چڑیا / شبنم( نظم) – نور مارچ ۲۰۲۱
چڑیا آجا پیاری چڑیا آجا میری گود میں آن سماجا کب سے تجھ کو ڈھونڈ رہا ہوں تیری راہیں دیکھ چکا ہوں کیوں مجھ سے
چڑیا آجا پیاری چڑیا آجا میری گود میں آن سماجا کب سے تجھ کو ڈھونڈ رہا ہوں تیری راہیں دیکھ چکا ہوں کیوں مجھ سے
بادل زور سے گرج رہے تھے۔ آسمان پر جب بجلی کڑکتی ننھی مانو کا دل سہم جاتا۔ ’’اللہ جی! بارش نہ ہو۔۔ مجھے بہت ڈر
’’ بنٹی بیٹا کہاں چھپ گئے؟‘‘ بنٹی کی امی نے تولیہ ہاتھ میں لیتے ہوئے کمرے میں ادھر اُدھر دیکھا ۔ ’’ میں یہاں ہوں
پارک میں کھیلتے کھیلتے تبریز میاں کی نظر جامن کے ایک درخت پر پڑی، اور وہ اس کے پاس آگئے۔ ’’اچھا درخت ہے!‘‘انہوں نے اس
گرمی ہے چل کر نہر میں نہائیں اسی بہانے سیر کر کے آئیں آئو ناں بچو تیار ہو لو فوراً ہی گھر سے باہر نکل
حضرت شاہ عبد الطیف بھٹائی صوبہ سندھ کے ایک بہت بڑے صوفی بزرگ گزرے ہیں جنھوں نے اپنی زندگی کے کئی برس ایک ٹیلے پر
ہم اپنے بڑے نانا جان کو ملنے گئے ان کا نام ڈاکٹر محمد احمد ہے ۔ باتیں کرتے کرتے کہنے لگے ہم امرتسر رہتے تھے
کتنا خوبصورت منظر تھا ، کیا حسین نظارہ تھا ، ہر طرف ہریالیاں تھیں ، پیڑ پودوں پر بہار آئی ہوئی تھی ، رنگ برنگ
گنڈیریاں آئو منے میاں چوسو! گنڈیریاں ٹھیلے والے کے ہاں ہیں لگیں ڈھیریاں شان اللہ کی کتنی ہیں رس بھری میری گنڈیریاں تیری گنڈیریاں گائوں
سترھویں صدی کے آخر تک حکماء پانی کو ایک عنصر مانتے تھے ۔ پھر 1780ء میں ایک مشہور انگریز کیمیا دان ہنری کیونڈش(Henry Cavendish)نے دریافت
ادارہ بتول کے تحت شائع ہونے والی تمام تحریریں طبع زاد اور اورجنل ہوتی ہیں۔ ان کو کہیں بھی دوبارہ شائع یا شیئر کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ساتھ کتاب اور پبلشر/ رسالے کے متعلقہ شمارے اور لکھنے والے کے نام کا حوالہ واضح طور پر موجود ہو۔ حوالے کے بغیر یا کسی اور نام سے نقل کرنے کی صورت میں ادارے کو قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہو گا۔
ادارہ بتول (ٹرسٹ) کے اغراض و مقاصد کتابوں ، کتابچوں اور رسالوں کی شکل میں تعلیمی و ادبی مواد کی طباعت، تدوین اور اشاعت ہیں تاکہ معاشرے میں علم کے ذریعےامن و سلامتی ، بامقصد زندگی کے شعوراورمثبت اقدار کا فروغ ہو
Designed and Developed by Pixelpk