عینی عرفان

کُن – بتول فروری ۲۰۲۳

سکینہ تھکے تھکے قدموں سے گھر میں داخل ہوئی تو گھر کے مکینوں کی آنکھوں میں سکون دوڑ گیا۔ اس گھر میں کئی جانوں کی بھوک کو آسودگی سکینہ کی واپسی پر ہی میسر ہو پاتی تھی سکینہ باآواز بلند سلام کرکے سب سے پہلے آنگن کے کونے میں چھلنگا سی چار پائی پر بیٹھے ملنگے کی طرف بڑھی جس نے اماں کو دیکھتے ہی تالیاں بجانا شروع کردی تھیں ۔سکینہ نے اپنی چادر کے کونے سے اس کی بہتی ہوئی رال صاف کی اور کاغذ میں لپٹی نمک مرچ والی شکرقندی اس کے آگے رکھ دی۔ شکر قندی دیکھ کر ملنگے کی آنکھوں میں خوشی دوڑ گئی ۔ شکرقندی ملنگا کی واحد عیاشی تھی جو اماں سکینہ ہفتے میں ایک بار ضرور کراتی تھی ورنہ تو روز اس کے سامنے بیگم صاحبہ کے گھر سے بچے ہوئے سالنوں کا ملغوبہ ہی رکھا جاتا جو بیگم صاحبہ اپنی آلکسی یا

مزید پڑھیں

ماتم – بتول جنوری ۲۰۲۳

عبدالباقر ایک ترقی پذیر ملک کے سب سے گنجان آباد شہر کےجنوب میں ایک متوسط محلے میں قدرے زمین میں دھنسے ہوئے دو کمروں کے گھر کا مکین تھا ۔اس کا گھر سڑک سے تقریباً دو فٹ نیچے تھا۔ سال کے سال سڑک پر روڑی ڈال کے کالا پانی پھیر دیا جاتا تھا جو مون سون کے پہلے چھینٹے میں ہی بیٹھ جاتا۔ جانے کس کی کرم نوازیاں تھیں جو ہدایت اللہ کے گھر کو بتدریج قبر سے مشابہہ کر رہی تھیں۔ اس کے پاس نہ پکڑنے کے لیے کوئی گریبان تھا نہ انگلی اٹھانے کی اوقات۔نہ جانے کتنے سالوں سے اس کے شہر کے وارث ہی اس شہر سے لاوارثوں جیسا سلوک روا رکھے ہوئے تھے ۔ کیا نام تھا اس کے شہر کا ؟چلیے جانے دیجیے،اپنا ہی پیٹ کیا ننگا کرنا! پچھلے ایک مہینہ کی بارش نے عبدالباقر کی تقریباً ساری گھر ہستی تباہ کردی تھی ۔گھر کے

مزید پڑھیں

قربانی – بتول جولائی۲۰۲۲

مدیحہ ارحم کو کندھے سے لگائے بے چینی سے کمرے میں چکرا رہی تھی۔ کبھی دل میں غصہ کی لہر اُٹھتی توکبھی رونا آجاتا ،کبھی اضطراب سوار ہوتا تو کبھی شرمندگی گھیر لیتی۔ کسی طور چین نہیں تھا ۔ بات صرف اتنی سی تھی کہ اباجی اور فیصل بکرا لینے گئے ہوئے تھے۔ مگر بات شاید اتنی سی نہ تھی۔ اگر اتنی ہی ہوتی تو وہ خوشی خوشی انتظار کر رہی ہوتی ۔پر اصل بات یہ تھی کہ ابا جی اور فیصل ،بھابھی کا بکرا لینے گئے ہوئے تھے ۔ مدیحہ کو بکروں سے عشق تھا، مانو بچپن کی محبت تھی ۔شادی سے پہلے ابو جب بھی قربانی کا بکرا لاتے ہمیشہ آتے ہی رسی مدیحہ کے ہاتھ میں پکڑاتے۔ ’’یہ لو بھئی آگیا میری بیٹی کا بکرا …..اب اس کی عید تک خوب خاطر مدارت خدمت سب تمہاری ذمہ داری‘‘۔ اور واقعی مدیحہ بکرے کے ناز نخرے اٹھانے میں

مزید پڑھیں

کچی مٹی – بتول اگست ۲۰۲۲ – عینی عرفان

’’مجھے نہیں کھانے یہ بینگن…. آپ کو کچھ بھی اچھا پکانا نہیں آتا مما…. ہر وقت یہ سبزیاں پکا کر رکھ دیتی ہیں‘‘ تابش نے ناگواری سے ٹرے پیچھے کھسکائی۔ ’’تمہارے بابا کوئی مل اونر نہیں ہیں جو روز مرغ مسلّم بناؤں گی۔اتنی مہنگائی ہے اتنی مشکل سے خرچہ پورا کرتی ہوں پر نواب صاحب کے نخرے ہی ختم نہیں ہوتے‘‘۔ مریم غصےمیں ذرا اونچی آواز میں بولی، پر آج کے بچے کب کسی کی اونچی آواز برداشت کرتے ہیں خواہ سامنے والدین ہی کیوں نہ ہوں۔ ’’تو یہ بینگن بھی نہ پکاتیں، اپنی بچت کا گلّہ بھر لیتیں…. ہم بھوکے مریں آپ کو اس سے کیا‘‘ تابش نے چیخ کر جواب دیا اور ٹرے کو مزید زور سے دھکیلتا ہوا تن فن کرتا اپنے کمرے میں بند ہوگیا۔ مریم بھی غصہ میں اس کو مارنے کو لپکی پر تابش دروازہ مقفل کرچکا تھا۔ مریم کا دماغ کھولنے لگا، وہ

مزید پڑھیں

میرے اپنے – بتول مئی ۲۰۲۳

ساحر زیرِ تعمیر بلڈنگ سے باہر نکلا تو چلچلاتی دھوپ نے استقبال کیا۔ تپتی دھوپ میں تیزی سے گزرتا ہو&ٔا گاڑی میں بیٹھا اور سکون کا سانس لیا ۔اے سی کی ٹھنڈک سے کچھ اوسان ٹھکانے آئے۔ آج رمضان المبارک کا دوسرا روزہ تھا۔ گرمی اپنے عروج پر تھی۔ وہ اپنے تعمیراتی کام کا معائنہ کرنے اپنے عملہ کو ہی بھیجتا تھا ۔البتہ گزشتہ کچھ دن سے متواتراس کی میٹنگ سائٹ پر ہی ہورہی تھی۔ آج دھوپ بھی خوب تیز تھی،اتنی سی دیر میں ہی وہ گرمی سے بےحال ہوگیا تھا۔ اس نے پانی کی بوتل کو منہ لگایا اور گاڑی اسٹارٹ کی۔ سامنے نظر پڑی تو بے اختیار ماتھے کو چھوا۔ فائل تو وہ اوپر ہی بھول آیا تھا! اب واپس ٹھنڈی ٹھار گاڑی سے نکل کر پانچویں منزل تک جانا سوہانِ روح تھا۔رمضان کی وجہ سے کام رکا ہؤا تھا، مزدور بھی نہیں تھے۔ اس نے ارد گرد

مزید پڑھیں

فیروزہ – بتول جون ۲۰۲۳

الحمدللہ خدائے بزرگ نے تخیل کی پرواز وسیع رکھی ہے۔ لفظوں کی بنت کیسے کہانی میں ڈھل جاتی ہے، پتہ ہی نہیں چلتا۔ مگر اس دفعہ صائمہ جی کی منفردتجویزتھی۔ خیال کو مہمیز دینے کے لیےیادوں کی پٹاری کھولنی تھی۔ ہم نے سوچ کے در وا کیے اور ماضی کے جھروکوں میں کسی مددگار کو ٹٹولا۔ ٭ ہر خاندان کا اپنا مزاج اپنا اصول ہوتا ہے۔ شادی کے بعد سسرال میں مدد گار رکھنے پہ سختی سے ممانعت تھی۔ دو دہائیاں گزرنے کے بعد بھی یہ ریت برقرار رہی۔ سو یادوں کے گھوڑے کو ایڑ دی اور سر پٹ دوڑاتے جا ٹھہرے سولہ سال کی کھٹی میٹھی بانکی عمر میں،جب بچپن کو دامن سے جھٹکنے کی کوشش ہوتی ہے، خود کو عقلِ کل سمجھا جاتا ہے۔ میکے کا آنگن، بے فکر عمریا، حسن کے چرچے، ذہانت کے ڈنکے، اترانے کے لیے اور کتنے لوازم کی ضرورت ہوگی؟ سو مغرور تھے

مزید پڑھیں

دار الخلد

  یہ مواد صرف سبسکرائبرز کے لیے ہے براہ کرم اس مواد کو انلاک کرنے کے لیے سبسکرائب کریں۔ سالانہ Rs 1500 / year پلان حاصل کریں ماہانہ Rs 150 / month پلان حاصل کریں

مزید پڑھیں

مقناطیس – عینی عرفان

  یہ مواد صرف سبسکرائبرز کے لیے ہے براہ کرم اس مواد کو انلاک کرنے کے لیے سبسکرائب کریں۔ سالانہ Rs 1500 / year پلان حاصل کریں ماہانہ Rs 150 / month پلان حاصل کریں

مزید پڑھیں