ڈھلتے سورج کی نرم شعاعیں کھلے صحن میں فرحت افزا احساس بکھیر رہی تھیں۔ سہہ پہر کے سکون میں گھونسلوں میں لوٹتی چڑیوں کی الوداعی چہچہاہٹ کا ہلکا سا ارتعاش پنہا ں تھا۔ اپنی جلترنگ میں تھرکتی خوشی لمحہ بھر کو منڈیر پہ ٹکی اور اندر کا منظر دیکھ کے مبہوت رہ گئی۔سامنے کمرے کے وسط میں بےفکر زندگی کھلکھلارہی تھی۔اس کی مدھر ہنسی نے کانوں میں رس گھولا تو خوشی نے چپکے سے زندگی کی ہزاروں بلائیں لے لیں۔
’’امی! پانی لادیں‘‘ عماد نے کھانستے ہوئےبمشکل آواز لگائی۔ لیپ ٹاپ چلاتے ہوئے مستقل اس کا منہ بھی چل رہا تھا۔سامنے موجود پلیٹ میں چپس ختم ہونے کے قریب تھی کہ اس کواچھو لگ گیا۔
شازمہ ابھی آٹا گوندھنے بیٹھی تھی۔ اس نے اپنے آٹے میں لتھڑے ہاتھوں کو بے بسی سے دیکھا۔
’’حماد دیکھ رہے ہو بھائی کو اچھو لگ گیا۔ ذرا اٹھ کے پانی نہیں دے سکتے…. بس ہر وقت موبائل میں مگن رہنا ہے‘‘۔
حماد نے ماں کی آواز پہ یوں چونک کر دیکھا جیسے اس کو پتہ ہی نہ ہو عماد کھانس رہا ہے۔ وہ ایکدم اٹھا اور ایمرجنسی ایمرجنسی کی آوازیں لگاتا ہوا کچن کی طرف بھاگا۔ کولر سے پانی بھرا اور جس رفتار سے آیا تھا اسی رفتار…
شازمہ اور شاہ زر کا گھر خوشیوں کا گہوارہ ہے جہاں زندگی مسکراتی ہے۔ عماد اور حماد ان کے دو نوجوان جڑواں بیٹے ہیں جن کی کرونا کی وجہ سے چوبیس گھنٹے گھر میں موجودگی شازمہ کو گھن چکر بنائے رکھتی ہے۔ ماں کے کام کا بوجھ کم کرنے کے لیے دونوں ہمہ وقت شادی کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ذرا دیر کے لیے ماضی میں جھانکتے ہیں۔ شازمہ اور شاہ زر کی کم عمری میں شادی ہوئی۔ شاہ زر کو ملازمت دوسرے شہر میں ملنے کی وجہ سے دونوں کو شادی کے بعدخاندان سے الگ رہنا پڑا۔ کم عمری اور نا تجربے کاری کی وجہ سے دونوں ہی پریشان ہوتے ہیں۔ قدرت نے جلد جڑواں بیٹوں کی نعمت سے نواز دیا۔ بچوں کا کوئی مسئلہ ہو یا گھر کا کوئی معاملہ دونوں ہی روز اپنی ماں اور ساس سے فون کرکے مشورے لیتے ہیں۔ بچے ایک سال کے ہوچکے تھے۔ کراچی میں شازمہ کے بھائی کی شادی تھی۔ شاہ زر کو چھٹی نہ ملی اور شازمہ کو شاہ زر کے بغیر بچوں کے ہمراہ کراچی جانا پڑا۔آگے پڑھیے۔
شازمہ بھائی کی شادی کے لیے بہت پرجوش تھی۔ روز روز امی کے ساتھ بازاروں کے چکر لگتے۔ بچوں کو ابو…
گلابی پشواز پہ بنفشی چنری اور چاند بالیاں پہنے کتنی ہی دفعہ آئینہ میں وہ خود کو نِہار چکی تھی۔ چہرے پہ پھیلتے دھنک رنگ لباس کا عکس معلوم ہوتے پر یہ تو اس کا دل ہی جانتا تھا کہ یہ ملن کی چمک ہے جو اس کے وجود سے پھوٹی پڑ رہی ہے۔
جس کے لیے دل انوکھی لے پہ دھڑک رہا تھا وہ اس سے چند ہی میل دور، غازہ مل کے چہرے پہ پڑنے والی وقت کی چھاپ چھپا رہی تھی۔ دس سال کم عرصہ نہ تھا ہیئت بدلنے کے لیے۔ جب آزمائش کی بھٹی بھڑکتی ہے تو صرف روح ہی نہیں جلتی، دلکشی ہو یا رعنائی سب جھلس جاتی ہے۔ فاصلے سمٹ رہے تھے۔ کچھ ہی گھر پرے وہ انہماک سے دو تحفوں پہ کاغذ لپیٹ رہی تھی۔ اس کو نہ سجنے کی فکر تھی نہ سنورنے کی ۔ دیکھنے والے کہتے کہ وقت اسے پیار سے چھو کے گزر گیا تھا۔ رکھنے والے نے اسے اپنے پیار کے قفس میں بڑا سنبھال کے رکھا تھا۔مگرقفس چاہے پیار کا ہی کیوں نہ ہو دل مردہ کر دیتا ہے ،پھر نہ ارمان مچلتے ہیں نہ خواہش۔
بچپن کی دہلیز کو اکھڑے قدموں سے اُلانگتی وہ تینوں جڑواں تو نہیں…
۸اکتوبر کو تقریباً گیارہ اور بارہ بجے کے درمیان ویمن ایڈٹرسٹ کا چار رکنی وفد جیل پہنچا ۔ سوشل ویلفیئر آفیسر ہماری منتظر تھیں ۔ جیل کے احاطے میں غیر معمولی گہما گہمی تھی ۔ معلوم ہؤا سو بچوں کے قاتل جاوید اقبال اور اس کے ساتھی نے رات جیل میں خود کشی کرلی ہے ۔
اس خبر کو سنتے ہی دل بے طرح افسردہ وہ گیا ۔ کیا سو بچوں کے قاتل کو اس طرح مرنا چاہیے تھا؟ کیا اس کا انجام وہی ہؤا جس کے وہ قابل تھا اور اس طرح کے بے شمار سوالات ہمارے ذہن میں آنے لگے ۔ ہم لوگ گفتگو کرتے ہوئے ویمن سیل کی جانب روانہ ہو گئے ۔ راستے میں ایک خاص قسم کے سناٹے اورخاموشی کو سبھی نے محسوس کیا ۔ ہوا میںعجب سی پر اسراریت شامل تھی ۔ یوں لگ رہا تھا جیسے فضا میں ان معصوم بچوں کی سسکیاںشامل ہیں ۔ وہ چلا چلا کر کہہ رہے ہیں کہ ہمیں اذیت ناک موت سے دو چار کرنے والے کا اتنا آسان انجام کیوں ہوا؟ اس کے جسم کے سو ٹکرے کیوں نہ کیے گئے ؟ اس کے ٹکڑوں کو تیزاب میں کیوں نہ پھینکا گیا ؟ اسے سر عام پھانسی…
گزشتہ قسط کاخلاصہ: شازمہ کو لگتا ہے کہ شاہ زر نے بچوں کے ہر فیصلے کا اختیار اس کو دے کے بچوں کی ذمہ داریوں سے پیچھا چھڑایا ہے۔ شازمہ کو بچوں کے پرنسپل سے ملنے جانا پڑا اور بچوں کے اوٹ پٹانگ جوابات سن کراسے وہاں بہت شرمندگی کا سامنا ہؤا۔ صباحت نے اپنی مرحومہ بھابھی کا بچہ گود لیا تو عماد حماد نے خود کو اس بچے کی ماں تصور کرلیا۔ نوجوانی میں قدم رکھا تو لاک ڈاؤن میں بچوں کو فارغ دیکھ کے شازمہ نے ان کی شادی کروادی۔ اس کو شروع سے ہی کم عمری میں بچوں کی شادی کروانے کا شوق تھا۔ شادی کے بعد شازمہ کو ادراک ہؤا کہ اب اسے دو نہیں بلکہ چار بچوں کو پالنا تھا۔ منال اور ہانیہ اتنی شرمیلی نہیں تھیں جتنا اس نے شروع میں سمجھ لیا تھا۔ جلد ہی تکلف کی دیوار گری تو پتہ چلا دونوں ہی سیر پہ سوا سیر تھیں۔ شازمہ کو سسرال میں ساتھ رہنے کا تجربہ نہیں تھا مگر اس نے سن رکھا تھا کہ عموماً گھروں میں کبھی دیورانی جٹھانی کی نہیں بنتی تو کہیں ساس بہو میں ان بن رہتی ہے۔ اس کے گھر میں انوکھی ہی ریت چلی۔ منال…
سکینہ تھکے تھکے قدموں سے گھر میں داخل ہوئی تو گھر کے مکینوں کی آنکھوں میں سکون دوڑ گیا۔ اس گھر میں کئی جانوں کی بھوک کو آسودگی سکینہ کی واپسی پر ہی میسر ہو پاتی تھی
سکینہ باآواز بلند سلام کرکے سب سے پہلے آنگن کے کونے میں چھلنگا سی چار پائی پر بیٹھے ملنگے کی طرف بڑھی جس نے اماں کو دیکھتے ہی تالیاں بجانا شروع کردی تھیں ۔سکینہ نے اپنی چادر کے کونے سے اس کی بہتی ہوئی رال صاف کی اور کاغذ میں لپٹی نمک مرچ والی شکرقندی اس کے آگے رکھ دی۔ شکر قندی دیکھ کر ملنگے کی آنکھوں میں خوشی دوڑ گئی ۔ شکرقندی ملنگا کی واحد عیاشی تھی جو اماں سکینہ ہفتے میں ایک بار ضرور کراتی تھی ورنہ تو روز اس کے سامنے بیگم صاحبہ کے گھر سے بچے ہوئے سالنوں کا ملغوبہ ہی رکھا جاتا جو بیگم صاحبہ اپنی آلکسی یا کیا خبر اپنی تھیلیاں بچانے کے چکر میں ساری بچے ہوئے سالن کی پلیٹیں ایک ہی تھیلی میں ڈال کے دے دیا کرتی تھیں ۔
ملنگاحلق سے قلقارریوں کی آوازیں نکالتا ہؤا جلدی جلدی شکرقندی کھانے لگا ۔سکینہ نے ایک محبت بھری نظر اس پر ڈالی اور سر پر شفقت سے ہاتھ…
مدیحہ ارحم کو کندھے سے لگائے بے چینی سے کمرے میں چکرا رہی تھی۔ کبھی دل میں غصہ کی لہر اُٹھتی توکبھی رونا آجاتا ،کبھی اضطراب سوار ہوتا تو کبھی شرمندگی گھیر لیتی۔ کسی طور چین نہیں تھا ۔
بات صرف اتنی سی تھی کہ اباجی اور فیصل بکرا لینے گئے ہوئے تھے۔ مگر بات شاید اتنی سی نہ تھی۔ اگر اتنی ہی ہوتی تو وہ خوشی خوشی انتظار کر رہی ہوتی ۔پر اصل بات یہ تھی کہ ابا جی اور فیصل ،بھابھی کا بکرا لینے گئے ہوئے تھے ۔
مدیحہ کو بکروں سے عشق تھا، مانو بچپن کی محبت تھی ۔شادی سے پہلے ابو جب بھی قربانی کا بکرا لاتے ہمیشہ آتے ہی رسی مدیحہ کے ہاتھ میں پکڑاتے۔
’’یہ لو بھئی آگیا میری بیٹی کا بکرا …..اب اس کی عید تک خوب خاطر مدارت خدمت سب تمہاری ذمہ داری‘‘۔
اور واقعی مدیحہ بکرے کے ناز نخرے اٹھانے میں جان لڑا دیتی ۔ بکرے پر پورا س کا قبضہ ہوتا، بھائیوں کو ہاتھ بھی نہ لگانے دیتی۔ اس کو کھلانا پلانا نہلانا سجانا مہندی کڑے ہار …..بس چلتا تواپنا عید کا نیا جوڑا بھی بکرے کو پہنا دیتی اور جب عید کی صبح وہ قربان ہوتا تو موٹے موٹے آنسو اور دبی دبی…
’’مجھے نہیں کھانے یہ بینگن…. آپ کو کچھ بھی اچھا پکانا نہیں آتا مما…. ہر وقت یہ سبزیاں پکا کر رکھ دیتی ہیں‘‘ تابش نے ناگواری سے ٹرے پیچھے کھسکائی۔
’’تمہارے بابا کوئی مل اونر نہیں ہیں جو روز مرغ مسلّم بناؤں گی۔اتنی مہنگائی ہے اتنی مشکل سے خرچہ پورا کرتی ہوں پر نواب صاحب کے نخرے ہی ختم نہیں ہوتے‘‘۔
مریم غصےمیں ذرا اونچی آواز میں بولی، پر آج کے بچے کب کسی کی اونچی آواز برداشت کرتے ہیں خواہ سامنے والدین ہی کیوں نہ ہوں۔
’’تو یہ بینگن بھی نہ پکاتیں، اپنی بچت کا گلّہ بھر لیتیں…. ہم بھوکے مریں آپ کو اس سے کیا‘‘ تابش نے چیخ کر جواب دیا اور ٹرے کو مزید زور سے دھکیلتا ہوا تن فن کرتا اپنے کمرے میں بند ہوگیا۔ مریم بھی غصہ میں اس کو مارنے کو لپکی پر تابش دروازہ مقفل کرچکا تھا۔
مریم کا دماغ کھولنے لگا، وہ بڑبڑاتی ہوئی فرش پر گری سبزی صاف کرنے لگی۔
مریم کے تین بچے تھے بڑا بیٹا تابش جو چودہ سال کا تھا اور دس سال کی جڑواں بیٹیاں ثانیہ اور ہانیہ ‘تابش حد سے زیادہ خود سر ہوگیا تھا نہ آنکھ میں مروت رہی تھی نہ زبان میں لحاظ ‘بچپن ہی سے تھوڑا ضدی تو…
پیار محبت سے سجی اتنی پیاری محفل ، جس میں شرکت نے روح تک سرشار کر دی!
جمعرات کی صبح عشرت جی نے بتول کی مدیرہ صائمہ اسماصاحبہ کے اعزازمیں دیے گئے ظہرانہ میں شرکت کی دعوت دی۔ دل مچل مچل گیا۔ پچھلی بار آرٹس کونسل میں سیرت کے پروگرام میں بھی حامی بھرنے کے باوجود نہ جا سکی ، لو میں کہاں کی وزیراعظم جو اتنے نخرے دکھاؤں۔ میاں جی کے کان کھائے بس مجھے چھوڑ آئیں واپس خود آجاؤں گی۔ میاں جی نے ہری جھنڈی دکھا دی۔
’’مجھے پتہ ہی نہیں فاران کلب کہاں ہے‘‘۔
بیٹے سے پوچھا تو اس نے بھی کہا نہیں جانتا۔ لو جی یہ کراچی میں رہتے ہیں یا چیچو کی ملیاں میں؟ پھر گوگل بھائی جان کا سر کھایا ۔منٹ میں پتہ چل گیا گلشن اقبال میں بینکوئٹ ہے۔ عشرت جی سے تصدیق بھی کرلی ۔
’’ چلیں جی پتہ چل گیا ….اب کوئی بہانہ نہیں چلے گا‘‘۔
شکر وہ آسانی سے مان گئے ۔ویسے بھی میری تحریروں کے تو قدر دان ہی ہیں، کہتے ہیں تمہاری وجہ سے میں مشہور ہوگیا ۔پوچھا کیسے تو جواب آیا، جو عینی کا نام لیتاہے وہ عرفان کا ساتھ ہی لیتا ہے ،توہوگیا نا میں مشہور ۔لو جی اچھی منطق ہے!
خیر…
ساحر زیرِ تعمیر بلڈنگ سے باہر نکلا تو چلچلاتی دھوپ نے استقبال کیا۔ تپتی دھوپ میں تیزی سے گزرتا ہو&ٔا گاڑی میں بیٹھا اور سکون کا سانس لیا ۔اے سی کی ٹھنڈک سے کچھ اوسان ٹھکانے آئے۔ آج رمضان المبارک کا دوسرا روزہ تھا۔ گرمی اپنے عروج پر تھی۔ وہ اپنے تعمیراتی کام کا معائنہ کرنے اپنے عملہ کو ہی بھیجتا تھا ۔البتہ گزشتہ کچھ دن سے متواتراس کی میٹنگ سائٹ پر ہی ہورہی تھی۔ آج دھوپ بھی خوب تیز تھی،اتنی سی دیر میں ہی وہ گرمی سے بےحال ہوگیا تھا۔ اس نے پانی کی بوتل کو منہ لگایا اور گاڑی اسٹارٹ کی۔ سامنے نظر پڑی تو بے اختیار ماتھے کو چھوا۔ فائل تو وہ اوپر ہی بھول آیا تھا!
اب واپس ٹھنڈی ٹھار گاڑی سے نکل کر پانچویں منزل تک جانا سوہانِ روح تھا۔رمضان کی وجہ سے کام رکا ہؤا تھا، مزدور بھی نہیں تھے۔ اس نے ارد گرد نظر دوڑائی ۔ اس کا یہ پلازہ جہاں بن رہا تھا یہ نچلے متوسط طبقے کا رہائشی علاقہ تھا۔کچھ دور ایک قدرےپرانا بنا ہؤا مکان تھا جس کے نیلے رنگ کے دروازے کے آگے چھجے تلے ایک بچہ بیٹھا کتاب پڑھ رہا تھا۔ اس نے گاڑی کا شیشہ نیچے کر کے…
الحمدللہ خدائے بزرگ نے تخیل کی پرواز وسیع رکھی ہے۔ لفظوں کی بنت کیسے کہانی میں ڈھل جاتی ہے، پتہ ہی نہیں چلتا۔ مگر اس دفعہ صائمہ جی کی منفردتجویزتھی۔ خیال کو مہمیز دینے کے لیےیادوں کی پٹاری کھولنی تھی۔ ہم نے سوچ کے در وا کیے اور ماضی کے جھروکوں میں کسی مددگار کو ٹٹولا۔
٭
ہر خاندان کا اپنا مزاج اپنا اصول ہوتا ہے۔ شادی کے بعد سسرال میں مدد گار رکھنے پہ سختی سے ممانعت تھی۔ دو دہائیاں گزرنے کے بعد بھی یہ ریت برقرار رہی۔ سو یادوں کے گھوڑے کو ایڑ دی اور سر پٹ دوڑاتے جا ٹھہرے سولہ سال کی کھٹی میٹھی بانکی عمر میں،جب بچپن کو دامن سے جھٹکنے کی کوشش ہوتی ہے، خود کو عقلِ کل سمجھا جاتا ہے۔
میکے کا آنگن، بے فکر عمریا، حسن کے چرچے، ذہانت کے ڈنکے، اترانے کے لیے اور کتنے لوازم کی ضرورت ہوگی؟ سو مغرور تھے تو کیا غلط تھے۔ مسکرانے میں تجاہلِ عارفانہ، بولنے سے یوں گریز کہیں موتی نہ جھڑ جائیں۔ خیر بولتے تو آج بھی کم ہیں پر وہ معصوم سا غرور خاک ہؤا۔ زندگی کب سولہ ساون پہ ٹکی رہتی ہے؟ جب اپنا آپ باور کرانے پہ آتی ہے تو نہ وقت دیکھتی ہے نہ…
جس نے بھی سنا دانتوں میں انگلیاں داب لیں۔ مختلف چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں۔
’’بھلا اتنے نیک اطوار باپ کے گھر ایسی اولاد کسی آزمائش سے کم ہے کیا‘‘۔
’’ایسی اولاد سفید کالر کے داغ کی طرح ہوتی ہے جسے نہ چھپا سکتے ہیں نہ اپنا سکتے ہیں‘‘۔
’’بڑھاپے میں یہ رسوائی دینے سے اچھا تھا ایسی اولاد پیدا ہوتے ہی مر جاتی‘‘۔
غرض جتنے منہ اتنی باتیں! اور یہ سب تو ان کے منہ پہ کہا جارہا تھا ، پیٹھ پیچھے جو طنز و تضحیک کی جارہی تھی اس سے بھی وہ ناواقف تو نہ تھے پر سب کچھ بےبسی سے سننے پہ مجبور تھے کہ اب وہ کر بھی کیا سکتے تھے۔
کئی روز سے ہمت مجتمع کرنے کے باوجود مشہود اپنی خواہش اپنے والد کے گوش گزار کرنے سے قاصر تھا۔ اس کو یقین تھا کہ عمل کرنا تو درکنار وہ اس کی بات سنتے ہی رد کردیں گے۔ وہ اس کے احساسات نہیں سمجھ سکتے اگرچہ ان کی بردباری اور سمجھداری کے پورے خاندان والے ہمیشہ سے ہی قائل تھے۔ کسی کی بیٹی کا رشتہ آتا یا بیٹے کی شادی کی تاریخ رکھی جاتی، کوئی خوشی غمی ہو یا رشتہ داروں کے درمیان چپقلش، ان کو خصوصی طور پہ مشورے کے…