سکینہ تھکے تھکے قدموں سے گھر میں داخل ہوئی تو گھر کے مکینوں کی آنکھوں میں سکون دوڑ گیا۔ اس گھر میں کئی جانوں کی بھوک کو آسودگی سکینہ کی واپسی پر ہی میسر ہو پاتی تھی
سکینہ باآواز بلند سلام کرکے سب سے پہلے آنگن کے کونے میں چھلنگا سی چار پائی پر بیٹھے ملنگے کی طرف بڑھی جس نے اماں کو دیکھتے ہی تالیاں بجانا شروع کردی تھیں ۔سکینہ نے اپنی چادر کے کونے سے اس کی بہتی ہوئی رال صاف کی اور کاغذ میں لپٹی نمک مرچ والی شکرقندی اس کے آگے رکھ دی۔ شکر قندی دیکھ کر ملنگے کی آنکھوں میں خوشی دوڑ گئی ۔ شکرقندی ملنگا کی واحد عیاشی تھی جو اماں سکینہ ہفتے میں ایک بار ضرور کراتی تھی ورنہ تو روز اس کے سامنے بیگم صاحبہ کے گھر سے بچے ہوئے سالنوں کا ملغوبہ ہی رکھا جاتا جو بیگم صاحبہ اپنی آلکسی یا کیا خبر اپنی تھیلیاں بچانے کے چکر میں ساری بچے ہوئے سالن کی پلیٹیں ایک ہی تھیلی میں ڈال کے دے دیا کرتی تھیں ۔
ملنگاحلق سے قلقارریوں کی آوازیں نکالتا ہؤا جلدی جلدی شکرقندی کھانے لگا ۔سکینہ نے ایک محبت بھری نظر اس پر ڈالی اور سر پر شفقت سے ہاتھ…
مدیحہ ارحم کو کندھے سے لگائے بے چینی سے کمرے میں چکرا رہی تھی۔ کبھی دل میں غصہ کی لہر اُٹھتی توکبھی رونا آجاتا ،کبھی اضطراب سوار ہوتا تو کبھی شرمندگی گھیر لیتی۔ کسی طور چین نہیں تھا ۔
بات صرف اتنی سی تھی کہ اباجی اور فیصل بکرا لینے گئے ہوئے تھے۔ مگر بات شاید اتنی سی نہ تھی۔ اگر اتنی ہی ہوتی تو وہ خوشی خوشی انتظار کر رہی ہوتی ۔پر اصل بات یہ تھی کہ ابا جی اور فیصل ،بھابھی کا بکرا لینے گئے ہوئے تھے ۔
مدیحہ کو بکروں سے عشق تھا، مانو بچپن کی محبت تھی ۔شادی سے پہلے ابو جب بھی قربانی کا بکرا لاتے ہمیشہ آتے ہی رسی مدیحہ کے ہاتھ میں پکڑاتے۔
’’یہ لو بھئی آگیا میری بیٹی کا بکرا …..اب اس کی عید تک خوب خاطر مدارت خدمت سب تمہاری ذمہ داری‘‘۔
اور واقعی مدیحہ بکرے کے ناز نخرے اٹھانے میں جان لڑا دیتی ۔ بکرے پر پورا س کا قبضہ ہوتا، بھائیوں کو ہاتھ بھی نہ لگانے دیتی۔ اس کو کھلانا پلانا نہلانا سجانا مہندی کڑے ہار …..بس چلتا تواپنا عید کا نیا جوڑا بھی بکرے کو پہنا دیتی اور جب عید کی صبح وہ قربان ہوتا تو موٹے موٹے آنسو اور دبی دبی…
’’مجھے نہیں کھانے یہ بینگن…. آپ کو کچھ بھی اچھا پکانا نہیں آتا مما…. ہر وقت یہ سبزیاں پکا کر رکھ دیتی ہیں‘‘ تابش نے ناگواری سے ٹرے پیچھے کھسکائی۔
’’تمہارے بابا کوئی مل اونر نہیں ہیں جو روز مرغ مسلّم بناؤں گی۔اتنی مہنگائی ہے اتنی مشکل سے خرچہ پورا کرتی ہوں پر نواب صاحب کے نخرے ہی ختم نہیں ہوتے‘‘۔
مریم غصےمیں ذرا اونچی آواز میں بولی، پر آج کے بچے کب کسی کی اونچی آواز برداشت کرتے ہیں خواہ سامنے والدین ہی کیوں نہ ہوں۔
’’تو یہ بینگن بھی نہ پکاتیں، اپنی بچت کا گلّہ بھر لیتیں…. ہم بھوکے مریں آپ کو اس سے کیا‘‘ تابش نے چیخ کر جواب دیا اور ٹرے کو مزید زور سے دھکیلتا ہوا تن فن کرتا اپنے کمرے میں بند ہوگیا۔ مریم بھی غصہ میں اس کو مارنے کو لپکی پر تابش دروازہ مقفل کرچکا تھا۔
مریم کا دماغ کھولنے لگا، وہ بڑبڑاتی ہوئی فرش پر گری سبزی صاف کرنے لگی۔
مریم کے تین بچے تھے بڑا بیٹا تابش جو چودہ سال کا تھا اور دس سال کی جڑواں بیٹیاں ثانیہ اور ہانیہ ‘تابش حد سے زیادہ خود سر ہوگیا تھا نہ آنکھ میں مروت رہی تھی نہ زبان میں لحاظ ‘بچپن ہی سے تھوڑا ضدی تو…
پیار محبت سے سجی اتنی پیاری محفل ، جس میں شرکت نے روح تک سرشار کر دی!
جمعرات کی صبح عشرت جی نے بتول کی مدیرہ صائمہ اسماصاحبہ کے اعزازمیں دیے گئے ظہرانہ میں شرکت کی دعوت دی۔ دل مچل مچل گیا۔ پچھلی بار آرٹس کونسل میں سیرت کے پروگرام میں بھی حامی بھرنے کے باوجود نہ جا سکی ، لو میں کہاں کی وزیراعظم جو اتنے نخرے دکھاؤں۔ میاں جی کے کان کھائے بس مجھے چھوڑ آئیں واپس خود آجاؤں گی۔ میاں جی نے ہری جھنڈی دکھا دی۔
’’مجھے پتہ ہی نہیں فاران کلب کہاں ہے‘‘۔
بیٹے سے پوچھا تو اس نے بھی کہا نہیں جانتا۔ لو جی یہ کراچی میں رہتے ہیں یا چیچو کی ملیاں میں؟ پھر گوگل بھائی جان کا سر کھایا ۔منٹ میں پتہ چل گیا گلشن اقبال میں بینکوئٹ ہے۔ عشرت جی سے تصدیق بھی کرلی ۔
’’ چلیں جی پتہ چل گیا ….اب کوئی بہانہ نہیں چلے گا‘‘۔
شکر وہ آسانی سے مان گئے ۔ویسے بھی میری تحریروں کے تو قدر دان ہی ہیں، کہتے ہیں تمہاری وجہ سے میں مشہور ہوگیا ۔پوچھا کیسے تو جواب آیا، جو عینی کا نام لیتاہے وہ عرفان کا ساتھ ہی لیتا ہے ،توہوگیا نا میں مشہور ۔لو جی اچھی منطق ہے!
خیر…
ساحر زیرِ تعمیر بلڈنگ سے باہر نکلا تو چلچلاتی دھوپ نے استقبال کیا۔ تپتی دھوپ میں تیزی سے گزرتا ہو&ٔا گاڑی میں بیٹھا اور سکون کا سانس لیا ۔اے سی کی ٹھنڈک سے کچھ اوسان ٹھکانے آئے۔ آج رمضان المبارک کا دوسرا روزہ تھا۔ گرمی اپنے عروج پر تھی۔ وہ اپنے تعمیراتی کام کا معائنہ کرنے اپنے عملہ کو ہی بھیجتا تھا ۔البتہ گزشتہ کچھ دن سے متواتراس کی میٹنگ سائٹ پر ہی ہورہی تھی۔ آج دھوپ بھی خوب تیز تھی،اتنی سی دیر میں ہی وہ گرمی سے بےحال ہوگیا تھا۔ اس نے پانی کی بوتل کو منہ لگایا اور گاڑی اسٹارٹ کی۔ سامنے نظر پڑی تو بے اختیار ماتھے کو چھوا۔ فائل تو وہ اوپر ہی بھول آیا تھا!
اب واپس ٹھنڈی ٹھار گاڑی سے نکل کر پانچویں منزل تک جانا سوہانِ روح تھا۔رمضان کی وجہ سے کام رکا ہؤا تھا، مزدور بھی نہیں تھے۔ اس نے ارد گرد نظر دوڑائی ۔ اس کا یہ پلازہ جہاں بن رہا تھا یہ نچلے متوسط طبقے کا رہائشی علاقہ تھا۔کچھ دور ایک قدرےپرانا بنا ہؤا مکان تھا جس کے نیلے رنگ کے دروازے کے آگے چھجے تلے ایک بچہ بیٹھا کتاب پڑھ رہا تھا۔ اس نے گاڑی کا شیشہ نیچے کر کے…
الحمدللہ خدائے بزرگ نے تخیل کی پرواز وسیع رکھی ہے۔ لفظوں کی بنت کیسے کہانی میں ڈھل جاتی ہے، پتہ ہی نہیں چلتا۔ مگر اس دفعہ صائمہ جی کی منفردتجویزتھی۔ خیال کو مہمیز دینے کے لیےیادوں کی پٹاری کھولنی تھی۔ ہم نے سوچ کے در وا کیے اور ماضی کے جھروکوں میں کسی مددگار کو ٹٹولا۔
٭
ہر خاندان کا اپنا مزاج اپنا اصول ہوتا ہے۔ شادی کے بعد سسرال میں مدد گار رکھنے پہ سختی سے ممانعت تھی۔ دو دہائیاں گزرنے کے بعد بھی یہ ریت برقرار رہی۔ سو یادوں کے گھوڑے کو ایڑ دی اور سر پٹ دوڑاتے جا ٹھہرے سولہ سال کی کھٹی میٹھی بانکی عمر میں،جب بچپن کو دامن سے جھٹکنے کی کوشش ہوتی ہے، خود کو عقلِ کل سمجھا جاتا ہے۔
میکے کا آنگن، بے فکر عمریا، حسن کے چرچے، ذہانت کے ڈنکے، اترانے کے لیے اور کتنے لوازم کی ضرورت ہوگی؟ سو مغرور تھے تو کیا غلط تھے۔ مسکرانے میں تجاہلِ عارفانہ، بولنے سے یوں گریز کہیں موتی نہ جھڑ جائیں۔ خیر بولتے تو آج بھی کم ہیں پر وہ معصوم سا غرور خاک ہؤا۔ زندگی کب سولہ ساون پہ ٹکی رہتی ہے؟ جب اپنا آپ باور کرانے پہ آتی ہے تو نہ وقت دیکھتی ہے نہ…
جس نے بھی سنا دانتوں میں انگلیاں داب لیں۔ مختلف چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں۔
’’بھلا اتنے نیک اطوار باپ کے گھر ایسی اولاد کسی آزمائش سے کم ہے کیا‘‘۔
’’ایسی اولاد سفید کالر کے داغ کی طرح ہوتی ہے جسے نہ چھپا سکتے ہیں نہ اپنا سکتے ہیں‘‘۔
’’بڑھاپے میں یہ رسوائی دینے سے اچھا تھا ایسی اولاد پیدا ہوتے ہی مر جاتی‘‘۔
غرض جتنے منہ اتنی باتیں! اور یہ سب تو ان کے منہ پہ کہا جارہا تھا ، پیٹھ پیچھے جو طنز و تضحیک کی جارہی تھی اس سے بھی وہ ناواقف تو نہ تھے پر سب کچھ بےبسی سے سننے پہ مجبور تھے کہ اب وہ کر بھی کیا سکتے تھے۔
کئی روز سے ہمت مجتمع کرنے کے باوجود مشہود اپنی خواہش اپنے والد کے گوش گزار کرنے سے قاصر تھا۔ اس کو یقین تھا کہ عمل کرنا تو درکنار وہ اس کی بات سنتے ہی رد کردیں گے۔ وہ اس کے احساسات نہیں سمجھ سکتے اگرچہ ان کی بردباری اور سمجھداری کے پورے خاندان والے ہمیشہ سے ہی قائل تھے۔ کسی کی بیٹی کا رشتہ آتا یا بیٹے کی شادی کی تاریخ رکھی جاتی، کوئی خوشی غمی ہو یا رشتہ داروں کے درمیان چپقلش، ان کو خصوصی طور پہ مشورے کے…