قومی زبان یا قومی مذاق – حبیب الرحمٰن
یہ مواد صرف سبسکرائبرز کے لیے ہے براہ کرم اس مواد کو انلاک کرنے کے لیے سبسکرائب کریں۔ سالانہ Rs 1500 / year پلان حاصل کریں ماہانہ Rs 150 / month پلان حاصل کریں
یہ مواد صرف سبسکرائبرز کے لیے ہے براہ کرم اس مواد کو انلاک کرنے کے لیے سبسکرائب کریں۔ سالانہ Rs 1500 / year پلان حاصل کریں ماہانہ Rs 150 / month پلان حاصل کریں
غزل پھر سے اچھے بن جاتے ہیں ہم بچہ سے بن جاتے ہیں کیا محفل وہ جس محفل میں جھوٹے سچے بن جاتے ہیں سیدھے سادے مجنوں پاگل ہم سے تم سے بن جاتے ہیں خود کو دیکھیں تو دیکھا ہے دشمن اپنے بن جاتے ہیں کیا ہے اْس کی ہٹ کی خاطر ہم ہی چھوٹے بن جاتے ہیں دریا کا رستہ روکیں تو دریا رستے بن جاتے ہیں بستی والو اب گھر جاؤ ہم بھی اپنے بن جاتے ہیں سوچا ہے کیوں چہرے والو بندے بن کے بن جاتے ہیں بن جاتے ہیں اپنے دشمن لیکن کیسے بن جاتے ہیں سوچا تو تھا جیسا ہے وہ ہم بھی ویسے بن جاتے ہیں وہ جو بن کا بن بیٹھا ہے ہم بھی اس کے بن جاتے ہیں حبیب الرحمن
دو گھروں کے درمیان بے شک مجبوریوں کی دیواریں حائل تھیں لیکن اتنی اونچی بھی نہیں ہو گئی تھیں کہ کسی سہارے کھڑا ہو کر ان کے دوسری جانب جھانکا بھی نہیں جا سکتا ہو۔ اکثر دیوار کے اس پار کے گھر والے دیواروں پر کھڑے ہوکر بات چیت بھی کر لیا کرتے اور موقع ملے تو ایک دوسرے کی دیواریں ٹاپ کر بالمشافہ ملاقاتیں بھی ہوجایا کرتی تھیں۔ گزشتہ 70 برسوں سے یہ سلسلہ جاری تھا اور اس دوران دونوں جانب نہ جانے کتنے پھول سے چہرے عمر رسیدگی کا شکار ہو کر اپنی آخری منزل کی جانب روانہ ہو چکے تھے اور کتنی ہی کلیاں کھل کر گل و گلزار کا روپ دھارے مزید گل ہائے رنگا رنگ کی خوشبوئیں مہکاتی جا رہی تھیں ۔ پھرایک دن اچانک یہ ٹوٹی پھوٹی فصیلیں ناقابل عبور قلعے کی فصیلوں میں تبدیل ہو کر رہ گئیں اور وہ دو گھرانے جو
یہ کیا کہ سچی رفاقتوں کی گھنیری چھاؤں کو ڈھونڈتے ہو ہرے بھرے کھیت بستیوں میں بدل کے گاؤں کو ڈھونڈتے ہو اندھیرے گھر میں گری ہوئی سوئی ڈھونڈنا جب نہیں ہے ممکن تو کیوں یہ پھیلائی جھوٹی باتوں کے ہاتھ پاؤں کو ڈھونڈتے ہو کسی کے آنچل نہیں ہیں محفوظ گر سروں پر تمہارے ہاتھوں تو کس بنا پر تم اپنے گھر کے لیے رداؤں کو ڈھونڈتے ہو یہ نیک لوگوں کی بستیاں ہیں یہاں بنے گا مذاق ہر سو تمہای سادہ دلی کا یارو جو ہمنواؤں کو ڈھونڈتے ہو بتاؤ کیا اس زمیں کے تم پر تمام در بند ہو چکے ہیں تلاش کرنے نئے ٹھکانے جو تم خلاؤں کو ڈھونڈتے ہو نہ کوئی کنکر نہ اینٹ پتھر کسی نے مارا نہ روکا ٹوکا تو اجنبی شہر میں بھلا تم کن آشناؤں کو ڈھونڈتے ہو بہت پکارا تڑپ تڑپ کر پلٹ کے دیکھا نہیں تھا اب کیوں زمین
اپنے سینے سے لگالے مجھے اکمل کر دے ماں میں انسانِ مجمل ہوں مفصل کردے اے مرے ابر معاصی تو مری آنکھوں سے ٹوٹ کر اتنا برس روح کو جل تھل کردے تیرا یک ٹک مجھے یوں دیکھتے جانا جاناں مجھ سے پاگل کو کہیں اور نہ پاگل کردے خوف آتا ہے ترا قرب یہ لمحے بھر کا زندگی بھر نہ مری روح کو بے کل کردے اپنی آنکھوں میں سجانے کو دکھا کر جلوہ تو مجھے طور بنادے مجھے کاجل کردے وہ مرا ہے، وہ نہیں، اور کا، اِس کا، اُس کا یہ تردد نہ مری سوچ کے پر شل کردے تو جو چاہے تو مری روح کے اندر بس کر لاکھ برسوں کے برابر مرا پل پل کردے کام چلتا ہے کبھی یار فقط دعووں سے عمر بھر ساتھ مرا، ساتھ ذرا چل کر دے انتہائیں ہیں اگر راس تو اللہ میرے موجِ دریا سا بنا دے یا
میں ملک کے سب سے بڑے شہر کے سب سے بلند ٹاور کی نویں منزل کے ایک اپارٹمنٹ کا مالک تھا۔ اپارٹمنٹ اور اپنی زمین اپنا گھر کا مقابلہ تو نہیں لیکن جو بھی آتا وہ یہی کہتا کہ بے شک آپ ایک فلیٹ میں رہتے ہیں لیکن یقین مانیں فلیٹ میں آنے کے بعد یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ کوئی فلیٹ ہوگا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ اپارٹمنٹ کی ڈیزائیننگ کی ہی کچھ اس انداز میں گئی تھی جیسے کوئی مکان ہو۔ ہر فلیٹ کارنر فلیٹ تھا اور اس کے دو ٹیرسوں میں سے ایک ٹیرس کو چھوٹے سے باغیچے کی شکل دے کر ایک عجب سا منظر دے دیا گیا تھا۔ شہر کی سب سے بڑی شاہراہ پر ایسی کئی عمارتیں تھیں لیکن ان میں سے کسی کو بھی ایسی انفرادیت حاصل نہیں تھی۔ میرا مناسب سا کار و بار تھا اور اللہ تعالیٰ کی
شروع شروع جب پاکستان میں کمپیوٹر اتنا عام ہونے لگا کہ گھروں کے دروازوں پر اس کی دستک سنائی دینے لگی تو مجھے اس بات کی تو بے حد خوشی ہوئی کہ اس میں نہ صرف ہر فرد کے مزاج کے مطابق بہت کچھ دیکھنے، سننے اور پڑھنے کے بصارتی، صوتی اور تحریری لوازمات موجود ہیں بلکہ ہر قسم کی تحریریں، کتابیں، اخبارات اور رسائل بھی ہیں جن کو دیکھ کر، سن کر اور مطالعہ کرکے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن دکھ اس بات کا ہؤا کہ اردو کے زبان و ادب سے تعلق جوڑنے والے بہت بڑے بڑے ذخیرے دور دور تک دکھائی نہیں دیا کرتے تھے۔ اب اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہر قسم کی علمی معلومات مکڑی کی اس جالے، جس کو ویب سائٹ اور انٹر نیٹ کے نام سے پکارا جاتا ہے،میں دیکھی، سنی اور پڑھی جا سکتی ہیں۔ بے شک اب
میں اوسط سے بھی کہیں کم درجے والا ایک عام سا شہری کبھی نیم سرکاری ملازم ہؤا کرتا تھا۔ آج کل دس برس سے گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہا ہوں۔ ایک مرتبہ مجھ سے کسی صاحب نے پوچھا کہ آج کل آپ کیا کر رہے ہیں تو میں نے جواب میں کہا کہ گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہا ہوں، میرا جواب سن کر نہ جانے وہ کیوں کھلکھلا سے گئے۔ پہلے تو ان کا یہ کھلکھلانہ پن مجھے سمجھ میں نہیں آیا لیکن جب انھوں نے مجھے اپنی خود ساختہ خانقاہ میں شرکت کی دعوت دی تو بات سمجھ میں آئی۔ بات یہ ہے کہ ہم نے انگریزی الفاظ کو جس تیزی کے ساتھ اپنا لیا ہے اور ہر آنے والے منٹوں اور سیکنڈوں میں اپناتے چلے جا رہے ہیں، لگتا ہے کہ اردو ادب ہی نہیں بلکہ ہر قسم کی خدمات کے جتنے بھی ذخائر ہیں سب
میں ظلمتوں سے بغاوت میں مارا جاؤں گا اے روشنی تری چاہت میں مارا جاؤں گا جہالتوں کی نحوست مجھے نگل لے گی میں زعم فہم و فراست میں مارا جاؤں گا میں بچ گیا بھی اگر ظالموں کے چنگل سے تو منصفوں کی عدالت میں مارا جاؤں گا میں سر بچا کے عدو سے اگر نکل بھاگا تو ساری عمر، ندامت میں مارا جاؤں گا جو آ گئی تو کوئی بھی نہیں ٹلا سکتا ہر ایک حال میں صورت میں مارا جاؤں گا تھی رہبروں سے شکایت، نہ تھی خبر مجھ کو میں آج اپنی قیادت میں مارا جاؤں گا خدا کا حکم اگر ہوں تو کیسے سمجھاؤ میں مر گیا تو حقیقت میں مارا جاؤں گا عدو سے پھر بھی ہے امید میں مرا جب بھی تو دوستوں کی معیت میں مارا جاؤں گا خدا پہاڑ سی دولت بھی گر مجھے دے دے میں اور اور کی چاہت
اخلاص و محبت سا وہ پیکر نہ ملے گا باہر سے ہے جیسا مرا اندر نہ ملے گا حق گوئی پہ سر کاٹنا ہے کاٹ دو لیکن تم کو مری آنکھوں میں کوئی ڈر نہ ملے گا پا کر نہ تجھے جیتے جی مر جاؤںگا، میرا گر تیرے مقدر سے مقدر نہ ملے گا ہاں سرمہ لگی آنکھ سا دو رنگ کا موتی جز اشکِ بتاں ایک بھی گوہر نہ ملے گا یوں چاہنے والے تجھے مل جائیں گے لیکن کوئی بھی مرے قد کے برابر نہ ملے گا ہو جس میں پیاسوں کے لیے دریا دلی بھی دنیا میں کوئی ایسا سمندر نہ ملے گا جھک جائے گا ظالم جو ترے جبر سے ڈر کر شانوں پہ مرے ایسا تجھے سر نہ ملے گا سکہ، کوئی سونے کا نہ چاندی کا ہوں، مجھ میں ہاں کھوٹ تجھے ذرہ برابر نہ ملے گا ہر اک کو سبق رہ سے بھٹک
بس بہت ہو گیا اپنے دل میں ذرا الفتوں چاہتوں کو جگہ دیجیے مدتوں سے جما نفرتوں کا غبار اپنے ذہن و نظر سے اڑا دیجیے ظلمتِ شب سے شکوہ بجا آپ کا پھر بھی لازم ہے یہ روشنی کے لیے ہو سکے اپنے خونِ جگر سے کوئی اک دیا راستے میں جلا دیجیے مر چکے ہیں اگر دل تو غم کس لئے ان کو زندہ کریں حشر برپا کریں صور اک پھونک دیں ہر طرف اور پھر ہر قدم پر قیامت اٹھا دیجیے آپ بیشک نہیں راہبر مہرباں رہنما ہی سہی، راہ میں جو کئی لے کے جائے جو منزل کی جانب مجھے ان میں وہ راستہ تو بتا دیجیے دشمنوں کی نہ باتوں میں آپ آئیے شک نہیں کیجئے میرے اخلاص پر میں نہیں بے وفا بے وفائی کروں پھر جو دل چاہے مجھ کو سزا دیجیے منزلیں دور ہیں اور رستہ کٹھن ،کوئی تو لے مرے ہاتھ
دل سے ہر شک نکالیے صاحب اب نہ شجرے کھنگالیے صاحب چاند کا دل دھڑک رہا ہوگا اپنا آنچل سنبھالیے صاحب اک ذرا سی زبان نے کتنے دوست دشمن بنا لیے صاحب تم بھی اپنی کمر کو کس رکھو ہم نے لنگر اٹھالیے صاحب کتنے کلیوں سے پھول چہروں کے وقت نے، رنگ کھالیے صاحب خون کیوں آنکھ میں اتر آیا شک کو دل سے نکالیے صاحب بعد مدت ملیں کفِ افسوس وقت اتنا نہ ٹالیے صاحب ایک ہم کیا، عطا ہوئے لمحے کس نے کتنے بچالیے صاحب آپ ہی کچھ کہیں کہ اس دل کو کتنے سانچوں میں ڈھالیے صاحب کب پلٹ جائیں دن، کسی سر کی پگڑیاں مت اچھالیے صاحب جلوہ گر آج حبیبؔ ہوتے ہیں اپنی آنکھیں سنبھالیے صاحب