سکون – روبینہ قریشی
رات کو ہوا کے دوش پر آل انڈیا ریڈیو سے ’’تعمیلِ ارشاد‘‘میں گانا لگا ہؤا تھا۔
گھر آیا میرا پردیسی…. پیاس بجھی میری اکھیوں کی۔
’’ رکو رکو….ذرا آواز اونچی کرنا….یہ گانا تو راحیل کو بہت پسند ہے….‘‘
’’ ہیں یہ راحیل کہاں سے آگیا؟‘‘
ابھی تو وہ زبردستی مجھے اپنی نئی محبت کی کہانی سنارہی تھی جس کا ہیرو علی تھا۔وہ اس کے پاس کچھ دن ریاضی پڑھنے کے لیے جاتی رہی تو علی نے ایک دن حساب پڑھاتے ہوئے اپنے بے حساب پیار کی کہانیاں بھی اسے سنا ڈالیں۔
’’یار راحیل میری پھوپھی زیتون کا بیٹا ہے ناں ….بیچارہ میرے پیچھے پیچھے رہتا ہے‘‘۔
’’لیکن تم تو علی کے بارے میں بتارہی تھیں۔اور ابھی مہینہ بھر پہلے جب میں گاؤں گئی تھی تو تمہیں لمبرداروں کا شوکت بہت پسند تھا‘‘۔
شوکت کو سب شوکا کہتے تھے جب کہ میں اسے ’’شوخا‘‘کہتی تھی۔بوسکی کا سوٹ، تلّے والی کھیڑی، سونے کے بٹن اور تیز پرفیوم والا شوخا!
’’یارا….پسند تو میں شوکت کو کرتی ہوں لیکن راحیل بیچارہ میرے بہت آگے پیچھے پھرتا ہے…. اور محبت تو خیر علی سے کرتی ہوں لیکن سچا پیار صرف زہیب سے ہے‘‘۔
’’ توبہ ہے ….! اب یہ زہیب کون ہے ؟ ‘‘میری آنکھیں اور منہ بیک وقت کھلے کے کھلے رہ گئے۔
یہ…

