ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

میں اس کرم کے کہاں تھا قابل! – بتولاگست۲۰۲۲

پھر منتہیٰ اور میں نے عمرہ شروع کرنے والے مقام پہ جہاں سبز روشنی ہے آکر عمرہ کی نیت کر کے طواف شروع کیا۔ طواف کے دوران ہاتھ اٹھا کے دعا مانگنے کی بجاے مسنون دعائیں مسلسل پڑھتی رہی۔ جہاں سے پہلا چکر شروع ہوتا ہے وہاںہر دفعہ ربنا اتنا فی الدنیا حسنہ و فی الا آ خرۃ حسنہ وقنا عذاب النار پڑھنی ہوتی ہے اورہر دفعہ حجر اسود کے سامنے گزرتے ہوے دایاں ہاتھ اٹھا کر بسم اللہ اللہ اکبر کہنا ہے۔باقی سات چکروں میں دعائیں اگر نہیں یاد تو کتاب رکھ کے پڑھ لیں یا جو دعائیں یاد ہیں وہ ہی پڑھ لیں۔اس کے بعد مقام ابراہیم پہ دونفل پڑھے اور ہم دونوں صفا مروہ پہ آگئے۔
یہاں چاہے آپ کسی بھی زبان میں اللہ سے مانگیں، تو ہم دونوں نے بھی اللہ کو دل کی ساری باتیں بتائیں۔ اس کے بعد بال کاٹے دونفل پڑہے اور عمرہ مکمل ہؤا۔تب فجر کی اذان ہو رہی تھی\۔کچھ دیر میں جماعت کھڑی ہو گئی۔ نماز فجر سے فارغ ہوے تو گھر فون کر کے بتایا کہ ہم دونوں نے عمرہ کرلیا ہے۔چھوٹی والی مونا کو اپنی دعاؤں کا پوچھ رہی تھی کہ مانگیں یا نہیں۔ منتہیٰ مسلسل رو رہی تھی اور اللہ کا شکر ادا کر رہی تھی جس نے اسے اپنے گھر کا مہمان بنایا۔
فجر کے بعد میں نے منتہیٰ سے کہا کہ بیٹا مجھے اب تھوڑا آرام چاہیے۔ویسے تو اللہ کے گھر میں خانہ کعبہ کے سامنے بھی بلڈنگ میں ہر جگہ قالین بچھے ہوتےہیں لیکن میں باہرصحن میں آگئی اور کھڑکیوں کے سامنے بہت کھلی جگہیں تھیں وہاں ایک کھڑکی منتخب کر کے اسکے سامنے اونچی اور کھلی سی جگہ پہ میں نے آنکھیں بند کیں اور سو گئی۔
جونہی سورج بلند ہؤا تو میری آنکھ بھی کھل گئی۔کاش میں کوئی بڑی اچھی مصنفہ ہوتی کاش میرے پاس وہ ہنر ہوتا جس سے میں اپنے جذبات کا اظہار کرسکتی۔ کاش میرے ذخیرہ الفاظ میں وہ لفظ ہوتے جن سے میں اس خوبصورت صبح کا احوال بتا سکتی۔
وہ صبح میری زندگی کی حسین ترین صبح تھی!
دل غم سے بے حد دور تھا
عشقِ خدا میں چور تھا
اور روح پر چھایاہؤا
عمرہ کا سرور تھا
جب میری آنکھ کھلی تو میں مسجد الحرام کے صحن میں تھی\۔عمرے والے لوگوں کے گروہ آرہے تھے کچھ واپس جارہے تھے۔صفائیوں والا عملہ مشینیں لگا کے صفائی کر رہے تھے\۔جونہی مجھے اٹھتا دیکھا میری بیٹی بھاگ کے میرے پاس آ گئی۔ اس نے بتایا کہ امی یہاں سے ناشتہ مل جاے گا آپ یہاں ہی رکیں، اور وہ بھاگ کے ناشتہ اور چائے لے آئی۔
بڑی بیٹی کا فون آگیا کہ تیار ہو جائیں آپ کولے کر مسجد عائشہ جانا ہے تا کہ وہاں سے آپ دوسرے عمرہ کے لیےاحرام باندھ سکیں۔تب ہم سب مسجد عائشہ آگئے۔ وہاں جاتے ہوے البیک سے لنچ کے لیے پیکنگ کروالی تھی۔ پہلے کھانا کھایا۔وہاں کی دلچسپ بات وہ بلیاں تھیں جو ہمارے ارد گرد گھیرا ڈال کے بیٹھی ہوئی ہمارے کھانے کے ختم ہونے کا انتظار کر رہی تھیں۔ کھانا ختم کر کے بچا ہؤا ان بلیوں کو دیااور احرام کے لوازمات پورے کر کے مسجدالحرام کے لیےروانہ ہو گئے۔
مسجد الحرام پہنچ کے عمرہ شروع کیا ۔ نواسی کو جہاں تھوڑی سی جگہ ملی وہاں اس نے اپنی گڑیا کاگھر سجا لیا اور میں اس کی قسمت پہ رشک کررہی تھی جس کو کھیلنے کے لیے پاک اللہ نے خانہ کعبہ میں جگہ عطا کی تھی۔اور میری آنکھوں میں ان باتوں کو یاد کر کر کے آنسو اور ہونٹوں پہ الحمدللہ تھا جو باتیں لوگ مجھے سناتے تھے کہ یہ بیٹی کا رشتہ کہاں کر دیا،بےروزگار لڑکے کو بیٹی دےدی ہم نے(شادی کے وقت ابھی تعلیم جاری تھی)جب کہ میں نے اس گھرانے کی شرافت دیکھی تھی دولت نہیں۔
احمد البتہ بابا کے کندھوں پہ طواف کے چکر لگا رہا تھا۔ہم سب عمرہ سے فارغ ہوے تو غار حرا جانے کا پروگرام بن گیا۔ ہم لوگ غلطی سے غار ثور والے راستے پہ چڑھ گئے۔بہت ٹوٹاپھوٹا راستہ اور خاموشی چھائی ہوئی تھی۔مجھے یوں لگا جیسے 1400 سال پہلے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں آگئے ہوں۔ ابھی کسی طرف سے کوئی صحابی تشریف لائیں گے۔
یہ سفر جو اتفاقیہ کیا اس نے دل پہ بہت گہرا اثر کیا۔
لگتا تھا ابھی ابھی یہاں کسی جگہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری گزری ہوگی۔ ضرور کسی پتھر پہ ان کا مبارک پاؤں لگا ہوگا۔وہاں سے میں نے ایک پتھر اٹھایا اپنے تیمم کے لیے اور اللہ پاک بابر کو بےحساب برکتوں سے نوازے کہ وہ اسے اپنے سامان میں پاکستان لے کے آیا کیونکہ میرے پاس وزن کی گنجائش نہیں تھی۔
اس کے بعد غار حرا کا راستہ پوچھا تو صحیح سڑک پہ سفر شروع کیا۔
ایک بات بڑی عجیب لگی کہ پورا مکہ شریف اور مدینہ پاک میں صفائی اس درجہ کی ہے جس کی مثال نہیں ملتی لیکن یہاں غار حرا کے راستے پہ صفائی کا وہ معیار نظر نہ آیا۔غار حرا کا راستہ بہت مشکل تھا جسے طے کرنا میرے لیے ناممکن تھا تو پھر میری وجہ سے باقیوں کا پروگرام بھی منسوخ کرنا پڑا۔ لیکن لوگ ماشااللہ بڑی ہمت سے وہاں جا رہے تھے اور ہمیں نیچے سے ان کے چھوٹے چھوٹے وجود دکھائی دے رہے تھے۔کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں غار حرا سے خانہ کعبہ سامنے نظر آتا تھا۔اللہ اعلم باالصواب۔
اس کے بعد واپسی کےلیے نکلے ۔ہمارے گھر سے مکہ تک کا سفر لگ بھگ 1000 کلومیٹر کا ہے اور ہم نےآنے والے روزوں کی تیاری بھی کرنی تھی۔لیکن ابھی ایک اور مرتبہ مزید آنے کا پروگرام تھا تو دل کے اندر ایک سکون تھا۔یوں دوبارہ آنے کے پروگرام کے ساتھ القسیم کا سفر شروع کیا۔
گھر پہنچ کے میں آرام کرنے آگئی کمرے میں۔فاطمہ کو سخت فکر تھی اپنے بقایا گفٹس کی۔ بیٹی کو اپنے آم لیموں اور کریلوں والے اچار کی۔ جبکہ داماد کے آم تو ہم راستہ میں ہی کھا چکے تھے۔احمد سے ابھی کوئی دوستی نہیں ہو سکی تھی۔ لیکن جو بات فاطمہ کہتی اس کودہرانا وہ اپنا فرض سمجھتا تھا۔
زندگی کے خوبصورت ترین روزے تھے جو مدینہ پاک میں گزارے اور بریدہ القسیم میں گزارے۔بریدہ کے روزے کیا تھے کہ پہلا روزہ رکھا فجر پڑھی تلاوت کی اور سب سو گئے۔ اٹھے تو ظہر کا وقت تھا بچیاں نماز پڑھ کے کچن چلی گئیں اور میں پاکستان چھوٹی بیٹی اور شوہر سے بات کرنے لگی۔ ان دنوں میرے دونوں بیٹے پاکستان سے باہر اپنی تعلیم کے سلسلے میں تھے تو ان سے کم کم بات ہوتی۔
سب سے اچھا وہ وقت ہوتا جب ہم گھر کے سامنے والی مسجد میں تراویح پڑھنے جاتے۔ وہاں خواتین عبایا،یا گاؤن میں ہوتیں،ہر نمازی عورت کے سامنے مسجد کی انتظامیہ کی طرف سے پانی کی سیل بند بوتل پڑی ہوتی، ایر کنڈیشنر بھرپور ٹھنڈک دے رہا ہوتا۔ بہت مزے سے ہم تراویح پڑھتے۔ جب میں اور منتہیٰ پہلے دن کی تراویح پڑھ کے گھر پہنچے تو فاطمہ رو رو کے بےحال تھی کہ لالہ مجھے چھوڑ کے پاکستان چلی گئی ہیں\۔اگلے دن ہم اسے بھی ساتھ لے کے گئے تاکہ اس کارونا تو بند ہو۔
رمضان شریف کے جتنے روزے بریدہ میں رکھے یہی دیکھا کہ بازار ساری رات کھلے رہتے تھے لوگ خریدوفروخت کرتے رہتے اور سحری کے وقت گھر جاتے۔اکثر لوگ افطاری گھر سے باہر کرتے تھے تو کچھ دفعہ ہم بھی افطاری گھر سے پکا کے لے گئے اور باہر جا کے روزہ افطار کیا۔
بریدہ کا رمضان المبارک بھی بہت پیارا تھا لیکن ہمیں مدینہ پاک جاکے روزے رکھنے کا بہت شدت سے انتظار تھا۔ یہاں تک کہ آخری عشرہ شروع ہو گیا۔ اس دفعہ ہماری بکنگ’’معراج طیبہ‘‘میں تھی۔ اس ہوٹل کی دو باتیں بہت اچھی تھیں ایک تو یہ مسجد نبوی سے اتنا قریب تھا کہ پیدل بھی جا سکتے تھے ور دوسری بات یہ کہ اس کی کھڑکی سے جھانک کے دیکھتے تو بالکل ساتھ ہی جنت البقیع نظر آرہا ہوتا تھا جس کو دیکھ کے ایمان تازہ ہو جاتا تھا۔
مسجد نبوی کے رمضان المبارک کی تو کیاہی باتیںہیں۔ ہم لوگ گھر سے سحری کھا کے اور سارا دن کے قیام کے حساب سے تیاری کر کے آتے تھے۔ عموماً میں تو سیدھی بلڈنگ کے اندر جایا کرتی البتہ منتہیٰ بہن اور بچوں کے ساتھ باہرہی رک جاتی۔ سارا دن ہم لوگ عبادت کرتے۔میں نے اپنی زندگی میں قضا نمازوں کی ادائیگی کی کوشش کی اور نفل حاجت پڑھتی بچوں کے لیے…. اس کے علاوہ جن لوگوں نے دعائیں کہی تھیں وہ سب میں نے ایک ورق پہ لکھ لی تھیں۔ جونہی وقت ملتا وہ ورق نکال لیتی اور سب کی دعائیں بڑی عاجزی سے رب کے حضور پیش کرتی۔
خانہ کعبہ میں بھی طواف کے دوران میرے ساتھ ایسا بہت ہوتا کہ مجھے اپنے جاننے والوں کے چہرے دکھائی دیتے۔ یعنی مجھے ایسے لوگوں کی مشابہت والے لوگ نظر آتے جو میرے ملنے جاننے والے ہوتے۔تو میں ہمیشہ یہ سوچتی کہ اللہ نے اگر کسی سے ملتی جلتی شکل دکھا کے کسی کی طرف میرا دھیان پھیرا ہے تو ضرور اس کے لیے دعا کرنی چاہیے۔اس طرح ان جاننے والے لوگوں کے لیے بھی دعا کرتی۔ویسے بتاتی چلوں دعائیں دینا میری زندگی کا ایک اہم کام ہے ۔
افطار سے کچھ دیر پہلے دسترخوان بچھ جاتے۔ہر انسان کے سامنےدہی، جوس کھجور اور ایک خاص قسم کی روٹی یا بریڈ کہہ لیں پانی اور پھل وغیرہ لگا دیے جاتے۔ بلڈنگ کے اندر مخصوص کھانا ملتا ہے جس سے گندگی کم سے کم ہو۔ البتہ باہر والے دسترخوان پہ لوگ خدمت کی نیت سے گھروں سے زبردست قسم کا کھانا بنا کے لے آتے جس میں تندور کی روٹیاں پاکستانی سالن، بریانی اور مختلف میٹھی چیزیں بھی ہوتی تھیں۔وہاں کی انتظامیہ کی کوشش ہوتی تھی کہ مخصوص کھانا دیا جاے تو پھر لوگ صحن سے تھوڑا باہر دسترخوان بچھا کے اپنے اپنے ملکوں کے لوگوں کے لیے کھانا لگاتے تھے۔ وہاں جتنے بھی لوگ ہوتے تھے سب کو پیٹ بھر کے کھانا ملتا تھا اور لوگ گھروں میں بھی لے کے جاتے تھے۔ اسی طرح سحری کا انتظام ہوتا\۔اگر تھوڑا باہر آجائیں تو بڑی ورائٹی میں کھانا ملتا البتہ اندر والاکھانا جسم کو طاقت زیادہ دیتا تھا۔
ایک دن بچیوں نے کہا کہ آج تو ہم ٹاپ ٹین top ten جائیں گے۔میں بھی ساتھ ہی چلی گئی اور میرا خیال ہے کہ میری شاپنگ ان سے زیادہ تھی۔ٹاپ ٹین پہ بہت ورائٹی ہے چیزوں کی\ریڈی میڈ ملبوسات بچوں کے بڑوں کے، سویٹر، پرس، میک اپ جوتے، غرض یہ کہ ہر چیز مناسب قیمت اور اعلیٰ کوالٹی کی\۔مدینہ میں مسجد نبوی اور مسجد قبا کے بعد top ten بھی میری پسندیدہ جگہ ہے۔اس دن غزوہ احد کے مقام پہ بھی گئے شہدا کی قبروں کو اور احد کی پہاڑی کو بھی گھوم پھر کے دیکھا۔ میں گھٹنوں میں درد کی وجہ سے کم کم چلتی ہوں بچیوں نے البتہ سارا گھوم پھر کے دیکھا اور تصاویر بھی بنائیں۔
مدینہ میں بہت سے اچھے اچھے ہوٹل ہیں جن میں مطاعم عثمانیہ کا کھانا مجھے بہت پسند آیا۔البیک اور مزید الفوزان بہت اچھا کھانا پیش کرتے ہیں لیکن قیمت اور کوالٹی اور پاکستانی کھانوں کے لحاظ سے مطاعم عثمانیہ مجھے پسند آیا۔
اکثر اوقات ہم جب مدینہ گھوم رہے ہوتے تو اسی مناسبت سے نعتیں لگا لیتے اور مدینہ پاک میں گھومنے کا مزہ دوبالا ہو جاتا۔یہاں تک کہ27 رمضان کی رات، عبادت کی رات آگئی۔ ہم لوگ جلدی گھر (ہوٹل) سے نکلے تا کہ مناسب جگہ مل سکے لیکن ہمارے پہنچنے تک اتنا رش ہو چکا تھا کہ صحن سے بھی باہر جو صفیں مزید لگائی گئی تھیں وہاں جگہ ملی۔ اللہ کا شکر ادا کیا۔ بچوں کی چیزیں دائیں بائیں ترتیب سے رکھیں۔
فاطمہ تو شروع سے دھیمے مزاج کی بچی ہے لیکن احمد تو شرارتوں کا پوٹلا ہے۔ چیخوں پہ چیخیں مار رہا تھا۔ آتی جاتی خواتین کا دوپٹہ، چادر گاؤن جوہاتھ میں آجاتا پکڑ لیتا اور چھوڑتا ہی نہ۔ہم سے اگلی صف میں کچھ عورتیں گاؤن میں تھیں ان میں سے ایک عورت مڑ مڑ کے غصے سے ہمیں گھور رہی تھی ۔ کچھ دیر بعد اس خاتون نے پیچھے مڑ کے عربی میں ہمیں کہا آپ لوگ کسی اور جگہ جائیں یہاں سے۔جس پر میں نے آہستہ سے کہا:
We are five…. how can we leave this place with little kids…. U r alone u should leave this place
میری بات کی تو انہیں سمجھ آئی یا نہیں لیکن احمد کو لگا کہ شاید وہ میری ماما کو ڈانٹ رہی ہیں تو اس نے دونوں گھٹنوں پہ کھڑے ہو کے اشاروں کی انٹر نیشنل زبان میں دونوں ہاتھ ہلاہلا اپنی بولی میں کچھ ایسی باتیں سنائیں کہ ارد گرد کی ساری خواتین بے اختیار ہنسنا شروع ہو گئیں۔
تھوڑی دیر میں عشا کی نماز شروع ہوگئی اور پھر وہ عبادت کی رات، مسجد نبوی کے سامنے قیام اوررات کی ٹھنڈی ہوائیں…. کیا ہی خوبصورت اور روح پرور ماحول تھا\۔ہم لوگوں نے بہت دل سے عبادت کی اور امام صاحب نے بڑے جذبہ سے رو رو کے دعا کروائی۔ ساری سمجھ تو نہ آئی لیکن کافی حد تک سمجھ آ رہی تھی۔ سحری وہیں پہ کی۔ فجر کی نماز پڑھی اور گھر آکے سو گئے۔
چاند رات کو منتہیٰ اور مریم کی خواہش تھی کہ مدینہ پاک کے بازاروں میں گھومیں۔میں نے کہا کہ آپ لوگ جائیں،فاطمہ کو بھی لے جائیں اور احمد کو میرے پاس چھوڑ دیں۔
احمد سو رہا تھا تومیں نے سوچا کہ عید کے کپڑے اپنے، فاطمہ کے اور احمد کے نکال لوں ۔فاطمہ کا عید کالہنگا کرتی اور شیفون کا دوپٹہ مکمل گوٹے کے کام والا میں نے خود گوٹا لگا کے تیار کیا تھا اور آپ کو پتہ ہے جب نانیاں دادیاں خود کچھ بناتی ہیں تو انہیں کتنی فکر ہوتی ہے کہ کب بچے پہنیں اور ہماری آنکھیں ٹھنڈی کریں۔لیکن ابھی میں نے بیگ کھولا ہی تھا کہ احمد جاگ گیا۔ میں نے سوئے ہوئے کے منہ میں فیڈر ڈالا وہ دوبارہ سے آنکھیں بند کر کے سونے لگا میں ہلکےہلکے اس کو تھپکنا شروع ہو گئی ۔
لیکن میرا وہ تھپکنا غضب ہو گیا۔ اسے اپنی ماں کے ہاتھوں کی پہچان تھی، وہ رونا شروع ہو گیا ۔میں نے اسے اٹھا کے سینے سے لگانے کی کوشش کی لیکن جونہی اس نے میری شکل دیکھی اس نے مجھے دھکا دیا اور خود بیڈ پہ الٹا گر کے زور زور سے رونا شروع کر دیا۔میرے لیے اس کی آنکھوں میں بے انتہا اجنبیت تھی اور میرے ساتھ دوستی کرنے سے وہ یکسر انکاری تھا۔ آدھے گھنٹے میں، میں نےہر حربہ آزما لیا لیکن اس کی ایک ہی ضد، میں نہ مانوں!
آخر کار بابر کی اپنی کال آگئی پوچھنے کے لیے کہ چھوٹا تنگ تو نہیں کر رہا۔ چھوٹا صرف تنگ تو نہیں کر رہا تھا بلکہ اس نے حشر نشر کر کے رکھ دیا ہؤا تھا۔ بہرحال بابر آ کے اس کو لے گئے۔اب میں نے صبح کے لیے عید کی نماز کی تیاری شروع کی۔ فاطمہ کے کپڑے کھسّے(جوتے) چوڑیاں وغیرہ۔ احمد کی شلوار قمیض واسکٹ اور میرا اپنا لباس۔میرا پلان یہ تھا کہ صبح فجر کی اذان سے تھوڑی دیر پہلےہی نکل جائیں گے تاکہ اچھی سی جگہ مل جائے۔بچے آئے تو مدینہ پاک کے بازاروں کی رونقوں کا احوال بتا رہے تھے اور میں انہیں کہ رہی تھی کہ جلدی سو جائو تاکہ صبح جلدی اٹھ سکو۔
اذانوں سے کافی دیر پہلے میں جاگ گئی اور چھوٹی لڑکیوں کی طرح سب سے پہلے تیار ہو کے بیٹھ گئی۔ راستہ آسان تھا میں خود سے ہی جانا چاہ رہی تھی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ پھر میں انہیں کیسے ملوں گی۔فاطمہ جب لہنگے والا لباس پہن کے چوڑیاں چھنکاتے ہوئے آئی تو اس کی خوشی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی اور وہ بالکل گڑیا جیسی پیاری لگ رہی تھی ۔
میں نے جلدی کرو کا شور مچائے رکھا یہاں تک کہ گھر سے نکلے تو تب اذان شروع ہوئی۔ میں کافی مطمئن تھی کہ آج بلڈنگ کے اندر جگہ مل جائے گی لیکن جب پہنچے تو مسجد نبوی سے باہر بہت دور دور تک رش تھا تل دھرنے کو بھی جگہ نہ تھی۔ مسجد سے بہت دور ہمیں بھی جگہ ملی۔ آج تو سعودی گھرانوں کی خواتین اور بچیاں بھی آئی ہوئی تھیں۔ اس سے پہلے عربی بولنے والے لوگ تو بہت نظر آتے تھے لیکن وہ مصر، شام اردن وغیرہ سے ہوتے تھے۔ خاص سعودی فیمیلیزکو پہلی مرتبہ دیکھا اور انہیں چھوٹی بچیوں سے پہچانا۔ان بچیوں کی سج دھج نرالی تھی انہوں نے ٹرے اٹھائے ہوئے تھے جن میں ٹافیاں رکھی ہوئی تھیں اور وہ سب کو بانٹ رہی تھیں۔
نماز فجر اور عید کی نماز سے فارغ ہو کے ایک دم سے رش کم ہونا شروع ہو گیا۔منتہیٰ میرے پاس رک گئی اور بڑی بیٹی بچوں کو لے کے واش روم چلی گئی\۔دیکھتےہی دیکھتے رش بالکل کم ہو گیا ۔ہم نے سوچا کہ بڑی بیٹی کو فون کر کے بتا دیتے ہیں اور ہم باب علی سے مسجد کے اندر جا کے بیٹھ جاتے ہیں۔
جب اندر گئے تو ایک پاکستانی بی بی سے پوچھا کہ آپ کو اندر کیسے جگہ ملی ہم گھر سے بہت جلدی نکل آئےتھے پھر بھی جگہ مسجد سے بہت دور ملی،تو اس نے بتایا کہ بہن ہم ساری رات ادھرہی رکے تب اندر جگہ ملی۔
اس دن ہمارا خیال تھا کیونکہ آج روضہ مبارک بند ہی ہے تو کچھ نفل وغیرہ پڑھ کے درود پاک پڑھ کے تھوڑا فریش ہو جائیں تو تب یہاں سے نکلیں گے۔ہم بلڈنگ کے اندر جا کے بیٹھ گئے۔ درود پاک پڑھنا شروع کر دیا۔ بڑی بیٹی بھی آگئی تو سارے دن کا پلان ترتیب دیا۔مسجد نبوی کی بلڈنگ سے نکلتے ہوئے ایسےہی میرے ذہن میں آگیا کہ روضہ مبارک کو بھی دیکھ لیں، پھر پتہ نہیں کب بلاوا ہو۔ دل بہت اداس ہو رہاتھا.. .جیسے اپنے کسی بہت پیارے کو چھوڑنا مشکل ہو۔ اس کے بعد تو ہم لوگوں نے مکہ سے عمرہ کی ادائیگی کرتے ہوے واپس گھر چلے جانا تھا۔
جب ہم روضہ مبارک والی طرف پہنچے تو آگے تمام راستے کھلے ہوئے ملے… ہم چلتے گئے یہاں تک کہ ریاض الجنہ تک تمام راستے کھلے ہوئےتھے۔
ان کی چشم کرم کو ہے اس کی خبر
کس مسافر کو ہے کتنا شوق ِسفر
مجھے لگا کہ شاید میرے دل کی باتیں ان تک پہنچ گئی ہیں اور میں جو اندر سے دکھی تھی کہ شاید سلام پیش کیے بغیرہی چلی جائوں گی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلاوا بھیج دیا اور روضہ مبارک ہر تین طرف سے کھلا ہو&ٔا تھا۔ صرف ایک طرف جدھر مرد حضرات تھے وہ سمت بند تھی۔ ایک چبوترہ سا دیکھا تو بیٹی نے بتایا کہ یہ چبوترہ اصحابِ صفہ کا ہے۔ یہاں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ وہاں نفل پڑھے۔
ہم نے بڑی محبت سکون سے سلام پیش کیے۔ رش بہت کم تھا اس دن تو یوں لگا کہ صرف ہمارے لیے روضہ مبارک کھلا ہے۔
میرے دل پہ بہت رقت طاری تھی۔جب وہاں سے نکلے تو اس دعا کے ساتھ کہ پھر بلاوا جلد ہو۔
آقا میریاں اکھیاں مدینے وچ رہ گئیاں
باہر آئے تو خواتین کا ایک گروہ زاروقطار رو رہا تھا۔ ایک خاتون یارسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کہتی اور پھر آگے کچھ عربی میں کہتی تھی اور باقی خواتین آمین کہہ رہی تھیں لیکن ان کارونا اور آہ وزاری جا کے سیدھی دل پہ اثر کر رہی تھی۔ بیٹی سے پوچھا تو اس نے بتایا امی یہ شام کی عورتیں ہیںجن کے بچے، بھائی، خاوند شہید ہو گئے ہیں\۔وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دکھڑے رو رو کے سنا رہی ہیں۔ اللہ ان کے حال پہ رحم فرمائے، آمین۔ اللہ کسی قوم پہ ایسا وقت نہ لائے ہمارا پاکستان اس بھری دنیامیں ہماری پہچان ہے یہ ہمارا گھر ہے۔ ہم اس کی قدر کریں اور اس کی حفاظت کریں۔ اپنی اپنی جگہ پہ اس کی ترقی میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں۔
یہ تھا میرا سفر مکہ اور مدینہ!
میری دعا ہے کہ اللہ پاک تمام جانے والوں کا جانا قبول فرمائیں اور جن جن کی خواہش ہے ان کی مقبول حاضریوں کے وسیلے بنادیں۔اور کسی کے طفیل میری بھی مقبول حاضریوں کے وسیلے بنا دیں ،آمین۔
میں جو ایک عام سی گنہگار خاتون تھی،اللہ نے مجھ پہ اپنا خاص کرم فرمایا اور مجھے اپنے گھر کا مہمان بنایا۔آپ سب سے دعا کی ملتمس ہوں کہ میری اور میرے شوہر کی مقبول حج کی دعا کر دیں۔کیا پتہ کس کی دعا اللہ پاک قبول فرمالیں۔جزاک اللہ!
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x