ڈاکٹر فائقہ اویس

سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ – بتول دسمبر ۲۰۲۰

یہاں ناشتے کے لیے فُول، تمیس، فلافل، بینگن سے بنے کھانے اور سینڈوچ، حمص کے ساتھ ساتھ مغربی ناشتے بھی کافی مقبول ہیں۔ اسی طرح انڈے اور چیز سے بنے ہوئے کئی طرح کے سینڈوچ بھی شوق سے کھائے جاتے ہیں۔ چائے عموماً بغیر دودھ کے پی جاتی ہے۔ اسی طرح سیاہ کافی، عربی قہوہ بھی ناشتے کا جزو ہے۔ چائے کی کئی اقسام ہیں جیسے، سادہ چائے بغیر دودھ کے، صرف ادرک کی چائے، پودینہ کی چائے، سبز چائے، عربی قہوہ، دودھ والی چائے۔ دودھ والی چائے کی بھی اقسام ہیں، جیسے عام ٹی بیگ والی چائے، کرک چائے، یمنی چائے،دودھ پتی بھی مل جاتی ہے۔ سعودی ہر قسم کی چائے کے لیے ایک ہی جیسی پیالی استعمال نہیں کرتے۔ سادہ دودھ کے بغیر چائے کے لیے ذرا لمبے اور بڑے کپ استعمال کیے جاتے ہیں لیکن ہماری پیالی سے چھوٹے ہوتے ہیں۔ عربی اور ترکی قہوہ کے لیے

مزید پڑھیں

سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ – بتول نومبر۲۰۲۰

طب کے شعبے میں کام کرتے ہوئے بہت سے ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو عوام کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ آپ سب سے ان کا ذکر کیا جائے۔ کچھ یادیں میٹھی ہوتی ہیں اور کچھ کٹھی بھی ہوتی ہیں۔ کھٹاس کا تعین کرنا بھی مشکل ہوتا ہے اور اس کا حل ڈھونڈنا بھی مشکل ہے، کیونکہ انسان ہونے کی حیثیت سے ہماری صلاحیتیں بھی محدود ہیں اور عقل بھی۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ مریض ڈاکٹر سے خفا ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات طریقہ علاج مریض کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتا۔ اور کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ مریض ڈاکٹر سے چڑ بھی جاتا ہے۔ کبھی وہ کسی اور سے کچھ ایسا سن کر آتا ہے کہ اس کی وجہ سے اس کی ذہن سازی پہلے ہی ہو چکی ہوتی ہے۔ خیریہ تو غیر دلچسپ تفصیلات ہیں۔ آئیے چند

مزید پڑھیں

سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ – بتول نومبر ۲۰۲۱

مسجد النبوی شریف کی زیارت سے بہت اطمینان ہؤا ۔اگرچہ پہلی بار اس قدر سناٹا اور خالی سڑکیں دیکھی تھیں، لیکن پھر بھی بے حد سکون ملا اور مدینہ شریف کی اپنی رونق ہر لحظہ محسوس ہوتی رہی۔ طیبہ شریف ہر حال میں بارونق اور خوبصورت لگتا ہے۔ ہمیں تو ایک بڑی کمینی سی خوشی بھی ہو رہی تھی کہ ہم نے کم لوگوں کی وجہ سے مدینہ شریف کو خوب اچھی طرح سے دیکھ لیا ہے۔ وبا کے مضر اثرات اور اقتصادی خسارے کا اندازہ تب ہؤا جب سب بازار اور ہوٹل بند دیکھے۔ وبا کے پہلے پانچ مہینوں میں سوائے ہسپتال کے کہیں اور جانے کا موقع ہی نہیں ملا۔ یہ ہمارا پہلا سفر تھا۔ تیسرے دن ہم مدینہ شریف سے رخصت ہوئے اور واپسی کے سفر میں قصیم رکے، جہاں میمونہ حمزہ ہمارا انتظار کر رہی تھیں۔ انہوں نے کھانے پر بہت اہتمام کر رکھا تھا، اور

مزید پڑھیں

ملاکا کی سیر- بتول مارچ ۲۰۲۲

ملاکا کی سیر کی تفصیلات ہمارے سرتاج من عزیز کی بیماری کی نظر ہو گئیں۔ اللہ کا شکر تھا کہ وہ جلد ٹھیک ہو گئے، لیکن کئی دن تک طبیعت نڈھال رہی اور وہ نرم غذا کے علاوہ کچھ اور نہیں کھا سکتے تھے۔ ملاکا جنوب مغربی ملیشیا کا شہر ہے جسے سیاحوں کا شہر بنا دیا گیا ہے۔ یہ بہت پرانی بندرگاہ بھی ہے جہاں سے بڑے بڑے تجارتی جہاز گزرا کرتے تھے جو ایشیا کے مختلف حصوں سے تجارتی سامان لے کر جاتے تھے۔ بہت صدیاں پہلے یہاں کے راجہ نے اسلام قبول کر لیا تھا اور ملاکا اسلامی ریاست کا صدر مقام بن گیا۔ یہاں پر کئی عجائب گھر ہیں جن میں قرآن کے قدیم نسخے، پرانے مخطوطات اور نقشے محفوظ کئے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک عجائب گھر میں ہم نے ملائی زبان کو اپنے اصلی رسم ا لخط میں لکھا ہوا دیکھا۔ ورنہ ترکی

مزید پڑھیں

سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ- بتول جولائی ۲۰۲۱

ویکسین لگوا کر پہلا دن تو اچھا گزر گیااور ہم خوش رہے کہ سب ٹھیک جا رہا ہے۔ دوسرے دن اس قدر تھکاوٹ کہ لگ رہا تھا پورا جسم ٹوٹ گیا ہے۔ سر تک کمبل لے کر لیٹنے سے بے حد سکون مل رہا تھا۔ اسی حالت میں ہسپتال گئے، کلینک کیا اور شکر کیا کہ گھر آ کر بستر پر لیٹ گئے ہیں۔ تیسرے دن الحمدللّٰہ طبیعت بالکل ٹھیک تھی۔ مشاہدہ یہ ہے کہ ہر ایک کا ویکسین کے بعد مختلف ردعمل تھا۔ کچھ ہفتوں تک ہمیں چکر بھی آتے رہے، جن میں سے ایک آدھ تو گھبرانے والا بھی تھا۔ اس کے بعد سب کچھ معمول پر آ گیا۔ غم اور خوشی زندگی کے ساتھ لازم وملزوم ہیں۔ سعودی عرب میں رہائش کے دوران مختلف قوموں کو ان دونوں کیفیتوں سے گزرتے دیکھا۔ سعودی اپنی معاشرتی زندگی میں اسلام کے پابند ہیں۔ اسلام کا آغاز بھی اسی خطے

مزید پڑھیں

سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ – بتول اکتوبر ۲۰۲۱

ہے کہ آپ کسی بھی جگہ داخل نہیں ہو سکتے جب تک ماسک چہرے پر نہ ہو۔ کچھ دن پہلے ہمارے میاں صاحب ہمیں کام پر چھوڑنے آئے اور ماسک گھر بھول گئے۔ راستے میں ایک سبزی کی دکان سے کدو خریدنے کے لیے گئے تو دکان دار نے فرمایا کہ پہلے ماسک لگا کر آئیے۔ پردے کے بے شمار فوائد میں سے ایک کا تعلق کورونا سے بھی ہے۔ خواتین کو اس بات کی اجازت ہے کہ اگر انہوں نے کپڑے کے نقاب سے چہرہ ڈھکا ہؤا ہے تو وہ سرجیکل ماسک نہ لگائیں۔ ہمیں تو یہ بہت اچھا لگا، اگرچہ ہمارے پیشے کی بدولت ہمیں کام کی جگہ پر سرجیکل ماسک ہی لگانا پڑتا ہے۔ اس صورت میں ہم دوہرا ماسک لگاتے ہیں، جس کی وجہ سے بعض اوقات سانس کا مسئلہ بھی ہو جاتا ہے۔ الحمدللّٰہ مملکت کی سب رونقیں واپس آ رہی ہیں، سڑکوں پر ٹریفک

مزید پڑھیں

سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ – بتول اگست ۲۰۲۱

انسانوں کے معاشرے خامیوں اور خوبیوں دونوں سے مزین ہوتے ہیں۔مزین اس لیے کہ اگر خامیاں نہ ہوں تو خوبیاں چمک اور نکھر کر سامنے نہ آئیں۔ سعودی معاشرہ بھی یقیناً اس سے پاک نہیں ہے لیکن اب بھی خیر شر پر غالب ہے۔ وطن عزیز اور ہمسایہ ممالک سے جانے والے تو اس مملکت کو جنت محسوس کرتے ہی ہیں، مغرب کے ترقی یافتہ ممالک سے آنے والے بھی کچھ ایسے ہی جذبات رکھتے ہیں۔ بچے من کے سچے ہوتے ہیں ۔ کچھ دن پہلے ایک دعوت میں شرکت کی جہاں زیادہ تر افراد مغرب سے آئے ہوئے تھے۔ بچوں بلکہ بچیوں سے بات چیت ہوتی رہی۔ ایک بچی لاہور سے آئی ہوئی تھیں، اپنے بابا کے ساتھ چھٹیاں گزارنے کے لیے۔ ان سے پوچھا کہ آپ کو کہاں رہنا زیادہ اچھا لگتا ہے۔ انہوں نے جھٹ سے کہا، ریاض میں۔ اسی طرح کچھ بچیاں لندن اور دیگر شہروں

مزید پڑھیں

سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ- بتول ستمبر ۲۰۲۱

ہماری زندگی کہانیوں سے بھری ہوئی ہے۔روز کوئی نہ کوئی کہانی سامنے آتی ہے۔اور بحیثیت معالج توہم کئی واقعات کا مشاہدہ اور تجربہ کرتے ہیں۔ آج مجھے بھی ایک کہانی یاد آ گئی۔ نومولود مریم کی کہانی یہ ہے تو کہانی لیکن اصلی اور حقیقی ہے۔ میں جب سعودی عرب میں نئی نئی آئی تو میرے پاس ایک خاتون بلکہ لڑکی آئی جس کا پہلا حمل تھا۔ وہ کسی اور ہسپتال میں چیک اپ کرا رہی تھی۔ ہمارے پاس حمل کے آٹھویں مہینے میں آئی۔ جب میں نے اس کا الٹراساؤنڈ کیا تو اس میں کچھ چیزیں نارمل نہیں تھیں۔ آنے والا بچہ جوایک لڑکی تھی اس کی جلد کے نیچے، اور پیٹ میں پانی تھا۔ خاتون کو تفصیلی الٹراساؤنڈ کے لیے بھجوایا۔ انہوں نے بھی یہی رپورٹ دی اور ساتھ یہ بتایا کہ انڈے دانی میں پانی کی بہت بڑی تھیلی ہے۔ یہ سب تفصیلات اچھے پیشہ ورانہ انداز

مزید پڑھیں

سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ- بتول مئی ۲۰۲۱

پی آئی اے کے جہاز جیسے بھی ہوں، لیکن اندر داخل ہو کر ایسا لگا جیسے ہم پاکستان پہنچ گئے ہوں۔ فضائی میزبان کے منہ سے اردو سن کر بہت اپنائیت کا احساس ہؤا۔ اپنے پاکستانی بھائیوں کو دیکھ کر ہم نے بڑے آرام سے بغیر کوئی تکلف کیے اپنے چھوٹے سوٹ کیس ان سے اوپر والے کیبن میں رکھو ائے۔ یہ سہولت کسی اور ائیر لائن کے جہاز میں اس آسانی سے نہیں ملتی، کیونکہ ان جہازوں میں پاکستانی اتنے نہیں ہوتے۔اس جہاز میں کوئی بھی غیر ملکی نہیں تھا۔ جہاز نے ٹیکسی کرنا شروع کیا تو ایک بار پھر شکر کیا۔ پرواز کے بلند ہونے کے بعد نماز فجر ادا کی۔ ہم اپنی زبان کا مزہ لیتے ہوئے اور میٹھی اردو کی لوری سنتے سنتے نیند کی آغوش میں پہنچ گئے۔ تھوڑی دیر بعد ہی آنکھ کھل گئی۔ روشن دن طلوع ہو چکا تھا۔ باقی کا سفر بادلوں

مزید پڑھیں

سفر ہے شرط(۲) – بتول جون ۲۰۲۱

سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ بارہ فروری کو صبح اٹھے، نماز ادا کی اور دھند کو ہر طرف چھائے ہوئے دیکھ کر پھر سونے کی کوشش کرنے لگے۔دوبارہ سو کر اٹھنےکے بعد ناشتہ وغیرہ کر کے ہم ساڑھے دس بجے تک فارغ ہو چکے تھے اور انتظار کر رہے تھے کہ موٹر وے کھلنے کی اطلاع آئے تو ہم روانہ ہوں۔ اگر ہم گھر سے جلدی نکل آتے توموٹر وے پر چڑھنے کے لیے بہت دیر قطار میں کھڑے رہنا پڑتا۔ رات کے پر مشقت تجربے کے بعد ہم دوبارہ اس کے لیے تیار نہیں تھے۔ اس لیے ساڑھے گیارہ گھر سے نکلے اور جب تک انٹر چینج پر پہنچے، ٹریفک کا ہجوم ختم ہو چکا تھا۔ سرگودھا پہنچتے پہنچتے ہمیں اڑھائی بج گئے۔ ہم نے ایک گھنٹے میں سامان سمیٹا۔ آتے ہوئے تو سامان رکھنے کے لیے جگہ نہیں تھی اور جاتے ہوئے سوٹ کیس بھرنے کے لیے

مزید پڑھیں

سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ-بتول جنوری ۲۰۲۱

میرے پچھلے مضمون میں قہوے کا ذکر ہؤا تھا۔ قہوہ عربی زبان کا لفظ ہے اور کافی اسی کی تبدیل شدہ شکل ہے۔جس طرح عربی کے کچھ اور الفاظ تبدیل ہو کر انگریزی زبان کا حصہ بن چکے ہیں، اسی طرح قہوے نے بھی کافی کی ہیئت اپنا لی ہے۔ قہوے کی دکانوں کو ’’مقہی‘‘ کہا اور لکھا جاتا ہے۔ پاکستانی کھانے بھی یہاں پر کافی پسند کیے جاتے ہیں۔ ہمارے پچھلے شہر میں بھی کچھ مشہور پاکستانی ریستوران تھے جن میں سے ایک ’’ایسٹ اینڈویسٹ‘‘ تھا۔ اس ریستوران کا ذکر پہلی بار میں نے ایک سعودی سے ہی سنا تھا۔ میں اپنے بینک مینیجر کے کمرے میں کسی دستاویز کا انتظار کر رہی تھی۔ ایک سعودی صاحب بھی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے میرے کوٹ سے اندازہ لگا لیا کہ میں نیول بیس ہسپتال میں ڈاکٹر ہوں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ’’ایسٹ اینڈ ویسٹ‘‘ ان کا ریستوران ہے۔ اس

مزید پڑھیں

سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ-بتول اپریل ۲۰۲۱

سعودی عرب کے کھانوں کا جب تذکرہ ہو رہا تھا تو کسی نے یاد کرایا کہ اس میں ایک بہت مشہور ریستوران کا تو ذکر ہی نہیں ہے۔ یاد دلانے والی تھیں ہماری محترمہ بنت شیروانی اور ان کے مطابق ہر کوئی ’’لبیک لبیک‘‘ کہتا ہؤا جاتا ہے اور ’’البیک البیک ‘‘کہتا ہؤا واپس آتا ہے۔ ان کی یہ یاددہانی بہت دل کو بھائی اور اس بار آپ کو’’البیک ریستوران‘‘کا تذکرہ پڑھنے کو ملے گا۔ ہم جب حج کے لیے آئے تو مناسک حج کی تفاصیل، سفر اور حضر کے مسائل اور ان کی حل کے ساتھ ساتھ جو ایک اور رہنمائی ہمیں ملی، وہ البیک کا تعارف تھا۔ پہلے دن تو میزبانوں نے ہمیں ریستوران تک جانے کا موقع ہی نہیں دیا۔ دوسرے دن ہمیں اندازہ ہؤا کہ حرم کے قرب و جوار میں کہیں بھی البیک کی شاخ نہیں ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے، یہ نہ معلوم

مزید پڑھیں