگوار بلکہ ناقابل برداشت لگتی ہیں جب وہ اپنی الگ پہچان رکھتی ہوں مگر جب وہ دوسری اشیاء سے سمجھوتہ کر لیتی ہیں تو ایک نئ، مختلف خوشگوار اور قابل قبول شے بن جاتی ہے۔ روزمرہ زندگی میں اس کی مثالیں جا بجا نظر آتی ہیں۔مثلاً کھانے پینے کی اشیاء میں مختلف چیزوں کا استعمال مناسب مقدار میں کیا جاتا ہے تو وہ مزے دار ڈش بن جاتی ہے۔صرف سرخ مرچ یا دیگر مصالحے الگ الگ کون پھانک سکتاہے؟کیا سالن کی لذت دوبالا کرنے والے ان مصالحوں کو الگ الگ کھا کر لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے؟یہ گمان رکھ کر کہ سب چیزوں نے پیٹ میں ہی جانا ہے۔ مصالحے اصل میں ڈالے ہی اس لیے جاتے ہیں کہ ایک چیز کو دوسرے سے ملا کر بہتر چیز پیش کی…

مزید پڑھیں

جذباتی صدمے اور اسوہ رسولؐ – بتول نومبر۲۰۲۰

انسان طبعاً کمزور ہے (النسا ۸۲) اور سرشت میں عجلت پسند ہے (الانبیاء۷۳، اسراء ۱۱) اس لیے پائدار سکھ کے حصول کے لیے انتظار کی ختم ہوجانے والی اذیت برداشت کرنے کی بجائے عارضی دکھ اور ناکامیاں، پریشانیاں اولاد آدم کو زیادہ متاثر کرتی ہیں اور تا دیر یاد رہتی ہیں۔ انسان کے خمیر میں حاصل شے کی طرف سے عدم توجہی اور لا حاصل کا رونا موجود ہے۔ قرآنی زبان میں انسان کو تھڑ دلا یا کچے دل والا (ھلوعا) کہا گیا ہے(المعارج۹۱)۔ اسی لیے انسان کو تحمل، صبر و ضبط کے لیے کونسلنگ اور مضبوط سہارے کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔
ہر انسان کو معاشرتی وسماجی زندگی میں انفرادی طور پر قدر و ناقدری کے احساسات سے لازما واسطہ پڑتا ہے۔ اپنوں کی طرف سے قدرناشناسی کے وقت جب جذباتی صدمے روح کو چھلنی کرتے ہیں تو دل جوئی کے لیے کوئی تو ہونا چاہیے جو صائب مشورہ دے کچھ تسلی اور دلاسہ دے کوئی مثالی کردار کا حوالہ دے کر مطمئن کردے۔ ان حالات میں کوئی ایسا سچا ہمدرد دوست ہو جو سمجھائے کہ ان حالات میں اپنی شخصیت کے وقار dignity کو مجروح کیے بغیر کیا قدم اٹھانا چاہیے۔ اور دلائل سے قائل کرے کہ اسی شخصیت…

مزید پڑھیں

حیا خیر لاتی ہے – مارچ ۲۰۲۱

حیات میں حیا مضمر ہے۔ یا پھر حیا کے سنگ حیات خوبصورت ہے۔ وہی فرد اور معاشرہ تازگی اور حسن کے ساتھ زندہ رہتا ہے جس میں حیا باقی رہے۔
پہلے انسان سیدنا آدم علیہ السلام کا پتلا جس مٹی سے تیار کیا گیا، حیا اس کا جوہر تھا؛ جیسے پھول میں خوشبو اس کا جوہر ہے۔ ہر چیز کو بناتے ہوئے اس کی اساس یا بنیادی خاصیت کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔نمکین ہےیا میٹھا، کھٹا ہے یا پھیکا، ہر چیز کو بنانے کے کچھ عناصر ترکیبی (ingredients) ہوتے ہیں۔ آدم کے پتلے کی تیاری والی مٹی میں نفس روحانی کے لیے جو ناگزیر چیز یا عنصر رکھی گئی وہ حیا ہے۔
اسی لیے انسانیت کی بقائے حیات میں حیا مضمر ہے۔ جب آدم کے مادی وجود میں’’الحی القیوم‘‘ نے روحِ حیات پھونکی تو حیا اس کا لازمی جزٹھہری۔ حیا، حیات اور الحی کا بنیادی حرف’’ح‘‘ اور’’ی‘‘ ہے۔ زندگی عطا کرنے والی ذات’’الحی‘‘ ہے۔ آدم کو جس مٹی سے بنایا گیا تھا اس کو حیا کے جوہر سے تیار کیا گیا تھا اسی لیے اس کے انداز و اطوار، بول چال اور لفظوں میں بھی حیا تھی…. پردہ تھا…. حجاب اور لحاظ تھا، تہذیب تھی۔
باوا آدم اوراماں حوا اُس وقت بے…

مزید پڑھیں

لازمی پرچے – بتول نومبر ۲۰۲۱

تعلیم کی ابتدائی جماعت سے ہی سب جانتے ہیں کہ کامیاب ہونے اور اگلے درجے میں ترقی حاصل کرنے کے لیے کسی ایک یا زیادہ لازمی مضمون میں پاس ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اور ہر مضمون کے امتحانی پرچہ میں کوئی ایک سوال لازمی حل کرنا ہوتا ہے۔
زندگی بھی ایک امتحان ہے اور جسمانی یا روحانی طور پہ زندہ رہنے کے لیے کچھ امر لازمی ہیں۔ جسم کی مشین میں دل وہ لازمی پرزہ ہے جس کے حرکت میں نہ رہنے سے جسمانی موت واقع ہو جاتی ہے۔
روح بھی دل کے سہارے قائم و زندہ رہتی ہے۔ روح کو زندہ رکھنے والا دل بھی اِسی دھڑکتے اور خون پمپ کرنے والے دل سے ہی منسلک ہے۔ مگر دھڑکتا دل زندہ محسوس کیا جا سکتا ہے اور اس کی بنا پر انسان کو تندرست قرار دیا جا سکتا ہے۔ مگر وہ دل جو روح کو زندہ رکھتا ہے وہ بیمار ہو، کام کرنا چھوڑ دے، زنگ لگ جائے، سیاہ ہوجائے، یا مُردہ ہو جائے تو دنیا کی کوئی مشین اس کی حالت زار کا عکس پیش نہیں کر سکتی۔ بظاہر زندہ انسان، مُردہ روح کے ساتھ پھرتا ہے…… اللہ تعالیٰ نے فرمایا سورہ الاعراف 179 میں:
’’اور یہ حقیقت ہے کہ بہت…

مزید پڑھیں

عورت کا گھر – بتول دسمبر ۲۰۲۱

گھر ایک ایسا مقام ہے جہاں انسان بے فکری سے اپنا وقت اپنی مرضی کے مطابق گزارتا ہے، گھر ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ گھر کوئی لگی بندھی، متعین شکل کی عمارت کا نام نہیں۔ چار دیواری اور چھت کے ساتھ ایک دروازہ ہو تو وہ بھی گھر کہلا سکتا ہے۔ چھت گھاس پھونس کی ہو، دیواریں کپڑے کی ہوں اور ٹاٹ کا ٹکڑا دروازے کا کام دیتا ہو تو وہ بھی گھر ہی ہے۔ کسی بھی جگہ پہ چھوٹا یا بڑا مکان بنایا جا سکتا ہے مگر اس کے مکین اس مکان کو گھر بنانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
مرد اپنے گھر کا مالک و حاکم ہوتا ہے، اور یہ بات معاشرے میں معروف ہے کہ عورت باپ کے گھر میں رہتی ہے، شادی کے بعد وہ شوہر کے گھر چلی جاتی ہے۔ اور اگر باپ اور شوہر نہ رہیں تو وہ بھائی کے گھر میں رہتی ہے۔ جب بیٹے بڑے ہو جائیں تو وہ بیٹے کے گھر میں رہتی ہے۔ عوام الناس (الا ماشاءاللہ) کے رویے یہ تاثر دیتے ہیں کہ
’’عورت کا اپنا کوئی گھر نہیں ہوتا‘‘۔
بے شک مرد کے سربراہ ہونے کا تاثر بالکل درست ہے۔ یقیناً مرد ہی عورت کا ’’قوام‘‘ ہے۔ عورت…

مزید پڑھیں

بارش کے بعد – بتول دسمبر ۲۰۲۱

گلابی جاڑے کی آمد آمد تھی ۔ شام کو ہلکی سی ٹھنڈک محسوس ہوتی ، مگر دن میں گرمی کا احساس غالب رہتا ، سبک سی ہوائیں گرمی کو الوداع کہنے آتیں مگر کچھ پیش نہ چلتی ۔ایک دن ان نرم نرم سی ہوائوں نے آندھی سے ایکا کرلیا… پھرتندو تیز ہوا کا طوفان ، درختوں ، کمزور چھتوں ، سڑک کے سائن بورڈز کو اکھاڑنے کے در پے ہو گیا شہر کا ساراانتظام بھپری ہوا نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ، سہ پہر کو ہی بازار ، گلیاں سنسان ہو گئے … بجلی دَم سادھے حسب معمول کسی کونے کھدرے میں جا چھپی۔ سائیں ، سائیں کرتی ہوائیں درختوں کی شاخوں کو اِدھراُدھر پٹخ رہی تھیں ۔مٹی کا طوفان بگولوں کی شکل میں در بدر پھر رہا تھا ۔اس شہر خاکی میںآندھی اور گردو غبارکا کوئی موسم نہیں ، ہر وقت ،وقت غبار ہے ۔
عصر کی نماز سے فارغ ہوکر نمازی بمشکل اپنے گھروں کو پہنچے … جہاں دروازوں اورکھڑکیوں کے پٹ بے قابو ہوکر سینہ کوبی کررہے تھے ۔ صحن اور برآمدے درختوں کے پتوں سے اٹ گئے۔ مٹی اوردھول نے صحن اداس کر دئیے ۔ گلیوں میں جگہ جگہ پلاسٹک کے بیگ اپنی بے بسی پہ…

مزید پڑھیں

یادِ ماضی – بتول جنوری ۲۰۲۲

انسان جب سے ہوش سنبھالتا ہے اپنے ساتھ اچھے برے ہونے والے معاملات کا سامنا کرتا ہے۔ بہت چھوٹی عمر میں ہونے وا لے زیادہ تر واقعات اس کی یادداشت سے محو ہو جاتے ہیں، کچھ غیر معمولی واقعات ہی اس کو یاد رہتے ہیں اور ان کا نقش انسان کی زندگی پہ بہت گہرا ہوتا ہے جو آخری عمر تک نہیں مٹتا۔ دانائی سے بھرا یہ قول خود پتھر پہ لکیر ہے:
’’بچپن کے نقش گویا پتھر پہ لکیر ہوجاتے ہیں‘‘
ہماری زندگی میں منفی و مثبت جذبات کا بھی ایک مقام ہے اور یہی جذبات ہماری زندگی میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ جذبات ہماری یادوں پر اثر انداز ہوتے ہیں کیونکہ ہم ان چیزوں کو بہت اچھی طرح یاد رکھتے ہیں جن کے جذباتی اثرات ہم پر گہرے ہوتے ہیں۔
مثلاً ہر شخص کو یاد رہتا ہے وہ دن، جب اس کا کوئی پیارا رشتہ دنیا سے چلا جاتا ہے۔ وہ آخری ملاقات یا بات جو فوت ہوجانے والے کے ساتھ ہوئی ہوتی ہے۔
وہ پہلے قلبی احساسات جو کسی پہلی کامیابی سے پیدا ہوئے ہوتے ہیں۔ اور وہ سب یاد آتے ہیں جنہوں نے کامیابی پہ اچھے یا برے ردعمل کا اظہار کیا ہوتا ہے۔ یا وہ پہلا صدمہ جو غیر…

مزید پڑھیں

بریکنگ نیوز – بتول مئی ۲۰۲۲

خبر کی دنیا بہت وسیع ہے اور اسی لیے اسی نسبت سے اس کی تعریفات میں بھی بہت وسعت ہے۔ بسا اوقات یہ تعریفیں ایک دوسرے کے متضاد نظر آتی ہیں لیکن دراصل یہ خبر کو دیکھنے کا زاویہ ہے جہاں سے تعریف مرتب کرنے والا خبر کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر خبر کی چند ایک معروف تعریفیں مندرجہ ذیل ہیں:
خلیل اللہ فراز کہتا ہے، خبر ایسا جملہ ہوتا ہے جس کا کوئی منشا ہے، اور اس جملہ کے بعد ایک انشائیہ جملہ بنے۔ جیسے کسی نے خبر دی ’’آپ کی سائیکل کا ٹائر پنکچر ہے‘‘انشا ئیہ بنا کہ پنکچر بنوا لو۔
امریکی صحافی اینڈرسن ڈانا کے مطابق’’اگر کتا انسان کو کاٹے تو یہ خبر نہیں لیکن اگر انسان کتے کو کاٹے تو یہ خبر ہے‘‘۔
ڈاکٹر عبد السلام خورشید فنِ صحافت میں خبر کی تعریف یوں کرتے ہیں ’’خبر کا تعلق ایسے واقعات اور مشاہدات سے ہوتا ہے جو معمول سے ہٹ کر ہوں‘‘۔
برطانوی پبلشر’’لارڈ نورتھ کلف‘‘ کے مطابق’’خبر وہ اطلاع ہے جسے کوئی ایک شخص چھپانا چاہتا ہے جبکہ دیگر تمام لوگ اسے مشتہر کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
امریکی صحافی ’’کرٹ لوڈر‘‘ کے مطابق’’خبر کوئی بھی ایسی چیز ہوسکتی ہے جو دلچسپ ہو جس کا تعلق دنیا میں…

مزید پڑھیں

جنت کے پھول – بتول اگست ۲۰۲۲ -بشری تسنیم

انسان خوابوں اور خیالوں میں لامتناہی خواہشوں، آرزئووں اور تمناوں کے چمن میں بستا ہے۔ اس چمن خیال پہ کچھ خرچ نہیں ہوتا، کسی کی مداخلت کا ڈر نہیں ہوتا، کسی متعین جگہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ فرصت ہو یا نہ ہو تصور جاناں لیے زندگی کے جھمیلے نپٹاتے رہو۔ فی زمانہ مادی اسباب و علل میں یہ واحد چیز ہے جس پہ مال خرچ نہیں ہوتا بس انسان کا زندہ ہونا ضروری ہے جب کہ ہوش و حواس میں ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔
تصوراتی دنیا دراصل اگر محرومیوں، حسرتوں کا نوحہ ہے تو کبھی کچھ حاصل کر لینے کا یقین و انبساط بھی ہے۔ تصور اور خواب و خیال انسان کی ذہنی، جسمانی اور روحانی صحت کا پیمانہ ہیں۔
انسانی عمر کی ہر منزل اس پیمانے میں مثبت یا منفی تبدیلیاں لاتی ہے۔ ماحول، تعلیم و تربیت، حالات و واقعات بھی اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
تصوراتی دنیا ہر فرد کا ایک ایسا ذاتی سیارہ ہے جہاں وہ اپنی مملکت کا خود بادشاہ ہوتا ہے۔ مستقبل کے سارے کردار اس کی رعایا ہوتے ہیں۔ اور وہ جس کو چاہے جس مقام پہ رکھے۔ یہ کیفیت منفی ہو یا مثبت حد سے تجاوز کر جائے تو پاگل پن کہلاتی ہے۔…

مزید پڑھیں

جیسے چاہو جیو – بتول نومبر ۲۰۲۲

اشتہاری کمپنیاں جب کسی چیز کی فروخت کے سلسلے میں سلوگن بناتی ہیں تو وہ کوئی سیدھا سادہ معاملہ نہیں رہتا۔ عوام الناس میں پذیرائی کے بعد وہ ایک نظریہ بن جاتا ہے۔
’’جیسے چاہو جیو‘‘ بھی اسی کی ایک مثال ہے۔ گھر میں رہنے والے سب افراد جب اس سلوگن کے ساتھ اپنی زندگی کو آزاد سمجھتے ہیں تو میاں بیوی کے درمیان فاصلوں کا آغاز ہو جاتا ہے۔ بچے والدین کی مداخلت سے اپنے طرزِ حیات پہ قدغن محسوس کرتے ہیں۔پھر اس کی اگلی منزل ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا نعرہ ہوتا ہے۔
بظاہر چھوٹے چھوٹے معاملات انجام کار فتنہ عظیم بن کر سامنے آتے ہیں۔اسلام نے ہر بڑے فتنے کے نمودار ہونے کے پہلے ہی مرحلے پہ راستے کی بندش کا انتظام کر دیا ہے۔
مرد کوعورت کی مشابہت اور عورت کومرد کی مشابہت اختیار نہ کرنے کا حکم ہے۔ یہ مشابہت چہرے مہرے کی ہو، بالوں کی تراش خراش کی یا لباس کی۔ مردوں کے لیے ہاتھوں پہ مہندی اور سونے کا زیور اور ریشم کا استعمال منع ہے۔ لباس کے رنگوں میں بھی شوخ رنگ عورتوں کے اور ہلکے رنگ مردوں کے لیے ہؤا کرتے تھے۔
لباس کی یکسانیت نے مرد و عورت کی تفریق پہ پانی پھیر دیا۔…

مزید پڑھیں

لوگ کیا کہیں گے! – بتول فروری ۲۰۲۳

یہ سوچ سب سے پہلے غالباً قابیل کے دماغ میں اس وقت آئی ہوگی جب اپنے بھائی ہابیل کو اپنے ہاتھوں قتل کر کے لاش پہ نظر پڑی ہوگی۔ کاش قابیل کو یہ خیال قتل سے پہلے آیا ہوتا کہ ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘۔ شاید اس وقت لوگ ہی کم تھے اور لوگوں کی فکر و فہم نے دوسروں کے بارے میں ’’کچھ نہ کچھ‘‘ کہنے کی رسم ایجاد نہیں کی تھی۔
اس پہ بھی تاریخ خاموش ہے کہ پہلے لوگوں نے’’کچھ‘‘ کہنے کی ابتدا کی تھی یا انسان کے ذہن میں یہ خیال جاگزیں ہو&ٔا تھا کہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘
پہلا جرم سرزد ہؤا تو شاید لوگوں کو اس بات کا احساس نہیں تھا کہ’’کچھ کہنا بھی ہوتا ہے‘‘ مگر قابیل نے کوّے کو اپنا استاد مانتے ہوئے یہ ضرور سوچا ہوگا کہ:
’’کوّا میرے بارے میں کیا کہتا ہوگا؟‘‘
یہ بہت تعجب کی بات ہے کہ انسان جرم کرنے سے پہلے نہیں سوچتا کہ لوگ کیا کہیں گے۔سیدنا یوسف کے بھائیوں نے اپنے والد کے چہیتے بیٹے کو کنوئیں میں ڈالتے وقت نہیں سوچا کہ جب پتہ چلے گا تو لوگ کیا کہیں گے۔ عزیزِ مصر کی بیوی کو بھی خیال نہ آیا کہ جب بات کھل گئی تو سارے شہر…

مزید پڑھیں

رومان پرور باتیں – بتول مارچ ۲۰۲۲

انسانوں کے بے شمار مزاج ہوتے ہیں۔ اور ہر مزاج کا ایک الگ ہی رنگ ہوتا ہے لیکن یہ ایک فطری تقسیم ہے کہ خوشی سچی ہو اور غم گہرا ہو تو اس پہ سارے انسانوں کا اظہار ایک جیسا ہی ہوگا۔ خوشی میں مسکرانا، ہنسنا یا قہقہہ لگانا اور اداسی، غم، تکلیف یا پریشانی میں اظہار کے سب تاثرات آفاقی ہیں۔
محبت اور نفرت آفاقی جذبے ہیں ان کے اظہار کے لیے انداز بھی ہر انسان میں ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ دنیا کے کسی خطے میں یہ نہیں ہوتا کہ انسان جب کسی سے خوش ہو تو اظہار کے لیے اسے مار پیٹ کرے یا اسے اذیت دے اور نہ ہی کہیں یہ ملے گا کہ کوئی اپنی عزتِ نفس پامال کرنے والے سے دلی تعلق محسوس کرے۔ اور اس بات کا چرچا کرے کہ فلاں نے آج مجھے بہت بےعزت کیا اس لیے میں بہت خوش ہوں۔ یقیناً یہ غیرفطری اور لایعنی تصور ہے۔
انسانوں کی زندگی میں رومان بھی روح کی تسکین کے لیے ایک فرحت افزا اور خوب صورت جذبہ ہے۔
ہر باذوق فرد رومان پرور ماحول، رومانی باتیں، رومانی کہانیاں اور نغمے پسند کرتا ہے۔ رومان کے بارے میں بھی سب کا نقطہٴ نظر ایک جیسا نہیں…

مزید پڑھیں

رومان پرور باتیں – بتول مارچ ۲۰۲۲

انسانوں کے بے شمار مزاج ہوتے ہیں۔ اور ہر مزاج کا ایک الگ ہی رنگ ہوتا ہے لیکن یہ ایک فطری تقسیم ہے کہ خوشی سچی ہو اور غم گہرا ہو تو اس پہ سارے انسانوں کا اظہار ایک جیسا ہی ہوگا۔ خوشی میں مسکرانا، ہنسنا یا قہقہہ لگانا اور اداسی، غم، تکلیف یا پریشانی میں اظہار کے سب تاثرات آفاقی ہیں۔
محبت اور نفرت آفاقی جذبے ہیں ان کے اظہار کے لیے انداز بھی ہر انسان میں ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ دنیا کے کسی خطے میں یہ نہیں ہوتا کہ انسان جب کسی سے خوش ہو تو اظہار کے لیے اسے مار پیٹ کرے یا اسے اذیت دے اور نہ ہی کہیں یہ ملے گا کہ کوئی اپنی عزتِ نفس پامال کرنے والے سے دلی تعلق محسوس کرے۔ اور اس بات کا چرچا کرے کہ فلاں نے آج مجھے بہت بےعزت کیا اس لیے میں بہت خوش ہوں۔ یقیناً یہ غیرفطری اور لایعنی تصور ہے۔
انسانوں کی زندگی میں رومان بھی روح کی تسکین کے لیے ایک فرحت افزا اور خوب صورت جذبہ ہے۔
ہر باذوق فرد رومان پرور ماحول، رومانی باتیں، رومانی کہانیاں اور نغمے پسند کرتا ہے۔ رومان کے بارے میں بھی سب کا نقطہٴ نظر ایک جیسا نہیں…

مزید پڑھیں

بریکنگ نیوز – بتول مئی ۲۰۲۲

خبر کی دنیا بہت وسیع ہے اور اسی لیے اسی نسبت سے اس کی تعریفات میں بھی بہت وسعت ہے۔ بسا اوقات یہ تعریفیں ایک دوسرے کے متضاد نظر آتی ہیں لیکن دراصل یہ خبر کو دیکھنے کا زاویہ ہے جہاں سے تعریف مرتب کرنے والا خبر کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر خبر کی چند ایک معروف تعریفیں مندرجہ ذیل ہیں:
خلیل اللہ فراز کہتا ہے، خبر ایسا جملہ ہوتا ہے جس کا کوئی منشا ہے، اور اس جملہ کے بعد ایک انشائیہ جملہ بنے۔ جیسے کسی نے خبر دی ’’آپ کی سائیکل کا ٹائر پنکچر ہے‘‘انشا ئیہ بنا کہ پنکچر بنوا لو۔
امریکی صحافی اینڈرسن ڈانا کے مطابق’’اگر کتا انسان کو کاٹے تو یہ خبر نہیں لیکن اگر انسان کتے کو کاٹے تو یہ خبر ہے‘‘۔
ڈاکٹر عبد السلام خورشید فنِ صحافت میں خبر کی تعریف یوں کرتے ہیں ’’خبر کا تعلق ایسے واقعات اور مشاہدات سے ہوتا ہے جو معمول سے ہٹ کر ہوں‘‘۔
برطانوی پبلشر’’لارڈ نورتھ کلف‘‘ کے مطابق’’خبر وہ اطلاع ہے جسے کوئی ایک شخص چھپانا چاہتا ہے جبکہ دیگر تمام لوگ اسے مشتہر کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
امریکی صحافی ’’کرٹ لوڈر‘‘ کے مطابق’’خبر کوئی بھی ایسی چیز ہوسکتی ہے جو دلچسپ ہو جس کا تعلق دنیا میں…

مزید پڑھیں

تقویٰ، قرآن اور رمضان- بتول اپریل ۲۰۲۳

ارشادِ ربانی ہے:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلی اْمتوں پر فرض کیے گئے تھے، اسی سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی‘‘۔ (سورة البقرة: 183)
روزے کا بنیادی مقصد تقویٰ کی صفت پیدا کرنا ہے۔ اگر پہلے سے تقویٰ ہے تو اس کو مزید نشوونما دینا ہے’’تقویٰ‘‘ ایک نو مسلم یا عامی مسلمان کے لیے جس قدر ضروری ہے اُتنا ہی ایک عالم یا ولی اللہ کے لیے بھی اہم ہے۔ تقویٰ کی کوئی حد یا انتہا نہیں، موت کے آخری لمحہ تک اور زندگی کے ہر لمحہ میں اس کا ہونا لازمی امر ہے۔ قرآن پاک میں تقویٰ کا لفظ 15 مرتبہ آیا ہے۔ عبادات ہوں یا معاملات سب کی بنیاد تقویٰ ہے۔ اس سے مشتق الفاظ’’متقین‘‘ 42 مرتبہ، ’’متقون‘‘ 19 مرتبہ، ’’ یتّقِ‘‘ 6 مرتبہ اور’’یتقون‘‘ 18 مرتبہ استعمال ہوا ہے حتیٰ کہ جنت میں داخلہ بھی تقویٰ سے مشروط ہے۔ مختصر الفاظ میں تقویٰ کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لیے کوئی عمل کرنا۔ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے خوف سے کوئی ناپسندیدہ کام چھوڑ دینا۔
اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے نفس پر صبر کرنا اور اپنے…

مزید پڑھیں

امت مسلمہ کی خیر خواہی – بتول مئی ۲۰۲۳

اسلام آفاقی دین ہے رب العٰلمین نے سیدناﷺ کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا اور قرآن مجید فرقان حمیدھدی للعالمین ہے۔اس دین کا قرآن پاک اور اسوہ رسول صلعم کی تعلیم کا لب لباب یا خلاصہ انسانیت کی فلاح ہے اور اس فلاح کا بنیادی فلسفہ انسانیت کے لیے دعا اور نصیحت ہے۔ نصیحت کے بارے میں واضح ہے کہ’’ الدین النصیحہ‘‘ دین خیر خواہی کا دوسرا نام ہے۔ یہ خیر خواہی زمین و آسمان کے درمیان موجود ہر شے کے ساتھ ہے۔
محبت کا پیمانہ ،تعلق کا درجہ جیسا ہوگا خیر خواہی اسی قدر اپنا رنگ دکھائے گی۔ دعا اور نصیحت کرنا وہ دلی خیر خواہی ہے جس کے نتیجے میں دنیا اور آخرت کی حسنات میسر آتی ہیں.لیکن قرآن نے’’ فزکر ان نفعت الزکریٰ‘‘ کی بھی تعلیم دی ہے۔گر کوئی نصیحت مشورہ رائے یا خیر خواہی کو قبول نہ کرے یا بے رخی بے توجہی اختیار کرے تو اپنی مقدور بھر کوشش کرنے کے بعد اسے اس کے حال پہ چھوڑ دینے کی بھی تلقین ہے۔نصیحت اس کا حق ہے جو اس کی طلب رکھتا ہو۔ لیکن دعا کرنا ایسا عمل ہے جو کسی طور بھی چھوڑا نہیں جا سکتا، کوئی چاہے یا نہ چاہے پسند کرے یا نہ…

مزید پڑھیں

بہترین مددگار – بتول جون ۲۰۲۳

اللہ تعالیٰ نے اپنا نام’’الناصر‘‘ اور ’’النصیر‘‘ رکھا ہے۔ مدد کا منبع و سرچشمہ اللہ رب العزت کی ذات ہے۔
’’…اور مدد تو اللہ ہی کی طرف سے ہے جو غالب اور حکمتوں والا ہے‘‘۔(سورہ آل عمران: 126)
اسی طرح دوسری جگہ فرمان الٰہی ہے:
’’بلکہ اللہ ہی تمہارا خیرخواہ ہے اور وہی سب سے بہتر مدرگار ہے‘‘۔ (سورہ آل عمران: 150)
’’یقیناً ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد دنیاوی زندگی میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے‘‘۔ (سورہ غافر: 51)
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مدد اور غم و خوف سے نجات کی خوشخبری اپنے فرشتوں کے ذریعے دے کر بھی کرتا ہے۔
’’جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقیناً اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہو جائو اُس جنّت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے‘‘۔ (سورہ فصلت :30)
یقیناً اللہ ایسے راستوں سے اپنے بندوں کا اس طرح مددگار بن جاتا ہے، جس کا انہیں گمان بھی نہیں ہو سکتا۔ اس نے اپنے بندوں کے لیے مددگار فرشتے مقرر کر رکھے ہیں۔
ارشادِ ربانی ہے:
’’اور وہ…

مزید پڑھیں

قصہ مصری ماسی کا – بتول جون ۲۰۲۳

ہم نے خانہ دارانہ زندگی کا آغاز’’اپنی مدد آپ‘‘ کے تحت جدہ سے کیا۔ اور وہاں اس زمانے میں مددگار رکھنے کی عیاشی ’’ہنوز دلی دور است‘‘ کے مصداق تھی۔ جان ناتواں اور اس کی ناتجربہ کاری نےکچھ قابل اور بہت سے ناقابلِ بیان کارنامے سر انجام دیے۔ پیاری ساس کا انوکھا لاڈلا اپنے متلون مزاج کی وجہ سے’’مزاجی خدا‘‘ کے مزے لوٹتا تو بچوں کی آمد ہماری مامتا کا امتحان لیتی رہی۔
ناچیز کو رب العالمین نے جدہ میں عمرہ اور حج کے زائرین کی روزانہ، ہفتہ وار، ماہانہ اور سالانہ مہمان داری کے لیے منتخب کیے رکھا، کبھی کبھار ہاتھ بٹانے کے لیے کسی فرد کی شدت سے ضرورت محسوس ہوتی۔ اس وقت ڈسپوزیبل برتنوں کی عیاشی بھی میسر نہ تھی۔ بھلا ہو دینی بہنوں کا جنہوں نے خود سے ہی یہ اصول طے کر لیا تھا کہ جس گھر میں رسمی یا غیر رسمی ملاقات کو جانا ہوگا، میزبان کے باورچی خانے کو سمیٹ کر، برتن دھو کر آئیں گی۔ تو اسی ادا پہ نہال ہو کر ہم تھکن سے مجبور دل سے یہ دعا کرتے کہ:
’’یاللہ کرم کر دے، کسی بہن کے دل کو نرم کردے‘‘۔
دل کو دل سے ایسی راہ نکلتی کہ کسی نہ کسی بہن…

مزید پڑھیں

قصور وار کون؟ – ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

شہر کی معروف اور مصروف ترین سڑک پہ ہجوم بڑھتا جا رہا تھا، ہر کسی کی خواہش تھی کہ صورتحال کو اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اپنی رائے کا اظہار کرے ۔ وہاں ایک سائیکل والے مزدور کی ٹکر ایک کار سے ہوگئی تھی۔ ہجوم کی اکثریت کار والے کو برا بھلا کہہ رہی تھی، سب لوگ اپنے ضروری کاموں کو بھول کر اس حادثے کے ذمہ دار کا تعین کرنے میں لگے ہوئے تھے، راہ گیر زیادہ تر درمیانہ طبقہ تھا جس کی رائے یہ تھی کہ قصور کار والے کا ہے، عینی شاہد وں میں سے کسی نے سائیکل والے کا قصور ظاہر کرنے کی کوشش کی تو کسی نے اس بات پہ توجہ نہ دی۔ سب کار والے کی امارت کو لعن طعن کر رہے تھے اور کار کو نقصان پہنچا نے پہ آمادہ تھے ، اس بات کو جانے بغیر کہ معاملہ کیا ہے۔ سب اپنا وقت برباد کر رہے تھے جیسے دنیا میں اس سے اہم کوئی کام نہیں ہے۔
ٹریفک کے قوانین کے کچھ بین الاقوامی اصول و ضوابط ہوتے ہیں ۔دانشوروں کا کہنا ہے کہ کسی بھی قوم کی ، ذہنی تربیت، اخلاقی رویے، وقت کی اہمیت ، کا اندازہ ٹریفک قانون کی پاسداری…

مزید پڑھیں

احسان کی حقیقت – ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

عموماً ہمارے معاشرے میں احسان کسی کی ایسی نیکی کو کہا جاتا ہے جو ہمیں بوجھ محسوس ہو جس کو سر سے اتارنے کی جلدی ہو یا خود نیکی کر کے جیسے کسی دوسرے کو قرض دیا ہو اور اس کی واپسی کے منتظر ہوں، مثلاً:
’’میں نے اس پہ احسان کیے اور اس نے میرے ساتھ یہ سلوک کیا‘‘۔
’’میں کسی کے احسان کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی/سکتا’’ یا ‘‘مجھے کسی کے احسان کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔
احسان کا لفظ قرآن پاک میں کثرت سے آیا ہے۔لغت میں ’’احسان‘‘ کا معنی حسین بنانا، صناعت میں عمدگی اور اس میں استحکام پیدا کرنا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:اللہ کی ذات ہی ہے جس نے ہر چیز بنائی اور بہت خوب بنائی۔ (سورہ السجدہ: ۷)
اصطلاح میں ’’احسان‘‘ شرعی مطلوب کو حسین ترین طریقہ سے پیش کرنا ہے۔اس کے علاوہ لغوی معنی کے لحاظ سے احسان، برائی کے مقابل آتا ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ الرعد آیت نمبر ۲۲ میں فرمایا کہ ’’…اور وہ برائی کو بھلائی سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے لیے ہی آخرت کا گھر ہے۔‘‘اسی طرح سورہ یوسف میں آیت نمبر ۱۰۰ میں ذکر ہے کہ ’’یقیناً میرے رب نے مجھ پہ احسان کیا‘‘۔ یعنی ایک…

مزید پڑھیں

رونے والا دل ایک نعمت – بتول جولائی ۲۰۲۱

زندگی میں کبھی کبھی بہت ہی ناقابل یقین غیر متوقع طور پہ انسان ایسے مقام پہ آجاتا ہے جب وہ اپنے اندر کی جان لیوا اذیت کو لفظوں میں نہیں ڈھال سکتا۔
جب وہ اپنی داستان کسی کو نہیں سنا سکتا…… اپنے پیاروں کو نہیں، عزیز و اقارب کو نہیں، حتیٰ کہ شیشے میں سامنے کھڑے اپنے عکس کو بھی نہیں۔ اپنے آپ کو سنانے کی بھی ہمت نہیں پاتا۔ زمانے بھر میں اپنے کمائے ہوئے اعتماد اور عزت نفس کے نازک آبگینے کو کرچیوں میں بکھرا نہیں دیکھ سکتا۔ عمر بھر کی مشقت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی نیک نامی داغدار نہیں دیکھ سکتا۔ وہ انسان کہیں بھی کوئی بھی ہو سکتا ہے، وہ آپ بھی ہو سکتے ہیں۔ جب اذیت ناک کشمکش توڑ پھوڑ کر رکھ دے۔ جب زندگی کے سارے رنگ پھیکے پڑ جائیں، ہمت جواب دے جائے، جب اذیت جان لینے کے در پے ہو جائے اور اس کا وجود بھی خوف سے لرزا دے، نہ جیا جائے اور نہ ہی مرا جائے۔
سوال ایسی کیفیت طاری ہونے کا نہیں……سوال یہ ہے کہ یہ کیفیت کس وجہ سے ہے۔ دراصل ہر انسان کی شخصیت اپنے رویے، جذبات اور ردعمل کی وجوہات پہ اپنی شناخت کرواتی ہے۔
غصہ ور…

مزید پڑھیں

مفت میں پائیدار خوشی- بتول ستمبر ۲۰۲۱

انسان دنیا میں جو بھی کوشش، محنت کرتا ہے اس کی بنیادی وجہ خوشی کی تلاش ہوتی ہے ۔ یہ خوشی آخر کیا جذبہ ہے؟ اس کی وضاحت سے شاید سبھی مطمئن نہ ہوں کیونکہ خوشی کی اقسام انسانوں کی طرح مختلف ہوسکتی ہیں۔ ایک نارمل انسان کی خوشی کا تعلق اپنی زندگی کے مقصد سے منسلک ہوتا ہے اگر مقصد ہی غیر فطری ہوگا تو خوشی حاصل کرنے کے سارے پیمانے غلط ہوں گے نتیجتاًخوشی بھی بے مقصد نا پائیدار اور منفی ہوگی ۔
سچی اور پائیدار خوشی حاصل کرنے کے لیے سچے اور پائیدار جذبے درکار ہوتے ہیں اور سچے جذبے انسانیت کا شعور رکھنے والے انسانوں میں ہوتے ہیں ۔
تکبر کے ساتھ مال و دولت کے انبار ،اقتدار کی اعلیٰ مسند ، حسن و وجاہت کا مجسمہ ہوجانا سچی خوشی کی ضمانت نہیں ہو سکتے البتہ گزارے لائق وسائل زندگی کے ساتھ وسیع القلبی، عاجزی و انکساری بے بہا سچی خوشی کی ضامن ہو سکتی ہے۔ حالات کیسے بھی ہوں سچی خوشی کے لیے شرط صرف یہ ہے کہ اپنا انسان ہونا یاد رہے اور بحیثیت انسان سب کا برابر ہونا کبھی نہ بھولے ۔
کیا ہم واقعی خوش ہیں ؟
اپنے آپ سے ،اپنے شریک حیات سے ،اپنی اولاد…

مزید پڑھیں

تزکیہ قلب کیسے ہو؟ بتول مئی ۲۰۲۱

انسان کا قلب ایک آئینے کی مانند ہے جو اگر صاف شفاف ہو تو اس میں تجلیات کا عکس نظر آنے لگتا ہے۔ چار امور ایسے ہیں جنہیں زندگی میں قوت ایمانی سے شامل کیا جائے تو یہ عکس حاصل ہونا ممکن ہے:
۱: گناہ چھوٹے ہوں یا بڑے سب کو خالص نیت اور ثابت قدمی کے ساتھ مکمل طور پہ ترک کرنے کی ایسی ہی کوشش کی جائے جیسے جہاد اور ہجرت کے لیے کی جاتی ہے بالخصوص وہ گناہ جو جنسی شہوات یا منفی اخلاق، جذبات و خیالات سے متعلق ہوں۔
۲: استغفار کی کثرت ہو، یہ دل پر موجود گناہوں کی تاریکی اور سیاہی کو مٹاتا ہے۔ توبہ و انابت سے دل صیقل ہو جاتا ہے۔
۳: خاموشی اور تنہائی میں علمِ حقیقی کے لیے مطالعہ کرنا، غور وفکر کے ساتھ ذکر الٰہی میں مشغول رہنا، اپنا محاسبہ کرنا، اور صلہ رحمی کے ساتھ دیگر حقوق العباد ادا کرنا، اُن کی ضروریات کو احسان جتائے بغیر احسن طریقے سے پورا کرنا یہ اس آئینے کومزید چمک فراہم کرتا ہے۔
۴: آخری اور سب سے زیادہ ضروری امر ہے آیات قرآنی، صحیفہ کائنات و موجودات، نفسِ انسانی اور واقعات و حالات پر قرآن حکیم کی روشنی میں مسلسل تدبر و تفکر کرنا۔…

مزید پڑھیں

دنیا بدل جائے گی؟- بتول جون ۲۰۲۱

تبدیلی ایسا پرکشش لفظ ہے جس کے پیچھے یقینی بہتری اور امید کا تصور ہی غالب رہتا ہے۔ تبدیلی کی ایک حقیقت وہ ہے جو خالق نے انسان کے اندر فطرتاً ودیعت کر دی ہے۔ بہتر سے بہترین کی تلاش اسے ہر وقت متحرک رکھتی ہے۔ غذا سے لے کر بودوباش تک تبدیلی کی خواہش جسمانی و ذہنی آ سودگی کا باعث بنتی ہے۔ گھروں میں ہر ممکن آرام و آسائش کے مالک معمول کے لیل و نہار سے نکل کر دریا و صحرا دیگر قدرتی مناظر میں خیمے لگا کر شب وروز گزار کر تبدیلی کا شوق پورا کرتے ہیں۔ کیونکہ کسی کے پاس سارے قدرتی مناظر گھروں کے اندر قید کر لینے کی قدرت نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بھی کائنات میں دن کے پہر اور سال کے موسم بدلنے کی ترتیب رکھ دی ، موسم کے لحاظ سے پھل سبزیاں مہیا کر دیں، کہیں خشک سالی ہے تو کسی خطے میں بارشوں کا لا متناہی سلسلہ ہے۔
کرۂ ارضی میں کچھ تبدیلیاں ترتیب وقت سے ہٹ کر بھی لائی جاتی ہیں۔ طوفان بادو باراں سیلاب اور زلزلے، وبائیں ,ناگہانی حادثے جو تبدیلی کا مظہر ہوتے ہیں تو مصائب کا پیام بھی ہوتے ہیں۔
ہر مصیبت انفرادی ہو یا اجتماعی انسانی…

مزید پڑھیں