۲۰۲۳ بتول اپریل

تقویٰ، قرآن اور رمضان- بتول اپریل ۲۰۲۳

ارشادِ ربانی ہے:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلی اْمتوں پر فرض کیے گئے تھے، اسی سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی‘‘۔ (سورة البقرة: 183)
روزے کا بنیادی مقصد تقویٰ کی صفت پیدا کرنا ہے۔ اگر پہلے سے تقویٰ ہے تو اس کو مزید نشوونما دینا ہے’’تقویٰ‘‘ ایک نو مسلم یا عامی مسلمان کے لیے جس قدر ضروری ہے اُتنا ہی ایک عالم یا ولی اللہ کے لیے بھی اہم ہے۔ تقویٰ کی کوئی حد یا انتہا نہیں، موت کے آخری لمحہ تک اور زندگی کے ہر لمحہ میں اس کا ہونا لازمی امر ہے۔ قرآن پاک میں تقویٰ کا لفظ 15 مرتبہ آیا ہے۔ عبادات ہوں یا معاملات سب کی بنیاد تقویٰ ہے۔ اس سے مشتق الفاظ’’متقین‘‘ 42 مرتبہ، ’’متقون‘‘ 19 مرتبہ، ’’ یتّقِ‘‘ 6 مرتبہ اور’’یتقون‘‘ 18 مرتبہ استعمال ہوا ہے حتیٰ کہ جنت میں داخلہ بھی تقویٰ سے مشروط ہے۔ مختصر الفاظ میں تقویٰ کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لیے کوئی عمل کرنا۔ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے خوف سے کوئی ناپسندیدہ کام چھوڑ دینا۔
اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے نفس پر صبر کرنا اور اپنے…

مزید پڑھیں

محشر خیال- بتول اپریل ۲۰۲۳

ام ریان ۔ لاہور
مارچ کا بتول اپنے جاذبِ نظر سر ورق کے ساتھ موصول ہؤا۔ نوائے شوق میں ڈاکٹر جاوید اقبال باتش کی غزل اور اسما صدیقہ کی’’ برف رتوں کا المیہ‘‘ پسند آئی ۔ حقیقت و افسانہ میں سب ہی رنگ خوب صورت تھے ۔ جہاں نبیلہ شہزاد کا افسانہ تلخ سماجی حقائق کو عیاں کر رہا تھا ، وہیں قانتہ رابعہ کی سدرہ کا دکھ، دکھی کر گیا ۔ جی چاہا کہ ایک دفعہ تو ضرور وہ اپنے ’’ساسانہ‘‘ اختیارات کا استعمال کر لیتی ۔ ڈاکٹر زاہدہ ثقلین اس خوب صورتی سے میڈیکل سائنس کو کہانی کا لبادہ اڑوھاتی ہیں کہ ذہن سے محو ہی ہو جاتا ہے کہ ان کے نام کے ساتھ ’’ ڈاکٹر‘‘ کا سابقہ لگا ہے ۔ وہ تو آخر میں جب بلی تھیلے سے باہر آتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ بہانے بہانے سے ڈاکٹر صاحبہ کونسلنگ کر رہی ہیں۔
توقیر عائشہ کا افسانہ ہلکے پھلکے انداز میں گہرا فہم لیے ہوئے ہے۔ عروبہ منورنے ’’ اک نئی رت‘‘ میں ایک نیا نکتہ پیش کیا ، مگر یہ ہر گھر کے اپنے حالات پر منحصر ہوتا ہے ۔ ایک ہی فارمولا ہر جگہ نہیںچلتا ۔ رسالے کی خاص تحریر طوبیٰ احسن کی ’’…

مزید پڑھیں

بتول میگزین – بتول اپریل ۲۰۲۳

جب میں جامعہ میں آئی
بنت اصغر
میں ایک عام سادہ سی لڑکی ہوں ۔ دیہات میں رہتی تھی ۔ بس پرائمری تک تعلیم حاصل کی ۔ گائوں گوٹھوںمیں اس سے زیادہ لڑکیوں کو اسکول بھیجا بھی نہیں جاتا مگر میرے والدین او ر مجھے خود کو بھی پڑھنے کا بہت شوق تھا اور پھر ہمارے ہاں سے دو تین لڑکیاں شہر سے باہر پڑھنے بھی گئی تھیں اور ہاسٹل میں رہتی تھیں ۔ مجھے بھی شوق ہؤا سو تھوڑی سی کوشش کے بعد میں مطلوبہ جگہ پہنچ گئی۔
ایک بہت بڑی عمارت جو بہت خوبصورت تھی اس کے اندر داخل ہوئی تو دل خوف سے کانپ رہا تھا ۔ میں یہاں رہ پائوں گی … اماں بابا سے دور ؟ آ تو گئی ہوں واپس گئی تو بڑی سبکی ہو گی۔
آنکھیں تھیں کہ جل تھل ہوئی جا رہی تھیں ۔ اللہ مجھے ثابت قدم رکھنا آمین ۔ تعلیمی ادارہ تھا یا بھول بھلیاں ۔ اتنے ڈھیر سارے دروازے کہ آدمی جانا کہیں چاہے اور پہنچ کہیں اورجائے۔
خیر پرانی طالبات نے بڑی خوشدلی سے خوش آمدید کہا اور ہم ڈرے سہمے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے ۔ہر کام کا وقت مقرر تھا ۔ کالج ٹائم کے علاوہ کھانا ، سونا ، لائبریری ٹائم…

مزید پڑھیں

پھروہی بادہ و جام – بتول اپریل ۲۰۲۳

لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
ہاتھ آجائے مجھے میرا مقام اے ساقی
علامہ اقبال کے اس شعر میں مطالب و معانی کا ایک سمندر موجزن ہے۔ اس شعر میں علامہ کے دل کی تڑپ جھلکتی ہے ایک درد پنہاں ہے، دردِ دل ۔ مسلم قوم کے لیے ایک پیغام بیداری کا ، اولولعزمی کا ، اپنے کھوئے ہوئے وقار کو ، مقام کو حاصل کرنے کا پیغام ۔ علامہ جب مسلمانان ہند اور مسلمانانِ عالم کی دگر گوں حالت دیکھتے ہیں تو ان کا دل روتاہے ۔ وہ مسلمان کوان کا شاندار ماضی یاد دلاتے ہیں جب مسلمان ایمان کی دولت سے مالا مال تھے ، یقینِ محکم ان کے اندر موجزن تھا ۔
یقیں محکم، عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
علامہ بار بار اپنے اشعار میںمسلمانوںکو ان کی عظمت رفتہ یاد دلاتے ہیں اوران کے دل میں یہ تڑپ پیدا ہوتی ہے کاش مسلمان پھر اپنا وہ کھویا وہ مقام دنیا میں حاصل کر سکیں ، کاش مسلمان نوجوان یہ یاد رکھیں !
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے…

مزید پڑھیں

رحمت کی برکھا اور سات چکر – بتول اپریل ۲۰۲۳

الحمدللہ ایک بار پھر اللہ رب العزت رب رحیم کی رحمتوں کا فیضان تھا ۔ ایک بار پھر یہ حقیر ذلیل گناہوں میں ڈوبی ہوئی ناتواں بے وقعت کمزور محتاج لاچار عاجز و حقیر بندی رب عظیم کے عظیم در پہ حاضر ۔جہاں سب کے لیے رحمتوں کے در وا ہیں ۔ جہاں مغفرت کی برکھا خوب ٹوٹ کر برستی ہے ۔
جہاں جلال وکمال کا کمال ہے ۔ جہاں محبتوں کے سوتے پھوٹتے ہیں ۔جہاں عطاوبخشش کی انتہا انتہائی عروج پہ ۔جہاں ہیبت ہے ۔ رعب ہے ۔ جہاں انبیاء کرام علیہم السلام، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ،بڑے بڑے متقی و پرہیز گارلرزاں ہیں ۔جہاں گناہوں میں لتھڑے ہوئے شان غفاری شان ستاری کی گھنی چھاؤں میں سکون قلب وروح سے مالا مال ہیں ۔
جہاں میرے جیسی گناہ گارجس کے سر پہ گناہوں کی بھاری گٹھری ہے اور دامن عمل صالح سے خالی ۔
اس در پہ اپنائیت کا احساس غالب ہے ۔ یہی تو میرا اللہ ہے میرا اپنا رحیم اللہ کریم اللہ ،الحمدللہ!کتنا سکون ہے یہاں ۔ کیسے دل کا غبار دھل سا گیا ہے۔کہیں یہ منافقت تو نہیں ؟
آنسو کیوں خشک ہیں ۔ پتہ نہیں خوشی ہے ، اپنائیت ہے ؟ استغفر اللہ کہیں میرے…

مزید پڑھیں

رخشندہ کوکب ؒ کی تحریروں کے رخشندہ اوصاف – بتول اپریل ۲۰۲۳

محترمہ رخشندہ کوکب اولین مدیرہ’’بتول‘‘26مارچ1959 بمطابق16رمضان المبارک کو اس فانی دنیا سے رخصت ہوئیں ۔ آج ان کی یاد تازہ کرنے کے لیے ان کی تحریروں کے ایک جائزے پر مبنی مریم خنساء مرحومہ کا تحریر کردہ یہ مضمون شائع کر رہے ہیں ۔ دونوں کی قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں ہی اصلاحی ادب کی داعی تھیں اور دونوں نے جوانی میں داعی اجل کو لبیک کہا ۔ اللہ تعالیٰ دونوں کوجنت الفردوس میں جگہ دے آمین۔
پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں پاکستان میں لکھے جانے والے اردو ادب پر کئی بیرونی افکار و نظریات کا غلبہ تھا۔ ایک طرف ملحدانہ فکر اور سوشلزم کے رحجانات غالب تھے تو دوسری طرف سفلی اور غیر اخلاقی سوچ نمایاں تھی۔ اس وقت چند با شعور خواتین نے ادب برائے زندگی ، زندگی برائے بندگی کے ادبی نظریے کو پروان چڑھایا۔ اس ہراول دستے میں ایک اہم نام ’’رخشندہ کوکب‘‘ بھی ہےجو پہلے منور سلطانہ اور بعد میں رخشندہ کوکب کے قلمی نام سے لکھتی رہیں۔ انہوں نے متفرق رسائل میں کئی مضامین‘ مراسلے اور افسانے لکھے۔ بعد ازاں اپنا رسالہ عفت ( جو بعد میں ’’بتول‘‘ کے نام سے شائع ہو رہا ہے) جاری کیا جس نے اصلاحی ادبی محاذ کی…

مزید پڑھیں

اک ستارہ تھی میں -قسط۷ – بتول اپریل ۲۰۲۳

زرک شدید اُلجھن کا شکار ہے۔اس کے ساتھ پڑھنے والی لڑکی ایک وطن فروش دہشت گرد کا الزام لے کر اس کے سامنے ہے۔اس معاملے کی تفتیش اس کے ذمے لگائی گئی ہے۔ وہ اس پر رپورٹ بنا کر فوراً اس لڑکی سے الگ ہو جانا چاہتا ہے۔اس کے لیے وہ کسی بھی طرح کا تشدد کرنے کو تیار ہے۔پون جئے یا مرے اسے کوئی پروا نہیں۔پون سیل میں شدید خوف اور کمزوری کا شکار ہے۔اسے زرک سے سخت ڈر لگ رہا ہے۔وہ مسلسل اس کی موت کی دعائیں مانگتی ہے۔اسے اپنا سکول،بچے،پودے اور سب سے بڑھ کر بی بی بہت یاد آتی ہیں۔
ابھی کل کے زخم اس کے ہاتھ کی پشت پر اور پون کے دل پرتازہ تھے کہ وہ آج پھراس کے سیل میں موجود تھا اور سوال پر سوال کیے جا رہا تھا۔تکلیف دہ سوال…
چبھتے ہوئے سوال…
طنز سے بھرپور سوال…
’’تمہاری حساس جگہوں کے اردگرد بہت سارے گائوں ہیں اوراُن میں بے شمار لوگ بستے ہیں کیا سب کو پکڑ پکڑ کر اسی طرح سوال کیا کرتے ہو یایہ عنایت صرف مجھی پر ہے ؟‘‘پون زچ ہو گئی تھی اس کے سوالوں سے ۔
’’ نہیں یہ عنایت صرف تمھی پر ہے ‘‘ وہ بڑے اطمینان سے بولا تھا…

مزید پڑھیں

لے سانس بھی آہستہ! -بتول اپریل ۲۰۲۳

ڈھابے پر کھانا کھاتے یونیورسٹی کے تین دوستوں احمد ، عدیل اور شارق کے بیچ بحث چل پڑی کہ کھانا اور نصیب کا آپس میں کیا تعلق ہے۔
’’یہ سالن کی رکابی آگے کرنا ذرا‘‘ ان میں سے احمد جو کھانے کا رسیا تھا مگر جسم کا پھرتیلا تھا ، رکابی کی طرف اس وقت تیزی سے ہاتھ بڑھایا جب ڈھابے کا ملازم میز پر کھانا رکھ کر گیا۔
’’کھانا جو ہوتا ہے وہ نصیب کا ہے، کھائے بغیر بندہ مر نہیں سکتا ، جلدی کیا ہے بھئی ، یہ لو‘‘ ان میں سے عدیل جو کھانے پینے کا کوئی خاص شوقین نہیں تھا مگر کتابی کیڑا تھا ،بولا اور رکابی آگے بڑھا دی۔
’’ہائیں! اس کا مطلب بندہ کھانا کم کر دے تو اس کی عمر لمبی ہو سکتی ہے‘‘ شارق نے جو بھرے ہوئے جسم کا مالک تھا اور چٹورا لگتا تھا ، کھانے سے ایک لمحے کو ہاتھ کھینچ لیا۔
’’ہاں میں نے ایک بار محلے کی مسجد میں مولوی صاحب کا درس سنا تھا ‘‘ عدیل نے کہا ۔
’’تو کیا کہتے تھے مولوی صاحب‘‘احمد نے سالن پلیٹ میں نکالتے ہوئے پوچھا ۔
’’یہی کہ سانس آہستہ اور روک کر لو ، اور کھانا کم کھاؤ تو عمر میں اضافہ ہو سکتا…

مزید پڑھیں

برکت کا وقت – بتول اپریل ۲۰۲۳

بھری دوپہر میں دروازے پر بیل ہوئی اور یوں لگا کہ بجانے والے نے انگلی دروازے پر ہی رکھ دی ہے۔ ہادی کو کمرے سے لاؤنج اور لاؤنج سے دروازے تک جانے میں جتنا وقت لگا اس میں بیل بجتی ہی رہی۔
”کھول رہا ہوں ، کھول رہا ہوں۔ کیا پوری کالونی کو جگانا ہے؟“ چلا کر کہتے ہوئے اس نے دروازہ کھولا لیکن سامنے کھڑی ہستی کو دیکھتے ہی اس کی سٹی گم ہو گئی۔
”ا آ آپ؟ بوا وہ میں….“
”ارے ہٹو ہٹو سامنے سے۔ پتہ ہے مجھے…. کیا میں میں ؟“ بمشکل اس کو دھکیلتے ہوئے بوا اندر داخل ہو گئیں۔
اس نے مڑ کر دیکھا اور ضبط سے دانت پیس کر رہ گیا۔ دروازہ بند کر کے مڑا تو بوا کو خود کو گھورتے پایا ۔
”اب چلنا ہے یا دروازے پہ کھڑی رہوں؟“۔ ہادی نے ان کو دیکھا ، کچھ سوچا اور لمحے بھر میں اندر کی طرف دوڑ لگا دی لیکن ساتھ ہی وہ مسلسل چلا رہا تھا۔
”بھاگو دوڑو۔ قیامت آ گئی۔ قیامت آ گئی“۔
”ارے کیا ہو گیا ہے؟ کیا اول فول بک رہے ہو۔ کون آ گئی ؟“
ماما چپل اڑستے ہوئے لونگ سے باہر نکلیں۔ لیکن سامنے گیلری میں شاکرہ بوا کو دیکھ کر سٹپٹا کر گلے میں…

مزید پڑھیں

خوش رنگ سویرا – صحت کہانی۲ -بتول اپریل ۲۰۲۳

منیرہ بیگم کلینک سے باہر نکلیں تو مارے پریشانی کے برا حال تھا ، پائوں کہاںرکھتیں اور کہاں پڑتا ، خشک ہونٹ اورچہرے پر ہوائیاں انتظارگاہ میں بیٹھی انیلا نے یہ حالت دیکھی تو لپک کر ماں کو تھاما، کرسی پر بٹھایا اور پانی پلایا۔
’’کیا ہؤا امی جی ؟ اتنی پریشان کیوں ہیں؟‘‘
جواباً وہ اسے ٹکر ٹکر دیکھتی رہیں ۔ انیلا نے کچھ دیر اصرار کیا مگر وہ بولنے پر راضی نہ ہوئیں ۔ تھک ہار کر وہ ان کے ساتھ ہی بیٹھ گئی ۔ اسے علم تھا ڈاکٹرنے اُس کے بارے میں ہی کوئی بات کی ہے ۔ جہاں تک اُسے سمجھ آئی تھی اس کے بعد وہ اپنے آپ کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی ۔’’ شکر ہے جان چھوٹی‘‘ وہ دل ہی دل میں مسکرائی مگر چہرے پرسنجیدگی طاری رکھی ۔ کچھ دیر بعد منیرہ بیگم نے ہمت جمع کی ۔ ترحم آمیز نظروں سے انیلا کی طرف دیکھا اور اُٹھ کھڑی ہوئیں ’’ چلو گھر چلیں ‘‘۔
رکشے سے اتر کر گھر کی طرف بڑھتی انیلا کا بازو دبوچا ،’’ سنو، کسی سے ذکر نہ کرنا ‘‘۔
’’ کس بات کا ؟‘‘ وہ حیران ہوئیں۔
’’ جوبھی ڈاکٹر نے بتایا ہے اس کا ‘‘۔
’’ بھلا بتانے والی…

مزید پڑھیں

ایک عید وہ بھی تھی! – بتول اپریل ۲۰۲۳

” بڑا مشکل کام ہے یہ روزے رکھنا۔ بڑی اماں آپ تو اب کافی بوڑھی ہو چکی ہیں۔ آپ کے لیے تو سہولت ہے نہ رکھا کریں روزے“ اپنی دھن میں بولتا دانیال بڑی اماں کے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے قطعی ناواقف تھا۔
سونے پر سہاگہ اس کی چھوٹی بہن عائلہ بھی گفتگو میں شامل ہوگئی تھی۔
”نمازیں پڑھنا بڑا آسان ہے ناں جیسے…. اور یہ رمضان میں تو محترمہ امی جان تراویح پڑھائے بغیر بھی نہیں چھوڑتیں۔ اتنی گرمی، لوڈ شیڈنگ سکول کی پڑھائی اور اف یہ رمضان“ عائلہ نے منہ بنایا۔ اسے اس سال میٹرک کے بورڈ کے امتحانات دینا تھے۔
”سکول کی پڑھائی سے گھبرا رہی ہو میری طرح سیکنڈ ائیر میں پہنچو گی تو پتہ چلے گا کالج کی پڑھائی کتنی سخت ہوتی ہے“ دانیال نے چھوٹی بہن پر رعب ڈالا۔
” اچھا تو بڑی اماں میں آپ سے کہہ رہا تھا کہ آپ اتنی کمزور اور بوڑھی ہو چکی ہیں نہیں رکھیں روزے “دانیال ایک بار پھر بڑی اماں سے مخاطب تھا۔
بڑی اماں ان کی رشتہ دار نہ تھیں بلکہ ان کی دادی جان کی کوئی دیرینہ سہیلی تھیں۔ دادی جان کی وفات کے بعد چونکہ وہ گائوں میں بالکل اکیلی رہ گئی تھیں اس لیےامی جان اصرار…

مزید پڑھیں

فالوورز کی دنیاہے – بتول اپریل ۲۰۲۳

مذاق ہی مذاق میں کدو کے رائتے کی خوبصورت لفاظی اور دل نشین لہجہ میں حمنہ نے یو ٹیوب پر ڈیڑھ منٹ کی وڈیو بنا کر اپ لوڈ کردی ۔
ہائیں یہ کیا ! منٹوں سکینڈوںمیں اس کو پسند کرنے والے سینکڑوں سے ہزاروں میں جا پہنچے ۔
کچھ دنوں کے بعد اس نے اپنے فریج کی صفائی کی ایک منٹ کی وڈیو کھلکھلاتے جملوں میں بنا کر اپ لوڈ کردی تو سراہنے والے پانچ ہزار ہو گئے۔ اس نے سب کے مشورے پر یو ٹیوب چینل کھول لیا۔ عجیب حیرت کی بات تھی ، وہ مکھی مارنے کی وڈیو بھی بنا کر شیئر کرتی جیسے لوگ اسی کے انتظار میں بیٹھے ہوتے۔ ٹک ٹک ٹک … لائکس کو منٹس… اللہ اللہ اس نے سوچا بھی نہ تھا کہ مذاق میں شروع ہونے والے کام میں اتنی لذت، شہرت اور دولت ہے !
پھر جب اس نے اپنے ہاتھوں پر مہندی لگانے اور مخروطی انگلیوں میں نقلی ہیرے والی انگوٹھی کی وڈیو بنا کر خوبصورت کیپشن اور پس منظر میں دھیمے بہتے سُروں والا لتامنگیشکر کا گانا بھی ڈال دیا تو لوگ جیسے پاگل ہی ہو گئے ۔
آپ خود سامنے کیوںنہیںآتیں ؟ کیا آپ پردہ نشین ہیں ؟ کہیں آپ بھائی جان تو…

مزید پڑھیں

ندی رواں ہے نور کی – بتول اپریل ۲۰۲۳

زمین و آسمان پر بہار ہی بہار ہے
خدائے مہرباں مرے لیے یہ تیراپیار ہے
نکل پڑی ہیں کونپلیں خزاں رسیدہ شاخ پر
اثر یہ کس ہَوَا کا ہے، کہاں کا یہ نکھار ہے
یہ کہکشاں زمین پر فلک سے آئی ہے اتر
ندی رواں ہے نور کی، اندھیرا سوگوار ہے
جہاں جہاں نظر اٹھے، برس رہی ہیں رحمتیں
یہ بحرِ فضلِ بیکراں کا ایسا آبشار ہے
دلوں کو زندگی ملی تو روح پھر سے کھِل اٹھی
لبوں پہ اب صیام اور قیام کی پکار ہے
صدائے سابقو اٹھی تو مغفرت کو سب بڑھے
وہاں سجی دھجی بہشت محوِ انتظار ہے
ہوائے مہرباں چلی تو آنکھ بھی چھلک پڑی
سحرؔ یہ اشک ہی لحد میں باعثِ قرار ہے

مزید پڑھیں

رمضان المبارک میں کرنے کے کام – بتول اپریل ۲۰۲۳

رمضان المبارک کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مسلمانوں کے بہت سے روزمرہ کے معمولات بدل جاتے ہیں۔ کھانے پینے سونے جاگنے کے اوقات تبدیل ہو جاتے ہیں، عبادات کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے۔ پاکستان سمیت اکثر ملکوں میں سرکاری محکموں میں دفتری اوقات کم کر دیے جاتے ہیں۔ ذاتی کاروبار کرنے والے بھی اپنے اوقت کار میں ردوبدل کرلیتے ہیں۔ لوگوں کی دین کی طرف رغبت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ مسجدیں نمازیوں سے بھر جاتی ہیں۔ نیکیوں کا اجر عام دنوں کی نسبت ستر گنا بڑھ جاتا ہے۔ یہ نیکیوں کی بہار کا موسم ہے۔ ذیل میں رمضان کی برکت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے ایسے کاموں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو اس مہینے میں خصوصی طور پر انجام دینے چاہئیں۔
اس مہینے کی مبارک ساعتوں میں زیادہ سے ز یادہ نفع حاصل کرنے کے لیے یہاں کچھ اعمال کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے۔ امید ہے آپ انہیں مفید پائیں گے۔
تیاری اوراستقبالِ رمضان
انفرادی سطح پر تیاری کے لیے رمضان اور روزے کے بار ے میں قرآن و سنت کے احکام سے واقفیت حاصل کیجیے۔ مجموعۂ احادیث میں سے ’’کتاب الصوم‘‘ کو خاص طور سے دہرا لیجیے۔ اس کے علاوہ اس…

مزید پڑھیں

یتیم کے حقوق – بتول اپریل ۲۰۲۳

جس بچے کے سرسے باپ کا سایہ اٹھ جائے ٗ وہ شریعت کی اصطلاح میں ’’یتیم‘‘ ہے اور چونکہ یتیم کی حفاظت کرنے والا ٗ اس کی ضروریات پوری کرنے والا اور اسے کما کر کھلانے والا موجود نہیں ہوتا ٗ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے خاص حقوق قائم کر رکھے ہیں تاکہ اس کی زندگی میں جو محرومی آگئی ہے اس کی تلافی ہو سکے۔
کلام پاک اور احادیث نبویہؐ کی روشنی میں یتیم ایک ایسی ہستی ہے جس کی کفالت کرنے والے ٗ نگرانی کرنے والے اور اس سے حسن سلوک کرنے والے کو بے پناہ اجر کی بشارت دی گئی ہے۔ یتیم غریب بھی ہو سکتا ہے اور امیر بھی ٗ مگر دونوں طرح کے یتیموں کی نگرانی کرنے یا ان سے حسن سلوک کرنے کو بہت بڑا ثواب قرار دیا گیا ہے اور یتیم کے نگران کو خاص ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ اس کے بارے میں ایسا رویہ اختیار کرے جس میں یتیم کا فائدہ ہو۔
امیر یتیم کے نگران کی ایک تو یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس یتیم کی حفاظت کرے اور اس کے کاموں کا بندوست کرے اور دوسرے اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ یتیم کے مال…

مزید پڑھیں

قرآن ہمارا دستورِ حیات – بتول اپریل ۲۰۲۳

القرآن دستورنا
قرآن کریم آسمان والے کی جانب سے زمین والوں کے لیے عظیم تحفہ ہے۔یہ اللہ کی مضبوط رسی ہے، یہ ذکرِ حکیم اور صراط المستقیم ہے۔اس سے عقل میں ٹیڑھ نہیں آتی اور نہ ہی زبان کسی التباس کا شکار ہوتی ہے۔علماء اس سے سیر نہیں ہوتے اورنہ ہی اس کے عجائب ختم ہوتے ہیں۔ یہ مضبوط ومتین کلام ہے محض ہنسی مذاق نہیں۔
انسان کی دنیا وآخرت کی حقیقی فلاح کا واحد ذریعہ اللہ کے بتائے ہوئے دستور ِ حیات کی پیروی ہے۔قرآن کے سائے میں زندگی بسر کرنا ایک نعمتِ عظمیٰ ہے۔اس کی شان اور لذت وہی جانتا ہے جو اس سے لطف اندوز ہؤا ہو۔ اس سے زندگی کتنی بابرکت ہو جاتی ہے، اس کی شان کس قدر بلند ہو جاتی ہے، اور اسے باطل سوچ اور نظریات اور فاسقانہ اعمال سے کس قدر دور کر دیتی ہے، اور اسے کس قدر پاک اور اور ہر گندگی اور نجاست سے آزاد بنا دیتی ہے، اس کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جس نے اس کا تجربہ کیا ہو۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے ایک ہی ضابطہء حیات بنایا ہے تاکہ وہ ہر معاشرے میں چلے۔انسانی ترقی کے ہر مرحلے میں اور بنی نوع انسان کے ذہنی ارتقا…

مزید پڑھیں

ابتدا تیرے نام سے – بتول اپریل ۲۰۲۳

قارئینِ کرام سلام مسنون
آپ سب کو عید الفطر مبارک۔خدا سب اہل وطن اور اہلِ امت کو عافیت اورخوشیوں کی عید دکھائے، رمضان المبارک میں کی گئی محنتیں اور دعائیں قبول و منظور فرمائے آمین۔ مارچ میں پہلے غیر متوقع گرمی کی لہر نے ڈرا کر رکھ دیااور پھر خوشگوار موسم کی واپسی ہوئی تو شدید بارش اور ژالہ باری کے ساتھ۔ کھڑی فصلوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ البتہ روزہ داروں کی خوشی کے لیےآغاز کے روزے ٹھنڈے رہے۔ رمضان کا مہینہ تقویم پر گردش کرتا موسم سرما کی سرحد تک آن پہنچا ہے، روزوں کی طوالت اور حدت دم توڑ گئی ہےاورآنے والے سالوں میں خوشگوار روزے منتظر ہیں۔البتہ حج کے دن ابھی کچھ سال شدید گرمی دیکھیں گے۔
ملک کا منظر نامہ حسبِ سابق امکانات، اندیشوں اور بحرانوں سے عبارت ہے۔ آئینی بحران اب عدلیہ کے بحران تک آپہنچا ہے۔ ہر ادارہ اخلاقی زوال کی انتہا پہ ہے۔امانت و دیانت، سچ اور اصول پرستی، ثابت قدمی اور کردار کی مضبوطی، باضمیر ہونا، نہ جانے یہ مثالیں کہیں ہیں بھی کہ نہیں، نجانے کوئی باکردار بچا بھی ہے کہ نہیں۔شہر جاناں میں اب باصفا کون ہے! دل گہری مایوسی کی دلدل میں گرنا چاہتا ہے مگر پھرایک خیال حوصلہ…

مزید پڑھیں

اہلِ مغرب کی اچھائیوں پر بھی توجہ کیجیے! -بتول اپریل ۲۰۲۳

ہم اکثر مغرب سے شاکی رہتے ہیں ان کی تہذیب کو فرسودہ ، فخش سمجھتے ہوئے معاشرتی اقدار کو تباہی کے دوراہے پہ گامزن خیال کرتے ہیں حالانکہ اگر نیک نیتی کے ساتھ مغرب کا جائزہ لیں تو اخلاقی بے راہ روی ان کے ہاں سرائیت کر چکی ہے مگر معاشرتی اعتبار سے انہوں نے خاصی ترقی کی ہے ۔ انسانی حقوق اور قانون کی پابندی ان کے یہاں بلند مقام پر ہیں ۔ سائنسی ترقی کا تو کہنا ہی کیا ! وہ جو کبھی اقبال کا تصور تھا کہ ’’ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ‘‘۔ اس کی حقیقی تصویر کی دیگر ستاروں اور سیاروں پر کمند ڈالنے کی خبریں آتی ہیں ۔ وہ جو کبھی کہا جاتا تھا کہ آسمان پر تھگلی لگائے گا اس کا حقیقی روپ آج کی سائنسی ترقی میں دیکھا جا سکتا ہے ۔ یہی نہیں بیماریوں کے حوالے سے پنسلین کی ایجاد نے جو انقلاب برپا کیا تھا وہ اب قصہ پارینہ ہے۔
آج تو اینٹی بائیو ٹیکAntibioticکی چوتھی جنریشن عام استعمال میں ہے البتہ کینسر ، ایچ آئی وی ایڈز کے بارے میں تحقیق جاری ہے کمپیوٹرکی ترقی نے دنیا کو گلوبل ولیج بنا دیا ہے ۔ ہم ان تمام فوائد…

مزید پڑھیں

غزل – بتول اپریل ۲۰۲۳

میں ظلمتوں سے بغاوت میں مارا جاؤں گا
اے روشنی تری چاہت میں مارا جاؤں گا
جہالتوں کی نحوست مجھے نگل لے گی
میں زعم فہم و فراست میں مارا جاؤں گا
میں بچ گیا بھی اگر ظالموں کے چنگل سے
تو منصفوں کی عدالت میں مارا جاؤں گا
میں سر بچا کے عدو سے اگر نکل بھاگا
تو ساری عمر، ندامت میں مارا جاؤں گا
جو آ گئی تو کوئی بھی نہیں ٹلا سکتا
ہر ایک حال میں صورت میں مارا جاؤں گا
تھی رہبروں سے شکایت، نہ تھی خبر مجھ کو
میں آج اپنی قیادت میں مارا جاؤں گا
خدا کا حکم اگر ہوں تو کیسے سمجھاؤ
میں مر گیا تو حقیقت میں مارا جاؤں گا
عدو سے پھر بھی ہے امید میں مرا جب بھی
تو دوستوں کی معیت میں مارا جاؤں گا
خدا پہاڑ سی دولت بھی گر مجھے دے دے
میں اور اور کی چاہت میں مارا جاؤں گا
جہاں میں چرب زبانی کے فن نے گر مجھ کو
بچا لیا تو قیامت میں مارا جاؤں گا
میں جب بھی مارا گیا دوستوں کے ہاتھوں سے
حبیبؔ انھیں کی محبت میں مارا جاؤں گا

مزید پڑھیں