اسما اشرف منہاس

اک ستارہ تھی میں 4 – بتول جنوری ۲۰۲۳

پون کا باغیچہ سانس لے رہا ہے ۔ بہاروں کو آواز دے رہا ہے ۔مگر پون کی اپنی زندگی میں یادوں کی خزاں کا موسم ہے ۔ ایک بچہ اسے اظفر کی یاد دلا دیتا ہے ۔ اظفر جوکبھی بہت ضروری تھا مگر اب محض گزرا ہؤا وقت ہے ماریہ واپس جا چکی ہے ۔ بی بی اور پون دونوں ہی اس کی کمی شدت سے محسوس کر رہی ہیں ۔ گھر کی مرمت کے دوران بی بی کی کچھ پرانی کتابیں ملتی ہیں ۔ جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی بی ایک پڑھی لکھی خاتون ہونے کے باوجود ایک سادہ اور عام عورت کی زندگی گزار رہی ہیں ۔ پون نے قرآن پڑھنا شروع کر دیا ہے ۔ اور وہ اس بات پہ بہت خوش ہے
’’ اچھا تو تم نے وہ کتابیں دیکھ لی ہیں ۔ مجھے کتابیں پڑھنا بہت زیادہ پسندہے۔ خاص طور پر اردو انگریزی ادب لیکن میں نے انہیں جان بوجھ کر ڈبے میں بند کر کے نظروں سے اوجھل کردیا ہے کیونکہ اب میں صرف اس زندگی کا نصاب پڑھنا چاہتی ہوں جو ہمیشہ رہنے والی ہے ، جو میری آنکھیں بند ہونے کے بعد شروع ہو گی اور مجھے ہمیشہ گزارنی ہے ۔…

مزید پڑھیں

اک ستارہ تھی میں -قسط۷ – بتول اپریل ۲۰۲۳

زرک شدید اُلجھن کا شکار ہے۔اس کے ساتھ پڑھنے والی لڑکی ایک وطن فروش دہشت گرد کا الزام لے کر اس کے سامنے ہے۔اس معاملے کی تفتیش اس کے ذمے لگائی گئی ہے۔ وہ اس پر رپورٹ بنا کر فوراً اس لڑکی سے الگ ہو جانا چاہتا ہے۔اس کے لیے وہ کسی بھی طرح کا تشدد کرنے کو تیار ہے۔پون جئے یا مرے اسے کوئی پروا نہیں۔پون سیل میں شدید خوف اور کمزوری کا شکار ہے۔اسے زرک سے سخت ڈر لگ رہا ہے۔وہ مسلسل اس کی موت کی دعائیں مانگتی ہے۔اسے اپنا سکول،بچے،پودے اور سب سے بڑھ کر بی بی بہت یاد آتی ہیں۔
ابھی کل کے زخم اس کے ہاتھ کی پشت پر اور پون کے دل پرتازہ تھے کہ وہ آج پھراس کے سیل میں موجود تھا اور سوال پر سوال کیے جا رہا تھا۔تکلیف دہ سوال…
چبھتے ہوئے سوال…
طنز سے بھرپور سوال…
’’تمہاری حساس جگہوں کے اردگرد بہت سارے گائوں ہیں اوراُن میں بے شمار لوگ بستے ہیں کیا سب کو پکڑ پکڑ کر اسی طرح سوال کیا کرتے ہو یایہ عنایت صرف مجھی پر ہے ؟‘‘پون زچ ہو گئی تھی اس کے سوالوں سے ۔
’’ نہیں یہ عنایت صرف تمھی پر ہے ‘‘ وہ بڑے اطمینان سے بولا تھا…

مزید پڑھیں

اک ستارہ تھی میں – قسط۸ – بتول مئی ۲۰۲۳

پون سے تفتیش جاری ہے۔زرَک روزانہ آکر اس سے گھما پھرا کر طرح طرح کے سوالات پوچھتا ہے مگر ابھی تک اسے کسی سوال کا تسلی بخش جواب نہیں ملا۔ زرَک کو یقین ہے کہ وہ اپنی معصوم صورت کا فائدہ اٹھا کر بہت سارے ایسے کام کر چکی ہے جو وطن کے خلاف ہیں مگر اس کے باوجود وہ سخت بے چینی محسوس کرتا ہے۔اسے کبھی کبھی یہ خوف محسوس ہوتا ہے کہ کہیں پون کے ساتھ وہ زیادتی تو نہیں کر رہا؟ شدید خوف اور ذہنی اذیت کا شکار پون اللہ سے رابطہ بحال کرنا چاہتی ہے مگر نہیں کر پارہی۔اسے لگتا ہے کہ اس کی آزمائش اس کے اور اس کے خدا کے بیچ کھڑی ہے۔
 
آج پھر اُس پر مایوسی کادورہ پڑا ہؤا تھا ۔ بے زاری اپنی انتہا کوپہنچی ہوئی تھی ۔ بے چارگی اور اکیلے پن کا احساس تھا کہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ اُسے لگر رہا تھا وہ یہاں سے کبھی نکل نہیں پائے گی، یہیںپر ختم ہوجائے گی۔
مگر کاش وہ ختم ہی ہو جاتی… ایسا بھی تو نہیں ہو رہا تھا ناں !
وہ زندگی اور موت کی کیفیت کے بیچ میں معلق تھی کوئی سہارا نہیں تھا کوئی کنارا نہیںتھا۔
تب ایک بار…

مزید پڑھیں

قسط11 – اک ستارہ تھی میں – اسما اشرف منہاس

ایک جملہ ہے جس نے پون کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔وہ اسے کسی خزانے کی چابی سمجھ رہی ہے مگر اس کی سہیلی خدیجہ بتاتی ہے کہ یہ کلمہ شہادت ہے۔خدیجہ سے مل کر ماضی کی یادوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ایک خواب اسے اکثر بے چین رکھتا ہے۔وہ ہر طرف آگ لگی دیکھتی ہے۔اس کی زندگی عجیب کش مکش کا شکار ہے۔وہ آگ سے شدید خوف زدہ بھی ہے مگر اس سے بچنے کے لیے جو اسے کرنا چاہیے وہ سب کرنے کی ہمت نہیں ہے اس میں۔اور پھر ایک دن وہ فیصلہ کر لیتی ہے۔اسلام قبول کرنے کا فیصلہ۔
عائشہ کو اس کی حالت پر تشویش ہو رہی تھی ۔
’’ خوش ہوں ….اب تو بہت خوش ہوں ‘‘ وہ بڑے یقین کے ساتھ بولی تھی ’’ آج تو میرا ذہن بہت سکون میں ہے ، ورنہ آج سے پہلے تک سوتے میں وہ سب کچھ پریشان کرتا تھا جو لا شعور میں تھا اور جاگتے میں وہ جوشعور میں تھا ۔ ایک وقت پر تو مجھے لگتا تھا کہ مجھے پاگل ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔ میری بھوک باقاعدہ طور پر مر گئی تھی ۔مگر آج تو میرا دل بہت مطمئن ہے ۔ اس سے بھی…

مزید پڑھیں

قسط۱۰ – اک ستارہ تھی میں – اسما اشرف منہاس

زرک پون کے متعلق مزید معلومات کے لیے اس کے ماں باپ سے ملتا ہے ۔ اور پھر اظفر سے بھی ۔ اظفر جو نوکر شاہی کی بد ترین مثال ہے بے حس ، حرام خور اور عیش پسند ۔ اسے عوام اور ان کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ وہ اپنے مقام ، مرتبے اور آسائشوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے ۔پون زرک کو کئی سال پرانے واقعات بتا تی ہے ۔ جب وہ سکول میں تھی اور ان کا ٹرپ پہلی بار شہر سے باہر گیا تھا تب وہاں اس کے ساتھ عجیب و غریب معاملات پیش آتے ہیں ۔
اس چھوٹے سے جملے میں کچھ تو تھا جومسلسل اس کے دماغ میں چبھ رہا تھا ،ہلچل مچا رہا تھا۔اس نے سنا تھا کہ حقیقی زندگی کے کسی واقعے کے بارے میں جب لگے کہ یہ واقعہ دوسری بار ہو رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ نے اس سے پہلے ایسا ہی کوئی خواب دیکھا ہوتا ہے۔ تو کیا اس نے بھی یہ جملہ خواب میں سنا تھا؟ واقعی وہ اسے دوسری بار سن رہی تھی۔
آخر یہ ہے کیا؟ اس کا مطلب کیا ہے؟
اس کا دماغ مسلسل کھوج میںتھا۔ وہ تھک چکی…

مزید پڑھیں

قسط12 – اک ستارہ تھی میں – اسما اشرف منہاس

پون اور عائشہ کی باتیں اظفر نے سن لی تھیں۔بعد میں اس نے خود اس بات کا اعتراف کیا اور پون کو ہر طرح کی مدد کا یقین دلایا حتٰی کہ شادی کی پیش کش بھی کی جو پون کے لیے ان حالات میں بہت بڑی امید اور تسلی بن گئی۔یونیورسٹی میں اظفر بہت بدل گیا تھا وہ پون سے باہر ملنا چاہتا تھا جو اسے قبول نہیں تھا۔یونیورسٹی کے دو سال ختم ہونے کے بعد اظفر نے شادی کا کوئی ذکرنہیں کیا تھا،تب پون نے اس کے دفتر جا کر اس سے ملنے کا فیصلہ کیا۔
’’ کہو کیسے آنا ہؤا کوئی خاص کام تھامجھ سے ؟ اُس کے پہلے ہی سوال نے اس کی ہمت توڑ دی تھی۔
’’ نہیں کام تو کوئی نہیں تھا ۔ بس ایسے ہی اس طرف سے گزر رہی تھی سوچا تم سے بھی ملتی چلو ں‘‘ اس نے اپنا بھرم رکھنے کی کوشش کی تھی ۔
’’ سوری میں نے بھی بہت دنوں سے فون نہیں کیا سخت مصروف تھا ‘‘۔
’’ کیا کام کر رہے ہو تم آج کل ؟ ‘‘اس نے برسبیل تذکرہ پوچھاتھا۔
’’ ہر وہ کام جو میرا بینک بیلنس بڑھائے‘‘ وہ مزے سے بولا تھا ’’تم تو جانتی ہو میں نے بہت…

مزید پڑھیں

قسط14 – اک ستارہ تھی میں – اسما اشرف منہاس

خلاصہ:نین تارا غیر ملکی مذموم مقاصد کو پورا کرتی ایک این جی او چلا رہی ہے۔وہ پون کو نوکری کی پیشکش کرتی ہےجو کہ صالحہ آنٹی کے مطابق ایک خطرناک پیش کش ہے۔مگر نین تارا خود ہی لا پتہ ہو جاتی ہے۔پون کو ہاسٹل میں ایک لڑکی نظر آتی ہے جو اسی کے محلےکی رہنے والی تھی۔وہ اس سے ڈر کرگائوں کے سکول میں استانی کی نوکری کے لیے درخواست دے دیتی ہے۔حمیرا اس کی سہیلی ہاسٹل چھوڑ کر جا رہی ہے۔خود پون کا اگلا ٹھکانہ کیا ہو گا وہ نہیں جانتی۔
 

وہ بہت دیر پہلے خاموش ہو چکی تھی اور اب گھٹنوں پہ سر رکھے بیٹھی تھی ۔ ماضی کا سفر بہت تکلیف دہ ثابت ہؤا تھا ۔ وہ ذہنی طور پر بُری طرح سے تھک گئی تھی مگر اتنا ضرورہؤا تھا کہ اس نے وہ سب کچھ کہہ ڈالا تھا جو وہ آج تک کسی سے نہیں کہہ پائی تھی۔ وہ سارے دکھ وہ ساری تکلیفیں وہ ساری یادیں جواس کے اندربیماری بنتی جا رہی تھیں ، آج اس نے نکال کراس شخص کے سامنے رکھ دی تھیں جوبیک وقت اجنبی بھی تھا اور اپنا بھی…جو بے نیاز تھا ، لا تعلق اور خود پسند تھا … پھر بھی…

مزید پڑھیں