عالیہ حمید

داستان – بتول دسمبر ۲۰۲۰

ایک نیم پختہ سڑک پر سے فوجی جیپ اپنی مناسب رفتار سے چلتی آ رہی تھی۔ ڈرائیور کے پہلو میں کیپٹن عاصم اسلم بلیک گوگلز آنکھوں پر لگائے اپنا بایاں بازو جیپ کی ونڈو میں ٹکائے اتنا با رعب اور مضبوط لگ رہا تھا کہ جیسے دشمن کو چیرنے پھاڑنے کے لیے ایک اشارے کا منتظر ہو۔سڑک پر جب کبھی کبھار کوئی بچہ یا بائیک پر جاتا ہؤا کوئی نوجوان یا شوخ و چنچل لڑکیاں پاک فوج کی محبت میں دور سے ہی اس کی جیپ دیکھ کر آرمی آرمی کا نعرہ لگاتیں، اس کے کندھے قرض کے بوجھ کو محسوس کرنے لگتے۔ اور جب وہ محبت سے اپنا ٹوٹا پھوٹا سلیوٹ پیش کرتے اس کا دل باغ باغ ہو جاتا۔ اس کے جوابی کڑک سلیوٹ پر جب خوشی کے نعرے لگتے تو اس کی روح تک سرشار ہو جاتی۔ بچوں کو تو وہ محبت سے ہاتھ ہلا کر جواب

مزید پڑھیں

چناب کنارے – بتول دسمبر ۲۰۲۱

چناب کنارے ایک بھیڑ تھی۔ موبائلز کے کیمروں سے مسلسل ویڈیوز بنائی جا رہی تھیں،رخ ان کا دریا کے تیز بہاؤ کی طرف تھا،شور کافی زیادہ اور کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔سب لوگ دریا کی طرف مسلسل دیکھے جا رہے تھے ،گویا کہ پورا وجود ہمہ تن گوش جیسا کہ کوئی راہب گیان دھیان میں مصروف ہو اور اسے اپنے ارد گرد کی کوئی ہوش نہ ہو۔ مجھے گوجرانوالہ تعلیمی بورڈ ایک کام کے سلسلے میں جانا تھا۔ جب چناب کے کنارے پہنچا تو یہ منظر دیکھ کر مختلف برے برے خیالات آنے لگے۔ گاڑی ذرا اور قریب آئی تو دریا کے تیز بہاؤ کے درمیان محسوس ہؤا جیسے کالے رنگ کے لباس میں غوطہ خور تیرتے چلے جارہے ہیں،میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہاں غوطہ خوری کا کوئی مقابلہ جاری ہے یا پھر کچھ افراد ڈوب گئے ہیں جن کو بچانے کے لئے اتنے سارے غوطہ

مزید پڑھیں

گواہی – بتول فروری ۲۰۲۲

گلی میں پانی بہانے اور کوڑا کرکٹ گرانے پر گلی کے دونوں طرف کے گھرانوں میں جھگڑا تو پہلے بھی ہوتا تھا اور گالی گلوچ کر کے دونوں طرف کی خواتین چپ ہو کے بیٹھ رہتی تھیں۔ مگر آج تو حد ہو گئی ۔ سامنے والوں کے چار مرد ان غریبوں کے گھر گھس گئے اور گھر کی بوڑھی اماں کے روکنے پر اس کو جھڑک دیا۔ ایک ڈنڈا بھی ماراوہ بھی دائیں بازو پر، ایک سرخ لکیر کا نشان پڑ گیا۔ یہ جسارت اس لیے کی کہ وہ کھاتے پیتے اور اچھے گھر کے مالک تھے اور دوسرے غریب اور معمولی سے گھر میں دو وقت کی روٹی کا مشکل سے بندوبست کرتے تھے ۔ رکشہ چلا کر گھر کا خرچ پورا کرنے والے بیٹے سے ماں کے ساتھ یہ سلوک نہ دیکھا گیا ۔اس نے آگے بڑھ کر ایک دو گھونسے تو رسید کیے مگر وہ چار تھے

مزید پڑھیں

کشتِ ویراں – بتول فروری ۲۰۲۳

میں نے جلدی سے حاضری صفحہ پر دستخط کیے اور رجسٹر ملازم کے حوالے کرتے ہوئے کافی دیر سے بجنے والے موبائل پر توجہ کی۔ موبائل پر فاریہ کا نام چمک رہا تھا۔ ’’اوہ آج فاریہ کا سیکنڈ ائیر کا رزلٹ آنے والا تھا۔ یا اللّٰہ خیر کرنا ۔ اس کومایوس نہ کرنا۔ اس نے اور میں نے یہاں تک پہنچنے کے لیے بہت سہا ہے‘‘۔میرے دل سے بے اختیار دعا نکلی۔ یہ اس بچی کی کہانی تھی جو آج سے سات سال پہلے میرے سکول ششم کلاس میں داخلہ لینے آئی تھی ۔داخلے کے وقت کافی بحث مباحثہ ہوا،کلاس ٹیچر اس کے داخلہ ٹیسٹ کے نتیجے پر بالکل مطمئن نہ تھی کہ اسکو لکھنا نہیں آتا ، ریاضی کی جمع تفریق نہیں آتی، انگلش کی درخواست نہیں آتی، حتیٰ کہ اردو کی جوڑ توڑ بھی ٹھیک سے نہیں کر سکتی۔ میں نے بطور سربراہ ادارہ کچھ تو اپنی روایتی

مزید پڑھیں

بکھرے ہوئے موتی – بتول جنوری ۲۰۲۳

’’میں بچے کو کسی صورت نہیں چھوڑ سکتی ….بچے کو خود سے جدا نہیں کر سکتی ‘‘بچے کو سینے سے چمٹائے وہ سسکیاں لے کر رو رہی تھی۔ ’’کیا کریں ….‘‘ماں نے بے بسی سے اس کے والد کی طرف دیکھا جو خود بھی اپنی بیٹی کی اس ہذیانی کیفیت کو دیکھ رہے تھے اور وہ سر جھکائے کسی گہری سوچ میں غرق تھے۔ یہ ساتواں رشتہ تھا جو بہت معقول بھی تھا ،مگر وہ بچے کو ساتھ نہیں رکھنا چاہتے تھے اور اپنی بیٹی کی بچے کو ساتھ رکھنے کی خواہش کی وجہ سے پہلے بھی کئی رشتے منع کر دیے کہ مطلقہ بیٹی کا اصرار تھا کہ دوسری شادی کر لے گی مگر اپنے تین سالہ بچے کو ساتھ ہی رکھے گی۔ اب کےرشتہ کچھ معقول تھا کہ آج کے دور میں بیٹیوں والے اسی کی تلاش اور فکر میں رہتے ہیں اور پھر بیٹی اگر طلاق یافتہ

مزید پڑھیں

ثقافت – بتول جولائی۲۰۲۲

موبائل پر نمبر ملا کر حال احوال بتا کر انہوں نے بڑی امید کے ساتھ لائن پر موجود مہک سے پوچھا۔ ’’آپ کے کام کا کیا بنا ؟ ‘‘ کچھ دیر مہک کی بات سنتی رہیں پھر مایوس سا اللہ حافظ کہا اور کال ختم ہو گئی ’’ چلو کہیں نہ کہیں سے مل ہی جائے گا چرخہ‘‘ پھر یکدم خیال آیا کہ مس افشین سے’’چکی‘‘ کی بابت پوچھ لوں انہیں کال کی بجائے پیغام لکھ کر واٹس ایپ کر دیا اور حیران کن حد تک جلد ہی جواب آگیا ۔ ’’جی چکی کا انتظام ہو گیا ہے، کل ملازم بھیج کر خالہ شکیلہ کے یہاں سے اٹھوا لیں،کافی بھاری ہے ‘‘۔ جواب سن کر ذرا سا مطمئن ہو گئیں مگر خیال پھر مس مہک کی جانب چلا گیا کہ ان سے کام نہیں ہو سکا۔ اتنے میں مس مبین کی کال آگئی۔ ’’ہاں مبین تو بہت ایکٹو ہے جس

مزید پڑھیں

ایک رات کی کہانی – بتول اگست ۲۰۲۲ – عالیہ حمید

یہ 1947کی ایک اداس رات ہے مگر سیاہ اور خاموش نہیں ۔ چاندنی اور ریل نے اسے سفید اور شور زدہ کر دیا تھا۔ چاندنی کسے نہیں اچھی لگتی مگر آج اس ریل پر سوار ہر مسافر کی یہی دعا تھی کہ چاند بادلوں میں چھپ جائے اور ریل بنا آواز کے سفر کرے۔ چاندنی کی ہر کرن اور ریل کی مسلسل چھکا چھک ان کے سینے میں تار کول انڈیل رہی تھی کہ وہ ایسے سفر کے راہی تھے جہاں قدم قدم پر موت کی سنسناہٹ سنائی دیتی تھی۔ یہ پریشان حال مسافر ہجرت کی صعوبتیں برداشت کرتے بھار ت سے پاکستان جانے والی ریل میں دھڑکتے دلوں کے ساتھ محو سفر تھے۔ ریل نے اپنی استطاعت سے زیادہ وزن اٹھا رکھا تھا۔ جن کو اندر جگہ نہ ملی وہ چھتوں ، کھڑکیوں اور دروازوں میں چپکے تھے،ہاتھ سن ہو چکے تھے مگر دشمن سے بچ کر پاکستان پہنچنے

مزید پڑھیں

لے سانس بھی آہستہ! -بتول اپریل ۲۰۲۳

ڈھابے پر کھانا کھاتے یونیورسٹی کے تین دوستوں احمد ، عدیل اور شارق کے بیچ بحث چل پڑی کہ کھانا اور نصیب کا آپس میں کیا تعلق ہے۔ ’’یہ سالن کی رکابی آگے کرنا ذرا‘‘ ان میں سے احمد جو کھانے کا رسیا تھا مگر جسم کا پھرتیلا تھا ، رکابی کی طرف اس وقت تیزی سے ہاتھ بڑھایا جب ڈھابے کا ملازم میز پر کھانا رکھ کر گیا۔ ’’کھانا جو ہوتا ہے وہ نصیب کا ہے، کھائے بغیر بندہ مر نہیں سکتا ، جلدی کیا ہے بھئی ، یہ لو‘‘ ان میں سے عدیل جو کھانے پینے کا کوئی خاص شوقین نہیں تھا مگر کتابی کیڑا تھا ،بولا اور رکابی آگے بڑھا دی۔ ’’ہائیں! اس کا مطلب بندہ کھانا کم کر دے تو اس کی عمر لمبی ہو سکتی ہے‘‘ شارق نے جو بھرے ہوئے جسم کا مالک تھا اور چٹورا لگتا تھا ، کھانے سے ایک لمحے کو

مزید پڑھیں

بتول میگزین

  یہ مواد صرف سبسکرائبرز کے لیے ہے براہ کرم اس مواد کو انلاک کرنے کے لیے سبسکرائب کریں۔ سالانہ Rs 1500 / year پلان حاصل کریں ماہانہ Rs 150 / month پلان حاصل کریں

مزید پڑھیں

یہ ہے دو گھرانوں کی کہانی!- بتول جولائی ۲۰۲۱

مسز جلیل عالی شان کوٹھی میں دوسری منزل کے ایک سجے سجائے بیڈروم کے بیڈ پر آج کی خریداری کے تمام لوازمات انڈیلے بیٹھی تھیں۔چاروں بچے اپنے اپنے بیڈ رومز سے بہت دفعہ بلانے کے بعد آئے تھے۔کسی کے کان میں ہیڈفون لگا ہےتو کسی کے ہاتھ میں موبائل اور کوئی انگڑائیاں لیتا ہؤا چلا آ رہا ہے۔لیکن عید کی شاپنگ کا سامان دیکھتے ہی سب کی سستی جاتی رہی،بھاگ کر چیزیں اٹھا اٹھا کر دیکھنے لگے۔ ’’اوہ ماما یہ کلر تو فرحان چچا کے بیٹے نے بھی لیا ہے۔تو کیا اب میں اس جیسا کلر پہنوں گا ماما سائز تو ٹھیک ہے لیکن کلر چینج کرادیجیے‘‘ سب سے بڑے بیٹے نے تبصرہ کیا۔ ’’مام !شرٹ کا سائز اور کلر تو مجھے پسند آگیا ہے مگر پینٹ کا کلر کچھ میچ نہیں کرتا مام پلیز اس کو چینج کروا دیں‘‘چھوٹے کی بھی تسلی نہیں تھی۔ ’’اووو ں ں……ممی یہ تو

مزید پڑھیں

الیکٹرونک شرار – بتول اکتوبر ۲۰۲۱

آج سکول سے واپسی پر گاڑی میں دوستوں کے ساتھ ’’ شرار ‘‘ کے موضوع پر بحث ہوگئی ۔ میرا خیال تھا کہ شرار دور سے نظر آنے والی، آسمان سے اترتی ہوئی سرخ روشنیوں کا نام ہے ، جنہیں ہم بچپن میں دیکھ کر ڈرتے تھے اور شام ہوتے ہی گھروں کو واپس لوٹ آتے تھے۔جب کہ ایک دوست کا خیال تھا کہ شرار لفظ شرارت سے نکلا ہے یعنی اشرار کا ہم معنی،یہ ایسی تمام غیر مرئی مخلوقات ہیں جو انسان کو اس کے اصل کام سے ہٹا کر کسی دوسرے کام میں لگا دیتی ہیں مگر اس کو نقصان نہیں پہنچاتیں۔ وہ کہنے لگی مثلاً آپ کسی ویرانے میں کوئی کام کر رہے ہیں جیسے کھیتی باڑی، ہل چلانا دوستوں کے ساتھ کھیلنے جانا،اس ویرانے سے گزر کے سبزی لینے جانا،کسی رشتہ دار سے ملنا، حتیٰ کہ رفع حاجت کے لیے جانا،یا دوستوں کے ساتھ سیر سپاٹے

مزید پڑھیں