شاہدہ اکرام

بتول میگزین – بتول نومبر ۲۰۲۱

آہ ڈاکٹر عبد القدیر خان
(ڈاکٹر ممتاز عمر ، کراچی)
وائے قسمت دید کو ترسیں گی آنکھیں عمر بھر
بن کے ابرِ خوں فشاں برسیں گی آنکھ عمر بھر
آپ کے طوفانِ غم میں ہر سفینہ بہہ گیا
اب میری تقدیر میں رونا ہی رونا رہ گیا
ڈاکٹر عبد القدیر خان اس عظیم ہستی کا نام ہے جسے محسن پاکستان کا خطاب دیا گیا ۔ ایسے بلند پایہ لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ۔ وہ انتہائی خوش مزاج ، ملنسار اور بے لوث انسا ن تھے ۔ میں چونکہ پیدائشی طور پر بصارت سے محروم ہوںاس لیے درس و تدریس کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ خدمت کے کاموں میں بھی مصروف رہا کرتا ہوں ۔ ڈاکٹر صاحب کو اس بات کا علم تھا اس لیے گزشتہ رمضان المبارک کے دوران انہوں نے مجھے فون پر مشورہ دیا تھا کہ میں ایک این جی او قائم کر کے رجسٹر کروالوں تاکہ تاجروں اور صنعتکاروں سے مالی تعاون کے حصول میں آسانی ہو سکے ۔ مگر میں نے جب انہیں بتایا کہ محترم تنظیم کو رجسٹر کروانے اور پھر اس کا آڈٹ کروانے کے لیے جو رشوت دینی ہو گی وہ میرے لیے ممکن نہیں تو وہ اک آہ بھر کے رہ گئے ۔ مجھے خوب…

مزید پڑھیں

درد وچھوڑے دا – بتول نومبر ۲۰۲۱

گاڑی فراٹے بھرتی جا رہی ہے ۔ یہ ان کی دس بارہ سالہ زندگی کا پہلا سفر ہے۔ شب ہجر نے چاروں طرف سیاہ چادر تانی ہوئی ہے ۔ بڑے بھیا ، بھابھی اور چھوٹی گڈی سے ڈھائی تین سال بڑی بہن کے ہمراہ سفر کا آغاز ہو چکا ہے ۔ دس سال کا عرصہ اماں ابا کے زیر سایہ گزار کر شب تنہائی اور جدائی گلے مل رہی ہیں ۔ بھائی نے اُن دونوں کو اوپر والی برتھ پر سوار کرادیا ہے اور تاکید کی ہے کہ تم نے اب سو جانا ہے ۔ دونوں خاموش اور سراسیمہ ہیں ۔اوپر لیٹ گئی ہیں ۔ گائوں سے چلتے وقت بھائی نے سب کو بتایا تھا کہ آج سے ہر کوئی ان دونوں کو اصلی نام سے پکارے گا ۔ چھوٹی گڈی اور بڑی گڈی نہیں کہے گا ۔ عائشہ اور فاطمہ ، یہی تو ان کے وہ نام تھے جو گائوں کے چوکیدار نے پیدائش رجسٹر میں درج کیے تھے مگر کسی نے پکار کر نہ دیے تھے ۔ بھائی نے اُن کو پہچان دی تھی ۔ اب بڑی عائشہ اور چھوٹی فاطمہ تھی۔
برتھ پر جاتے ہی چھوٹی کو تو گاڑی کے ہچکولوں نے پنگھوڑے کی طرح آغوش میں لے…

مزید پڑھیں

آزمائش – بتول جنوری ۲۰۲۲

پورے گائوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ گھر گھر مٹھائیاںتقسیم ہونے لگیں ۔ چوہدری احتشام نے خزانوں کے منہ کھول دیے۔ حویلی کے بڑے دروازے پر شیریںکے پتوںکا سہرا باندھ دیا گیا جو اس بات کی نشانی تھی کہ چوہدری کے گھر بیٹا پیداہؤا ہے ۔ بچے تو پہلے بھی تھے لیکن یہ فرزند تین بیٹیوں کے بعد دنیا میںآیا تھا ۔ حوشی منانا توبنتی تھی ۔
چاروں طرف سے جہاںمبارکبادوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری تھا وہیںپردیکھنے والی عورتیں عجب چہ مگوئیاں کر رہی تھیں۔
’’ ارے نہیں ! تین بیٹوں کے بعد پیدا ہؤا ہے اللہ خیر کرے۔ سب سلامت رہیں اللہ اس گھر کو آزمائش سے بچائے ‘‘۔
’’ اری بہن ! ہم نے اپنے بڑوں سے سن رکھا ہے کہ تین لڑکیوں کے بعد آنے والا لڑکا آزمائش ساتھ لے کر آتا ہے ‘‘۔
غرض جتنے منہ اُتنی باتیں پورے گائوں میںسراسیمگی حیاتی ہوئی تھی ۔ سب کسی انہونی کے انتظار میں نگاہیں لگائے بیٹھے تھے ۔ توہمات اور خرافات کاایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری تھا ۔ ابااِن باتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے ۔
چند دن خیریت سے گزر گئے ۔ ابا نے گھر میں بھینس رکھی ہوئی تھی جو سب کو بہت پیاری…

مزید پڑھیں

گھنگھرو کی جھنکار – بتول نومبر ۲۰۲۲

حویلی کا آہنی گیٹ دھڑا دھڑ بج رہا تھا ، ڈھول کی تھاپ، گھنگھرئوں کی جھنکار اور تالیوں کی زور دار آوازیں سماعت سے ٹکرا رہی تھیں ۔
جتنا شور باہر تھا اُس سے زیادہ حویلی کے اندر ٹائیگر نے مچا رکھا تھا۔ اُس نے تو پوری حویلی سر پر اٹھا رکھی تھی اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ گیٹ توڑ کر باہر نکلے اور دخل در معقولات کرنے والی مخلوق کی تکہ بوٹی کر دے ۔
ملازم چوہدری کے اشارہ ٔ ابرو کا منتظر تھا ۔ چھ سالہ گڈو حیران کھڑی سب کے چہروںکا بغور جائزہ لے رہی تھی ۔ میٹھی میٹھی مسکان سب چہروں سے عیاں تھی ۔ ابا حُقّہ کا کش لگانے میں مصروف تھے۔
’’ اوئے غلامُو! چُپ کرا اسے ‘‘ انہوں نے حقہ ایک طرف کر کے ملازم کو اشارہ کیا ۔
اِذن پاتے ہی ملازم کی ٹائیگر کی طرف دوڑ لگ گئی۔ جیسے ہی اُس نے ٹائیگر کی گردن پر پیار سے پیر رکھا اُس کی آواز تو بند ہو گئی اور دُم اُتنی ہی تیزی سے حرکت کرنے لگ گئی ، یہ اُس کی طرف سے اطاعت امر کا ثبوت تھا ۔
خاموشی چھاتے ہی باہر کا شور زور پکڑ گیا ۔
’’چوہدری ! تیرے بچے جیون…

مزید پڑھیں

اِن زخموں سے خوں رِستا ہے – بتول اگست ۲۰۲۲ – شاہدہ اکرام

جیسے ہی اطلاعی گھنٹی بجی ،تینوں بڑے بچوں نے دروازہ کی طرف دوڑ لگا دی ، شازیہ نے کچن سے آواز لگائی ’’ کون ہے ؟‘‘
’’ ماسی بی بی آگئیں ماسی بی بی آگئیں ‘‘بچوں نے جالی والے دروازہ میں سے دیکھ کر کورس میں جواب دیا۔
شازیہ کام چھوڑ تولیہ سے ہاتھ صاف کرتی تیزی سے دروازہ کی طرف لپکی اور جھٹ سے کُنڈی کھول دی ، ماسی بی بی حسب سابق و عادت ڈھکنے والی پلاسٹک کی ٹوکری اور دو تین گٹھڑیاں دائیں بائیں رکھے بیرونی برآمدہ میں کھڑی تھیں دروازہ کھلتے ہی بچوں نے لپک کر اُن کا سامان اٹھایا اور اندر کی طرف دوڑلگا دی ، وہ جانتے تھے کہ گٹھڑیاںان کے پسندیدہ سامان سے بھری ہوئی ہیں ۔
’’ ماسی بی بی کو اندر تو آنے دو ‘‘شازیہ کی ڈانٹ بے کار رہی ، ماسی بی بی مسکراتی ہوئی شازیہ کے گلے لگ گئیں شازیہ نے پیار سے اُن کے بڑے کمرہ میں بچھے پلنگ پربٹھایا اور بولی ۔
’’میں آپ کے لیے شربت بنا کر لاتی ہوں ‘‘۔
’’ نہیں شازی نہیں ، میں ابھی کچھ نہیں لوں گی میرا من بہت بھرا ہؤا ہے ، بس تم میرے پاس بیٹھ جائو ‘‘انہوں نے محبت سے شازیہ کا…

مزید پڑھیں

گڈو، آپا اور دُودھ مدھانی – بتول دسمبر۲۰۲۲

گڈو کی آنکھ نور کے تڑکے ہی کھل جاتی ،سماں ہی کچھ ایسا ہوتا۔ کانوں میں مدھر، دلکش اور مسحور کن ساز اور آوازکی سنگت رس گھولنے لگتی اور پانچ سالہ گڈو کو کوئی غیبی قوت خوابوں سے نکال کر حقیقت کی دنیا میں کھینچ لاتی ۔ نرم گرم بستر میں دُبکی گڈو آنکھیں پٹ پٹا کر سامنے کے منظر پر ٹکا دیتی ، دیے کی مدھم لو میں آپا کا سراپا بہت پر کشش لگتا ، وہ بڑی ساری پیڑھی پر بیٹھی دھیمی آواز میںدر ود پاکؐ کا ورد کر رہی ہوتیں۔دُودھ بلونے والی مدھانی کی کلیاں اُن کے دونوں ہاتھوں میں ہوتیں وہ زور سے ایک کو اپنی طرف کھینچتی تو دوسری کلی مدھانی کے ساتھ لپٹ کر پیچھے چلی جاتی، بڑی ساری مٹی کی چاٹی کے اندر چلتی ہوئی رنگیل مدھانی کی گررڈ گررڈ کا ساز اور آپا کی پر سوزآواز میں جاری درود شریف کا ورد گڈو کے ذہن و قلب میں عجب طمانیت بھردیتا ، وہ گردو پیش سے بے نیاز اس نظارے میں محور ہتی ، آپا ، چھ کلمے ، چاروں قل اور پورا پنج سورہ پڑھ جاتیں، یہ ساز اور آواز جاری رہتے گڈو ان میں کھوئی رہتی ، وقت بیتا رہتا…

مزید پڑھیں

ندی رواں ہے نور کی – بتول اپریل ۲۰۲۳

زمین و آسمان پر بہار ہی بہار ہے
خدائے مہرباں مرے لیے یہ تیراپیار ہے
نکل پڑی ہیں کونپلیں خزاں رسیدہ شاخ پر
اثر یہ کس ہَوَا کا ہے، کہاں کا یہ نکھار ہے
یہ کہکشاں زمین پر فلک سے آئی ہے اتر
ندی رواں ہے نور کی، اندھیرا سوگوار ہے
جہاں جہاں نظر اٹھے، برس رہی ہیں رحمتیں
یہ بحرِ فضلِ بیکراں کا ایسا آبشار ہے
دلوں کو زندگی ملی تو روح پھر سے کھِل اٹھی
لبوں پہ اب صیام اور قیام کی پکار ہے
صدائے سابقو اٹھی تو مغفرت کو سب بڑھے
وہاں سجی دھجی بہشت محوِ انتظار ہے
ہوائے مہرباں چلی تو آنکھ بھی چھلک پڑی
سحرؔ یہ اشک ہی لحد میں باعثِ قرار ہے

مزید پڑھیں

گودڑی میں لعل -بتول جون ۲۰۲۳

للہ بھلا کرے مدیرہ بتول کا جنہوں نے برسوں سے اُبلتے دماغی لاوہ کو قلم و قرطاس کے حوالے کرنے کے لیے ایسا اچھوتا عنوان دیا کہ دل باغ باغ ہو گیا۔ ایسے تمام جذبات، احساسات، تجربات اور اسباق کو ’’ چمن بتول‘‘ کے صفحات پر بکھیرنے کا موقع دینے پر میری طرف سے پیشگی مبارکباد!
بچپن جوانی اور بڑھاپا آنے تک ہم نے خدمت گاروںسے سبق پڑھا بھی اور پڑھایا بھی ، سیکھا بھی اور لکھایا بھی ، سُنا بھی اور سنایا بھی ، بعض اوقات ہمارا علم اور حکمت دونوں دھرے کے دھرے رہ جاتے ، ہم مات کھا جاتے ، چاروں شانے چت پڑے ہوتے نانی یاد آجاتی، پرہمت نہ ہارتے ، ہم نے بھی تہیہ کیا ہؤا تھا کہ ؎
وہ اپنی خُو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں
تو قارئین کرام ! تلخ و شیریں یادوں کی پٹاری سے انمول موتی آپ کی خدمت میںپیش ہے ۔
’’ شامی ! تمہیں میرے مسائل کا اندازہ ہے کچھ کہ میں کتنی مشکل میں ہوں، مجھے تمہارے ڈیرے اورڈیرے پر موجود خدمت گاروں کے آر پروار ( خاندان) کا کیا فائدہ ؟ میری مدد کے لیے کسی بچی کو بھیجو نا ! اُن کے لیے تو تمہارا اک اشارہ…

مزید پڑھیں

انوکھا البم – شاہدہ اکرام

کہانی کے کردار ہماری آنکھوں دیکھے ہیں ۔ کچھ موجود ہیں کچھ ملک عدم کو سدھار گئے ۔ ان میں دیہاتی اور شہری تڑکے کا حسین امتزاج ہے ۔ یہ گائوں کی ’’مچھیاں ‘‘ ( ٹافیاں ) اور شہر کی چاکلیٹ ہیں ۔ پڑھیے، کبھی ہنسیے اور کبھی روئیے ۔
بھائی ماکھا
ابا ہندوستان سے ہجرت کر کے آئے تو تمام خدمت گار اُن کے نقش پا تلاشتے ہوئے ان کی حویلی تک آن پہنچے ۔ ان میں سر فہرست بھائی ماکھا تھا ، ابا کا خاموش دستِ راست۔ وہاں بھی ابا کی سواری ( گھوڑی ) کی دیکھ بھال ، خواتین کو اُس پہ بٹھا ، خود پیدل لگام پکڑ کبھی میکہ اور کبھی سسرال۔ خوشی غمی میں لے کر جانا بھائی ماکھے کا کام تھا ۔
نام تو مبارک علی تھا نجانے کیسے ماکھا ہی مشہور ہو گیا ۔ عام لوگ اسی نام سے پکارتے مگر ہمارے خاندان کا ہر بچہ تہذیب میں گندھا ہونے کی بنا پر ساتھ بھائی لگانا نہ بھولتا ۔ ہندوستان ہویا پاکستان ، انہوں نے ابا کے ساتھ یاری اور وفا داری خوب نبھائی ۔ اپنے موضع میں ابا نے گائوں کی چوکیداری کی ملازمت بھی انہیں دی ، چوپال میں اپنا ایک بڑا احاطہ دیا…

مزید پڑھیں

جوگ سہاگن کا -​بتول ستمبر ۲۰۲۱

’’اّماں، امّاں، جلدی آؤ، دیکھو تو بوا رحیم بی بی نے کیسے اپنے سر پر خاک ڈالی ہوئی ہے……مٹی میں بیٹھی ہیں اور انگلیوں سے مٹی میں لکیریں مار رہی ہیں ……ساتھ ساتھ بڑبڑاتی بھی جا رہی ہیں، میری طرف دیکھ ہی نہیں رہیں‘‘۔
چھوٹی بیٹی جو اپنے بچوں کے ساتھ سسرال سے چھٹیاں گزارنے میکہ آئی ہوئی تھی پریشانی سے اپنی ماں کو آوازیں دیےجا رہی تھی۔ امّاں سب کام چھوڑ چھاڑ بھاگی آئیں اور بہت ہی محبت کے ساتھ بُوا کو اٹھایا، سر اور کپڑوں سے خاک جھاڑی، منہ ہاتھ دھلوایا اور اپنے ساتھ کمرہ میں لے گئی۔ چھوٹی بیٹی ثمرہ سوچتی رہ گئی۔
یہ روزانہ کا معمول تھا، بُوا اپنے آپ سے بیگانہ ہو چکی تھیں وہ مٹی میں لکیریں کھینچتی رہتیں خود سے باتیں کرتیں نہ کھانے کا ہوش اور نہ پہننے کا پتہ، وہ ایسی تو نہ تھیں، بہت پرہیزگار، ملنسار، خوبصورت خاتون تھیں ۔اس حال کو کیسے پہنچ گئیں، ثمرہ کا ذہن بہت پیچھے جا چکا تھا۔ اس کے کانوں میں اّماں کی آواز گونج رہی تھی ۔وہ بڑی بہن کو آواز دے رہی تھیں۔
’’شمو!اری شمو!چھوٹی گڈی کو بلانا ‘‘۔
اماّں کی بات پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ چھوٹی زقندیں بھرتی اّماں کے سامنے آن کھڑی…

مزید پڑھیں

چک چکیسر – نور اپریل ۲۰۲۱

پیارے بچو! بہت عرصہ گزرا ایک گائوں میں تین چوہیاں رہتی تھیں ۔ ایک کا نام ’’ چک چکیسر‘‘ دوسری کا ’’ راہ رہیسر‘‘ اور تیری کا’’ دھان دھنیسر‘‘تھا۔ وہ تینوں آپس میں سگی بہنیں تھیں ۔ ان کی آپس میں بہت محبت تھی ۔ چک چکیسر چوہیاں کسان کے گھر میں اُن کی ہاتھ سے آٹا پیسنے والی چکی میں رہتی تھی ۔ راہ رہیسر کا گھر سڑک کنارے پڑے ہوئے سوکھے کپاس کے پودوں میںاور دھان دھنیسر کسان کے دھان ( چاول) کے کھیتوںمیں مزے سے رہتی تھی ۔ ہر روز صبح سویرے کسان اپنے گھر سے کھیتوں میں چلا جاتا۔ اُس کی بیوی بچے گھر کے کام کاج میں مصروف ہو جاتے۔ چک چیکسر مزے سے چکی میں سے آٹا ، دانہ اور دالیں کھاتی رہتی ۔ کسان کی بیوی جوچیز بھی پیستی ،چوہیا اس میں سے کچھ حصہ کھا لیتی ۔ راہ رہیسر کے لیے تو باہر بہت کچھ کھانے کو تھا ۔ دھان دھنیسر کھیتوں سے کچے چاول کھاتی رہتی ۔ یوں وہ تینوں بہنیں مزہ سے زندگی بسر کر رہی تھیں ۔ بچو! کرنا خدا کا کیا ہوا کہ ایک دن کسان صبح سویرے منہ اندھیرے اپنی بیل گاڑی جوڑ کر گھر سے باہر…

مزید پڑھیں

غزل – بتول اگست ۲۰۲۱

غزل
ہم سفر پھر نئے سفر میں ہیں
ہم اسی آرزو کے گھر میں ہیں
حالِ دل کی خبر نہ پھیلا دیں
وہ جو بے تابیاں نظر میں ہیں
بیش قیمت ہیں ہر گہر سے وہ
سچے موتی جو چشمِ تر میں ہیں
غم نہ کر ان دیوں کے بجھنے پر
ساعتیں چند اب سحر میں ہیں
حوصلوں کو کمک بھی پہنچے گی
قافلے اب بھی رہگزر میں ہیں
[آمنہ رُمیصا زاہدی]
 
غزل
آنکھیں جلتی رہتی ہیں
تنہائی میں بہتی ہیں
فرقت کے غم سارے یہ
چپکے چپکے سہتی ہیں
چاہت کے سب افسانے
تاروں سے یہ کہتی ہیں
ملن کی آس میںراہوں کو
ہر دم تکتی رہتی ہیں
یادوں کے موتی انمول
دامن میں یہ بھرتی ہیں
فلک تلک جو جاتا ہے
اُس رستے کو تکتی ہیں
جو تقدیر کا مالک ہے
اس کی رضا میں راضی ہیں
شاہدہ اکرام سحرؔ

مزید پڑھیں