آسیہ عمران

دم ساز – بتول اکتوبر ۲۰۲۱

وہ مجھے ہاتھ سے پکڑ کر اپنے گھر لے گئیں۔میں پہلے ہی ان کی خاموشی سے سہمی ہوئی تھی اور اب یہ اصرار…… ساتھ چلتی چلی گئی۔ گھر کے لاؤنج میں کتب پھیلی ہوئی تھیں۔ایک طرف کینوس کلر ،تو دوسری طرف گتے ،اسٹیشنری اور نہ جانے کیا کچھ اور ساتھ ہی بچوں کا شور…… کشن ادھر ادھر پڑے ایک الگ ہی ماحول بنا رہے تھے۔بچے امی امی کہہ کر ان سے لپٹ گئے ۔انھوں نے پرس سے کچھ نکال کر نو سالہ بیٹی کو پکڑایا اور ساتھ ہی اشارتاً کچھ سمجھایا ۔
وہ جہاں سے مجھے اندر لے گئیں وہاں سے پورے گھر کو جانچنے کے لیے ایک نظر ہی کافی تھی ، جو بتا رہی تھی کہ لاؤنج کے سواباقی جگہیں مرتب تھیں ۔ پھر بھی لاؤنج کایہ منظر میرے تصورات سے الگ ہی تھا ۔ میرے ذہن میں وہ ایک آئیڈیل شخصیت تھیں۔ان کے گھر اور بچے عام گھروں سے یقیناً مختلف ہو نے چاہئیں تھے۔
مجھے لیے وہ سیدھا کچن میں چلی آئیں۔انھوں نے کھانے والی میز کی کرسی گھسیٹ کر جیسے بیٹھنے کا اشارہ کیااور خود عبایا اتار کر چولہے کی طرف بڑھ گئیں۔ مجھے تو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو ۔کچن بھی بکھرا پڑا تھا۔ان کی دلآویزشخصیت…

مزید پڑھیں

فارمی مرغیاں -بتول نومبر ۲۰۲۱

ماموں کے گھر جانا ہوا۔ ان کی بیٹی نے اصلی مرغیاں پال رکھی ہیں۔صبح ہی صبح شور اور آواز یں۔۔۔ کزن سے پوچھا خیر تو ہے ۔ کہنے لگی آج ان کا ڈربہ کھولنے میں دیر ہو گئی۔وہ احتجاج کر رہی تھیں۔
دوپہر میں ایک اور تجربہ ہوا ۔ انھوں نے مرغی ذبح کرنے کا سوچا۔ان میں سے ایک کو پکڑنے کے لیے تین افراد نے کوشش کی۔ وہ کبھی دوڑنے لگتیں کبھی چھلانگ لگا دیتیں۔کبھی درخت پر چڑھ جاتیں۔ بمشکل ایک پکڑی گئی۔پوچھا اتنی متحرک کیسے ہیں۔کراچی کی مرغیاں تو اٹھ بھی مشکل سے پاتی ہیں۔ہنسنے لگیں، باجی یہ فارمی نہیں اصلی مرغیاں ہیں۔
تب مجھے اپنی سہیلی کی بات یاد آئی۔ بچوں کے معا ملے میں سستی برداشت نہ کرتی تھیں۔اکثر کہتیں مجھے ان کو معاشرے کے لیے فارمی چوزے نہیں بناناکہ ذرا تلخی برداشت نہ کر پائیں، اپنے پاؤں پر چلنا بھی دوبھر ہو ۔نہ ہی سہولیات کا عادی بنانا ہے کہ مشینوں کےغلام بن کر رہ جائیں اور کچھ نہ ملنے پر پوری زندگی خود ترسی اور احساس کمتری کی نظر کر دیں۔ انھیں سخت جان اور پر اعتماد بنانا ہے۔احساس ذمہ داری پیدا کرنا ہے ان کے اندر۔
اس کی بات کا اثر تھا کہ میں نے بھی…

مزید پڑھیں

باقی سب! – بتول جنوری ۲۰۲۲

رات کے دو بج رہے تھے۔
وہ کروٹیں بدل بدل کر تھک چکی تھی۔نیند کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔بہن کے الفاظ ذہن میں گونج رہے تھے.
’’دیکھنا تمھاری ساس ضرور تمھارے شوہر کی دوسری شادی کروائیں گی ا ور تمھیں گھر سے چلتا کریں گی۔وہ بہت چالاک ہیں …..کچھ ایسا جادو کریں گی کہ تمھارے شوہر کو ماننا پڑے گا….. اور تم بیٹھی رہنا اپنی خوش گمانیوں میں !تم واقعی ان کی چالاکیاں نہیں جانتی‘‘ ۔
وہ خود پریشان اور واہموں کے زیر اثر تھی اوپرسے بہن نے یہ باتیں بار بار دہرا کر اسے مزید پریشان کر ڈالا تھا۔دن بھر کی مصروفیات میں سب جھٹکنے کی کوشش کی اور کچھ کامیاب بھی ہوئی۔ مگر عشاء کے بعد جیسے ہی بستر پر لیٹی ان سب باتوں نے جیسے حملہ کر دیا۔
پھر لاکھ خود کو سمجھایا ۔میرا رب ہے نا دیکھ رہا ہےسب کچھ، وہ کچھ بھی غلط نہیں ہو نے دے گا۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تم ہر ایک کے لیے اچھا چاہو اور تمھارا رب کسی کو تمھارے ساتھ برا کرنے دے۔ نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔اولاد کا نہ ہونا کوئی ایسی وجہ نہیں کہ اسے گھر سے بے گھر کیا جائے۔
وہ خود کو دلاسہ دیتے سونے کی کوشش…

مزید پڑھیں

استقبال ِ رمضان – بتول مارچ ۲۰۲۲

مہینوں سے کچرا وہاں جمع ہو رہا تھا۔ تعفن سے سانس لینا دوبھر تھا۔ اس سے چھٹکارے کی صورت نظر نہ آتی تھی۔ ایک صاحب نے آگ لگا دی۔
کچھ دن بعد وہاں سے گزر ہؤا ۔ کچرے کا نام و نشان تک نہ تھا۔کسی نے راکھ اٹھا کر نئی مٹی ڈال کر کچھ بو دیا تھا۔
خوشگوار حیرت کچھ عرصے بعد گزرنے پر ہوئی۔ وہاں چھوٹے چھوٹے پودے ترتیب سے اگ آئے تھے۔درمیان میں کیاری میں تروتازہ سبزیاں جا بجا پھول اپنی بہار دکھا رہے تھے۔یقیناً کسی نے مستقل توجہ دی تھی۔
آج معمولات سے فراغت کے بعد منزل مقصود استقبال رمضان کا پروگرام تھا۔ درس دینے والی کا پہلا جملہ ہی چونکا گیا۔ وہ رمضان کا مطلب ’’جل جانا‘‘بتا رہی تھیں۔
سوال ہؤا کس چیز کا جل جانا؟
جواب تفصیلی تھا۔
’’یہ مہینہ ایک بھٹی کی مثل ہے جو گزشتہ گناہوں کو جلا دیتی ہے۔ مومن پاک صاف اجلا ہو جاتا ہے۔ اس میں خیر اور بھلائی کے لیے ویکیوم پیدا ہوجاتا ہے۔جگہ صاف کرکے نئی مٹی ڈال کر بیج بوئے جائیں تو کئی طرح کے پودے ،پھل اور پھول اگائے جا سکتے ہیں‘‘۔
ذہن میں کچرے سے کیاری کا سفر آ گیا۔
رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ،ایک بڑے انقلاب کا پیامبر ، کچرے سے…

مزید پڑھیں

تقویٰ کیا ہے؟ – بتول اپریل ۲۰۲۲

رات کے اندھیرے میں ایک صاحب جوتے ہاتھ میں لیے گلی میں سے خاموشی سے گزر رہے ہیں۔ ایک دوسرے صاحب پاس سے گزرتے پہچان لیتے ہیں اور حیرانی سے پوچھتےہیں۔
’’اندھیراہے پاؤں میں کنکر لگ سکتا ہے۔ کیڑےمکوڑے کاٹ سکتے ہیں۔ یہ بے احتیاطی کیسی ؟‘‘
اشارے سے چپ کرواتے سرگوشی میں کہتے ہیں، یہی تو احتیاط ہے۔ صاحبِ سوال کے تجسس پر وضاحت کرتے ہیں ۔
’’رات کا وقت ہے لوگ سو رہے ہیں میرے جوتے کی آواز ان کی نیند خراب کرسکتی ہے‘‘۔
صاحبِ سوال کو تجسّس ہے رات کے اس پہر کہاں جا رہے ہیں۔خاموشی سے پیچھا کرتے ہیں۔ایک بڑھیا کی کٹیا میں انھیں کھانا کھلاتے خدمت کرتے پاتے ہیں۔
یہ صاحب کوئی عام شخص نہیں ،خلیفۃ المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔یہ ان کا تقویٰ ہے جو انھیں ذاتی خطرے سے بے نیاز کر کے لوگوں کی نیند میں خلل نہیں ڈالنے دیتا اور دنیا سے چھپ کر ایک بڑھیا کی خدمت پر ابھارتا ہے۔
تقویٰ کی تعریف عموماً ڈر اور خوف ،پرہیز کرنا،نگرانی کرنا،بچاؤ کرنا ،حفاظت کرنا سے کی جاتی ہے۔لیکن تقویٰ کے لفظ کی گہرائی پر ان میں سے کوئی لفظ پورا نہیں اترتا۔
تقویٰ دراصل بہت ہی پیارا جذبہ ہے۔ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔
ایک انسان کسی شیر…

مزید پڑھیں

لڑکی اور لڑکے کی تربیت میں فرق ؟شخصیت کی تعمیر کن بنیادوں پر ہونی چاہیے – بتول اگست ۲۰۲۲- آسیہ عمران

بات بچوں کی تربیت کی ہو رہی تھی اور چلی مرد کی مردانگی پر گئی۔ کچھ کے خیال میں گھر کے کام صرف عورتوں سے منسلک ہیں لہٰذا مردوں سے جوڑنا مناسب نہیں چاہے وہ بچے ہی کیوں نہ ہوں۔ لڑکوں کے تربیتی مراحل میں ایسا کوئی حصہ نہیں ہونا چاہیے جس کا تعلق گھر کے کاموں کچن وغیرہ سےہو کہ اس سے ان کی مردانگی پر حرف آئے گا۔ ایک صاحبہ کا کہنا تھا گھر کے کام سکھا کر انھیں ہیجڑا نہ بنائیں مردوں سے مردانہ کام ہی کروائیں۔
اس بحث کے تناظر میں بچوں کی تربیت کے حوالے سے کاموں کو علیحدہ کرنے کا سوچا تو کئی الجھنیں در آئیں ۔کچھ بنیادی سوالات بھی تھے ۔ نفسیات کی ایک پروفیسر سے ملاقات میں کچھ الجھنیں کہہ ڈالیں۔
گویا ہو ئیں ایک بچے کی کامیابی کا سفر اس بات سے شروع ہوتا ہے کہ وہ مختلف کاموں کا خود تجربہ کرےکسی بھی کام کو غیر اہم اور چھوٹا نہ سمجھےخود سےسوچے غور کرے اپنے عمل کی راہ نکالے۔
یہی چیز انسان کی فطرت میں بھی ہے۔ بچہ ابتدا میں ہر کام کی نقل کی کوشش کرتا ہے اسے ہر کام ہی اہم لگتا ہے۔آہستہ آہستہ وہ اپنا دائرہ کار سمجھ کر اپنا…

مزید پڑھیں

زندگی کے چکر- بتول جولائی۲۰۲۲

زندگی کی دی ہوئی مشکلات پر اندر ہی اندر کڑھنا، دنیا کی بےحسی، بے قدری پر نالاں رہنا کہ اس میں احساس و مروت اورخدا خوفی ہی نہیں ہے ۔
پھر خود ہی اس کی وکالت بھی کرنا اس کے مثبت اور منفی پہلو دیکھ کرفیصلہ اس کے حق میں دے دینا۔
یہ کوئی آج کی بات نہیں وہ ہمیشہ سے یہی تو کرتی آئی تھی۔ بچپن میں بھی کسی سے معاملہ ہوجاتا یہی چکر چلتا ایسا ہی کرتی ۔
کسی کا معمولی سا مثبت ردعمل ساری گندگی دھو دیتا اور وہ خوش ہو جاتی سوچتی آئندہ کبھی کسی کے بارے میں برا نہ سوچے گی۔
مگر کیا کہ چکر بار بار چلتا ،جیسے جیسے بڑے ہوئے چکر بھی پیچیدہ ہوتے چلے گئے ۔
سوال اٹھتا ۔ یہ ہر معا ملے میں اونچ نیچ کا چکر بار بار کیوں چلتا ہے ۔زندگی میں تسلسل،ٹھہراؤ کیوں نہیں رہتا ، شکر گزاری ،صبر و قناعت مختلف حالتیں کیوں بدلتی رہتی ہیں ۔اچھائیاں مستقل طبیعت کا حصہ کیوں نہیں بنتیں؟
ایک استاد کا جواب تھا ۔
زندگی ایک مستقل چکر ہے۔ جو اونچ نیچ سے عبارت ہے کچھ بھی تسلسل سے ہو تا ہی چلا جاتاتو اس کی چاشنی ختم ہو جاتی ۔
انھوں نے ایک واقعہ سنایا ۔
ایک خاتون کے…

مزید پڑھیں

اب دو ہی راستے ہیں! حالیہ سیلابوں کی تباہی ہمیں کیا بتا رہی ہے، حقائق تلخ ہیں اور سبق بالکل واضح – بتول اکتوبر۲۰۲۲

جاگ اے میرے ہمسائے خوابوں کے تسلسل سے
دیوار سے آنگن میں اب دھوپ اتر آئی
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
ٹیلے کے نیچے دبی زچہ، کیچڑ آلود زندگی کی اولین سانسیں لیتا نوزائیدہ وجود ، ہر سورقص کرتی موت اور پانی کا وسیع قبرستان ،ہر سوبکھرے درد ، اشکبار ویران آنکھیں، بے بسی،ویرانگی اورحسرتیں، دردناک ہر سو بدلتےمناظر ،زندہ لاشیں ، ایک ملبہ بنے گھر میں دبی لاش کے دو اٹھے ہاتھ، متاثرین سیلاب کی نمائندگی کرتے سراپا سوال ہیں کہ کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کریں ؟
اس وقت موجود دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں اس وقت کا المیہ صرف ہمارا ہی نہیں دنیا کووحشت ناک مستقبل کی بھی پیشگی جھلک دکھا رہا ہے۔ جنگلات جنھیں دنیا کے پھیپھڑے کہا جاتا تھا کٹتے جا رہے ہیں ۔ دنیا کا سب سے بڑا جنگل جنوبی امریکا میں ایمیزون طاس پر محیط برساتی جنگل ہے۔رقبہ 2510000 مربع میل، یعنی تقریباً پورے آسٹریلیا کے برابر، ہے نہ صرف اس کی بلکہ دنیا بھر کے جنگلات کی بے روک ٹوک مستقل کٹائی جاری ہے ۔
سرمایہ دارانہ نفسیات جنگلات کی کٹائی کر تے ،ذاتی مفادات کی خاطر پوری دنیا…

مزید پڑھیں

انسانوں میں طاقت کا توازن – بتول جون ۲۰۲۳

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تمہارے غلام بھی تمہارے بھائی ہیں اگرچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہاری ماتحتی میں دے رکھا ہے۔ اس لیے جس کا بھی کوئی بھائی اس کے قبضہ میں ہو اسے وہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے اور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔ لیکن اگر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالے تو پھر ان کی خود مدد بھی کر دیا کرے۔(بخاری )
مندرجہ بالا حدیث ایک انقلابی پیغام لیے ہوئے ہے ۔ جس پر عمل سے معاشرے، ملک و ملت کے حالات سدھارے جا سکتے ہیں ۔
بنیادی طور پرفساد کی شروعات اہلِ طاقت کی اس ذہنیت سے ہوتی ہیں کہ وہ بڑا ہے اس کے لیے کمزور پرہر رویہ یا حربہ جائز ہے۔
اسلام نے ہر مقام پر کمزوروں کے حقوق کو نمایاں کر کے ان کے دفاع کا باقاعدہ نظام بنایا ہے۔
اس حدیث مبارکہ میں غلام کے لفظ سے غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ یہ احکام غلام کے لیے ہے جبکہ اس وقت غلامی کا رواج ختم ہوچکا ہے۔ علمائےکرام نے اس کا اطلاق ہر ماتحت پر کیا ہے۔ اس وقت ماتحتی کی سب سے بڑی اور نمایاں شکل…

مزید پڑھیں