کُن – بتول فروری ۲۰۲۳
سکینہ تھکے تھکے قدموں سے گھر میں داخل ہوئی تو گھر کے مکینوں کی آنکھوں میں سکون دوڑ گیا۔ اس گھر میں کئی جانوں کی بھوک کو آسودگی سکینہ کی واپسی پر ہی میسر ہو پاتی تھی سکینہ باآواز بلند سلام کرکے سب سے پہلے آنگن کے کونے میں چھلنگا سی چار پائی پر بیٹھے ملنگے کی طرف بڑھی جس نے اماں کو دیکھتے ہی تالیاں بجانا شروع کردی تھیں ۔سکینہ نے اپنی چادر کے کونے سے اس کی بہتی ہوئی رال صاف کی اور کاغذ میں لپٹی نمک مرچ والی شکرقندی اس کے آگے رکھ دی۔ شکر قندی دیکھ کر ملنگے کی آنکھوں میں خوشی دوڑ گئی ۔ شکرقندی ملنگا کی واحد عیاشی تھی جو اماں سکینہ ہفتے میں ایک بار ضرور کراتی تھی ورنہ تو روز اس کے سامنے بیگم صاحبہ کے گھر سے بچے ہوئے سالنوں کا ملغوبہ ہی رکھا جاتا جو بیگم صاحبہ اپنی آلکسی یا