شہلا خضر

ناسمجھ – بتول دسمبر ۲۰۲۰

’’کتنے بورنگ ہیں آپ ۔پورا چھٹی کا دن سو کر برباد کر دیتے ہیں ۔ دوپہر کے کھانے پرسب انتظار کر رہے ہیں اورمسٹر جان عالم کی تو ابھی صبح ہی نہیں ہوئی ‘‘۔
مہک گھر کے سب کام نمٹا کر کمرے میں داخل ہوئی اور اپنے شوہر جان عالم کو بے فکری سے سوتا دیکھا تو اسے بہت جھنجھلاہٹ ہوئی۔ انہیں جگاتے ہوئے اس کا لہجہ شکوہ بھرا تھا۔
’’مجھے ایک ہی دن چھٹی کا ملتا ہے میڈم کبھی میرے بارے میں بھی سوچ لیا کریں‘‘۔
جان عالم کو خواب خرگوش کے درمیان اپنی بیگم کی یوں اچانک در اندازی بالکل پسند نہ آئی ۔انہوں نے چادر کھینچ کر منہ پر تان لی ۔
’’ واہ بھئی کیا بات ہے …..آپ کو تو ایک چھٹی کا دن مل ہی جاتا ہے آرام کے لیے ہمیں تووہ بھی نصیب نہیں ۔صبح سے باورچی خانے میں کھڑی آپ کی پسند کے پکوان پکا رہی ہوںاورآپ کو احساس ہی نہیں‘‘۔
مہک کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو چھلک گئے۔
’’اوفوہ اب رونا دھونا مت شروع کردینا…..تم جانتی ہو کہ مجھے یہ فلمی ادائیں ایک آنکھ نہیں بھاتیں‘‘جان عالم نے چادر منہ سے ہٹا کر رکھائی سے کہا ۔
’’یہی بات طریقےسے بھی توکی جاسکتی تھی کہ بیگم میں تمہاری…

مزید پڑھیں

پانی اتر گیا – مارچ ۲۰۲۱

آج تو کوئی معجزہ ہی سکینہ کو بچا سکتا تھا ۔ڈر کے مارے سکینہ کا رنگ فق ہو چکا تھا ۔زیبو کاغصہ ٹھنڈا ہونے کا نام ہی نہ لے رہا تھاــ\۔بھائیوں کی اکلوتی لاڈلی بہن زیبو کی من پسند تلّے موتی کے کام والی قمیض دامن سے بری طرح پھٹی ہوئی تھی اور سکینہ کی بد قسمتی یہ تھی کہ پچھلے روز دھو کر اس نے ہی چھت پر پھیلائی تھی اور آج جب اسے تار سے اتارا گیا تو وہ اس حال میں ملی اور بس سکینہ ہی مجرم ٹھہری۔
فیصل آباد کے نواحی گاؤں میں مقیم فضل دین کا گھرانہ ایک کاشتکار گھرانہ تھا ۔کچھ ایکڑ زرعی زمین ان کی ملکیت میں تھی جس پریہ محنت کش گھرانہ کپاس گندم اور دیگر اناج کاشت کرتے اور گزر اوقات اچھے سے ہوجاتی تھی ۔
اوپر تلے چاربیٹوں کی پیدائش ہوئی تو فضل دین اور اس کی بیوی صغریٰ چاچی نے ربّ کا شکر اداکیا کہ کھیت کھلیان پر ہاتھ بٹانے والے ہاتھ مل گئے ۔ زیبو کی صورت میں اللہ کی رحمت پا کر دونوں نہال ہو گئے ۔
زیبو کی پیدائش کے بعد فضل دین کی قسمت کا تارا یوں چمکا کہ چاروں جانب سے دولت برسنے لگی ۔قدرت کی کرم…

مزید پڑھیں

دو آنکھیں – بتول جنوری ۲۰۲۲

چار سو پھیلی صبح کی روپہلی کرنیں اپنے سنہری آنچل سے لہلہاتی فصلوں کو خراج تحسین پیش کر رہی تھیں ۔تاحد نگاہ پھیلےسروقد پٹسن کے ہرے بھرے سرکنڈے، ہوا کے دوش سے جھوم رہے تھے گھنے جھنڈ سے آتی جھینگروں کی آواز یں اور دور سے سنائی دیتی رہی مدھم دھن ۔
سب کچھ کتنا دلکش اور مسحور کن تھا ۔ قدرت کی صناعی کا شاہکار !
دریائے پدما کے کنارے واقع یہ بنگال کا چھوٹا سا گاؤں گوپال گنج تھا ۔ اس گاؤں کے باسی بہت ملنسار اور دریائے پدما کی وسعت جیسے وسیع القلب تھے ۔
تقسیم ہندوستان کے وقت بہت سے مسلمان ہجرت کر کے اس گاؤں میں آباد ہو، ان نقل مکانی کرنے والے افراد میں بڑی تعداد پٹنہ، بہار کے افراد کی تھی۔مقامی بنگالی آبادی نے ان کی حتی المقدور امداد کی ،انہیں اپنے علاقے میں آبادکیا اور روزگار فراہم کیا ۔۔
انہی ہجرت کرنے والے اور بلوائیوں سے جان بچا کر آنے والوں میں خیر الدین اور اس کی بیوی شائستہ بھی شامل تھے ۔خیرالدین کا تعلق بہار سے تھا پر نوکری کی خاطر وہ کلکتہ میں رہائش پذیر تھا ۔ ۔
خیر الدین تحریک آزادی کا سرگرم رکن تھا ۔ اسے پاکستان سے جنون کی حد تک محبت…

مزید پڑھیں

مسافتیں – بتول فروری ۲۰۲۲

میرا بے تاب دل آنے والی خوشیوں کے احساس سے سرشار تھا۔کئی روز سے جاری جدوجہد اور پاسپورٹ آفس میں دھکے کھانے کے بعد زندگی کا پہلا ’’ پاکستانی گرین پاسپورٹ‘‘ میرے ہاتھوں میں تھا ۔
میں جس چھوٹی سی کیمیکل فیکٹری میں ملازم تھا کوویڈ وبا کی وجہ سے وہ دیوالیہ ہو گئی نوکری ہاتھ سے نکل گئی تو گزر اوقات مشکل ہو گئی ۔میری بیوی شرمین بہت صابر اور باہمت عورت ہے ، اس نے اس مشکل وقت میں میری ڈھارس بندھائی ۔ اس کے مشورے پر ہم نے ہوم میڈ کھانوں کا کام شروع کیاوہ گھر سے کھانے اور فرائی آئیٹم پکا کر دیتی ‘ اور میں انہیں گھروں اور دفاتر میں سپلائی کرتا ۔یوں زندگی کی گاڑی آگے چلتی رہی ۔
طویل عرصے بعد وبا تو ختم ہو گئی پر نوکری بحال نہ ہوئی نوکری کی تلاش میں اپنی ماسٹرز کی ڈگری لے کر سیکڑوں دفاتر میں چکر لگائےپر سب بے سود ثابت ہؤا ۔ آخر کار بے روزگاری اور شدید مایوسی کے عالم میں میں نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ قسمت آزمائی کے لیے بیرون ملک جاؤں ۔ کچھ عرصہ کام کر کے سرمایہ جمع کروں پھر واپس لوٹ کر اپنے ملک میں زاتی کیمیکل کا…

مزید پڑھیں

قسمت کے پھیرے – بتول فروری ۲۰۲۳

جہاز تیزی سے اڑان بھرتا ہؤاکراچی ائیر پورٹ کی حدود سے دور نکل گیا ۔ کاک پٹ سے کیپٹن نے دعا کے بعد اپنا اور اپنے عملے کا تعارف پیش کیا۔پرواز کے نگران افسر نے ضروری سفری ہدایات سے مطلع کیا ۔
ڈبل گلاس کی ساؤنڈ پروف کھڑکی سے نیچے مکان ماچس کی ڈبیا کے برابر دکھائی دے رہے تھے ۔میں پلک جھپکائے بغیر انہیں دیکھ رہا تھا۔انہی گلیوں اور شاہراہوں پر میں نے زندگی کے کئی رنگ دیکھے تھے۔انہی ٹمٹماتی روشنیوں کے دور ہوتے عکس میں میں نے خوابوں کے کئی جزیرے تلاشے تھے۔میرے وجود اور میرے وجدان کو محبتوں کے رنگوں سے بھرنے والے تمام رشتے یہیں پر بسے تھے ۔آج انہیں تنہا چھوڑ کر میں سات سمندر پارجارہا تھا ۔
خلوص بھرے ہاتھوں سے دامن چھڑانا اور تنہائی کی اذیت ناک شام و سحر کو گلے لگانا کس کی چاہت ہوسکتی ہے!
پر تقدیر کے فیصلوں پر ہمارا زور نہیں چلتا ۔ہمیں تو بس چلتے جانا ہے انجان راہوں کے مسافر کی طرح….جسے راستوں کا علم نہیں پر چلنا اس کا مقدر ہو ۔
کچھ ہی لمحوں میں جہاز جست لگا کرہزاروں فٹ کی بلندی پر پہنچ گیا۔اب کھڑکی سے باہر اندھیرے کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔…

مزید پڑھیں

پس ِآئینہ کوئی اور ہے – بتول جنوری ۲۰۲۳

ماں جی کی آنکھوں سے ڈھیروں موتی جیسے آنسو گر گر کر بکھرتے جارہے تھے ۔وہ دلاسہ دینے پر اور زیادہ رونے لگتیں۔ ہم سب کے اوسان خطا تھے ۔بجیا کے آنگن میں دوسرا پھول کھلنے والا تھا ،وہ میکے رکنے آئی ہوئی تھیں ،دو دن سے وہی ہم سب کو سنبھال رہی تھیں۔ان دو دنوں میں غیر محسوس طور سے ابا کے جھکے شانے اور جھک چکےتھے۔بات ہی کچھ ایسی تھی ۔کسی سے کہتے تو وہ بھی ملامت ہی کرتا ۔لوگوں کا سامنا کرنے کی ہمت کہاں سے لائیں گے ۔سو سوالات سو اندیشے ۔ گھر بھر پر سوگ طاری تھا ۔
معاملہ ہی کچھ ایسا تھا کہ الفاظ کا دامن تنگ پڑ گیا تھا۔میرے خیال میں وہ اکیلا مجرم نہ تھا قصور تو ہم سب کا تھا۔ شمیم کی عمر سترہ برس سے اوپر ہو چکی تھی ۔وہ اکلوتا نر بچہ تھا جو ہماری ماں کی کوکھ سے پیدا ہؤا ہم سب بہنوں سے چھوٹا ، چھے بیٹیوں والے گھر میں اکلوتے بیٹے کی حیثیت ملک کے بادشاہ یا وزیراعظم سے کم نہیں ہوتی لاڈلا چہیتا بیٹا ماں باپ اور ہم سب بہنوں کا راج دلارا ۔
اباجی تو شروع سے ہی راضی برضا رہنے والے شریف النفس انسان تھے…

مزید پڑھیں

ٹھکانہ – بتول جولائی۲۰۲۲

بڑی مستعدی اور مہارت سے گھر کا رنگ و روغن جاری تھا ۔جو سامان باآسانی کھسکایا جا سکتا تھا اسے مزدوروں کی مدد سے صحن میں رکھوا دیا گیا تھا ۔بھاری سامان کو چادریں ڈال کر ڈھانپ دیا گیا تھا ۔برکت صاحب کے گھر برسوں سے اسی طرح رمضان المبارک کا استقبال کیا جاتا تھا ۔ نماز تراویح میں شرکت کے لیے آس پاس کی گلیوں سے بہت بڑی تعداد میں افراد ان کے گھر آتے ۔اب تو چند سال سے ان کاحافظ قرآن بیٹا اجمل بی تراویاں پڑھا رہا تھا۔دونوں بیٹیوں کے فرض سے فارغ ہو چکے تھے ۔بیٹا اعلیٰ دینی تعلیم حاصل کر رہا تھا ۔بس اب تو ایک ہی تمنا تھی کہ اپنی شریک حیات کے ساتھ حج کی سعادت بھی نصیب ہو جائے ۔اسی لیے اپنی محدود آمدنی میں سے کچھ نہ کچھ حصہ پس انداز کررہے تھے ۔
لائنز ایریا کی ان تنگ گلیوں میں وسیع صحن والا یہ واحد مکان تھا۔ اس کی پیمائش تو سب مکانوں کی برابر ہی تھی ‘ لیکن برکت قریشی کے گھر کا آنگن چار مکانوں کے برابر وسیع وعریض تھا۔اس کا معاملہ کچھ یوں تھا کہ کسی زمانے میں اس ساڑھے چار فٹ کی تنگ رو کے بیچوں بیچ…

مزید پڑھیں

روشن چراغ – بتول اگست ۲۰۲۲ – شہلا خضر

’’ثوبیہ تم تو بالکل پاگل ہو ، آجکل کے زمانے میں کون ایسی باتیں کرتا ہے؟خاندانی ،ویل سیٹلڈ لڑکے کو ٹھکرانا ناشکری نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘
زرمین نے اپنی بیٹی ثوبیہ کے مسلسل انکار سے زچ آکر کہا۔
بہروز ان کا لاکھوں میں ایک بھتیجا تھا ۔ اس نے اسلام آباد کی ٹاپ یونیورسٹی سے الیکٹریکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی تھی ۔اس کے بنائے سولر اینیرجی کار کے ماڈل کی پورے ملک میں دھوم مچی تھی ۔ حال ہی میں اسے بہت شاندار پیکیج پر امریکہ میں نوکری کی پیشکش ہوئی جو فوری طور پر اس نے قبول بھی کر لی ۔زرمین کے بھائی بھابھی ثوبیہ کے لیے اپنے بیٹے بہروز کا رشتہ مانگ چکے تھے۔ثوبیہ اور بہروز ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے ۔بہروز کے والدین اسے امریکہ بھجوانے سے پہلے ان دونوں کی شادی کروا دینا چاہتے تھے تاکہ وہ ثوبیہ کو بھی ساتھ لے کر جائے ۔
’’ماما مجھے بہروز کے پروپوزل پر کوئی اعتراض نہیں ہے مگر آپ جانتی ہیں نا میں اپنا وطن چھوڑ کر کہیں نہیں جانا چاہتی ‘‘۔
ثوبیہ نے اپنے لمبے گھنے بالوں کو لپیٹ کر کلپ لگاتے ہوئے کہا:
’’وہ ہمیشہ کے لیے تو نہیں جا رہا ‘ اس کے والدین گھر بار سب…

مزید پڑھیں

وہ اجنبی شناسا سی – بتول دسمبر۲۰۲۲

ویسے تو وہ ادھیڑ عمری کی دہلیز تک پہنچنے کو تھیں پر ان کی سج دھج بالکل کسی دوشیزہ کی سی تھی ۔وہ دونوں میاں بیوی چند ماہ پہلے ہی ہمارے کمپاؤنڈ میں موجود چار کمروں کے لگژی اپارٹمنٹس میں شفٹ ہوئے تھے اوراولاد کی نعمت سے محروم تھے ۔ان کے شوہر مراتب انکل بہت خاموش مزاج جبکہ صفینہ آنٹی بے تھکان بولنے والوں میں سے تھیں۔مراتب انکل آرتھرائٹس کی وجہ سے زیادہ وقت اپنے گھر پر ٹیلی وژن پر خبریں دیکھ کر گزارتے ۔البتہ صفینہ آنٹی مارکیٹ سے سودا سلف لانے سے لے کر بل جمع کروانے تک سب کام خود کرتیں۔
شام کے وقت تمام خواتین بچوں کو’’لاثانی لگژری اپارٹمنٹ‘‘ کے بیچوں بیچ بنے خوبصورت پارک میں لے آتیں۔بچے پارک میں کھیلتے رہتے اور خواتین حالات حاضرہ سے لے کر فیشن اور کھانے کی آزمودہ تراکیب تک سب پر ڈھیروں گفتگو کرتیں۔جس دن سے صفینہ آنٹی یہاں شفٹ ہوئیں سب خواتین کو گپ شپ کا نیا موضوع مل گیا ۔
’’ہائے کیسے کیسے چھیل چھبیلے لال پیلے رنگ پہنتی ہیں یہ آنٹی…. ایسے رنگ نو عمر لڑکیوں پر ہی جچتے ہیں ‘‘۔
اسکول ٹیچر سحر نے دور سے آتشی گلابی رنگ کے پھولدار سوٹ میں ملبوس صفینہ آنٹی کو دیکھ کر…

مزید پڑھیں

میری مارگریٹ – بتول جون ۲۰۲۳

خاندان کی چند مشہور و معروف ’’فلمی سٹائل‘‘ شادیوں میں ہماری شادی خانہ آبادی سر فہرست ہے ۔ ہماری ساس امی کا بچپن ممبئ اور کلکتہ شہر میں گزرا۔تمام عمر ان شہروں کے رسم و رواج کا سحران کے دل و دماغ پر چھایا رہا۔ شادی کے موقع پر ان کی ہدایات کے عین مطابق باجے گاجے اور ڈھول تاشے کے ساتھ شادی منعقد ہوئی ۔ ایک وجہ اور تھی اس قدر ہنگامہ آرائی کی وہ یہ کہ ہماری ساس امی کی اولادوں میں آخری اور ہماری اماں جان کی آدھی درجن کی ٹیم میں پہلی بار کسی کے ہاتھ پیلے ہونے جا رہے تھے۔دادی ، نانی، پھپو، خالہ، مامی،چاچی سب نے اپنے ارمان ہماری شادی میں بھرپور طور پر نکالے۔
کئ روز جاری رہنے والی تقریبات میں مہندی کا فنکشن بھی بےحد منفرد انداز میں منعقد کیا گیا۔لڈی، ڈانڈیاں، ڈسکو ، سب نے اپنے اپنے انداز سے محفل میں رنگ بھرے ۔
اس محفل میں ہمارے سسرال کی جانب سے ایک چھوٹی سی لڑکی نے سب کو ششدر کر کے رکھ دیا ۔سنہرے اور لال رنگ کے گھاگھرا چولی پر گھٹنوں تک لمبے لہراتے بال ،گہری سانولی سلونی رنگت پر گہرا میک اپ کیے وہ سب سے الگ ہی دکھ رہی…

مزید پڑھیں

کرم اور تقدیر – شہلا خضر

سورج اپنی بانہیں سمیٹنے کو پر تول رہا تھا تمام دن اپنی کرنیں زمین کے باسیوں پر نچھاور کرتے کرتے وہ نڈھال ہو چکا تھا ۔ تھکے ماندے قدموں سے افق کے اس پار کہیں چین کی نیند سونے جارہا تھا۔زرد ، نارنجی ، گلابی نرم نرم روشنی نے آسمان کو رنگین چادر اوڑھا دی تھی۔مارچ کے اوائل کی خنک ہواؤں کی ہلکی سرسراہٹ چاروں جانب محسوس کی جا سکتی تھی۔
’’امجد اینڈ سن ‘‘بناسپتی گھی فیکٹری کے عقبی میدان میں آج میلے کا سا سماں تھا۔بھانت بھانت کی وضع قطع کےسینکڑوں مزدور جمع تھے ۔
جان توڑ مشقت کے پورے ایک ماہ بعد معاوضہ لینے سب جفا کش لمبی قطاروں میں کھڑے تھے۔اس روز ان گنت مسائل کا وزن ہلکا ہو جانے کی مبہم سی امید جاگ جاتی ہے ۔سب بے شمار تفکرات دل و دماغ میں سموئے ہم’’بدرالدین کیشئر‘‘ کی آمد کے منتظر تھےکچھ ہی دیر میں وہ آتا دکھائی دیا ۔
چیک لینے کا سلسلہ شروع ہؤا ‘تو صدمے کا ایک زبردست جھٹکا لگا\سیٹھ امجد کے حکم پر سب کی تنخواہ سے سیلابی بارشوں کے دوران غیر حاضری پر پورے چار دن کی اجرت کاٹ دی گئی تھی حالانکہ شہر کی تمام سڑکیں پانی میں ڈوب جانے سے شہر کئی…

مزید پڑھیں

خراج – شہلاخضر

شام ڈھلنے کو تھی۔نوری کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔بات ہی پریشانی کی تھی۔
بالا سویرے سے نکلا اب تک نہ لوٹا تھا۔وہ کبھی اتنی دیر گھر سے باہر اکیلا نہ رہا تھا ۔
سویرے اس کا جھگڑا نذیرے سے ہو&ٔا تھا۔بات تو معمولی سی تھی پر نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی ۔بالے کو اماں کے ہاتھ کے پکے گڑ والے چاول بےحد پسند تھے ۔پچھلی رات نذیرے نے اپنے حصے کے چاول نعمت خانے میں رکھے تاکہ سویرے کام پر ساتھ لے جائے پر بالا بھوک لگنے پر رات کے کسی پہر سارے چٹ کر گیا۔بس اس بات پر نذیرے کو تو پتنگے لگ گئے ، مار مار کر بالے کا چہرہ سجا دیا۔
کہنے کو تو نذیرا عمر میں بالے سے پورے تین سال چھوٹا تھا ، پر بالے کو اس نے کبھی بڑا بھائی نہ سمجھا۔بات بے بات جھڑکنا اور حقارت آمیز سلوک کرنا ہر دم کا وطیرہ تھا۔
باپ کے مرنے کے بعد سے نذیرا ہی گھر کا کل مختار تھا۔باپ کی طرح مزدوری کر کےوہ سب کے پیٹ پال رہا تھا ۔جہاں تک بالے کا معاملہ تھا تو وہ تو سدا کا اللہ لوک اور سادھو سا تھا۔پیداہو&ٔا تو تب سے ہی ماں باپ کے لیے آزمائش بن…

مزید پڑھیں

روداد – ماہتاب ڈھونڈتا ہوں میں – رپورٹ:شہلا خضر- تحریر: صائمہ اسما

عالمی یوم حجاب کے سلسلے میں کراچی کے نظم نے گزشتہ دنوں ایک خوبصورت پروگرام بعنوان’’گھرا ہؤا ہے ابر، مہتاب ڈھونڈتا ہوں میں‘‘ فاران کلب بینکوئیٹ میں ترتیب دیا۔ تقریب میں دردانہ صدیقی صاحبہ، رخشندہ منیب صاحبہ،اسماءسفیرصاحبہ اورشہر کی چیدہ چیدہ شخصیات شامل تھیں جبکہ نوجوان لڑکیوں کی نمائندگی بھی خوب تھی۔مہمان خصوصی صدر انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین کی اورسابق ممبر پارلیمنٹ و نظریاتی کونسل ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی صاحبہ تھیں۔
وقت مقررہ پر خواتین کی بڑی تعداد ہال میں پہنچ چکی تھی۔وسیع وعریض فاران بینکوئیٹ کی تزئین و آرائش ہمیشہ کی طرح بہت خوبصورتی سے کی گئی تھی ۔پروگرام کی تھیم کی مناسبت سے گلابی اور سفیدپھولوں کے گلدستے جابجا لگا ئے گئے تھے۔ میزبانی کے فرائض ثمرین احمد اور ڈاکٹر فضّہ نے انجام دیے۔
تلاوت قرآن اور ہدیہ نعت کی بابرکت سماعت سے پروگرام کاباقاعدہ آغاز کیا گیا۔اسما سفیر صاحبہ نے خوش آمدید کہتے ہوئے بولیں کہ ہم سب باشعور خواتین ہیں اور یہی شعور ہمیں تشویش میں مبتلا کر دیتا ہے جب ہم اپنے اردگرد کے حالات کو دیکھتے ہیں، وطن عزیز کی ناگفتہ بہ صورتحال ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ آخر ہم کہاں جا رہے ہیں، پستی کا یہ سفر کب اور کہاں رکےگا۔ان…

مزید پڑھیں

اللہ کا رنگ – بتول جولائی ۲۰۲۱

لوبان کی مسحور کن مہک مہمان خانے سے نکل کر بنگلے کے بیرونی گیٹ سے پار پھیل چکی تھی ۔جمعرات کے روز عقیدت مند خواتین کا جم غفیر ماہ پارہ بانو کا خصوصی درس سننے کے لیے جمع ہو چکا تھا ۔
ماہ پارہ بانو گزشتہ بارہ سال سے اپنے وسیع وعریض بنگلے میں دروس کی محافل سجاتی آ رہی تھیں۔خوش لباس،خوش گفتار اور نفیس ذوق کی حامل ماہ پارہ بانو کو اللہ تعالیٰ نے غضب کی سلاست اور انداز بیان عطا کیا تھا ۔ درس شروع کرتیں تو پورے مجمع پر سناٹا چھا جاتا ۔سیکڑوں احادیث و واقعات انہیں ازبر تھے ۔اپنی شیریں آواز میں جب وہ سیرت رسولﷺ بیان کرتیں تو حاضرین محفل کی آنکھیں نم ہو جاتیں۔انبیا ء کے قصے ‘ اسلا می تاریخ،حالات حاضرہ الغرض معلومات کا لامحدود خزانہ ان کی یاداشت میں محفوظ تھا اور اپنے دروس میں وہ اس کااستعمال بہت ذہانت سے کرتیں ۔مالی مدد کے علاوہ گرمیوں سردیوں اور عید تہوار پر غریب خواتین کے لیے کپڑے بھی تقسیم کرتیں ۔
ان کےشوہر رضی صاحب معروف رئیل اسٹیٹ کمپنی کے مالک تھے ۔سوجھ بوجھ اور تیز قسمت کی بدولت ان پر چاروں انگلیاں گھی اور سر کڑاہی میں کی مثال صادق آتی تھی ۔بڑا…

مزید پڑھیں