آسیہ راشد

گواہی – آسیہ راشد

صبح کا آسمان بے حد اجلا اجلا سا تھا ۔ آسمان کے وسیع سمندر میں بادلوں کے ہلکے ہلکے ٹکڑے کسی بادبانی کشتی کی مانند ادھر سے اُدھر بھٹک رہے تھے ۔ ہوا میں ہلکی سی خنکی تھی جوطبیعت میں خوشگواریت کا احساس بھر دیتی تھی ۔ نماز فجر کے بعد میںدوبارہ سونے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے قرآن مجید ہاتھ میں تھامے باہر لان میں آ بیٹھی تھی۔
ملگجے اجالے میں مجھے اپنا سارا گھر اونگھتا سا دکھائی دے رہا تھا ہر سو اللہ کی قدرتوں کی بڑائی اورنوازشوں کے شکرانے کے گیت سنائی دے رہے تھے ۔
درختوںکے پتوں میں سے گھونسلوں میں چھپی ہوئی چڑیاں ھوالرحمٰن الرحیم اللہ کی رحمانیت کے گیت گا رہی تھیں۔زمین آسمان درخت پرندے ہوا پانی سبھی سبحانہ‘ کا ورد کررہے تھے۔ دائودی لحن فضا میں بکھرا ہوا تھا۔ میں نے سورۃ الرحمٰن کی تلاوت شروع کردی ۔ مقدس کتاب کا جادو ہرسوچھا گیا تھا ۔ خاموش روشوں پر نورکی برسات دکھائی دے رہی تھی ۔ اس عظیم کتاب کی ہیبت کا احساس میرے وجود پر چھا رہا تھا ۔ اس کے ساتھ ساتھ سارے ماحول پرچھایا وجد اس کے اوراق کوکھول کھول کر بیان کر رہا تھا ۔
اتنے میں اخباروالے کی ’’ اخبار ‘‘…

مزید پڑھیں

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو – گلِ رعنا مسعود تحریر : آسیہ راشد

فی سبیل للہ ٹرسٹ کا قیام محنت ، عزیمت، استقامت کی قابل تقلید داستان ہے ۔ یہ ان درد دل رکھنے والوںکی کہانی ہے جو بنی نوع انسان کی بہتری اورخدمت کے لیے اپنے شب و روز کا آرام تج کے صرف اور صرف اللہ کی رضا اورانسانیت کی بھلائی کے لیے اپنی زندگی وقف کر دیتے ہیں ۔ اس ٹرسٹ کی بانی آپا زہرہ وحید صاحبہ بلا شبہ انتھک محنت ، ہمت اور خلقِ خدا کی خدمت کا استعارہ تھیں۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب 1970ء کی دہائی میں بہت سے محب الوطن پاکستانی مشرقی پاکستان سے ہجرت کر کے پاکستان آگئے ۔ یہ لوگ بہاری کہلائے ۔ ان کی رہائش کے لیے حکومت پاکستان نے لاہور میں ایک جگہ مختص کی یہاں بہاریوں کے لیے گھر بنائے جائیں گے۔ یہ علاقہ ٹائون شپ اور گرین ٹائون کے درمیان واقع ہے ۔اس زمین پر جماعت اسلامی نے 5،5مرلہ کے تین سو گھر تعمیر کیے اوریہ جگہ بہاری کالونی کہلائی ۔ اس علاقے میں آپا جی نے بہاریوں کی امداد ان کی صحت اور تعلیم و تربیت کے حوالے سے بہت کام کیے ۔ جومہاجر یہاں آتے وہ بے شمار بیماریوںمیںمبتلاہوتے جن میں سر فہرست ٹی بی ، پیٹ…

مزید پڑھیں

محبت کا زم زم – آسیہ راشد

کاروانِ آخرت بر ق رفتاری کے ساتھ دن بدن اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے ۔ یہ اپنے ساتھ ایسے لعل و گوہر سے بھی زیادہ قیمتی مشاہیر اور چراغِ راہ جیسی شخصیات کو اپنے ساتھ بہالے جا رہا ہے ۔ یہ وہ ہستیاں ہیں جن کی مثل اور نظیر ملنی مشکل ہے ۔ دستِ اجل کے بے رحم ہاتھوںنے میری خالہ جان زہرہ کو ہم سے دور کر دیا۔
وہ جب دنیا میںآئیں تو خوبصورت پھول کی مانند ہوں گی اسی لیے زہرہ کہلائیں ۔ جوان ہونے پراللہ سے محبت اور عشقِ رسولؐکی سر شاری میں گراں قدر دینی ، علمی اور سماجی خدمات انجام دیں جس کے بدلے میں بحکم ربی انہیں زہرہ کا مقام ملا۔ وہ تمام عمر زہرہ ستارے کی مانند آسمان دنیا پر چمکتی رہیں۔دم رخصت ان کا چہرہ روشن، بلاشبہ وہ ہر لحاظ سے زہرہ ہی تھیں۔
مجھے وہ دن یاد نہیں ہے کہ میں کب اپنی عزیز خالہ جان زہرہ سے ملی تھی ۔ ان سے میرا تعلق میری پیدائش سے پہلے ہی قائم ہو گیا تھا۔ ان کا سراپا، ان کی محبت و خلوص میرے رگ و پے میںشروع سے ہی موجود تھی۔آپ کی ذات گو نا گوں صفات کی حامل ، محنت…

مزید پڑھیں

زہرہ عبد الوحید صاحبہ اپنے ماضی کے اوراق کھولتی ہیں – آسیہ راشد

یہ انٹرویو ۲۰۱۱ اور ۲۰۱۳ کے عرصے میں کسی وقت لیا گیا تھا اب ٹھیک سے یاد نہیں۔ اس
بات چیت میں میرے ساتھ گل رعنا مسعود، راحیلہ سلمان اور ذروہ احسن بھی شامل تھیں(ا-ر)
س: السلام علیکم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاۃ‘
س: آپ اپنے والدین اورخاندان کے بارے میں کچھ بتائیں ؟
ج: میرے والد صاحب کا نام ملک علی حسن اعوان تھا۔ میرے والد صاحب جماعت اسلامی کے پہلے 75 لوگوں میںسے تھے ۔ میں ابھی صرف سات سال کی تھی جب والد صاحب فوت ہوگئے ۔ہم لوگ عون بن علیؓ کی اولاد میں سے ہیں اسی لیے اعوان کہلاتے ہیں۔ عون حضرت علیؓ کی دوسری بیوی میں سے تھے ۔ پشت در پشت ہم پر زکوٰۃ نہیں لگتی۔ والد صاحب محکمہ انہار میںاوور سیئر تھے ۔ ہیڈ مرالہ ، ہیڈ برکی اور ہیڈ رسول انہی کی ملازمت کے دوران میں تعمیرہوئے ۔والد صاحب جاگیر دار بھی تھے انہیں جاگیر داری کی وجہ سے نمبر داری بھی ملی ہوئی تھی والدصاحب مشرقی پنجاب حصار میںرہائش پذیر تھے، رہنے والے شیخوپورہ کے تھے۔
س: آپ لوگوں کی تربیت میں کس کاکردار اہم رہا والد کا یا والدہ کا ؟
ج: ہمارے والد صاحب نے اپنے بچوں کی تربیت بہترین طریقے سے کی انہیں پڑھایا لکھایا…

مزید پڑھیں

معروف مصنفہ غزالہ عزیز صاحبہ سے ملاقات – بتول دسمبر ۲۰۲۰

نام: غزالہ عزیز ،قلمی نام ام ایمان ، کالم نگار ، افسانہ نگار ، ناول نگار، بچوں کی کہانیاں حریم ادب کراچی کی جنرل سیکرٹری ،کراچی پریس کلب اور آرٹس کونسل کی ممبر ،افسانوں کے دو مجموعے،’’ صبح تمنا ، پھولوں کی ٹوکری ‘‘ ناول ، مسافتیں ،پہاڑوںکے بیٹے سیرت صحابہ پر ایک کتاب ( غلام جو سردار بنے ) زیر طبع بچوں کی کہانیاں ، کالم کا مجموعہ افسانوں کا مجموعہ ، سیرت صحابیات اہل بیت ۔
 
سوال: اپنے گزرے ہوئے اور موجودہ وقت کے بارے میں کچھ آگاہی دیجیے۔
غزالہ عزیز: میں ایک متوسط اور پڑھے لکھے دین دارگھرانے سے تعلق رکھتی ہوں ۔ پانچ بہن بھائیوں کی سب سے چھوٹی بہن جس کو بچپن سے پیار ملا اور خوب ملا ۔ میرے والد دینی جماعت کے سرکردہ رکن تھے ۔ مولانا مودودیؒ کے ابتداسے ساتھ رہے انڈیا ہی سے ان کے رسالے ترجمان القرآن کے خریدار تھے ۔ لکھنئو شہر کے بڑے تاجروں میں شمار ہوتے تھے ۔ تجارت کے سلسلے میں سفر کرتے رہتے تھے ۔ پاکستان بننے کے چند سال بعد پاکستان آئے تاکہ تجارت اور کاروبار کا جائزہ لیں اس بات کو دیکھیں کہ یہاں کاروبار اور رہائش کس شہر میں کی جائے ۔
جب وہ واپس…

مزید پڑھیں

کشف – بتول نومبر۲۰۲۰

ہماری یہ فانی دنیا گو نا گوں واقعات سے بھری پڑی ہے ایسے ایسے حیرت انگیز واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔حیات بعد از موت ایک ایسا موضوع ہے جس میں انسان کو ہمیشہ سے ہی دلچسپی رہی ہے ہم اسے قرآن و سنت کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں مگربعض اوقات اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو اپنے مخفی اسرار کی کچھ جھلکیاں دکھلا دیتے ہیں جس سے سلیم الفطرت لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنی اصلاح کرلیتے ہیں۔ ایسے ہی کئی واقعات دنیا میں ہمیشہ سے ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے ۔ آج میں آپ کو دو ایسے لوگوں کے سچے واقعات بتانے جا رہی ہوں جنہوں نے خود ان واقعات کا مشاہدہ کیا جس کے بعد ان کی اور ان کے اہل خانہ کی زندگیاں یکسر بدل گئیں۔
پہلا واقعہ دمشق کے ایک عالم دین نے سنایاوہ بتاتے ہیں :
دمشق میں وداح کا قبرستان ہے اہلِ دمشق اسے اچھی طر ح جانتے ہیں کیونکہ یہ وہاںکا مشہور قبرستان ہے۔ اس میں اولیا ء ،علماء، مجاہدین اور شہدا کی قبریں ہیں ۔ اسی قبرستان میں ایک گورکن تھا جواپنے روز مرہ کے معمولات کے مطابق قبریںکھودتا اور…

مزید پڑھیں

مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی منجھلی صاحبزادی سے ایک ملاقات – بتول فروری ۲۰۲۳

جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
پیکر و مہر و محبت، ایثار و وفا، رواداری و بردباری، فرحت و راحت، علم و عمل کو یکجا کر دیا جائے تو منجھلی آپا بنتی ہیں۔ آپ کی شخصیت ہوا کے لطیف جھونکے کی مانند ہے جو نہایت سبک خرامی سے دوسرے کے دل میں نرمی اور ٹھنڈک کا احساس پیدا کر دیتا ہے۔ آپ سے مل کر بے پناہ پاکیزگی کا احساس جاگزیں رہتا ہے، سراپا اللہ کی بندی دکھائی دیتی ہیں۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کی چاہت وجود سے پھوٹی پڑتی ہے۔ ان سے ملنے کے بعد دل میں اللہ کی محبت فزوں تر محسوس ہوتی ہے۔ آپ ایسی عارفہ ہیں کہ ان جیسے لوگ انسانوں کے ہجوم میں خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے علم و عمل کی خوشبو اپنے اردگرد والوں کو معطر کیے رکھتی ہے۔ آپ کو اپنے والدین کی زندگی کے آخری ایام میں ان کی بے پناہ خدمت کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ آئیے ان سے ملاقات کرتے ہیں۔
 
س: آپ کا اسم شریف اور سنِ پیدائش کیا ہے؟
ج: میں اپنا نام نہیں ظاہر کرنا چاہتی آپ مجھے مولانا مودودیؒ کی صاحبزادی کہہ کر بلائیں۔ میں 1941ء میں دہلی میں پیدا ہوئی۔…

مزید پڑھیں

جیل کہانی – معصوم کلیاں – آسیہ راشد

ٹھیک پندرہ روز بعد ہم سب دوبارہ کو لکھپت جیل جا رہے تھے ۔ ہمارے ساتھ لیڈی ہیلتھ وزیٹرفرحت ( مرحومہ) غزالہ ہاشمی ، فرزانہ ، اسما خان اوردونوجوان بچیاں تھیں جنہوں نے میڈیکل باکس اوربلڈ پریشر چیک کرنے والے آلات اُٹھا رکھے تھے۔
اس دن کی طرح دوبارہ ہماری شناخت ہوئی اورکچھ دیر بعد ہم جیل کی چار دیواری میں بنی چھوٹی چھوٹی عمارتوں میں سے ایک عمارت میں بیٹھے تھے ۔ خالدہ بٹ صاحبہ ہمارے استقبال کے لیے موجود تھیں وہ بہت متحرک دکھائی دے رہی تھیں۔وہ ہمارے سوالات کے جواب بہت تسلی اور اطمینان سے دے رہی تھیں ۔ میرے دل و دماغ میں بہت سے سوالات پنپ رہے تھے جو میں ان سے پوچھنا چاہ رہی تھی ، قیدی بیمار عورتیں ایک ایک کرکے کمرے میں آنے لگیں اور کمرے میں پڑے بنچوں پربیٹھنے لگیں ۔سبھی لوگ مستعدی سے ان کا چیک اپ کر نے لگے ۔ ایک نے بلڈ پریشر چیک کیا ، دوسری نے تھرما میٹرلگایا، فرحت نے ان کے گلے ، آنکھیں ، کان چیک کیں اور نسخہ لکھ کر گروپ کی ایک ممبرکوپکڑا دیا جو دوائیوں کا باکس کھولے بیٹھی تھی۔ اس نے دوائیاں لفافے میں ڈال کر مریضہ عورتوں کودینا شروع کیں…

مزید پڑھیں

جیل کہانی – شانزے کی کہانی – آسیہ راشد

جیل آفیسر کی زبانی
جیل آفیسر شمیم چیمہ نے کہانی شروع کی ۔
ضلع چکوال کے نواح میں گھومتی ، پہاڑیوںکے درمیان واقع گھنے جنگل سے گھرا ہؤا کاشانہ فصیح اس کے مکینوں کے دولت اور امارت کامنہ بولتا ثبوت تھا ۔ یہ ایک عظیم الشان پرانا گھر تھا جس میںبلوط اور شیشم کے بلند و بالا دروازے سپین کی طرز کی بنی ہوئی محرابوںوالی شیشے کی کھڑکیاں اس کی شان و شوکت میں اضافہ کر رہی تھیں ۔ اس گھر کی دیواروں پر لگے ہوئے آبائو اجداد کے کرخت چہروںوالے بڑے بڑے پورٹریٹ اس گھر سے جڑی تاریخ کی عکاسی کر رہے تھے جس میں وہاں کے مکینوںکی وضع داری ، روایت پسندی، جدت طرازی اورکہیںکہیں رحم دلی کی داستان رقم تھی ۔ بیرون ملک سے لائے گئے انواع و اقسام کے نوادرات اس گھر کی سطوت کو بڑھا رہے تھے ۔شاہ بلوط اور صندل کی لکڑی کے بھاری سامان ، قدیم طرز کی پوشش اورپرانی یادوںکی دیر پا خوشبو کاشانہ فصیح کے اندر کے ماحول کو خوشگوار بنا دیا تھا ۔
جب اس گھر کی اکلوتی بیٹی شانزے کے اٹھلاتےہوئے قدم گھر کی راہداریوں میں چلتے پھرتے ،اوراس کے گونجتے ہوئے قہقہے زندگی کا احساس دلاتے تو اس گھر کی رونق…

مزید پڑھیں