نبیلہ شہزاد

ایسا بھی ہو سکتا ہے! – بتول دسمبر ۲۰۲۰

’’یہی کوئی دو تین دہائیاں پہلے تک دیہاتوں اور قصبوں کے لوگ مل جل کر موسموں سے لطف اندوز ہوتے اور کام بھی زیادہ نمٹا لیتے۔خاص کر سردیوں کے موسم میں صبح صبح گھر کے کاموں سے فارغ ہو کر خواتین گھنٹوں دھوپ سینکتیں، آپس میں گپ شپ کرتیں اور اپنے کام بھی سنوارتیں‘‘۔ اب کہاں وہ مزے۔اوراب تو یہ موا موبائل ایسی بلا آ گیا ہے جو رات کو دیر تک جگاتا ہے اور پھر نیند پوری کرنے کے لیے لوگ آدھے دن تک سوئے رہتے ہیں…..اور ویسے بھی اب وہ مل بیٹھ کر دھوپ سینکنے کے لیے بڑے صحن کہاں رہے ہیں۔شہر کے لوگوں نے جگہ کی کمی کی وجہ سے اور کچھ کوٹھی سٹائل کے شوق میں صحن بنانا چھوڑ دیے ۔ دیکھا دیکھی دیہاتی لوگ بھی بند گھروں میں آگئے‘‘۔ رابعہ تیز رفتاری سے سرسوں کا ساگ کاٹتے ہوئے بہو رانی کے ساتھ دل کے پھپھولے

مزید پڑھیں

صدقے یا رسول اللہؐ – بتول نومبر۲۰۲۰

بچے سکول و کالج اور میاں جی اپنے کاروبار کی طرف جا چکے تھے۔ دن کے دس بجے ہی ارد گرد ہو کا عالم تھا۔ آس پاس کے گھروں سے بھی صرف دو آوازیں آ رہی تھیں ، گھنٹی بجنے کی اور دروازے کھلنے کی،کیونکہ یہ جھاڑو پونچھے والی ماسیوں کے آنے کا وقت تھا۔ لیکن رفعت کی اپنی ملازمہ کے لیے خاص تاکید تھی صبح آٹھ بجے تک آنے کی۔ آج تو کام بھی کچھ زیادہ تھا کیونکہ رفعت نے اپنے گھر میں ماہ ربیع الاول کے سلسلے میں محفل منعقد کی تھی جس میں بس ایک دن باقی تھا۔ رفعت اکثر ماسی کے پاس کھڑے ہو کر اس سے کام کرواتی۔ نہ خود بیٹھتی نہ ماسی کو سست روی سے کام کرنے دیتی۔ اس نے گھر کے ایک ایک کونے کھدرے سے صفائی کروائی۔ اسی دوران پھر دروازے کی گھنٹی بجی۔ دیکھا تو مالی تھا۔ اب مالی میاں

مزید پڑھیں

کیک – نوردسمبر ۲۰۲۰

دوپہر کا ایک بج رہاتھااور گھر میں ایسا سناٹا چھایا ہوا تھاجیسےیہاں کوئی متنفس نہ رہتاہو۔ جس گھر میں چار لڑاکا بچے ہوں ،ان کی موجودگی میں ایسی خاموشی چھائی ہو،تعجب کی بات تھی۔بچوں کےہروقت کےشور ،جس کی وجہ آپس کی نوک جھوک بھی ہوتی اور مل کر کھیلنا بھی،سے تنگ آئی ہوئی امی بھی فکر مند ہو گئیں۔آخریہ بچےکرکیارہےہیں؟ چاروں بچوں میں سب سے بڑی اسماء تھی جو بارہ سال کی تھی۔ دوسرے نمبر پراشعر دس سال کا، تیسرے نمبر پر فروہ سات سال کی اور چوتھے نمبر پر فاطمہ چار برس کی تھی۔ فاطمہ تھی تو سب سے چھوٹی، لیکن کام بڑے بڑے کر جاتی تھی۔ خصوصاًشکایت لگانےمیں تواسےملکہ حاصل تھا۔اکثراس کی وجہ سےدوسروں کوڈانٹ کھاناپڑتی تھی۔ ہر وقت گھر میں دھینگا مشتی مچائے رکھنے والے بہن بھائی، جب امی کی نظروں سے اوجھل اپنا من پسند کام کر رہے ہوتے تو محبت و اتفاق میں ایسے ہوتے

مزید پڑھیں

رب نے بنادی جوڑی – بتول فروری ۲۰۲۲

گھنٹے دنوں میں دن مہینوں میں اور مہینے سالوں کا روپ دھار رہے تھے۔ یہ گزرتے ماہ وسال حاجرہ کی پریشانی میں بتدریج اضافہ کر رہے تھے۔ پریشان کیوں نہ ہوتی شوہر سر پر نہیں تھا۔ خود بھی بڑھاپے کی منزلیں پار کر رہی تھی۔اولاد میں صرف بیٹے ہی تھے لیکن ان کی شادی کی فکر تو دامن گیر تھی۔ باپ کی غیر موجودگی نے ماں کے دل میں اور زیادہ احساس ذمہ داری پیدا کر رکھا تھا۔وہ جلد از جلد اپنے فرائض سے سبکدوش ہونا چاہتی تھی۔ یہ اس خاتون کی خوش قسمتی تھی کہ لوگوں کے گھروں میں بیٹیوں کے لیے پیغام آتے ہیں لیکن اس کے گھر میں بیٹوں کے لیے پیغام آ رہے تھے۔ عبداللہ کھانا کھانے کے لیے باورچی خانے میں ماں کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ ماں نے بڑی محبت سے اس کے لیے پراٹھا بنایا اور ساتھ ساگ کو دیسی گھی کا تڑکا

مزید پڑھیں

رمضان جی – بتول فروری ۲۰۲۳

رمضان جی کو دیکھنے لڑکی والے آرہے تھے۔ تمام تیاریاں مکمل ہونے کے بعد رمضان جی اور اس کے گھر والے مہمانوں کی آمد کا انتظار کر رہے تھے۔ یہ انتظار کتنی بری چیز ہوتی ہے، اس وقت کوئی رمضان سے پوچھتا۔ کاش! انتظار کا لفظ اس دنیا میں ایجاد ہی نہ ہوا ہوتا۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ جلدی سے لڑکی والے آئیں، اسے پسند کریں اور شادی کی تاریخ بھی مقرر کر جائیں۔ رمضان جی کا وجہ تسمیہ اور قصہ پیدائش کچھ اس طرح تھا کہ رمضان کے مہینے میں جس وقت مسجد کے مولوی صاحب نے فجر کی اذان’’اللہ اکبر‘‘ کی صدا سے شروع کی تھی عین اسی لمحے اکبر علی کے بیٹے نے دنیا کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی کان پھاڑتی آواز کے ساتھ رو رو کر دنیا میں اپنی آمد کا اعلان کیا۔ بچے کی کراری آواز نے صحن میں بیٹھے اکبر علی

مزید پڑھیں

یہ دکھ صرف تیرا نہیں – بتول مارچ ۲۰۲۳

دوپہر تو کیا، دن سہہ پہر پکڑنے والا تھا اور ڈھلنے کی طرف رواں تھا۔ سورج مغرب کی طرف چھلانگیں لگاتا ہؤا دوڑ رہا تھا۔ گھڑیال کی گھنٹہ والی سوئی دو کا ہندسہ پار کرکے سوا دو کا وقت بتا رہی تھی لیکن عذرا کا کہیں دور تک نام و نشان بھی نہ تھا۔ عذرا گھر کے کاموں میں میری مدد گار کے طور پر کام کرتی تھی۔ مجھے عذرا کے لیے’’ کام والی‘‘ یا’’ماسی‘‘ کا لفظ بالکل بھی پسند نہیں تھا۔ میرے خیال میں ہم ان کے لیے یہ الفاظ بول کر انہیں ان کی کم مائیگی کا احساس دلاتے ہیں اور وہ اپنے لیے ہماری زبانوں سے ایسے الفاظ سن کر اپنے آپ کو ہم سے الگ مخلوق سمجھتے ہیں۔ اس وجہ سے میں اپنے بچوں کو بھی ان کے لیے یہ الفاظ نہیں بولنے دیتی۔ اس لیے میرے بچے بھی انہیں ہمیشہ آنٹی یا خالہ ہی کہتے

مزید پڑھیں

ساس کی آنکھ کا تارا بنـــیـے – بتول مارچ ۲۰۲۲

چاند کا چمکنا دمکنا اپنی جگہ، شاعروں کا اپنے محبوب کو چودھویں کے چاند سے تشبیہ دینا اور اس کے حسن کی تعریف میں زمین و آسمان کے درمیان قلابے ملانا بھی اپنی جگہ، لیکن اس حقیقت سے کوئی بندہ بشر انکار نہیں کر سکتا کہ آسمان کا اصل حسن تو تارے ہیں۔ یوں بھی کہا جاتا ہے کہ حسن دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے۔اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی رشتے کی آنکھ کا حسن یا تارا بننا کوئی آسان کام نہیں۔ خاص کر بہو کے لیے ساس کی آنکھ کا تارا بننا جو کہ جان جوکھوں کا کام ہے۔ آئیے آج ہم آپ کو اس مشکل اور جان جوکھوں میں ڈالنے والے کام یعنی ساس کی آنکھ تارا بننے کے چند آسان اور مفید گر بتاتے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھیں جب آپ اپنی ساس کی آنکھ کا تارا ہوں گی تو پورے

مزید پڑھیں

ملازم – بتول اپریل ۲۰۲۲

’’گرمیوں میں راتیں چھوٹی جن میں کئی بار مچھر کاٹنے، گرمی اور پیاس کی وجہ سے آنکھ کھلتی ہے۔ان راتوں میں نیند کا پورا ہونا محال ہوتا ہے اور دن میں کسی وقت نیند پوری کیے بغیر گزارا نہیں۔ ایسے ہی سردیوں میں دن چھوٹے،ناشتہ کرتے کراتے ہی دن کے بارہ بج جاتے ہیں۔ پھر دوپہر کا کھانا اور دوپہر کے کھانے کے فوراً بعد رات کے کھانے کی تیاری گویا پورا دن باورچی خانے میں ہی گزار دو۔ ایسے میں گھر کے دوسرے کاموں کی جانب کس وقت توجہ دیا کریں؟‘‘ امینہ نے چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے پاس بیٹھی اپنی سہیلی فریحہ سے اپنے دل کا دکھڑا بیان کیا۔ امینہ کو وقت کی کمی کی شدید شکایت تھی اس کا خیال تھا کہ کام دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں اور دن سمٹتے جا رہے ہیں۔ وقت میں برکت نہیں رہی۔ امینہ کے وقت کی کمی کے

مزید پڑھیں

بیوی کے محبوب بنیے – بتولاگست۲۰۲۲

جب چلتے ہوئے آپ کے گھٹنوں سے چڑ چڑ کی آوازیں آنی شروع ہو جائیں، نظر کمزور اور داڑھی سفید ہوجائے، تو کوئی ہے جس کے لیے اس وقت بھی آپ ہیرو سے کم نہیں ہوں گے، فیصلہ آپ کا ہے! چاہے سارا سر اور داڑھی سفید ہو جائے، کمر خم کھا جائے، ہاتھوں میں رعشہ طاری ہوجائے، دو باتیں کرنے کے بعد تیسری بات کرتے ہوئے کھانسی کا گھونٹ بھرنا پڑ جائے، چلتے ہوئے گھٹنوں، ٹخنوں سے چڑ چڑ کی آوازیں آنا شروع ہو جائیں، تو اس دور میں بھی اکثر حضرات کے دل میں یہ خواہش موجود ہوتی ہے کہ وہ کسی محترمہ کے دل کےمحبوب ہوں! وہ 60 سال کی عمر میں بھی سر، داڑھی کے بالوں کو کلف لگا کر اپنے آپ کو جوان ثابت کرنے پر تلے ہوتے ہیں۔ شادی کے نام پر ان کے ہونٹ گلاب کی پنکھڑیوں کی طرح کھل اٹھتے ہیں۔ شرمیلی

مزید پڑھیں

سکینہ جی کا ڈائیٹ پلان – بتول اکتوبر۲۰۲۲

دو بھائیوں کی اکلوتی بہن سکینہ جی ، ہر وقت موبائل میں مگن رہنے والی بلکہ موبائل فون تو اس کے ہاتھ کا کھلونا تھا ۔ یہ اس کا ایسا دل پسند کھلونا تھا جس کے بغیر اس کے دس منٹ بھی گزرنا مشکل تھے۔ پھرتیلی ماں کی بیٹی ہونے کی وجہ سے اسے کوئی گھر کا کام بھی نہ کرنا پڑتا۔ اسے گھر کے کام کاج سے کوئی شغف بھی نہیں تھا اور نہ ہی کبھی ماں نے کام کرنے کو کہا۔ اگر کبھی بھول چوک سے کہہ بھی دیا تو ہمیشہ کہہ کر پچھتائی کیونکہ تین چار گھنٹے بعد ماں کو وہ کام خود ہی کرنا پڑا۔ فارغ البالی اور خوب شکم سیری نے مل کر سکینہ جی کے بدن کو محض 19 سال کی عمر میں 90 کلو تک پہنچا دیا تھا۔ سکینہ جی تو اپنے پہاڑ جیسے وجود کے ساتھ بھی بے فکری اور مزے کی

مزید پڑھیں

عیادت – بتول مئی ۲۰۲۱

چلتی پھرتی ،بھاگ دوڑ کر کام نمٹاتی نورین کے لیے ایک ٹک چارپائی پر رہنا مشکل ترین اور صبر آزما کام تھا۔اسے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کسی نے اسے زبردستی سزا کے طور پر بستر کے ساتھ باندھ دیا ہو۔بستر پر لیٹے رہنا اس کے لیے اندھیری کوٹھڑی میں قید سے بھی بدتر تھا۔اسے ٹانگ کے فریکچر سے زیادہ محتاجی کا درد محسوس ہوتا تھا ۔ اب اسے بڑی بوڑھی خواتین کی رب کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر تڑپ کے ساتھ مانگی جانے والی یہ دعا کہ یا اللہ محتاجی کی زندگی سے بچانا اور چلتے پھرتے اس دنیا سے لے جانا،کا مفہوم اچھی طرح سمجھ میں آچکا تھا۔وہ جان چکی تھی کہ یہ محتاجی جہاں اردگرد والوں کے لیے مصیبت ہوتی ہے، وہاں یہ بندے کے اپنے لیے بھی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی۔ لیکن کیا کیا جائے اس چیز کے بارے میں جہاں انسان

مزید پڑھیں

جب احساس ہؤا-بتول جنوری ۲۰۲۱

ٹھٹھرتا ہؤا موسم سرما آہستہ آہستہ رخصت ہو رہا تھا جس کی وجہ سے سورج کی شرماہٹ میں کمی آ رہی تھی اور اس کا اعتماد بحال ہو رہا تھا ۔ لہذا اب وہ کہر میں آنکھ مچولی کھیلنے کی بجائے اپنی تمازت کے ساتھ ہنستا مسکراتا سر عام نظر آتا تھا۔نرم دھوپ نے ہر چیز کو جلا بخش کر ماحول کو خوب صورت بنا دیا۔ درختوں میں جان پڑنے لگی ڈالیاں لہرانے لگیں۔ ان پر لگے رنگ رنگ کے پھول مسکرانے لگے۔ پرندوں کے گیتوں نے فضا میں ترنم گھول دیا۔ مکین جو دو ماہ سے گھروں میں سخت سردی کی وجہ سے دبکے بیٹھے تھے، وہ اس طلسماتی ماحول سے لطف اندوز ہونے کے لیے گھروں سے نکلنے لگے۔ تنویلہ اور سمیر، دونوں بہن بھائی اپنے اپنے بچوں کو لے کر پارک آئے تھے۔ تنویلہ کے میاں کی کاروباری مصروفیت، اس لیے وہ ان کے ساتھ نہ آسکا

مزید پڑھیں