ایک نیم پختہ سڑک پر سے فوجی جیپ اپنی مناسب رفتار سے چلتی آ رہی تھی۔ ڈرائیور کے پہلو میں کیپٹن عاصم اسلم بلیک گوگلز آنکھوں پر لگائے اپنا بایاں بازو جیپ کی ونڈو میں ٹکائے اتنا با رعب اور مضبوط لگ رہا تھا کہ جیسے دشمن کو چیرنے پھاڑنے کے لیے ایک اشارے کا منتظر ہو۔سڑک پر جب کبھی کبھار کوئی بچہ یا بائیک پر جاتا ہؤا کوئی نوجوان یا شوخ و چنچل لڑکیاں پاک فوج کی محبت میں دور سے ہی اس کی جیپ دیکھ کر آرمی آرمی کا نعرہ لگاتیں، اس کے کندھے قرض کے بوجھ کو محسوس کرنے لگتے۔ اور جب وہ محبت سے اپنا ٹوٹا پھوٹا سلیوٹ پیش کرتے اس کا دل باغ باغ ہو جاتا۔ اس کے جوابی کڑک سلیوٹ پر جب خوشی کے نعرے لگتے تو اس کی روح تک سرشار ہو جاتی۔
بچوں کو تو وہ محبت سے ہاتھ ہلا کر جواب دیتا جبکہ نوجوانوں کو ہاتھ کا مکا بنا کر ہوا میں لہرا کر جواب دیتا اور لڑکیوں کو سر اور آنکھیں جھکا کر بس ہاتھ ان کی طرف بلند کر دیتا ۔
کاکول اکیڈمی میں ٹریننگ کے دوران بریگیڈیئر عباسی نے ایک خطاب کے دوران سمجھایا تھا۔
’’ یہ سلیوٹ لوگ تمہیں نہیں…
چناب کنارے ایک بھیڑ تھی۔ موبائلز کے کیمروں سے مسلسل ویڈیوز بنائی جا رہی تھیں،رخ ان کا دریا کے تیز بہاؤ کی طرف تھا،شور کافی زیادہ اور کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔سب لوگ دریا کی طرف مسلسل دیکھے جا رہے تھے ،گویا کہ پورا وجود ہمہ تن گوش جیسا کہ کوئی راہب گیان دھیان میں مصروف ہو اور اسے اپنے ارد گرد کی کوئی ہوش نہ ہو۔
مجھے گوجرانوالہ تعلیمی بورڈ ایک کام کے سلسلے میں جانا تھا۔ جب چناب کے کنارے پہنچا تو یہ منظر دیکھ کر مختلف برے برے خیالات آنے لگے۔ گاڑی ذرا اور قریب آئی تو دریا کے تیز بہاؤ کے درمیان محسوس ہؤا جیسے کالے رنگ کے لباس میں غوطہ خور تیرتے چلے جارہے ہیں،میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہاں غوطہ خوری کا کوئی مقابلہ جاری ہے یا پھر کچھ افراد ڈوب گئے ہیں جن کو بچانے کے لئے اتنے سارے غوطہ خور تیرتے چلے جا رہے ہیں۔لیکن اور زیادہ قریب ہونے کے بعد پتہ چلا کہ وہ غوطہ خور نہیں بلکہ کالی بھینسیں ہیں جو سیلاب آنے کی وجہ سے دور دراز کے کسی اونچے علاقے سے بہہ کر پانی کے ساتھ چناب تک پہنچ گئی ہیں۔
میں سوچ رہا تھا کہ سوہنی…
گلی میں پانی بہانے اور کوڑا کرکٹ گرانے پر گلی کے دونوں طرف کے گھرانوں میں جھگڑا تو پہلے بھی ہوتا تھا اور گالی گلوچ کر کے دونوں طرف کی خواتین چپ ہو کے بیٹھ رہتی تھیں۔ مگر آج تو حد ہو گئی ۔
سامنے والوں کے چار مرد ان غریبوں کے گھر گھس گئے اور گھر کی بوڑھی اماں کے روکنے پر اس کو جھڑک دیا۔ ایک ڈنڈا بھی ماراوہ بھی دائیں بازو پر، ایک سرخ لکیر کا نشان پڑ گیا۔ یہ جسارت اس لیے کی کہ وہ کھاتے پیتے اور اچھے گھر کے مالک تھے اور دوسرے غریب اور معمولی سے گھر میں دو وقت کی روٹی کا مشکل سے بندوبست کرتے تھے ۔
رکشہ چلا کر گھر کا خرچ پورا کرنے والے بیٹے سے ماں کے ساتھ یہ سلوک نہ دیکھا گیا ۔اس نے آگے بڑھ کر ایک دو گھونسے تو رسید کیے مگر وہ چار تھے اس کی خوب درگت بنائی ، چہرے اور ہاتھوں پر خراشیں آئیں اور اس پر مستزاد یہ کہ دراندازی کرنے والوں کی طرف سے پولیس بلوانے کی دھمکی بھی مل گئ۔جیسے آئے ویسے ہی دندناتے اور پھنکارتے ہوئے واپس ہو لیے۔
امارت اور غربت کے اس طقاھتی فرق کی وجہ سے پہلے بھی…
میں نے جلدی سے حاضری صفحہ پر دستخط کیے اور رجسٹر ملازم کے حوالے کرتے ہوئے کافی دیر سے بجنے والے موبائل پر توجہ کی۔ موبائل پر فاریہ کا نام چمک رہا تھا۔
’’اوہ آج فاریہ کا سیکنڈ ائیر کا رزلٹ آنے والا تھا۔ یا اللّٰہ خیر کرنا ۔ اس کومایوس نہ کرنا۔ اس نے اور میں نے یہاں تک پہنچنے کے لیے بہت سہا ہے‘‘۔میرے دل سے بے اختیار دعا نکلی۔
یہ اس بچی کی کہانی تھی جو آج سے سات سال پہلے میرے سکول ششم کلاس میں داخلہ لینے آئی تھی ۔داخلے کے وقت کافی بحث مباحثہ ہوا،کلاس ٹیچر اس کے داخلہ ٹیسٹ کے نتیجے پر بالکل مطمئن نہ تھی کہ اسکو لکھنا نہیں آتا ، ریاضی کی جمع تفریق نہیں آتی، انگلش کی درخواست نہیں آتی، حتیٰ کہ اردو کی جوڑ توڑ بھی ٹھیک سے نہیں کر سکتی۔
میں نے بطور سربراہ ادارہ کچھ تو اپنی روایتی نرمی اور کچھ والدین کی پریشان صورت دیکھ کر اس بچی کو داخلہ دے دیا ۔خصوصاً میرا دل اس وقت اور بھی نرم پڑ گیا جب مجھے بچی کی والدہ نے اپنے غریب ہونے اور باپ کی محنت مزدوری کر کے بچوں کو پالنے والی کہانی سنائی اور یہ بھی بتایا کہ اگر…
’’میں بچے کو کسی صورت نہیں چھوڑ سکتی ….بچے کو خود سے جدا نہیں کر سکتی ‘‘بچے کو سینے سے چمٹائے وہ سسکیاں لے کر رو رہی تھی۔
’’کیا کریں ….‘‘ماں نے بے بسی سے اس کے والد کی طرف دیکھا جو خود بھی اپنی بیٹی کی اس ہذیانی کیفیت کو دیکھ رہے تھے اور وہ سر جھکائے کسی گہری سوچ میں غرق تھے۔
یہ ساتواں رشتہ تھا جو بہت معقول بھی تھا ،مگر وہ بچے کو ساتھ نہیں رکھنا چاہتے تھے اور اپنی بیٹی کی بچے کو ساتھ رکھنے کی خواہش کی وجہ سے پہلے بھی کئی رشتے منع کر دیے کہ مطلقہ بیٹی کا اصرار تھا کہ دوسری شادی کر لے گی مگر اپنے تین سالہ بچے کو ساتھ ہی رکھے گی۔
اب کےرشتہ کچھ معقول تھا کہ آج کے دور میں بیٹیوں والے اسی کی تلاش اور فکر میں رہتے ہیں اور پھر بیٹی اگر طلاق یافتہ ہو تو یہ ہمارے معاشرے میں ایسا دھبہ ہے جس کے جرم میں کوئی معقول رشتہ آنے کا خیال بھی والدین کو نہیں کرنا چاہیے، مگر رشتہ آگیا ۔ کچھ تو لڑکی کی خوبصورتی اور دوسرا لڑکے کی بھی دوسری شادی تھی ،پہلی شادی سے اس کی ایک بیٹی تھی جو ماں کے…
موبائل پر نمبر ملا کر حال احوال بتا کر انہوں نے بڑی امید کے ساتھ لائن پر موجود مہک سے پوچھا۔ ’’آپ کے کام کا کیا بنا ؟ ‘‘ کچھ دیر مہک کی بات سنتی رہیں پھر مایوس سا اللہ حافظ کہا اور کال ختم ہو گئی ’’ چلو کہیں نہ کہیں سے مل ہی جائے گا چرخہ‘‘ پھر یکدم خیال آیا کہ مس افشین سے’’چکی‘‘ کی بابت پوچھ لوں انہیں کال کی بجائے پیغام لکھ کر واٹس ایپ کر دیا اور حیران کن حد تک جلد ہی جواب آگیا ۔ ’’جی چکی کا انتظام ہو گیا ہے، کل ملازم بھیج کر خالہ شکیلہ کے یہاں سے اٹھوا لیں،کافی بھاری ہے ‘‘۔ جواب سن کر ذرا سا مطمئن ہو گئیں مگر خیال پھر مس مہک کی جانب چلا گیا کہ ان سے کام نہیں ہو سکا۔ اتنے میں مس مبین کی کال آگئی۔ ’’ہاں مبین تو بہت ایکٹو ہے جس کام کی ذمہ داری اٹھا لے کر ہی لیتی ہے‘‘ انہوں نے موبائل سکرین کو امید بھری نگاہوں کیساتھ دیکھتے ہوئے سوچا۔ پھر جو کال ریسیو کی تو پتہ چلا کہ مدھانی و کڑھتنی کا انتظام بھی ہو گیا ہے۔ اور یہ کہ مبین صبح آتے ہوئے سکول وین میں…
یہ 1947کی ایک اداس رات ہے مگر سیاہ اور خاموش نہیں ۔ چاندنی اور ریل نے اسے سفید اور شور زدہ کر دیا تھا۔ چاندنی کسے نہیں اچھی لگتی مگر آج اس ریل پر سوار ہر مسافر کی یہی دعا تھی کہ چاند بادلوں میں چھپ جائے اور ریل بنا آواز کے سفر کرے۔ چاندنی کی ہر کرن اور ریل کی مسلسل چھکا چھک ان کے سینے میں تار کول انڈیل رہی تھی کہ وہ ایسے سفر کے راہی تھے جہاں قدم قدم پر موت کی سنسناہٹ سنائی دیتی تھی۔
یہ پریشان حال مسافر ہجرت کی صعوبتیں برداشت کرتے بھار ت سے پاکستان جانے والی ریل میں دھڑکتے دلوں کے ساتھ محو سفر تھے۔ ریل نے اپنی استطاعت سے زیادہ وزن اٹھا رکھا تھا۔ جن کو اندر جگہ نہ ملی وہ چھتوں ، کھڑکیوں اور دروازوں میں چپکے تھے،ہاتھ سن ہو چکے تھے مگر دشمن سے بچ کر پاکستان پہنچنے کی خواہش نے گرفت ڈھیلی نہ ہونے دی۔ سامان کی گٹھڑیاں اور انسانوں کے سمٹے سمٹائے اجسام میں کوئی فرق نہیں تھا سب مسلے جا رہے تھے۔ بچوں کی رونے کی آوازوں کو جھوٹی تسلیوں سے دبایا جا رہا تھا ،کھڑکیوں سے چپکے لوگ دور افق کے پار پاکستان کی سرحدوں…
1- تربیتی نشست کا سامانِ سفر لیے ہم گاڑی میں بیٹھے باہر قدرت کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے ہی والے تھے کہ ساتھیوں کی بھنبھنانے کی آواز آئی، یوں جیسے شہد کی مکھیاں پھولوں کا رس چوسنے کے لیے اس کے گرد منڈلاتی ہیں۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ نصب العین اور دعائے نور کو رٹا لگایا جا رہا ہے۔
’’کیوں بھئی، اتنی جلدی کیا ہے یاد کرنے کی ؟‘‘ہم نے پوچھا ۔
’’وہاں یہ سب چیزیں سنی جائیں گی، سرکلر دھیان سے پڑھا ہے آپ نے ؟ ‘‘ ایک پیاری سی ساتھی نے اپنی عینکوں کے پیچھے سے جھانکا ۔
’’اوہ۔ ہ ہ ‘‘ ہم بھی نقاب کے پیچھے سے مسکرائے مگر یاد پھر بھی نہ کیا ۔
’’دیکھا جائے گا،وہاں شام کے ملجگے میں کسی کونے کھدرے میں گھس کر یاد کر لیں گے‘‘ سوچا اور کھڑکی سے باہر قدرت کے حسین نظارے میں محو ہو گئے ،یوں بھی ہمیں دورانِ سفر بولنابالکل پسند نہیں۔
2- ٹھیک ساڑھے دس بجے ہم قرآن انسٹی ٹیوٹ پہنچ گئے اور رجسٹریشن کے بعدکمرے میں پہنچ کر سب سے پہلے بستروں پر قبضہ کیا اور پھر ڈائریز لے کر اجتماع گاہ میں پہنچنے کی تیاری کر رہے تھے کہ ایک ساتھی نے جرابوں کا جوڑا ہماری…
کنویں کی منڈیر کے ساتھ ٹیک لگا کر اپنے دوست کے ساتھ کھڑا منہ میں تنکا دبائے دور سے آتی ہوئی چھمک چھلو سی لڑکی کو وہ بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔
’’اس کے بارے میں کیا خیال ہے پھر….‘‘ اس نے فیقے کو کہنی مار کر کہا۔
فیقا سٹپٹا سا گیا ’’کس کے بارے میں؟‘‘
’’یار وہ سامنے سے آ رہی ہے جو ….کیوں نہ آج اس کوچھیڑا جائے!‘‘
اور فیقے نے جو اس طرف دیکھا تو خوف سے آنکھیں ابل کر باہر آ گئیں۔
’’ اوئے ناں ناں ….اسے نہیں‘‘۔
فیقے کی بات اور تاثرات کا جائزہ لیے بغیر اس نے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے بیروں میں سے ایک لیا اور اس چھمک چھلو کی طرف اچھال پھینکا۔
غراتی ہوئی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے وہ من موہنی صورت قریب آئی ، للکارتی ہوئی شیرنی کی طرح جھپٹی۔
’’ابے اوئے ….تمہاری جرأت کیسے ہوئی؟ ٹانگیں تڑوا دوں گی ، آنکھیں نکلوا دوں گی،سمجھتے کیا ہو اپنے آپ کو….؟ ابھی کرتی ہوں جاکر چچا سے تمہاری شکایت…. پھر دیکھنا تمہارا حشر کیا ہوتا ہے‘‘۔
ایک بیر کے بدلے اتنی خفت…. گرتے گرتے وہ لڑکھڑایا اور سیدھا کھڑے ہوتے پھر لڑ کھڑا گیا۔
’’منہ بند کر لے ، چلی گئی ہے وہ ‘‘ فیقے نے چند ساعتوں بعد اس کے…
ڈھابے پر کھانا کھاتے یونیورسٹی کے تین دوستوں احمد ، عدیل اور شارق کے بیچ بحث چل پڑی کہ کھانا اور نصیب کا آپس میں کیا تعلق ہے۔
’’یہ سالن کی رکابی آگے کرنا ذرا‘‘ ان میں سے احمد جو کھانے کا رسیا تھا مگر جسم کا پھرتیلا تھا ، رکابی کی طرف اس وقت تیزی سے ہاتھ بڑھایا جب ڈھابے کا ملازم میز پر کھانا رکھ کر گیا۔
’’کھانا جو ہوتا ہے وہ نصیب کا ہے، کھائے بغیر بندہ مر نہیں سکتا ، جلدی کیا ہے بھئی ، یہ لو‘‘ ان میں سے عدیل جو کھانے پینے کا کوئی خاص شوقین نہیں تھا مگر کتابی کیڑا تھا ،بولا اور رکابی آگے بڑھا دی۔
’’ہائیں! اس کا مطلب بندہ کھانا کم کر دے تو اس کی عمر لمبی ہو سکتی ہے‘‘ شارق نے جو بھرے ہوئے جسم کا مالک تھا اور چٹورا لگتا تھا ، کھانے سے ایک لمحے کو ہاتھ کھینچ لیا۔
’’ہاں میں نے ایک بار محلے کی مسجد میں مولوی صاحب کا درس سنا تھا ‘‘ عدیل نے کہا ۔
’’تو کیا کہتے تھے مولوی صاحب‘‘احمد نے سالن پلیٹ میں نکالتے ہوئے پوچھا ۔
’’یہی کہ سانس آہستہ اور روک کر لو ، اور کھانا کم کھاؤ تو عمر میں اضافہ ہو سکتا…
سامنے جھیل کے نیلے پانیوں پر سفید بگلے اور گرما کے اواخر کی ہلکی مست ہوائیں جو جسم و جان میں تراوت بھر دیں۔ اور آس پاس کے درختوں پر رنگ برنگے پھول پھل اور بہت سے پرندے ، جن کو آج میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ ایک گھنے درخت کی شاخ کے اوپر سبز پتوں میں چھپا بیٹھا میں دنیا کو اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے حیران ہو کر دیکھ رہا تھا۔ایک بار نہیں کئی بار میں نے پروں کو جی جان سے کھول کر انگڑائیاں لی تھیں۔ دائیں بائیں پلٹے کھائے تھے، گر کر سنبھلا اور سنبھل کر گرا تھا، کہ بند پنجروں میں اتنی جگہ کہاں ہوتی ہے۔
دنیا اتنی حسین ،عجوبہ روزگار اور وسیع ہے۔ اور میری کمر پر لگے پر اتنے مضبوط ہیں کہ یہ مجھے پنجرے کی قید سے نکال کر اس درخت تک لے آئے اور اگر میں ہمت کروں تو اس کے آگے بھی ان گنت جہاں ہوں گے۔
میں درخت کی شاخ پر بیٹھا، سامنے کی آذاد رنگیلی اور شفاف ہواؤں کا مشاہدہ کر کے حیران و پریشاں تھا۔ اور اس نئی نویلی دنیا میں میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے اس کے بارے میں فکرمند بھی۔ کیونکہ کچھ منٹ پہلے ہی…
روداد ایک اجتماع کی
عالیہ حمید
ہم تحریکی سوچ والے کوئی لمحہ بھی ضائع نہیں ہونے دیتے، اسی لیے اجتماع ارکان کی منزل کے سفر میں ہماری امیر سفر نے ہمیں راستے میں لہسن جلدی چھیلنے، چھیل کر فریج میں محفوظ کرنے ،کڑوے کریلے لذیذ کیسے پکائیں، لہسن موٹا اگانے اور شرارتی بچوں کو قابو کرنے کے نسخے بتانے کے ساتھ چند قرآنی دعائیں بھی یاد کروائیں۔ ہم ہنستے مسکراتے اجتماع گاہ میں پہنچے تو تقریب حلف برداری جاری تھی جس نے سنجیدہ کر دیا پھر ڈرتے ڈرتے حمیرا بہن کا خطاب سنا کہ نہ جانے کون دھر لیا جائے….اور اس بار سب ہی دھر لیے گئے کہ تیس تیس سال حلف کو اٹھائے پھرتے ہیں اور نہ مطالعہ ہے نہ ڈسپلن۔
ڈاکٹر رخسانہ جبین کی’’ کتاب الایمان‘‘ کی رونمائی کے لیے رکھے ہوئے موتیا اور گلاب کے گجروں پر ہماری نظر بھی تھی کہ کیا پتہ کوئی ایک آدھ بچ جائے مگر نہیں….یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ گجرا ہوتا!
’’ایمان‘‘ پر پروگرام کرتے ہوئے طیبہ صاحبہ کو اگر ایک چھڑی بھی پکڑا دی جاتی تو یونہی لگتا کہ ہم سب ڈگری کالج میں ان سے تاریخ کا لیکچر پڑھ رہے ہیں اور سر ہلانے کی بھی گنجائش نہیں۔ ویسے پروگرام پر…
بہت دیر سے وہ اپنے کچے کوٹھے کے باہر لکڑی کے دروازے میں کھڑی دور گلی میں پر امید نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ وہ ہر روز کی طرح آج بھی اپنے پڑوسیوں کے چھوٹے لڑکے ماجد کا انتظار کر رہی تھی۔ روزانہ اسے چودھری فضل دین کی حویلی میں بھیجتی اور ریڈیو سے خبر سن کر آنے کا کہتی۔ اور اس کے آتے ہی پوچھتی۔
’’میرا خیلہ نہیں بولا ؟ ‘‘
مگر ہر روز جواب’’ نہیں بولا‘‘ میں آتا ۔
خوف و امید کے بیچ لرزتے دل کیساتھ وہ پھر سے روز مرہ کے کام کاج میں مصروف ہو جاتی اور ساتھ ہی خیلہ کی واپسی کی دعائیں کرتی۔اس کے پڑوسی تو ایک طرف سب اہلِ محلہ اس کا بے حد احترام کرتے تھے کہ وہ ایک سپاہی کی ماں تھی۔وہ سپاہی محمد خلیل جس نے پینسٹھ کی جنگ میں میجر عزیز بھٹی کی کمان میں بی آر بی کا دفاع کیا تھا۔ تب سے ہی سب اہلِ محلہ کو اس سے بے حد پیار تھا اور مائی بشیراں کے کام تو ہر کوئی جلدی جلدی کر دیتا تھا۔ خلیل جب ڈیوٹی پر ہوتا تو محلے کی ڈیوٹی مائی بشیراں کی خدمت کرنا ہوتا۔ ہر چھوٹے بڑے کو سمجھا دیا گیا تھا…
مسز جلیل عالی شان کوٹھی میں دوسری منزل کے ایک سجے سجائے بیڈروم کے بیڈ پر آج کی خریداری کے تمام لوازمات انڈیلے بیٹھی تھیں۔چاروں بچے اپنے اپنے بیڈ رومز سے بہت دفعہ بلانے کے بعد آئے تھے۔کسی کے کان میں ہیڈفون لگا ہےتو کسی کے ہاتھ میں موبائل اور کوئی انگڑائیاں لیتا ہؤا چلا آ رہا ہے۔لیکن عید کی شاپنگ کا سامان دیکھتے ہی سب کی سستی جاتی رہی،بھاگ کر چیزیں اٹھا اٹھا کر دیکھنے لگے۔
’’اوہ ماما یہ کلر تو فرحان چچا کے بیٹے نے بھی لیا ہے۔تو کیا اب میں اس جیسا کلر پہنوں گا ماما سائز تو ٹھیک ہے لیکن کلر چینج کرادیجیے‘‘ سب سے بڑے بیٹے نے تبصرہ کیا۔
’’مام !شرٹ کا سائز اور کلر تو مجھے پسند آگیا ہے مگر پینٹ کا کلر کچھ میچ نہیں کرتا مام پلیز اس کو چینج کروا دیں‘‘چھوٹے کی بھی تسلی نہیں تھی۔
’’اووو ں ں……ممی یہ تو پرانی ڈیزائننگ لگ رہی ہے پچھلے سال کی۔لگتا ہے کہ مارکیٹ میں پرانا مال بک رہا ہے‘‘لاڈلی مریم نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
’’تو ساتھ چلتے خود اپنی مرضی کی شاپنگ کرلیتے سب…… اتنی محنت سے خریداری کی ہے میں نے اور تم لوگ ہو کہ ایک جھٹکے میں ہی سب کچھ ریجیکٹ کر…
آج سکول سے واپسی پر گاڑی میں دوستوں کے ساتھ ’’ شرار ‘‘ کے موضوع پر بحث ہوگئی ۔
میرا خیال تھا کہ شرار دور سے نظر آنے والی، آسمان سے اترتی ہوئی سرخ روشنیوں کا نام ہے ، جنہیں ہم بچپن میں دیکھ کر ڈرتے تھے اور شام ہوتے ہی گھروں کو واپس لوٹ آتے تھے۔جب کہ ایک دوست کا خیال تھا کہ شرار لفظ شرارت سے نکلا ہے یعنی اشرار کا ہم معنی،یہ ایسی تمام غیر مرئی مخلوقات ہیں جو انسان کو اس کے اصل کام سے ہٹا کر کسی دوسرے کام میں لگا دیتی ہیں مگر اس کو نقصان نہیں پہنچاتیں۔ وہ کہنے لگی مثلاً آپ کسی ویرانے میں کوئی کام کر رہے ہیں جیسے کھیتی باڑی، ہل چلانا دوستوں کے ساتھ کھیلنے جانا،اس ویرانے سے گزر کے سبزی لینے جانا،کسی رشتہ دار سے ملنا، حتیٰ کہ رفع حاجت کے لیے جانا،یا دوستوں کے ساتھ سیر سپاٹے کے لیے اس علاقے میں آنا یا اپنے ہی گاؤں کی طرف پلٹ کر آنا،یہ شرار آپ کو راہ سے بھٹکا دیں گے۔
میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا، کیسے کریں گے وہ؟
کہنے لگی ابھی جیسے آپ ایک مرغی کو دیکھتے ہیں اور اس کے پیچھے بھاگتے ہیں لیکن وہ آپ کے ہاتھ…