حبیب الرحمن

غزل – بتول فروری ۲۰۲۱

غزل
پھر سے اچھے بن جاتے ہیں
ہم بچہ سے بن جاتے ہیں
کیا محفل وہ جس محفل میں
جھوٹے سچے بن جاتے ہیں
سیدھے سادے مجنوں پاگل
ہم سے تم سے بن جاتے ہیں
خود کو دیکھیں تو دیکھا ہے
دشمن اپنے بن جاتے ہیں
کیا ہے اْس کی ہٹ کی خاطر
ہم ہی چھوٹے بن جاتے ہیں
دریا کا رستہ روکیں تو
دریا رستے بن جاتے ہیں
بستی والو اب گھر جاؤ
ہم بھی اپنے بن جاتے ہیں
سوچا ہے کیوں چہرے والو
بندے بن کے بن جاتے ہیں
بن جاتے ہیں اپنے دشمن
لیکن کیسے بن جاتے ہیں
سوچا تو تھا جیسا ہے وہ
ہم بھی ویسے بن جاتے ہیں
وہ جو بن کا بن بیٹھا ہے
ہم بھی اس کے بن جاتے ہیں
حبیب الرحمن

مزید پڑھیں

مستقبل کی سرحد پر – بتول فروری ۲۰۲۱

دو گھروں کے درمیان بے شک مجبوریوں کی دیواریں حائل تھیں لیکن اتنی اونچی بھی نہیں ہو گئی تھیں کہ کسی سہارے کھڑا ہو کر ان کے دوسری جانب جھانکا بھی نہیں جا سکتا ہو۔ اکثر دیوار کے اس پار کے گھر والے دیواروں پر کھڑے ہوکر بات چیت بھی کر لیا کرتے اور موقع ملے تو ایک دوسرے کی دیواریں ٹاپ کر بالمشافہ ملاقاتیں بھی ہوجایا کرتی تھیں۔ گزشتہ 70 برسوں سے یہ سلسلہ جاری تھا اور اس دوران دونوں جانب نہ جانے کتنے پھول سے چہرے عمر رسیدگی کا شکار ہو کر اپنی آخری منزل کی جانب روانہ ہو چکے تھے اور کتنی ہی کلیاں کھل کر گل و گلزار کا روپ دھارے مزید گل ہائے رنگا رنگ کی خوشبوئیں مہکاتی جا رہی تھیں ۔ پھرایک دن اچانک یہ ٹوٹی پھوٹی فصیلیں ناقابل عبور قلعے کی فصیلوں میں تبدیل ہو کر رہ گئیں اور وہ دو گھرانے جو دشمنوں سے آنکھیں بچا کر ایک دوسرے کے پیار کی خوشبو سے اپنی روحوں اور سانسوں کو مہکا لیا کرتے تھے، ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنے سے محروم ہو کر رہ گئے۔
ایک شب ڈاکوؤں نے ہماری دیوار کے اْس جانب آباد میرے ہی بہن بھائیوں کے گھر پر ایسا…

مزید پڑھیں

غزل – بتول فروری ۲۰۲۳

یہ کیا کہ سچی رفاقتوں کی گھنیری چھاؤں کو ڈھونڈتے ہو
ہرے بھرے کھیت بستیوں میں بدل کے گاؤں کو ڈھونڈتے ہو
اندھیرے گھر میں گری ہوئی سوئی ڈھونڈنا جب نہیں ہے ممکن
تو کیوں یہ پھیلائی جھوٹی باتوں کے ہاتھ پاؤں کو ڈھونڈتے ہو
کسی کے آنچل نہیں ہیں محفوظ گر سروں پر تمہارے ہاتھوں
تو کس بنا پر تم اپنے گھر کے لیے رداؤں کو ڈھونڈتے ہو
یہ نیک لوگوں کی بستیاں ہیں یہاں بنے گا مذاق ہر سو
تمہای سادہ دلی کا یارو جو ہمنواؤں کو ڈھونڈتے ہو
بتاؤ کیا اس زمیں کے تم پر تمام در بند ہو چکے ہیں
تلاش کرنے نئے ٹھکانے جو تم خلاؤں کو ڈھونڈتے ہو
نہ کوئی کنکر نہ اینٹ پتھر کسی نے مارا نہ روکا ٹوکا
تو اجنبی شہر میں بھلا تم کن آشناؤں کو ڈھونڈتے ہو
بہت پکارا تڑپ تڑپ کر پلٹ کے دیکھا نہیں تھا اب کیوں
زمین گنبد نہیں ہے جو تم مری صداؤں کو ڈھونڈتے ہو
نہیں تھا یاں آشنا ہی کوئی تو چاہیے کس کی راکھ، جو یوں
تڑپ کے مرگھٹ میں ہر طرف تم جلی چتاؤں کو ڈھونڈتے ہو
کرو بھی احسان اور احسان کرکے ہر دم جتاتے رہنا
ہے ایسا جیسے جزاؤں میں تم کڑی سزاؤں کو ڈھونڈتے ہو
وہ جھوٹے وعدے، وہ بے وفائی، وہ فرقتوں کی سیاہ راتیں
عجیب ہو…

مزید پڑھیں

غزل – بتول جنوری ۲۰۲۳

اپنے سینے سے لگالے مجھے اکمل کر دے
ماں میں انسانِ مجمل ہوں مفصل کردے
اے مرے ابر معاصی تو مری آنکھوں سے
ٹوٹ کر اتنا برس روح کو جل تھل کردے
تیرا یک ٹک مجھے یوں دیکھتے جانا جاناں
مجھ سے پاگل کو کہیں اور نہ پاگل کردے
خوف آتا ہے ترا قرب یہ لمحے بھر کا
زندگی بھر نہ مری روح کو بے کل کردے
اپنی آنکھوں میں سجانے کو دکھا کر جلوہ
تو مجھے طور بنادے مجھے کاجل کردے
وہ مرا ہے، وہ نہیں، اور کا، اِس کا، اُس کا
یہ تردد نہ مری سوچ کے پر شل کردے
تو جو چاہے تو مری روح کے اندر بس کر
لاکھ برسوں کے برابر مرا پل پل کردے
کام چلتا ہے کبھی یار فقط دعووں سے
عمر بھر ساتھ مرا، ساتھ ذرا چل کر دے
انتہائیں ہیں اگر راس تو اللہ میرے
موجِ دریا سا بنا دے یا مجھے تھل کر دے
میں گنہ گار ہوں واللہ مگر رحمت سے
مجھ کو سر مست بنادے مجھے سچل کردے
پھینک کر یاد کی جھیلوں میں حبیبؔ اک کنکر
ایک طوفان اٹھا دے کوئی ہلچل کردے

مزید پڑھیں

اوت نپوتے – بتول جولائی۲۰۲۲

میں ملک کے سب سے بڑے شہر کے سب سے بلند ٹاور کی نویں منزل کے ایک اپارٹمنٹ کا مالک تھا۔ اپارٹمنٹ اور اپنی زمین اپنا گھر کا مقابلہ تو نہیں لیکن جو بھی آتا وہ یہی کہتا کہ بے شک آپ ایک فلیٹ میں رہتے ہیں لیکن یقین مانیں فلیٹ میں آنے کے بعد یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ کوئی فلیٹ ہوگا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ اپارٹمنٹ کی ڈیزائیننگ کی ہی کچھ اس انداز میں گئی تھی جیسے کوئی مکان ہو۔ ہر فلیٹ کارنر فلیٹ تھا اور اس کے دو ٹیرسوں میں سے ایک ٹیرس کو چھوٹے سے باغیچے کی شکل دے کر ایک عجب سا منظر دے دیا گیا تھا۔ شہر کی سب سے بڑی شاہراہ پر ایسی کئی عمارتیں تھیں لیکن ان میں سے کسی کو بھی ایسی انفرادیت حاصل نہیں تھی۔ میرا مناسب سا کار و بار تھا اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی تھی اس سے مناسب آمدنی ہوا کرتی تھی۔ کار و بار کا یہ سلسلہ پشتنی تھا۔ میرے والد صاحب میرے دادا کے اکلوتے تھے اور اکلوتے ہونے کا سلسلہ پردادا سے بھی پہلے کا تھا۔ میں بھی اپنے والد کی اکلوتی اولاد تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہر آنے…

مزید پڑھیں

مولانا مودودی ؒ کی شخصیت کے چند پہلو – بتول دسمبر۲۰۲۲

شروع شروع جب پاکستان میں کمپیوٹر اتنا عام ہونے لگا کہ گھروں کے دروازوں پر اس کی دستک سنائی دینے لگی تو مجھے اس بات کی تو بے حد خوشی ہوئی کہ اس میں نہ صرف ہر فرد کے مزاج کے مطابق بہت کچھ دیکھنے، سننے اور پڑھنے کے بصارتی، صوتی اور تحریری لوازمات موجود ہیں بلکہ ہر قسم کی تحریریں، کتابیں، اخبارات اور رسائل بھی ہیں جن کو دیکھ کر، سن کر اور مطالعہ کرکے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن دکھ اس بات کا ہؤا کہ اردو کے زبان و ادب سے تعلق جوڑنے والے بہت بڑے بڑے ذخیرے دور دور تک دکھائی نہیں دیا کرتے تھے۔ اب اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہر قسم کی علمی معلومات مکڑی کی اس جالے، جس کو ویب سائٹ اور انٹر نیٹ کے نام سے پکارا جاتا ہے،میں دیکھی، سنی اور پڑھی جا سکتی ہیں۔ بے شک اب بھی کسی بھی قسم کے اردو ادب کا تمام تر ذخیرہ تو موجود نہیں لیکن پھر بھی لائقِ ستائش ہیں وہ لوگ جو اردو کے علمی ذخیرے کو جدید دور کے مکڑی کے جالے میں محفوظ کرنے میں رات دن کوشاں ہیں اور اگر ان کی کوششیں بنا تکان جاری…

مزید پڑھیں

رزقِ حلال – بتول مئی ۲۰۲۲

میں اوسط سے بھی کہیں کم درجے والا ایک عام سا شہری کبھی نیم سرکاری ملازم ہؤا کرتا تھا۔ آج کل دس برس سے گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہا ہوں۔ ایک مرتبہ مجھ سے کسی صاحب نے پوچھا کہ آج کل آپ کیا کر رہے ہیں تو میں نے جواب میں کہا کہ گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہا ہوں، میرا جواب سن کر نہ جانے وہ کیوں کھلکھلا سے گئے۔ پہلے تو ان کا یہ کھلکھلانہ پن مجھے سمجھ میں نہیں آیا لیکن جب انھوں نے مجھے اپنی خود ساختہ خانقاہ میں شرکت کی دعوت دی تو بات سمجھ میں آئی۔
بات یہ ہے کہ ہم نے انگریزی الفاظ کو جس تیزی کے ساتھ اپنا لیا ہے اور ہر آنے والے منٹوں اور سیکنڈوں میں اپناتے چلے جا رہے ہیں، لگتا ہے کہ اردو ادب ہی نہیں بلکہ ہر قسم کی خدمات کے جتنے بھی ذخائر ہیں سب کے سب ردی کی ٹوکری کی نذر ہو کر رہ جائیں گے۔ اول تو کتابیں پڑھنے کا رواج ہی ختم ہوتا جا رہا ہے لیکن ثانیاً اگر کسی کے اندر کتابیں پڑھنے کے سودے نے اسے مضطرب بھی کردیا تو وہ ان کتابوں کو پڑھ تو شاید لے، لیکن کیا ان…

مزید پڑھیں

غزل – بتول اپریل ۲۰۲۳

میں ظلمتوں سے بغاوت میں مارا جاؤں گا
اے روشنی تری چاہت میں مارا جاؤں گا
جہالتوں کی نحوست مجھے نگل لے گی
میں زعم فہم و فراست میں مارا جاؤں گا
میں بچ گیا بھی اگر ظالموں کے چنگل سے
تو منصفوں کی عدالت میں مارا جاؤں گا
میں سر بچا کے عدو سے اگر نکل بھاگا
تو ساری عمر، ندامت میں مارا جاؤں گا
جو آ گئی تو کوئی بھی نہیں ٹلا سکتا
ہر ایک حال میں صورت میں مارا جاؤں گا
تھی رہبروں سے شکایت، نہ تھی خبر مجھ کو
میں آج اپنی قیادت میں مارا جاؤں گا
خدا کا حکم اگر ہوں تو کیسے سمجھاؤ
میں مر گیا تو حقیقت میں مارا جاؤں گا
عدو سے پھر بھی ہے امید میں مرا جب بھی
تو دوستوں کی معیت میں مارا جاؤں گا
خدا پہاڑ سی دولت بھی گر مجھے دے دے
میں اور اور کی چاہت میں مارا جاؤں گا
جہاں میں چرب زبانی کے فن نے گر مجھ کو
بچا لیا تو قیامت میں مارا جاؤں گا
میں جب بھی مارا گیا دوستوں کے ہاتھوں سے
حبیبؔ انھیں کی محبت میں مارا جاؤں گا

مزید پڑھیں

غزل- بتول مئی ۲۰۲۳

اخلاص و محبت سا وہ پیکر نہ ملے گا
باہر سے ہے جیسا مرا اندر نہ ملے گا
حق گوئی پہ سر کاٹنا ہے کاٹ دو لیکن
تم کو مری آنکھوں میں کوئی ڈر نہ ملے گا
پا کر نہ تجھے جیتے جی مر جاؤںگا، میرا
گر تیرے مقدر سے مقدر نہ ملے گا
ہاں سرمہ لگی آنکھ سا دو رنگ کا موتی
جز اشکِ بتاں ایک بھی گوہر نہ ملے گا
یوں چاہنے والے تجھے مل جائیں گے لیکن
کوئی بھی مرے قد کے برابر نہ ملے گا
ہو جس میں پیاسوں کے لیے دریا دلی بھی
دنیا میں کوئی ایسا سمندر نہ ملے گا
جھک جائے گا ظالم جو ترے جبر سے ڈر کر
شانوں پہ مرے ایسا تجھے سر نہ ملے گا
سکہ، کوئی سونے کا نہ چاندی کا ہوں، مجھ میں
ہاں کھوٹ تجھے ذرہ برابر نہ ملے گا
ہر اک کو سبق رہ سے بھٹک جانے کا لیکن
مل جائے گا کھائے بنا ٹھوکر نہ ملےگا
وہ چاہے تو قارون سے بڑھ کر ہمیں دے دے
ورنہ کسی چوکھٹ سے بھی چوکر نہ ملے گا
واللہ حبیبؔ ہاں یہ ترے در کا بھکاری
اک تیرے سوائے کسی در پر نہ ملے گا

مزید پڑھیں

غزل – بتول جون ۲۰۲۳

بس بہت ہو گیا اپنے دل میں ذرا الفتوں چاہتوں کو جگہ دیجیے
مدتوں سے جما نفرتوں کا غبار اپنے ذہن و نظر سے اڑا دیجیے
ظلمتِ شب سے شکوہ بجا آپ کا پھر بھی لازم ہے یہ روشنی کے لیے
ہو سکے اپنے خونِ جگر سے کوئی اک دیا راستے میں جلا دیجیے
مر چکے ہیں اگر دل تو غم کس لئے ان کو زندہ کریں حشر برپا کریں
صور اک پھونک دیں ہر طرف اور پھر ہر قدم پر قیامت اٹھا دیجیے
آپ بیشک نہیں راہبر مہرباں رہنما ہی سہی، راہ میں جو کئی
لے کے جائے جو منزل کی جانب مجھے ان میں وہ راستہ تو بتا دیجیے
دشمنوں کی نہ باتوں میں آپ آئیے شک نہیں کیجئے میرے اخلاص پر
میں نہیں بے وفا بے وفائی کروں پھر جو دل چاہے مجھ کو سزا دیجیے
منزلیں دور ہیں اور رستہ کٹھن ،کوئی تو لے مرے ہاتھ کو ہاتھ میں
سن کے میں نے بڑے عزم و امید سے کان میں اس کے جاکر کہا دیجیے
تھا مرے زیبِ تن ریشمی پیرہن ،تھے سبھی جو مرے دائیں بھی بائیں بھی
اب کڑے وقت میں کس سے جاکر کہوں مجھ کو ان دوستوں کا پتا دیجیے
اس کا وعدہ تھا جیسے فسانہ کوئی اور دعویٰ کہانی کا عنوان سا
آپ بھی زیرِ لب…

مزید پڑھیں

غزل-بتول جنوری ۲۰۲۱

دل سے ہر شک نکالیے صاحب
اب نہ شجرے کھنگالیے صاحب
چاند کا دل دھڑک رہا ہوگا
اپنا آنچل سنبھالیے صاحب
اک ذرا سی زبان نے کتنے
دوست دشمن بنا لیے صاحب
تم بھی اپنی کمر کو کس رکھو
ہم نے لنگر اٹھالیے صاحب
کتنے کلیوں سے پھول چہروں کے
وقت نے، رنگ کھالیے صاحب
خون کیوں آنکھ میں اتر آیا
شک کو دل سے نکالیے صاحب
بعد مدت ملیں کفِ افسوس
وقت اتنا نہ ٹالیے صاحب
ایک ہم کیا، عطا ہوئے لمحے
کس نے کتنے بچالیے صاحب
آپ ہی کچھ کہیں کہ اس دل کو
کتنے سانچوں میں ڈھالیے صاحب
کب پلٹ جائیں دن، کسی سر کی
پگڑیاں مت اچھالیے صاحب
جلوہ گر آج حبیبؔ ہوتے ہیں
اپنی آنکھیں سنبھالیے صاحب

مزید پڑھیں