اسما صدیقہ

ہم کو دیو پریس رے – مارچ ۲۰۲۱

نبیلہ کوفتوں کا سالن دم پر لگا کر دوسرے چولہے پر پسندوں کی کلیا کی طرف متوجہ ہوئی جواکلوتے لاڈلے وجاہت کی فرمائش تھی ۔ کوفتے گھر بھر کی پسند سہی مگر اسے قطعاً ناپسند تھے۔ابھی ساتھ میں مٹر پلاؤ بھی بنانا تھا۔ چاول دھو بھگو کے رکھےہی تھے کہ موبائل بیپ بجی۔اسکرین پر ’’باجی کالنگ‘‘ جگمگا رہا تھا۔
’’ارے باجی کیسی ہیں ؟ پورا ہفتہ ہو گیا آپ سے بات کیے‘‘ سلام دعا کے بعد وہ خوش ہو کر پوچھنے لگی۔
’’ہاں نبیلہ مت پوچھومیں کتنی مصروف ہو گئی ہوں ،میری تو کوئی بیٹی بھی نہیں کہ ہاتھ بٹا دے۔ ماسیوں کے نخرے سہتے جیسا تیسا کام چلانا پڑتا ہے۔ تم ہی اتا پتا لے لیتی نا‘‘۔
’’ارے باجی قبر کا حال تو مردہ ہی جانتا ہے۔ بچیوں کو بھی اچھے سے اچھا پڑھانا ضروری ہے ۔اب تو کیا پتا آگے ان کی قسمت کیا ہو! عنیزہ بی ایڈ کے ٹف دور سے گزر رہی ہے۔ علیزہ سیکنڈ ایر میں ہے، کوچنگ چھوڑنے جانا بھی مجھ ہی کو پڑتا ہے ۔شکر ہے کہ واپسی میں تو وجاہت لے آتا ہے، اسے تو اب بی کام کیے سال ہوگیا اورجاب کا پتہ نہیں…. میں سارا دن کیسے مصروف رہتی ہوں اللہ ہی جانتا…

مزید پڑھیں

مداوا – بتول فروری ۲۰۲۱

یہ کون گیا ہے گھر سے مرے
ہر چیز کی رونق ساتھ گئی
ہوں اپنے آپ سے بیگانہ
بے چین ہے پل پل قلبِ حزیں
اک سایہ ٹھنڈا میٹھا تھا
اک رم جھم سی برسات گئی
کیا تپتا جیون سامنے ہے
ہر لطف وکرم کی بات گئی
لیکن یہ جس کے اذن سے ہے
وہ اوّل وآخر ظاہر ہے
وہ باطن و حاضر ناظر ہے
خود دل کو تسلی دل نے ہی دی
جب حرفِ دعا میں رات ڈھلی
یوں اس کو پکارابات کُھلی
محرومی ہے ہر چند بڑی
اس کربِ نہاں میں دیکھوتو
اک یاددہانی ہےمخفی
ہر شے کو فنا باقی ہے وہی
جو قائم ودائم زندہ ہے
اور عمر ِرواں کا ہر لمحہ
جو گزرا جو آئندہ ہے
سب اس کے قوی تر ہاتھ میں ہے
اس کے ہی مبارک ساتھ میں ہے
ہے ہجر میں پنہاں قربِ خفی
ہر محرومی ہے بھید کوئی
وہ جس کی کھوج میں شمس وقمر
یوں ڈوبے ابھرے جاتے ہیں
یہ ارض و سما یہ حجر وشجر
اک بوجھ اٹھائے جاتے ہیں
تدبیر کے گُر تقدیر کے دَر
کیا مشکل ہے جو کھول بھی دے
ہے دور پرے پر اتنا قریں
سرگوشی اس سے بات کرے
فریاد سنے رحمت کردے
تہ کتنی ہو گہری ظلمت کی
اور اپنی خطا وغفلت کی
یا اندھی وحشت، دہشت کی
ہوتا ہے عیاں ہے اس پر سب ہی
جو شافی ،کافی، باقی ہے
وہ عفو و کرم کی کنجی سے
جب سارے مقفل در کھولے
اک آس…

مزید پڑھیں

بتول میگزین – بتول جنوری ۲۰۲۲

میری نانی امی
حفصہ سعید
میری نانی جان، ’’صدیقہ‘‘ میری امی ہی تھیں کیونکہ میں نے ان کی گود میں ہی آنکھ کھولی اور پرورش پائی۔
نانا جان محمد عمر کی وفات کے بعد جب نانی امی کا جوان اکلوتا بیٹا ’’محمد فاروق عمر‘‘ اچانک حادثے میں خالقِ حقیقی سے جا ملا تو یہ صدمہ انہوں نے بہت حوصلے اور صبر سے برداشت کیا، کہا کرتی تھیں!
’’اللہ تعالی کی امانت تھی اسی کے پاس چلی گئی‘‘۔
دنیا سے جانے والے تو اپنے مقرر وقت پہ جانے پہ مجبور ہیں مگر پیچھے رہنے والے اکیلے رہ جاتے ہیں۔ نانا جان کی وفات اور پھر فاروق ماموں کی وفات نے انہیں تنہا کر دیا تھا۔ اب میری امی ہی ان کی واحد اولاد تھیں تو اپنی تنہائی کو دور کرنے کے لیے نانی امی نے مجھے گود لے لیا تھا۔
میں نے نانی کو محنتی، سلیقہ مند، صابر اور شاکر پایا۔ وہ اپنے نام کی طرح ایک سچے عقیدے والی حقوق اللہ اور رشتے داریوں کو پورے ذوق وشوق سے نبھانے والی تھیں۔
وہ خوش بخت تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نیکیوں کے ساتھ لمبی عمر عطا فرمائی۔وہ بڑھاپے کی شدت میں بھی اپنے کام خود کرتی تھیں بلکہ جب بیٹی یا کسی نواسی کے گھر…

مزید پڑھیں

اجنبیت – بتول جنوری ۲۰۲۲

گمنامی کی چادر اوڑھے
دکھلاووں کے بیچ کھڑی ہوں
اندر کوئی چیخ رہاہے
نقلی ہیں سب رنگ و روغن
ہر منظر میں سلگا جیون
سونا سونا دل کا آنگن
پریت کی آشا پریم کا بندھن
ریزہ ریزہ خواب کا مدفن
لیپا پوتی کے پیچھے اب
جتنا کچھ ہے روپ نگر میں
کھنڈر، بنجر ،ویرانی ہے
تاریکی ہے، نادانی ہے
سچائی بے نام ہوئی ہے
کہنے کو دشنام ہوئی ہے
جیت کے بھی ناکام ہوئی ہے

مزید پڑھیں

بہتات – بتول فروری ۲۰۲۲

بہتات
درد کو سہنا مشکل تھا یا بے دردی کو
جسم وجاں پہ بیتنے والے
دونوں ہی آزار بہت تھے
(کچھ تو گھاؤ کے بھر جانے میں
ساماں بھی درکار بہت تھے)
زہریلی سی آب و ہوا میں
خوابوں کے کچھ پھول کھلے تھے
اور رستے پر خار بہت تھے
درد کا دارو کیا مل پاتا؟
چارہ گر لاچار بہت تھے
زخم جہاں کی بات کریں کیا
ہندسہ ہندسہ گننے والے
جذبوں سے بیزار بہت تھے
سچائی تھی یہ بھی کیسی
پھیل رہی تھی بھوک کی شدت
لذت کے انبار بہت تھے
پتھریلی سی اس دنیا کو
کوئی بہت ہی دور نہ جانے
وحشت قلت ہیبت کیا کیا
برکھا رت جو تھی اس میں بھی
طوفانی آثار بہت تھے
بچگانہ سی کچھ باتوں نے
بختِ سیہ تعبیر کیا ہے
بحرانی تاریخ کی لوح پہ
بحرانی کردار بہت تھے

مزید پڑھیں

روئے سخن – بتول جون ۲۰۲۲

وبا کے دو گزشتہ برسوں کی یاد میں کچھ احساسات نظم ہوئے)
مکالمہ تو خدا سے تھا بس
خدا کے عہدِ وفا سے تھا بس
قبولیت تھی اسی کے آگے
اور اس سے ہٹ کےجو بات بھی تھی
اسی تسلسل کا مرحلہ تھا
اسی تکلم کا سلسلہ تھا
جو التجا تھی جو مشورہ تھا
سوال تھا جو دلیل تھی جو
کوئی تھا دعویٰ کہیں تھا شکوہ
اسی تخیل سے مل رہا تھا
کہیں تڑپنے کا واقعہ تھا
کسی کے لٹنے کا سانحہ تھا
کسی کے مٹنے کا ماجرا تھا
(اور اس پہ گریائے دل زدہ تھا)
اسی سے کہنے اسی سے سننے کا اک یقیں برملا رہا تھا
جو دل دکھا تھا
سوال پھر اب کسی سے کرتے
جواب خواہ اب کہیں سے آئے
دراصل اس سے ہی مل رہا تھا
مطالبہ تو رضا کا تھا بس
اسی سے ملتی عطا سے تھابس
اسی کی سچی پنہ سے تھا بس
مکالمہ تو خدا سے تھا بس
خدا کے عہدِ وفا سے تھا بس
عطائے رب کی ثنا سے تھا بس

مزید پڑھیں

نعت – بتول نومبر ۲۰۲۲

نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم
بلندیِ خیال میں،جواب میں سوال میں
وفا کے ہرکمال میں، عمل کے ہرجمال میں
عروج میں ،زوال میں غرض کسی بھی حال میں
ہیں آگہی کاراستہ، وہی حبیبِ کبریا
منازلِ شعور میں، محافلِ سرور میں
دل و نگہ کے نور میں ، فضائلِ وفور میں
جلالِ کوہ طور میں ،خدا کے ہر غرور میں
وہ روشنی کاسلسلہ، وہی حبیبِ کبریا
نہ نفرتوں کی حدرہے،زباں پہ ردّوکد رہے
کدورتیں ہوں اس قدر،شعورِجاں پہ زد رہے
جہاں جہاں بھی دیکھیے عجیب شدومد رہے
توپھر حیات مصطفٰے ، کرے عطا نئی جلا
کوئی کٹھن ہو مرحلہ، ملے نہ کوئی درکھلا
تو اسوہِ محمدی نظر نظر کا آسرا
شبِ سیہ کے بام پر بنے سحر کاراستہ
وہی حبیبِ کبریا، وہ مل گئے خدا ملا

مزید پڑھیں

برف رتوں کا المیہ – گھرہستن – بتول مارچ ۲۰۲۳

برف رتوں کا المیہ
گھروں کے آنگن ،دلوں کے دامن ،تمام ڈیرے
ہوس کی دہشت نے ہیں بکھیرےکئی بسیرے
کہر میں لپٹی ہوئی فضا میں نہ جانے کتنی ہی سسکیاں ہیں
لہو جماتی یہ جاں گھلاتی ہوا میں کیسی خموشیاں ہیں
جدائیوں کے جو المیے ہیں وفاکی قسمت کچل رہے ہیں
خنک شبوں کی طوالتوں میں بہت سے اسرار کھل رہے ہیں
یہ برف لہجے جو سرد مہری سے اٹ گئے ہیں
اثر ہے یخ بستہ موسموں کا
کوئی ہے شکوہ شکستہ پائی سے دل زدوں کا
درونِ دل کے ہرایک درکی دبیز چلمن بکھرگئی ہے
ٹھٹھرتے موسم کو دوش دے کردلوں کی دنیا اجڑگئی ہے
کسی کا چہرہ دھواں دھواں ہے نظرجہاں ہے
لہو نہیں ہے رگوں میں برفاب سا رواں ہے
نظربہک کرکدھر گئی ہے یا برف جذبوں پہ پڑگئی ہے
یہ المیہ ہے ،یہ حادثہ ہے،یاسرد موسم کاسلسلہ ہے
 

 
گھرہستن
یہی تو جرم گراں ہے تیرا!
تری حقیقت تو بس یہی تھی
تو جھانکتی روزنوں سے رہتی، یا تاکتی درپنوں کو رہتی
نہ سانس لیتی کھلی فضا میں ، تو گھٹتی رہتی ڈری فضا میں
نہ خواب آنکھوں میں تیری پلتے نہ دیپ راہوں میں تیری جلتے
نہ آرزو سے نظر ملاتی،نہ شب میں کوئی سحر جگاتی
ستم ہزاروں جو ٹوٹ جاتے روا نہیں تھا کہ لب ہلاتی
یوں اک ضمیمہ رہینِ آدم بنائے جانے پہ کھلکھلاتی
کڑی فصیلوں کے درمیاں تو…

مزید پڑھیں

’’ارے یہ کیا ؟ گرمیوں کے کپڑوں پہ اتنا اہتمام ؟بھئی ہم تو لان کے سوٹ پہ کوئی بیل یا لیس نہیں لگاتے ….خواہ مخواہ کی فضول خرچی‘‘ ۔ رضیہ خالہ نےماتھے پہ بل ڈال کر سامنے والی خاتون کو دیکھ کر کہا ۔
ویسے ان کے علاوہ بھی کئی خواتین لان کے سوٹ پہ ہلکی یا زیادہ لیس ٹانکے ہوئے تھیں، کیا برا تھا،مگر نوشین اور اس کی نوعمر بیٹی ان کا نشانہ تھی ۔وہ اپنی سبکی محسوس کرتے ہوئے وہاں سے اٹھ گئیں ۔آنکھوں میں نمی سی آگئی جیسے کوئی زخم پہ نمک پاشی کرے تو لامحالہ آتی ہے۔
صوفیہ جو پاس بیٹھی تھی تلملا کر رہ گئی۔
’’حد کرتی ہیں پھوپھو آپ بھی….بےچاری سال ہؤا بیوہ ہوئے اسے….بڑی مشکل سے یہاں آئی بچوں کے ساتھ گھر میں مقید ہو کررہ گئی تھی ….میلے پھٹے کپڑوں میں اجڑی حالت میں کھوئی ہوئی رہتی ہے۔ بڑا سمجھانے کے بعد تو ذرا حلیہ درست کیا، ابھی تو وہ چالیس کی بھی نہیں ہوئی اور آپ سب کے ایسے سامنے ٹوک لگارہی ہیں جیسے وہ لش پش تیار ہوکر آئی ہو‘‘۔
’’ارے چپ کرجاؤبیوہ کو سادہ ہی رہنا چاہیے….سفید دوپٹہ سر پہ لے۔ اگر ذراسے رنگین کپڑے بھی ہوں تو سادہ ہوں ….اور یہ سب…

مزید پڑھیں

حمدِ ربِ جلیل – اسما صدیقہ

لک تیرے غلام ہیں سر کو- جھکائے ہم
در پہ ترے کھڑے ہوئے نظریں اٹھائے ہم
مانا کہ زندگی کے ستم بےشمار ہیں
اور بندگی میں راہ کے پتھر ہزار ہیں
لیکن تیری عطا کے ہی امیدوار ہیں
آنکھوں سے آنسوؤں کے ہیں موتی لٹائے ہم
مشکل بڑی ہے یارب اس عہدِ جدید میں
ہم جی رہے ہیں جس طرح یاس ووعید میں
لیکن تیرا نشان ہے حبلِ ورید میں
بےشک اسی یقین پہ گرنے نہ پائے ہم
یارب یہ ارتقاہے کوئی یا جمود ہے
انساں کے آستاں پہ خدائی نمود ہے
جلتے ہوئے زمانے میں گویا وجود ہے
کب تک جئیں گے اس طرح دہشت کے سائے ہم

مزید پڑھیں

قحط ہے – اسما صدیقہ

گیت کیا سناؤں میں ،شادماں نظاروں کا
غم زدہ سے موسم میں خوش بیاں نظاروں کا
تلخ سی حقیقت میں قہقہوں کے افسانے
کھوکھلی سی جدت میں لذتوں کے دیوانے
روشنی کی قیمت میں جل رہے ہیں پروانے
ماجرا تو ایسا ہے بس ٹھہر کے دیکھو تو
واسطہ تو ایسا ہے آنکھ بھر کے دیکھو
٭
عجیب ہیں یہ معرکے یہ روزوشب کے حادثے
قدم قدم ہیں دور تک شقاوتوں کے سلسلے
یہ روگ نارسائی کا یہ سوگ کج ادائی کا
نہیں رہا ہےدسترس میں مول ناروائی کا
نظر نظر میں روگ ہے نفس نفس میں یاس ہے
تو منظروں میں سوگ ہے یا خوف ہے ہراس ہے
تھما تھما رکا ہؤا،ڈرا ہؤا ہے ہرکوئی
عجیب کشمکش میں جیسے ڈولتا ہے ہرکوئی
یقیں بھی پاش پاش ہے،گماں فقط نراش ہے
سکوت بھی ہے چیختا،پکار میں بھی یاس ہے
عجب طرح کی وحشتوں میں گھر چکا معاش ہے
یہ قلتیں عجیب ہیں ہراک کا جو نصیب ہیں
کہ رابطوں کے شور میں نہ رابطے قریب ہیں
نہ فاصلوں میں حوصلے،نہ حوصلوں کی پشت پہ
لگن کی کوئی آس ہےملن کی کوئی پیاس ہے
کہ مرگِ جذب وچاہ میں ہے زندگی بکھر گئی
ٹٹولتا ہے ہرکوئی کہ روشنی کدھر گئی
نظرمیں دور دورتک نہیں بہارِ شادماں
بچانہیں ہےآنکھ میں کوئی بھی خوابِ خوش بیاں
نگر سبھی جھلس گئے ہیں حسرتوں کی آگ میں
ڈگر سبھی جھلس گئے ہیں قلتوں کی…

مزید پڑھیں

سنہرے گنبد سے اپنا رشتہ – اسماء صدیقہ

سنہرے گنبد سے اپنارشتہ تو اس قدر ہے
خدا نے رکھی جہاں پہ برکت یہی وہ در ہے
گئے تھے آقا فلک کی جانب
یہی تو وہ جائے معتبر ہے
ہزار نبیوں کو جس نے پالا یہی وہ گھر ہے
حصارِ جوروجفا جہاں اب سواہوا ہے
بہت ہی ملعون وحشیوں میں گھرا ہوا ہے
زمینِ اقدس کی اس تباہی کاعکس دیکھوگےہرخبرمیں
جو مثلِ خنجر ہوئی ہیں پیوست ہرنظرمیں
ندائے اقصی میں سن سکو تو
لہو نہاتی ہزار آھیں جو مرتعش ہیں
تجلیوں سے جولاالہَ کی منعکس ہیں
جو زخمی کلیوں کی آہ و زاری میں ملتمس ہیں
نبی کی حرمت کے نام لیوا ادہر تو آؤ
کسی اخوت کے نام لیوا بکھر نہ جاؤ
تمہیں یہاں کے سوال چہرے پکارتے ہیں
زمینِ اقدس پہ بڑھتے حملے پکارتے ہیں
سپاہیانِ وفا کے لشکر کے مرد آہن چلے بھی آؤ
حروفِ قرآں کاتھامے دامن چلے بھی آؤ
قلوبِ ایماں کی بن کے دھڑکن چلے بھی آؤ
زمینِ اقصی تمھارے پرچم کی سبز رنگت سے کہہ رہی ہے
یہاں کی حرمت سے جس کا رشتہ تو دائمی ہے
اگر نہ آؤ تو پھر بتاؤ یہ لازمی ہے
تمھاری نسبت کا مان کیا بس ستائشی ہے؟
تمھاری طاقت کا زعم کیا بس نمائشی ہے؟

مزید پڑھیں

مصحف پاک کے لیے ایک نظم – اسما صدیقہ

یہ میرے ہونے کا اک پتہ ہے
ہر اک سفر میں ہراک خطر میں جوتھام لیتا ہے بن کے رہبر
کبھی یہ دھیرے سے لاج رکھ لے،کبھی بنا ہے یہ سرکی چادر
جو نوعِ انساں کودے تمدن،عطائے رحمت ہے جو سراسر
یہ میرے ہونے کاایک پتہ ہے
ہراک تعلق کاراستہ ہے
یہ معجزہ جوہر عہدکاہے کئی زمانوں سے جاملا ہے
اندھیری شب کی کثافتوں میں کرن خزانوں کا اک ذخیرہ
بہت مقدس بہت مکمل ہیں باب سارے ،بہت منزہ ہیں مثلِ ہیرا
سدا سے دارو یہ ہرستم کا ،بنا تسلی کاایک مظہر
قسم قلم کی جوکھارہا ہے خدائے برتر
سرشت ِانساں میں چھپ گیا ہے اسی صداقت کاایک جوہر
قلوب واذہاں کی روشنی ہے
یہ کتنے سینوں میں جاگزیں ہے
خدائے واحد کی قربتوں کا جبھی امیں ہے
جو نوعِ انساں کی عظمتوں کا یہ ہم نشیں ہے
حروف اس کے تمام روشن، جہان ِمعنی میں لعل و گوہر
کہ اس کی سنگت میں جاگ جائے ہراک مقدر
یہاں پہ حکمت کے باب سارے شعورووجداں سے ہیں منور
کھلے جو فطرت کے راز سارے ظہورِ عرفاں سے ہیں معطر
ضیاوظلمت میں فرق کرنا اسی کے دم سے
وفاکو وحدت میں غرق کرنا اسی کے دم سے

مزید پڑھیں

انتظار – اسماء صدیقہ

درد کی رفاقت میں بے طرح کی شدت ہے
بے کسی کے ہاتھوں میں چیختی ہے تنہائی
منتظر زمانوں میں مضطرب فسانوں میں
وحشتوں کے پہرے ہیں اور بہت ہی گہرے ہیں
جسم وجاں بھی گھائل ہیں،یاسیت پہ مائل ہیں
دل کشی کے منظر بھی ہرقدم پہ زائل ہیں
بے حسی کے نرغے میں بے بسی کے قبضے میں
یہ خیال چبھتاہے ،اک سوال اٹھتا ہے
دکھ کو سکھ میں آنے تک،زہرکتنا پینا ہے
کتنا جی کے مرنا ہے کتنا کرکے جینا ہے
بے کراں سے جنگل کے اک سفر کے سنگم پہ
دہشتوں کے سناٹے راستوں میں حائل ہیں
کیسی نارسائی ہے ،قید یا رہائی ہے
قسمتوں کے پھیرے میں کیسی کج ادائی ہے
اس عذابِ پیہم سےمل سکے گا کیوں کر پھر
راستہ خلاصی کا
منصفی کے چرچے میں واسطہ ثلاثی کا
غفلتوں کی شدت جب جرم بن کے چھاجائے
دہشتوں کی جدت جب ظلم بن کے آ جائے
بےحسی وقلّت سے کیسے ہو مسیحائی
وقت کتنا گزرا ہے ،اور کتنا گزرے گا
قید سے نکلنے میں ،بیڑیوں کے کٹنے میں
بےحسی کے مٹنے میں ،بےبسی کے کٹنے میں

مزید پڑھیں

مبارزت ہے – بتول جولائی ۲۰۲۱

مبارزت ہے
لعینِ دوراں! مبارزت ہے
(مگر کدھر سے؟)
گھرے ہوئے غم زدہ نگر سے
نہیں وسیلہ جنھیں میسر
نہ کوئی سامانِ جنگ حاصل
جو اپنے گھر میں ہوئے ہیں بے گھر
جو رزم گاہوں میں ہیں مسلسل
ادھورے پن میں بھی ہیں مکمل
نہتے لوگوں کے دستِ بےکس میں
سنگ پاروں کا اسلحہ ہے
یقیں کی دولت سے جو غنی ہیں
خدا کی الفت کے جو دھنی ہیں
قسم خدا کی وہی جری ہیں
زمینِ اقدس میں پھر
مقدس لہو کی خوشبو بسی ہوئی ہے
شہادتوں کی صدا ہے لیکن
امید فتحِ مبیں ہری ہے
دریدہ جسموں کے زخم گننا ہے گرچہ مشکل
رقم اسی میں ہوئی ہے وجہِ شکست باطل
بلکتے چہروں پہ جیسے ٹھہری نویدِ منزل
غم وستم سے جو ہیں شکستہ
قیامتوں سے نہیں وہ پسپا
صداقتوں میں نہیں وہ تنہا
مگر حمایت کا سارا لشکر
کبھی تو پہنچے بیاں سے آگے
وہ کاروانِ سپہ کے رہبر
جو سرفروشی کا اک حوالہ بنے ہوئے ہیں
ازل کے دشمن کی دل دہی کوجوصف بہ صف تھے
یہ دردِ عالم کا مسئلہ ہے،بتا رہے تھے
اِدھر بھی دیکھیں سنہرا گنبد
ہمارے خطے کی حرمتوں سے
بھرم کی تجدید مانگتا ہے
ہمارے پرچم کی رنگتوں سے
عمل کی تصدیق مانگتا ہے
سوال امت کےرہنماؤں سے کررہاہے
کوئی تو ایوان ہو جہاں بیٹھ کر یہ سوچیں
نہ سنگ بازوں کے کام آیا
تو اسلحہ پھر کہاں کھپے گا
سپاہیوں کا چٹان لشکر یونہی رہے گا
بچایا اس کو تو کیا…

مزید پڑھیں