۲۰۲۲ بتول فروری

محبت کے رنگ – بتول فروری ۲۰۲۲

ہر طرف سرخ رنگ بکھر رہا ہے کہ یہ محبت کا رنگ ہے، خوشی کی تلاش ہے، محبت کی امنگ ہے۔ اس دل کے نشان اور سرخ رنگ کے پیچھے کیا کہانی ہے؟ اور اس کہانی کی آڑ میں کتنے دل بہلاوے ہیں۔ دل کی خلش کو ختم کرنے کے کتنے جواز ہیں؟ ’’محبت‘‘ کے لفظ کے پردے میں کیا کیا تماشے ہیں؟ ہر تماشے پہ نفس کی اجارہ داری ہے۔ شیطان کی پھیلائی ہوئی دل فریبیوں میں کتنے ایمان والوں کا امتحان ہے۔ اور اس امتحان کے کتنے رنگ ہیں۔ ایک پرائی تہذیب اچانک، ایک دن یا ایک عمل سے کسی تہذیب پر قبضہ نہیں کر سکتی۔ خوشیوں محبتوں کے رنگ اتنی آسانی سے غیروں کے رنگ میں نہیں رنگ جاتے۔ قوموں کی زندگی پل بھر میں نہیں بدل جاتی۔ پہلے کسی ایک فرد کی سوچ کا رنگ تبدیل ہوتا ہے وہ فرد اپنی سوچ کو دیوار پر چپکا

مزید پڑھیں

بتول میگزین – بتول فروری ۲۰۲۲

باتوں سے خوشبو آئے حناسہیل۔جدہ کل جب صبح چہل قدمی کے لیے نکلی تو مختلف انواع و اقسام کے پھولوں کو دیکھ کر ایسے ہی دل میں ایک خیال آیا ۔ ہماری زندگی میں کچھ لوگ بالکل کیکٹس کی طرح ہوتے ہیں، ان کے رویہ میں ، عادتوں میں، باتوں میں کانٹے کانٹے ہوتے ہیں ، ہم ان کی طرف دیکھتے ہیں حیران کن شخصیت لیکن پاس جانے کی ہمت نہیں کرتے ، کیونکہ چاروں اطراف غرور اور انا کے کانٹے نکلے ہوئے ہوتے ہیں جو چبھنے کا خدشہ رہتا ہے ، ریگستانوں میں لگنے والا پودا کیکٹس اگر آپ نے دیکھا ہو تو آپ کو حیران کر دینے والا پودا ہے کہ کم پانی کے ساتھ یا بغیر پانی کے ریگستان میں اگتا ہے اور خشک کانٹوں سے بھرا ہؤا ہوتا ہے ۔ ہماری زندگی میں کچھ لوگ گلاب کے پھولوں کی طرح بھی آتے ہیں جن کی خوشبو

مزید پڑھیں

شہد کی مکھی ہمیں کیا سکھاتی ہے ؟ – بتول فروری ۲۰۲۲

عربی میں شہد کی مکھی کو نحل کہتے ہیں ۔ قرآن مجید میں ایک پوری سورت اس کے نام سے موسوم ہے ۔ سورہ النحل کو پڑھتے ہوئے آپ کو اندازہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں اپنی بہت سی نعمتوں کا ذکر کیا ہے ۔ انہی میں سے ایک نعمت شہد ہے جسے لوگوں کے لیے’’شفاء للناس‘‘ کہا گیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ رب تعالیٰ نے شہد کی مکھی کو آخر اتنی اہمیت کیوںدی کہ اس کے نام پر ایک پوری سورت قرآن مجید میں نازل کی اور اس کے ساتھ ہی انسان کو غور و فکر کی دعوت دی ؟آخر رب تعالیٰ اس چھوٹی سی مکھی سے ہمیں کیا سکھانا چاہتا ہے ؟ آئیے کچھ غورو فکر ہم بھی کریں مل کر ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’ اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی کہ پہاڑوں میں توگھر

مزید پڑھیں

میرا مرکزِ محبت ، میرا ویلنٹائن – بتول فروری ۲۰۲۲

ترقی، روشن خیالی اور جدّت پسندی کے ہمنوائوں کو نوید!کہ ہم نے تو اپنا ویلنٹائن خود ہی چُن لیا۔سب سے انوکھا، سب سے نرالااور سب سے بہترین میرا ویلنٹائن… میرا شوہر! اگر کوئی پوچھے کیوں؟ تو جواب ہے ہماری مرضی! آج کے اس دور میں جب سبھی اپنی من مانی کر رہے ہیں ۔گمراہ کن نعروں سے متاثر ہو کر سڑک چھاپ ہیرو، حیا باختہ انسان ہماری نئی نسل ، ہماری بچیوں اور عورتوں کے ویلنٹائن بن رہے ہیں۔دھڑلّے سے میرا جسم، میری مرضی کے حیا سوز راگ الاپ کر ان کی برین واشنگ کی جارہی ہے، تو ہم نے سوچا کیوں نہ ہم بھی اپنے مرکز محبت اپنے ویلنٹائن کا کھلّم کھلااعلان بڑے فخر سے کر دیں۔ آخر آزادی اظہار ہمارا بھی تو حق ہے! ہمارے ویلنٹائن یوں سمجھ لیں کہ ایک صابر و شاکر، قناعت پسند، کم گو، کم آمیز مگر خوش گفتار انسان ہیں۔سعودی عرب اور انگلستان

مزید پڑھیں

پھول اور پتھر – بتول فروری ۲۰۲۲

اپنا لیکچر تمام کر کے وہ رجسٹر اور میز پر بکھرے چند ضروری کاغذات ابھی سمیٹ رہی تھی کہ اپنی پشت اور کہنی کے درمیان زاویے کے عقب سے ایک ننھی اور ملائم سی آواز سنائی دی ۔ آواز اتنی چھوٹی اور نرم تھی کہ اس پر یہ گمان بھی نہ ہو سکتا تھا کہ یہ بی اے فائنل کی کسی طالبہ کی آواز ہے ۔ چونک کر مڑی تو دیکھا کہ وہ اپنی اسائنمنٹ والی فائل ہاتھ میں پکڑے بلا تمہید مجھ سے کہہ رہی تھی ،’’ میں نے یہ مارچ تک کی سائنمنٹ مکمل کرلی ہے آپ اسے اچھی طرح پڑھ اور اپنے ریمارکس لکھ دیں ، پلیز !‘‘ حیرت سے میں نے اُس کی طرف دیکھا ۔ یہ آواز پہلے کبھی سنی ہوئی لگتی تھی نہ صورت آشنا تھی ۔ ایک لمحے میں اس کو دیکھتی رہی ۔ خیر ، صورت آشنا نہ ہونا کوئی ایسی تعجب

مزید پڑھیں

ماسی جنتے – بتول فروری ۲۰۲۲

ہوش سنبھالا تو بڑے سے کچے صحن میں لگے نیم کے گھنے درخت کے نیچے دادی کا کھاٹ دیکھا۔سفید براق چادر سے سجے کھاٹ پرروئی کے گالے سی دادی یوں تمکنت سے بیٹھی ہوتیں مانو کسی سلطنت کی شہزادی ہوں۔گرمیوں کی شامیں وہیں چھڑکائو ہوئی زمین سے اٹھتی مٹی کی خوشبو سونگھتے اور بہن بھائیوں کے ساتھ کھیلتے گزرتیںاور سردیوں میں کھاٹ دھوپ کے ساتھ ساتھ پورےصحن میں گھومتا۔پرندوں کی بولیاں،ٹھنڈی ہوا کے جھونکے،اور شام کی چائے کے ساتھ کبھی رس تو کبھی بسکٹ اس سارے منظر کومزید حسین بنا دیتے۔ ہاں ایک چیز اور بھی لازم و ملزوم تھی اور وہ تھی ماسی جنتے۔ان کی صحیح عمر تو کسی کو معلوم نا تھی لیکن لگ بھگ دادی جتنی تو ضرور ہوں گی۔کون تھیں ؟کہاں سے آئی تھیں ؟گزر بسرکیسے ہوتی تھی ؟ان تمام سوالوں کے جواب کوئی نا جانتا تھا۔اور نا کسی کے پاس اتنی فرصت تھی کہ ٹوہ

مزید پڑھیں

مسافتیں – بتول فروری ۲۰۲۲

میرا بے تاب دل آنے والی خوشیوں کے احساس سے سرشار تھا۔کئی روز سے جاری جدوجہد اور پاسپورٹ آفس میں دھکے کھانے کے بعد زندگی کا پہلا ’’ پاکستانی گرین پاسپورٹ‘‘ میرے ہاتھوں میں تھا ۔ میں جس چھوٹی سی کیمیکل فیکٹری میں ملازم تھا کوویڈ وبا کی وجہ سے وہ دیوالیہ ہو گئی نوکری ہاتھ سے نکل گئی تو گزر اوقات مشکل ہو گئی ۔میری بیوی شرمین بہت صابر اور باہمت عورت ہے ، اس نے اس مشکل وقت میں میری ڈھارس بندھائی ۔ اس کے مشورے پر ہم نے ہوم میڈ کھانوں کا کام شروع کیاوہ گھر سے کھانے اور فرائی آئیٹم پکا کر دیتی ‘ اور میں انہیں گھروں اور دفاتر میں سپلائی کرتا ۔یوں زندگی کی گاڑی آگے چلتی رہی ۔ طویل عرصے بعد وبا تو ختم ہو گئی پر نوکری بحال نہ ہوئی نوکری کی تلاش میں اپنی ماسٹرز کی ڈگری لے کر سیکڑوں دفاتر

مزید پڑھیں

توبہ ، صرف توبہ – بتول فروری ۲۰۲۲

یہ واقعہ 1947 سے پہلے کا ہے ۔میری پیاری امی جان ممتاز اختر صاحبہ کے ننھیالی گائوں میں واقعہ وقوع پذیر ہؤا ۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس نے لوگوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔ کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہر چیز سے نوازتا ہے اور نواز تا ہی چلا جاتا ہے ۔ جس طرح کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ غریبی بے کسی بے چارگی میں آزماتا ہے ۔ اس طرح کچھ لوگوں کودولت ، اقتدار اور دنیا کی نعمتیں دے کر بھی آزماتا ہے کہیں وہ صبر آزماتا ہے ۔ کہیں وہ شکر اور دولت یقیناایک آزمائش ہے اگر دولت گمراہی کے دروازے کھولتی ہے انسان کواللہ سے غافل کرتی ہے اس کورعونت تکبر میں مبتلا کرتی ہے ۔ حالانکہ یہی دولت اگراچھے انسان کے پاس ہو تو فضل کریم بن جاتی ہے ۔ ایسا انسان غریبوں اور دکھی دلوں کا سہارا بن جاتا ہے کتنے گھرانے

مزید پڑھیں

رب نے بنادی جوڑی – بتول فروری ۲۰۲۲

گھنٹے دنوں میں دن مہینوں میں اور مہینے سالوں کا روپ دھار رہے تھے۔ یہ گزرتے ماہ وسال حاجرہ کی پریشانی میں بتدریج اضافہ کر رہے تھے۔ پریشان کیوں نہ ہوتی شوہر سر پر نہیں تھا۔ خود بھی بڑھاپے کی منزلیں پار کر رہی تھی۔اولاد میں صرف بیٹے ہی تھے لیکن ان کی شادی کی فکر تو دامن گیر تھی۔ باپ کی غیر موجودگی نے ماں کے دل میں اور زیادہ احساس ذمہ داری پیدا کر رکھا تھا۔وہ جلد از جلد اپنے فرائض سے سبکدوش ہونا چاہتی تھی۔ یہ اس خاتون کی خوش قسمتی تھی کہ لوگوں کے گھروں میں بیٹیوں کے لیے پیغام آتے ہیں لیکن اس کے گھر میں بیٹوں کے لیے پیغام آ رہے تھے۔ عبداللہ کھانا کھانے کے لیے باورچی خانے میں ماں کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ ماں نے بڑی محبت سے اس کے لیے پراٹھا بنایا اور ساتھ ساگ کو دیسی گھی کا تڑکا

مزید پڑھیں

مولا دل بدل دے – بتول فروری ۲۰۲۲

’’امی آسیہ آئی ہے بہت پریشان لگ رہی ہے‘‘ ،نازیہ کی بیٹی نے اندر کمرے میں بیٹھی ماں کو اطلاع دی۔ ’’کون آسیہ؟ یہاں تو آسیہ نام کی درجن بھر جاننے والیاں ہیں‘‘۔ انہوں نے بیٹی کو جواب دیا ۔ ’’اوہو…..امی کیا ہوگیا ہے ‘‘آسیہ ’شمیر کی بہن‘جو دو سال تک ہمارے ہاں کام کرتے رہے ہیں پھر دونوں اچانک کام چھوڑ کر غائب ہو گئے تھے ،نازیہ کی بیٹی سمیرہ نے کہا: ’’آسی آآآ…… وہ کیسے آگئے اچانک جب ہم سب بھول بھلا گئے ‘‘۔انہوں نے پاؤں میں چپل اڑستے ہوے کہا : ’’مجھے نہیں معلوم،خود پوچھ لیں جا کے ہر مرتبہ اس کی رنگ برنگی داستان ہی ہوتی ہے……کبھی ابا مر گیا کبھی اماں کی ٹانگ ٹوٹ گئی کبھی کچھ کبھی کچھ‘‘۔سمیرہ نے بیزاری سے کہا۔ آسیہ دروازے کے باہر رکھے سٹول پر بیٹھی تھی ۔چہرہ بجھا ہؤا ، ہونٹوں پر پپڑیاں جمی ہوئیں، آنکھوں کے نیچے سیاہ

مزید پڑھیں

بچوں میں ذیابیطس – بتول فروری ۲۰۲۲

’’چند سال قبل جب ایک دن کمزوری کی وجہ سے میں اسکول میں کر گئی تو اسپتال میں ہونے والے بلڈ ٹیسٹ سے پتا چلا کہ مجھے ذیابیطس ہے۔ ڈاکٹر نے کہا کہ مجھے انسولین لگنی ہے لیکن پہلےمیری والدہ رضامند نہیں تھیں۔ امی کا کہنا تھا کہ انسولین کے انجیکشن لگانا شروع کیے تو تمام عمر لگوانے پڑیں گے۔ کل کو شادی کیسے ہو گی۔ امی کو انسولین کی ضرورت سمجھانے میں ڈاکٹر کو کئی دن لگ گئے‘‘۔ یہ کہنا ہے اسلام آباد کی نورالعین کا جو آج سے پانچ سال قبل ٹائپ ون ذیابیطس کا شکار ہوئیں اور تب سے روزانہ انسولین استعمال کر رہی ہیں۔ نورالعین کی عمر 19 سال ہے اور وہ 14 سال کی عمر میں اسکول میں گرکر بیہوش ہو گئی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بیہوشی کے واقعے سے کافی عرصہ قبل سے انہیں تھکاوٹ اور بے وقت نیند کی شکایت تھی۔

مزید پڑھیں

گواہی – بتول فروری ۲۰۲۲

گلی میں پانی بہانے اور کوڑا کرکٹ گرانے پر گلی کے دونوں طرف کے گھرانوں میں جھگڑا تو پہلے بھی ہوتا تھا اور گالی گلوچ کر کے دونوں طرف کی خواتین چپ ہو کے بیٹھ رہتی تھیں۔ مگر آج تو حد ہو گئی ۔ سامنے والوں کے چار مرد ان غریبوں کے گھر گھس گئے اور گھر کی بوڑھی اماں کے روکنے پر اس کو جھڑک دیا۔ ایک ڈنڈا بھی ماراوہ بھی دائیں بازو پر، ایک سرخ لکیر کا نشان پڑ گیا۔ یہ جسارت اس لیے کی کہ وہ کھاتے پیتے اور اچھے گھر کے مالک تھے اور دوسرے غریب اور معمولی سے گھر میں دو وقت کی روٹی کا مشکل سے بندوبست کرتے تھے ۔ رکشہ چلا کر گھر کا خرچ پورا کرنے والے بیٹے سے ماں کے ساتھ یہ سلوک نہ دیکھا گیا ۔اس نے آگے بڑھ کر ایک دو گھونسے تو رسید کیے مگر وہ چار تھے

مزید پڑھیں

بہتات – بتول فروری ۲۰۲۲

بہتات درد کو سہنا مشکل تھا یا بے دردی کو جسم وجاں پہ بیتنے والے دونوں ہی آزار بہت تھے (کچھ تو گھاؤ کے بھر جانے میں ساماں بھی درکار بہت تھے) زہریلی سی آب و ہوا میں خوابوں کے کچھ پھول کھلے تھے اور رستے پر خار بہت تھے درد کا دارو کیا مل پاتا؟ چارہ گر لاچار بہت تھے زخم جہاں کی بات کریں کیا ہندسہ ہندسہ گننے والے جذبوں سے بیزار بہت تھے سچائی تھی یہ بھی کیسی پھیل رہی تھی بھوک کی شدت لذت کے انبار بہت تھے پتھریلی سی اس دنیا کو کوئی بہت ہی دور نہ جانے وحشت قلت ہیبت کیا کیا برکھا رت جو تھی اس میں بھی طوفانی آثار بہت تھے بچگانہ سی کچھ باتوں نے بختِ سیہ تعبیر کیا ہے بحرانی تاریخ کی لوح پہ بحرانی کردار بہت تھے

مزید پڑھیں

غزل – بتول فروری ۲۰۲۲

جو یونہی روٹھ گئے ہوں انھیں منائیں کیا نہ چاہتے ہوں اگر دل سے مسکرائیں کیا ہمارے دل میں تمہارے سوا نہیں پہ یہ دل جو دیکھنا ہی گوارہ نہیں دکھائیں کیا اگر ہے بات میں سچائی لکنتیں کیسی یہ اوپرا لب و لہجہ یہ آئیں بائیں کیا قبول ہیں سبھی اچھی بری صفات ہمیں کریں گے صرف تری لے کے ہم بلائیں کیا ہزارعیب ہیں ہم میں، نہیں ہے تم میں کوئی ’’ہمارے پاس بھی ہے آئینہ دکھائیں ‘ وہ بے وفا ہی سہی ہم وفاؤں کے خوگر وہ ہم کو بھول گئے ہیں تو بھول جائیں کیا بس ایک تو ہی نہیں جانِ بزم بزم میں کیوں ہر ایک سمت مچی ہے یہ سائیں سائیں کیا محبتوں کا سمندر تو بے کنارہ ہے کہ چاہتوں کی بھی ہوتی ہیں انتہائیں کیا حبیبؔ وقت تھا سب تھے، گیا گئے، کہو اب پلٹ کے دیکھ رہے ہو یہ دائیں بائیں

مزید پڑھیں

خطہ جموں وکشمیر کل اور آج – بتول فروری ۲۰۲۲

جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے کشمیر بیچا ہندو ڈوگرا راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ کشمیر بیچنے سے لے کر آج کے کشمیر تک کی یہ داستان اس جنت نظیر خطے پر ٹوٹنے والے مظالم کا نقشہ کھینچ رہی ہے۔ وضاحت کے لیےکہیں کہیں واوین میں ضروری اضافے کیے گئے ہیں۔ مدیرہ یہ کہانی سنہ 1846 کی ’امرتسر سیل ڈِیڈ‘ کے تحت کشمیر کی ڈوگرا راجہ گلاب سنگھ کو فروخت، ان کے مظالم اور پھر جموں اور کشمیر کی شاہی ریاست کے قیام کی ہے! کشمیر کن شرائط پر بکا اور اس کےکشمیریوں پر کیا اثرات پڑے، یہ سب سمجھنے کے لیے یہ جاننا اہم ہے کہ کشمیر کی تاریخ حملہ آوروں سے بھری ہوئی ہے۔ انڈیا کی طرف جانے والے حملہ آور بھی کشمیر کے راستے ہی ہندوستان پہنچتے تھے، جن میں تین سو چھبیس قبل مسیح میں میسیڈونیا سے آنے والے سکندر اور سائیتھئینز جیسے کچھ وسطی ایشیائی قبیلے

مزید پڑھیں

اُمّت کی ایک بیٹی – بتول فروری ۲۰۲۲

حضرت عمرؓسے روایت ہے کہ مدینہ کی ایک عورت نے حضورؐ کے پاس آکر زنا کا اعتراف کیا اور کہا کہ میں حاملہ ہوں۔ حضورؐ نے ان خاتون کے ولی کو بلایا اور ان سے فرمایا کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو اورجب اس کا بچہ پیدا ہوجائے تو مجھے خبر کرنا۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر آپؐ نے حکم دیا تو ان کے کپڑے ان کے بدن کے ساتھ باندھ دیے گئے پھر آپؐ نے رجم کا حکم دیا اور ان کو رجم کر دیا گیا ۔ پھر آپؐ نے ان کی نماز جنازہ پڑھی۔ اس پر حضرت عمر بن خطابؓ نے فرمایا یا رسول اللہ ؐ آپ ہی نے اس کو رجم کیا اور پھر آپ اس کی نماز جنازہ پڑھ رہے ہیں ۔ حضور ؐ نے فرمایا اس خاتون نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اہل مدینہ میں سے 70 اشخاص پر تقسیم

مزید پڑھیں

رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے چند درخشاں پہلو – بتول فروری ۲۰۲۲

سیرت نگاروں نے اپنی کتب میں زاد المعاد کے حوالے سے رسول اللہﷺ کی اُم معبدؓ کی مرتب کردہ ایک جامع لفظی تصویر دی ہے ۔ ’’ پاکیزہ رُو، کشادہ چہرہ ، پسند یدہ خُو، نہ پیٹ باہر نکلا ہوا ، نہ سر کے بال گرے ہوئے ، زیبا ، صاحبِ جمال ، آنکھیں سیاہ و فراخ ، بال لمبے اور گھنے ، آواز میں بھاری پن ، بلند گردن ، روشن مرد مک، سر مگیں چشم ، باریک و پیوستہ ابرو ، سیاہ گھنگھریالے بال، خاموش وقار کے ساتھ ،گویا دلبستگی لیے ہوئے ، دور سے دیکھنے میں زیبندہ و دلفریب، قریب سے نہایت شریں و کمال حسین ۔ شیریں کلام ، واضح الفاظ ، کلام کمی و بیشی الفاظ سے معرا، تمام گفتگو موتیوں کی لڑی جیسی پروئی ہوئی ، میانہ قد کہ کوتاہی نظر سے حقیر نظر نہیں آتے ۔ نہ طویل کہ آنکھ اس سے نفرت

مزید پڑھیں

اللہ کی رحمت – بتول فروری ۲۰۲۲

اللہ رحمن ورحیم ایسی ہستی ہے جس کی رحمت بے پایاں ہے۔اس کی رحمت پوری کائنات میں پھیلی ہے اور کائنات کے ہر ذرّے کو اس کی رحمت کا حصّہ ملتا ہے، اور ہر ایک کو اس کا فیض پہنچتا ہے۔سارے جہاں میں کوئی دوسرا اس ہمہ گیر اور غیر محدود رحمت کا حامل نہیں ہے۔ دنیا میں جس کے پاس بھی صفتِ رحم پائی جاتی ہے اس کی رحمت جزوی اور محدود ہے۔ اور وہ بھی اس کی ذاتی صفت نہیں ہے بلکہ خالق نے اسے کسی مصلحت اور ضرورت کے تحت عطا کی ہے۔جس مخلوق کے اندر بھی اس نے کسی مخلوق کے لیے جذبہء رحم پیدا کیا ہے، اس لیے کیا ہے کہ ایک مخلوق کو وہ دوسری مخلوق کی پرورش اور خوشحالی کا ذریعہ بنانا چاہتا ہے۔ یہ بجائے خود اسی کی رحمتِ بے پایاں کی دلیل ہے۔(تفہیم القرآن، ج۲،ص۴۵۹) رحمت اللہ تعالیٰ کی خاص صفت

مزید پڑھیں

ابتدا تیرے نام سے – بتول فروری ۲۰۲۲

قارئین کرام! سلام مسنون کورونا کی نئی قسم تو اب نئی نہیں رہی، بلکہ اب’’ نیا نارملــ‘‘ بن گئی ہے۔البتہ یہ بات اچھی ہے کہ وائرس پھیل جانے کے باوجود اموات کی تعداد گزشتہ لہر کی نسبت بہت کم ہے ۔بیماری کا امکان ہے مگرجان کا خطرہ خاصا کم ہو گیا ہے۔ اس ماہ کی اہم خبر یہ ہے کہ اہل کراچی اپنی بات منوانے میں کامیاب رہے۔ حافظ نعیم الرحمان اور ان کے سپاہی مبارک باد کے قابل ہیں جو دن رات، سردی بارش، گھر کاروبار، ہر مجبوری پس پشت ڈال کر ڈٹ گئے کہ کراچی کو اس کا حق دلوا کررہیں گے۔ ٹلتے بھی کیسے! یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس شہر کو سنوارا ہے، لسانیت سے بالاتر اورتعصب سے پاک ہوکر خدمت کی روشن مثالیں قائم کی ہیں۔ یہ بھتہ لینے اور بھارت کی ایجنٹی کرنے والوں کے مقابل بھی ہمت سے کھڑے رہے، اور شہر

مزید پڑھیں