۲۰۲۱ بتول نومبر

لازمی پرچے – بتول نومبر ۲۰۲۱

تعلیم کی ابتدائی جماعت سے ہی سب جانتے ہیں کہ کامیاب ہونے اور اگلے درجے میں ترقی حاصل کرنے کے لیے کسی ایک یا زیادہ لازمی مضمون میں پاس ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اور ہر مضمون کے امتحانی پرچہ میں کوئی ایک سوال لازمی حل کرنا ہوتا ہے۔
زندگی بھی ایک امتحان ہے اور جسمانی یا روحانی طور پہ زندہ رہنے کے لیے کچھ امر لازمی ہیں۔ جسم کی مشین میں دل وہ لازمی پرزہ ہے جس کے حرکت میں نہ رہنے سے جسمانی موت واقع ہو جاتی ہے۔
روح بھی دل کے سہارے قائم و زندہ رہتی ہے۔ روح کو زندہ رکھنے والا دل بھی اِسی دھڑکتے اور خون پمپ کرنے والے دل سے ہی منسلک ہے۔ مگر دھڑکتا دل زندہ محسوس کیا جا سکتا ہے اور اس کی بنا پر انسان کو تندرست قرار دیا جا سکتا ہے۔ مگر وہ دل جو روح کو زندہ رکھتا ہے وہ بیمار ہو، کام کرنا چھوڑ دے، زنگ لگ جائے، سیاہ ہوجائے، یا مُردہ ہو جائے تو دنیا کی کوئی مشین اس کی حالت زار کا عکس پیش نہیں کر سکتی۔ بظاہر زندہ انسان، مُردہ روح کے ساتھ پھرتا ہے…… اللہ تعالیٰ نے فرمایا سورہ الاعراف 179 میں:
’’اور یہ حقیقت ہے کہ بہت…

مزید پڑھیں

محشر خیال -بتول نومبر ۲۰۲۱

ڈاکٹر مقبول شاہد ۔ لاہور
اکتوبر۲۱ء کے چمن بتول میں محترمہ نجمہ یاسمین یوسف کی ایک غزل شائع ہوئی ہے ۔ اس غزل میں جب میں نے یہ شعر پڑھا:
الفاظ کے رہین ہیں دنیا کے انقلاب
تلوار کی کہاں ہے جو طاقت قلم کی ہے
تو مجھے اپنی زندگی کا 1940ء کے عشرے کا زمانہ یاد آگیا جب میں ابھی چھوٹا سا بچہ تھا اور ابھی سکول میں بھی داخل نہیںہؤا تھا ۔ میرے دادا جان چوہدری رحیم بخش مرحوم مجھے گھر پر ہی پڑھنا لکھنا سکھاتے تھے اور اس کے ساتھ خوش خطی پر بہت زور دیتے تھے ، اور مجھے اس کی مشق کراتے تھے ۔ وہ خود فارسی زبان کے عالم بھی تھے اور کلام سعدیؒ اور فارسی شاعری سے انہیں خاص شغف تھا ۔ لکھنا سیکھنے کے لیے اس زمانے میں لکڑی کی تختی اور سر کنڈے کے قلم کا رواج تھا ۔ روشنائی کے لیے بازار میں کالی سیاہی کی پُڑیاں ملتی تھیں جنہیں پانی میں حل کر کے شیشے کی دوات میں ڈال لیتے تھے ۔خوش خطی کی مشق کے لیے دادا جان مجھے تختی کی پہلی سطر میں فارسی کا درج ذیل مصرع لکھ دیا کرتے تھے جسے میں نیچے کی سطروں میں بار بار لکھ…

مزید پڑھیں

ملنے جلنے کی تہذیب ملحوظ رکھیے- بتول نومبر ۲۰۲۱

میں روز ایک نیم سرکاری ادارے میں ایکسرسائز کرنے جاتا ہوں‘ یہ اپرکلاس کا ادارہ ہے‘ اس کے نوے فیصد وزیٹرز پڑھے لکھے اور خوش حال لوگ ہیں لیکن میں روز دیکھتا ہوں اس ادارے میں بھی لوگ سیڑھیوں سے دائیں اور بائیں دونوں سائیڈز سے بھی آتے اور جاتے ہیں‘ میں یہ تماشا سال بھر دیکھتا اور اگنور کرتا رہا لیکن پھر میں نے سوچا‘ ہو سکتا ہے یہ لوگ اس بنیادی اخلاقیات سے واقف نہ ہوں لہٰذا مجھے ان لوگوں کو سیڑھیاں چڑھنے اور اترنے کا طریقہ بتانا چاہیے۔
مجھے بھی یہ اخلاقیات لوگوں نے سکھائی تھی اور یہ علم اب آگے پھیلانا میری ’’ذمے داری‘‘ ہے چناں چہ میں اب روز لوگوں کو روکتا ہوں اور انھیں نہایت عاجزی کے ساتھ‘ تین مرتبہ معذرت کر کے عرض کرتا ہوں جناب چلتے ہوئے اور سیڑھیاں اترتے ہوئے ہمیشہ بائیں جانب (لیفٹ سائیڈ) رہنا چاہیے‘ رائٹ سائیڈ (دائیں جانب) آنے والے لوگوں کے لیے ہوتی ہے‘ میرا خیال تھا لوگ میری مداخلت پر ناراض ہوں گے لیکن میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا لوگ اس پر نہ صرف میرا شکریہ ادا کرتے ہیں بلکہ یہ فوراً لیفٹ سائیڈ پر چلنا شروع کر دیتے ہیں۔
مجھے اس سے معلوم ہؤا ہم…

مزید پڑھیں

بتول میگزین – بتول نومبر ۲۰۲۱

آہ ڈاکٹر عبد القدیر خان
(ڈاکٹر ممتاز عمر ، کراچی)
وائے قسمت دید کو ترسیں گی آنکھیں عمر بھر
بن کے ابرِ خوں فشاں برسیں گی آنکھ عمر بھر
آپ کے طوفانِ غم میں ہر سفینہ بہہ گیا
اب میری تقدیر میں رونا ہی رونا رہ گیا
ڈاکٹر عبد القدیر خان اس عظیم ہستی کا نام ہے جسے محسن پاکستان کا خطاب دیا گیا ۔ ایسے بلند پایہ لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ۔ وہ انتہائی خوش مزاج ، ملنسار اور بے لوث انسا ن تھے ۔ میں چونکہ پیدائشی طور پر بصارت سے محروم ہوںاس لیے درس و تدریس کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ خدمت کے کاموں میں بھی مصروف رہا کرتا ہوں ۔ ڈاکٹر صاحب کو اس بات کا علم تھا اس لیے گزشتہ رمضان المبارک کے دوران انہوں نے مجھے فون پر مشورہ دیا تھا کہ میں ایک این جی او قائم کر کے رجسٹر کروالوں تاکہ تاجروں اور صنعتکاروں سے مالی تعاون کے حصول میں آسانی ہو سکے ۔ مگر میں نے جب انہیں بتایا کہ محترم تنظیم کو رجسٹر کروانے اور پھر اس کا آڈٹ کروانے کے لیے جو رشوت دینی ہو گی وہ میرے لیے ممکن نہیں تو وہ اک آہ بھر کے رہ گئے ۔ مجھے خوب…

مزید پڑھیں

یہ کیسی راہیں – بتول نومبر ۲۰۲۱

عروج بیوٹی پارلر میں اس وقت کام عروج پر تھا۔ روزی، روبی، تانیہ سمیت تقریباًسب ورکرز ہی مصروف تھیں۔ کچھ خواتین اپنی باری کا انتظار کررہی تھیں۔ عروج ریسپشن پر بیٹھی کال اٹینڈ کررہی تھی۔
’’ہیلو جی! آپ کل صبح11بجے تک آجائیں۔ ‘‘
اس کاانداز پروفیشنل تھا۔ جیسے ہی فون رکھتی پھر کال شروع ہو جاتی۔ سامنے ٹیبل پر کمپیوٹر رکھا تھا جوبھی کال آتی وہ لوگوں کو ٹائم دے کر کمپیوٹر پر اندارج کردیتی۔ آج ریسپشن پر بیٹھنے والی عافیہ غیر حاضر تھی لہٰذا عروج کو اس کی جگہ سنبھالنی پڑ رہی تھی۔ پارلر میں آج رش زیادہ تھا۔4بجنے کے بعد تو روزانہ ہی ایسا رش ہوتاتھا جو کہ رات دس بجے تک جاری رہتا۔
عروج بیوٹی پارلر کا ایک نام اور مقام تھا۔ خواتین اس کی کارکردگی سے مطمئن تھیں اور یہاں سے کام کروانے کو باعثِ فخر سمجھتی تھیں۔
’’ہیلو‘‘اچانک پھر کال آئی’’ جی آپ کا نام؟‘‘
’’میرا نام آسیہ ہے۔ میں نے آپ سے دلہن میک اپ کے لیے ٹائم لیا ہؤاہے‘‘۔
’’تو؟‘‘عروج نے سوالیہ لہجے میں پوچھا۔
جواب میں خاموشی رہی۔
’’پھر بی بی آپ کیا چاہتی ہیں؟‘‘ عروج قدرے جھنجھلائی۔
’’میں آپ کو بتادوں؟ نہیں،میں دراصل آپ کی اونر سے ضروری بات کرنا چاہتی ہوں‘‘۔
’’کیاضروری بات ہے؟‘‘ساتھ ساتھ میل چیک کرنے لگی۔
’’اس کے…

مزید پڑھیں

پکے رنگوں کی محبت! – بتول نومبر ۲۰۲۱

محبت سیلابی ریلے کی طرح کم ظرف نہیں ہوتی جو اپنے آپ میں نہ سما سکے اور اچھل کر کناروں سے باہر آجائے اور پھر کچھ ہی عرصے بعد جوہڑ میں تبدیل ہو جائے !
گرمی اور سردی محض احساس کا نام ہے یا واقعتا کوئی حقیقت ! لیکن حبس کا وجود مسلم ہے ۔ حبس موسم و ماحول میں ہو یا معاشرے میں ! کسی بد دعا کی طرح مسلط ہوتا ہؤا محسوس ہوتا ہے ۔ اول اول کی محبت کی طرح کراچی میں گرمی کا پہلا مہینہ بھی سنبھالے نہیں سنبھلتا، دودن لو کے تھپیڑے چلتے رہے اور آج ایسا حبس کے گھٹن کے مارے سانس لینا بھی محال ہو رہا تھا ۔ گھر گویا اینٹوں کا بھٹا بنا ہؤا تھا ۔ ذرا شام ڈھلی تو موسم اچانک خوشگوار ہو گیا ۔ کراچی کا بھی عجیب موسم ہے شام ہوتے ہی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے دن بھر کی سختی کو بھگالے جاتے ہیں، شاید جبھی یہ شہر بڑے بڑے صدمات جھیل جاتا ہے ۔
ہمارا گھر شہر کے مضافات میں الگ تھلگ واقع خوبصورت بستی میں تھا ۔ شہر کی مصروف ترین زندگی سے نکل کر شام کو گھر واپس پہنچتے تو لگتا تھا کہ وقت نے اپنی رفتار کم…

مزید پڑھیں

زود پشیماں – بتول نومبر ۲۰۲۱

’’ میرے پیچھے مت لگو۔ میں نے تم سے کہہ دیا کہ میں مارکیٹ نہیں جائوں گا۔ میرے خاندان کے ایک بزرگ وفات پا گئے اور تم کو خریداری کی سوجھ رہی ہے ۔ مجھے اگر کسی نے بازار میں تمہارے ساتھ خریداری کرتے دیکھ لیا تو لوگ باتیں بنائیں گے کہ دانیال کو رفیع پھوپھا کی موت کا صدمہ نہیں ‘‘۔
وہ رابعہ پر بگڑ رہا تھا ۔ بات صرف اتنی سی تھی کہ رابعہ کی اکلوتی بیوہ بہن کی بیٹی کی شادی ہونے والی تھی اور اسے اپنی بھانجی کے لیے کوئی تحفہ لینا تھا ۔ اس کی بہن شادی کے کچھ دن بعد ہی بیوہ ہو گئی تھیں ۔ انہوں نے بڑی محنت مشقت اور تنگدستی سے زندگی گزاری تھی ۔ اپنی اکلوتی بیٹی کی پرورش انہوں نے ٹیوشن پڑھا کر اور محلے والوں کے کپڑے سی کر کی تھی ۔ رابعہ کو اپنی بہن سے بہت زیادہ محبت تھی ۔یوں تو وہ بھانجی کے لیے تحفہ اپنے کسی بچے کے ساتھ بھی جا کر خرید سکتی تھی لیکن وہ چاہتی تھی کہ دانیال نے جو اپنے اوپر خود ساختہ سوگ طاری کر رکھا ہے وہ کسی طرح کم ہو جائے ۔
رفیع پھوپھا سے دانیال کی کوئی قریبی…

مزید پڑھیں

ایک کمرے میں دنیا – بتول نومبر ۲۰۲۱

بات بات پر لڑائی اور تلخ مزاجی نے گھر کے ماحول کو میدان جنگ بنا دیا تھا ۔عیشہ ابھی تک نہیں سمجھ پائی تھی کہ گھر کے کس فرد کا موڈ کس بات پر خراب ہو سکتا ہے۔درگزر کرنے پر آئیں تو جلی ہوئی شرٹ، ٹوٹے بٹن ،تیز نمک، جلی روٹی بھی معاف۔پکڑنے پر آئیں تو دروازے پر دو مرتبہ گھنٹی کیوں بجنے دی ،پہلی مرتبہ ہی دروازہ کیوں نہ کھولا پر پچیس پچیس منٹ تند و تیز جملے ، طعن و تشنیع اور کچوکے مار مار کر ہی بندہ پھڑکا دو ۔
تعریف کرنے پر آئیں گے تو پھیکی دال پر بہو کو پانچ سو روپیہ انعام میں دے دیں گے اور نہ کرنی ہو تو شاہی دال ،مرغ مسلم بھی ایسے چپ چپاتے کھا کر اٹھ جائیں گے جیسے مریض پھیکا سیٹھا کھانا کھاتا ہے۔بولنے پر آئیں تو درودیوار سے بھی بولنے کی آوازیں سنائی دیں اور چپ شاہ کا روزہ رکھیں تو برتنوں کی کھنک بھی بے معنی ۔
اور بچے تو بچے ہوتے ہیں ،چچازاد تایا زاد اور اکثر تو پھپھو زاد بھی ادھر ہی پائے جاتے!
لڑائی بھڑائی کہاں نہیں ہوتی ؟ انور صاحب کے ہاں بھی ہوتی تھی خود ہی لڑ تے اور خود ہی صلح صفائی…

مزید پڑھیں

درد وچھوڑے دا – بتول نومبر ۲۰۲۱

گاڑی فراٹے بھرتی جا رہی ہے ۔ یہ ان کی دس بارہ سالہ زندگی کا پہلا سفر ہے۔ شب ہجر نے چاروں طرف سیاہ چادر تانی ہوئی ہے ۔ بڑے بھیا ، بھابھی اور چھوٹی گڈی سے ڈھائی تین سال بڑی بہن کے ہمراہ سفر کا آغاز ہو چکا ہے ۔ دس سال کا عرصہ اماں ابا کے زیر سایہ گزار کر شب تنہائی اور جدائی گلے مل رہی ہیں ۔ بھائی نے اُن دونوں کو اوپر والی برتھ پر سوار کرادیا ہے اور تاکید کی ہے کہ تم نے اب سو جانا ہے ۔ دونوں خاموش اور سراسیمہ ہیں ۔اوپر لیٹ گئی ہیں ۔ گائوں سے چلتے وقت بھائی نے سب کو بتایا تھا کہ آج سے ہر کوئی ان دونوں کو اصلی نام سے پکارے گا ۔ چھوٹی گڈی اور بڑی گڈی نہیں کہے گا ۔ عائشہ اور فاطمہ ، یہی تو ان کے وہ نام تھے جو گائوں کے چوکیدار نے پیدائش رجسٹر میں درج کیے تھے مگر کسی نے پکار کر نہ دیے تھے ۔ بھائی نے اُن کو پہچان دی تھی ۔ اب بڑی عائشہ اور چھوٹی فاطمہ تھی۔
برتھ پر جاتے ہی چھوٹی کو تو گاڑی کے ہچکولوں نے پنگھوڑے کی طرح آغوش میں لے…

مزید پڑھیں

کرے نہ ختم کبھی روشنی سفر اپنا- بتول نومبر ۲۰۲۱

وہ تن دہی سے کام میں مصروف تھی۔ اس کا خاوندسلام بن مشکم صبح سے نکلا ہؤا تھا ۔ پر تکلف کھانے کے اہتمام کے لیے اسے کچھ خاص مصالحوں کی ضرورت تھی ۔ اُس نے اُسے یثرب کے آخری کونے میں ایک گمنام جڑی بوٹیوں والے سے زہریلی جڑی بوٹی بھی لانی تھی ۔ اس جڑی بوٹی کا ذکرکسی طبیب سے سنا تھا اس لیے ا س کے ذہن میں ایک شیطانی منصوبہ آیا ۔ اُس طبیب سے اُس کے گہرے مراسم تھے ۔
جب سے مدینے والا نبی یہاں آیا تھا ، ان کو یثرب کی زمین اپنی نہیں لگتی تھی ۔ جہاں دیکھو، چار آدمی موجود ہیں ، وہیں چہ میگوئیاں ہونے لگتیں ۔ کوئی محفل اللہ کے ذکر سے معمور ہوتی تو کوئی مجلس اس نبی کی مخالفت میں مشورے کرتی نظر آتی اور وہ بھی چپکے چپکے ۔ آنکھوں اور ہاتھوں کے اشارے سے اطمینان کر لیا جاتا کہ اپنے ہی آدمی ہیں۔
یہودی مدینے میں صدیوں سے اپنا کاروبار جما کر بیٹھے ہوئے تھے ۔ اُس کے پاس تو رات و انجیل تھیں جو الہامی کتب تھیں ۔ عرب بھر میں اُن کی بڑی عزت تھی۔ بڑے بڑے دیوی دیوتائوں کے استھان تھے جن پروہ بڑے…

مزید پڑھیں

غزل- بتول نومبر ۲۰۲۱

سرِ شاخِ نشیمن چہچہانا اور ہے اے دل
کسی کنجِ قفس کو گھر بنانا اور ہے اے دل
ہنسی اہلِ چمن کی بھی نہایت خوب ہے لیکن
پسِ دیوارِ زنداں مسکرانا اور ہے اے دل
کسی دشمن سے پنجہ آزمائی اور ہوتی ہے
کسی کی دوستی کو آزمانا اور ہے اے دل
تعلق کے ہزاروں رنگ ہیں دنیائے ہستی کے
کسی سے عمر بھر رشتہ نبھانا اور ہے اے دل
بھری محفل میں گانا داد پانا خوب ہوتا ہے
تصور میں کسی کے گنگنانا اور ہے اے دل
نہ بن ناصح کہ رزمِ من و تو کی آزمائش میں
خودی کے ساتھ خود کو ہار جانا اور ہے اے دل
چھپا کاغذ کی نائو میں لڑکپن ملنے آتا ہے
شبِ پیری میں ساون رُت کا آنا اور ہے اے دل

مزید پڑھیں

اقبال بارگاہِ الٰہی میں – بتول نومبر ۲۰۲۱

شہید حریت سید علی شاہ گیلانی کی زندگی اقبال کے پیغام خود ی کا جیتا جاگتا مظہر تھی ۔ زیر نظر مضمون ان کی کتاب ’’اقبال روح دین کا شناسا‘‘ ؎۱ کے ایک باب میں سے ترتیب دیا گیا ہے جس میں انہوں نے اقبال کے شہرہِ آفاق فارسی کلام ’’ جاویدنامہ‘‘ کے چند اشعار پر گفتگو کی ہے (ص۔۱)
از ملوکیت جہانِ تُو خراب
تیرہ شب در آستین آفتاب
دانش افرنگیاں غارت گری
دیرہا خیبر شُد از بے حیدری
آنکہ گوید لا الٰہ بے چارہ ایست
فکرش از بے مرکزی آوارہ ایست
چار مرگ اندر پئے ایں دیر میر
سود خوار و والی و ملاّ و پیر
اقبال بارگاہ ایزدی میں فریاد کناں ہیں کہ تیری یہ دنیا ، انسانوں کی حاکمیت کے نتیجے میں تباہ و برباد ہو گئی ہے ۔ ملوکیت ، چاہے بادشاہو ں کی ہو یا نام نہاد جمہوریت کے نام پر کسی قوم کی اکثریت کا راج ہو ، دنیا امن وآشتی اورخوشحالی و فراغت سے محروم ، ظلم و استبداد کا شکار ہے ۔ یہ تاریکی میں ڈوب چکی ہے حالانکہ اس کے پاس ہدایت اور رہنمائی موجود ہے ، لیکن وہ اس کو استعمال میں لانے سے کسی نہ کسی بہانے اور عذر سے انحرف کر رہی ہے ۔
مغربی دنیا کی…

مزید پڑھیں

رسول اللہ ﷺ قرآن کے آئینے میں- بتول نومبر ۲۰۲۱

اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم نازل فرمایا جو تمام انسانوں کے لیے ابدی ہدایت کا ذریعہ ہے۔ اللہ کا کلام جبریل امینؑ کے ذریعے محمد رسول اللہ ؐ کے قلبِ اطہر پر اتارا گیا۔اس کی ہر سورت اور ہر آیت ہدایت، نور اور روشنی ہے۔ اس کے پہلے مخاطب رسول اللہ ؐ ہیں اور پھر ان کے ذریعے یہ تمام انسانوں کے لیے ہے۔ کلامِ الٰہی کے ہر شذرے کا ایک خاص پس منظر بھی ہے اور موقع و محل بھی۔
رسول اللہ ؐ قرآن کی دعوت لے کر اٹھے تو انہیں دو طرح کے انسانوں سے سابقہ پیش آیا؛ وہ جنہوں نے حق کی پکار پر لبیک کہا اور کاروان ِ حق میں شامل ہو گئے۔ اور وہ جنہوں نے اس کا انکار کیا اور جاہلیت پر جم گئے۔رسول کریم ؐ نے تقریباً ۲۳ برس کی مدت میں قرآن کا پیغام دنیا تک پہنچایا، اور دین ِ اسلام غربت سے نکل کر ریاست اور پھر جزیرہ عرب کے اطراف و اکنار تک پھیل گیا۔
قرآن کریم کی پہلی وحی میں رسول اللہ ؐ کو ’’اقرأ‘‘ (پڑھیے) کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے اور آخری سورۃ (النصر)میں ’’فسبح بحمد ربک واستغفرہ‘‘ (اے نبیؐ، اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح…

مزید پڑھیں

ابتدا تیرے نام سے – بتول نومبر ۲۰۲۱

قارئین کرام!
ڈاکٹرعبدالقدیر خان کی رحلت ایک قومی صدمہ ہے۔ وہ حقیقی معنوں میں محسنِ پاکستان تھے۔انہوں نے پاکستان کے لیے ایٹمی پروگرام کی داغ بیل ڈالی جس کو پھر بہت سی شخصیات اور اداروں نے ترقی دے کر وطنِ عزیز کو ایٹمی طاقت بنادیا۔ اس کا اعزاز انہی کے نام آتا ہے، عزت کا یہ مقام اللہ جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔پاکستان بننے کے بعد اپنے آبائی وطن سے ہجرت کی اور خود کو پکا اور سچا پاکستانی بنایا۔ ملک کو اتنی بڑی دفاعی صلاحیت دینے پر انہیں امریکہ کے حکم پرقوم سے معافی مانگنی پڑی اور پانچ سال کے لیے گھر میں نظربند رہنا پڑا۔ اور یہ اس وقت ہؤا جب پاکستان اپنے مفادات کے بالکل خلاف جاکر امریکہ کی جنگ کا حصہ بنا جو صریحاً ناجائز بلکہ انسانیت کے خلاف سنگین جرائم پر مبنی تھی۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ’’ صفِ اول کے اتحادی ‘‘ کو عالمی طاقتوں نے کس ذلت کے مقام پر رکھا ہؤا تھا۔وہ ساری قوم کے لیے بے حد مشکل اور دکھ سے بھرپور وقت تھا۔ مگر اس وقت کی یاد آج بھی ہمارے اجتماعی قومی ضمیر کے لیے ایک تازیانہ ہے۔قوم کا یہ محسن عوام سے بھرپور محبت پانے کے باوجودآخر…

مزید پڑھیں

بارش کے بعد -بتول نومبر ۲۰۲۱

’’بارش کے بعد‘‘منشورات کا شائع کردہ ڈاکٹر بشریٰ تسنیم کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔ کتاب پر سلیم منصورخالد، فرزانہ چیمہ اورصائمہ اسماءجیسی قدآور شخصیات کے تبصرے قیمتی اثاثہ ہیں۔
مجموعہ کا پہلا افسانہ ’’شام و سحر تازہ کریں ‘‘شگفتہ اسلوبی سے لکھی تحریر بہت پراثر بھی ہے جو دوران مطالعہ قاری کو اپنی گرفت میں لیے رکھتی ہے۔ پرانے زمانے کی خوبصورت منظرکشی پڑھ کر بہت اچھا لگتا ہے۔ تاریخی، تہذیبی اور سماجی قدروں کے ذکر نے تحریر میں جان ڈال دی ہے۔ بڑی بڑی حویلیاں، باغ، جھولے، اور پھول پودے، برآمدہ و تخت اور تخت پر دادی اماں اور ان کا پاندان وغیرہ یہ تمام باتیں اب قصہ پارینہ ہوئیں۔ وفا اور حیا کا بڑے خوبصورت پیرائے میں ذکر، پاکیزہ جذبوں کی حقیقی ترجمانی، مغربی تہذیب سے متاثر اولاد کی بے حیائی اور بے اعتنائی پر بحیثیت باپ عبد الرحیم مرزا کا ملول ہونا، ان سب قصوں میں حقیقت کا رنگ نظر آیا۔ ہر پہلو سے یہ ایک شاہکار تحریر اور بہترین افسانہ ہےجو افسانہ نگار کی فن پہ گرفت کا ثبوت دے رہا ہے۔
’’ہم کہ ٹھہرے اجنبی ‘‘یہ کہانی آپ کی پاکستان سے دلی محبت اور اس کی تاریخ سے گہری وابستگی کا مظہر بھی ہے۔ آپ نے مشرقی…

مزید پڑھیں

فارمی مرغیاں -بتول نومبر ۲۰۲۱

ماموں کے گھر جانا ہوا۔ ان کی بیٹی نے اصلی مرغیاں پال رکھی ہیں۔صبح ہی صبح شور اور آواز یں۔۔۔ کزن سے پوچھا خیر تو ہے ۔ کہنے لگی آج ان کا ڈربہ کھولنے میں دیر ہو گئی۔وہ احتجاج کر رہی تھیں۔
دوپہر میں ایک اور تجربہ ہوا ۔ انھوں نے مرغی ذبح کرنے کا سوچا۔ان میں سے ایک کو پکڑنے کے لیے تین افراد نے کوشش کی۔ وہ کبھی دوڑنے لگتیں کبھی چھلانگ لگا دیتیں۔کبھی درخت پر چڑھ جاتیں۔ بمشکل ایک پکڑی گئی۔پوچھا اتنی متحرک کیسے ہیں۔کراچی کی مرغیاں تو اٹھ بھی مشکل سے پاتی ہیں۔ہنسنے لگیں، باجی یہ فارمی نہیں اصلی مرغیاں ہیں۔
تب مجھے اپنی سہیلی کی بات یاد آئی۔ بچوں کے معا ملے میں سستی برداشت نہ کرتی تھیں۔اکثر کہتیں مجھے ان کو معاشرے کے لیے فارمی چوزے نہیں بناناکہ ذرا تلخی برداشت نہ کر پائیں، اپنے پاؤں پر چلنا بھی دوبھر ہو ۔نہ ہی سہولیات کا عادی بنانا ہے کہ مشینوں کےغلام بن کر رہ جائیں اور کچھ نہ ملنے پر پوری زندگی خود ترسی اور احساس کمتری کی نظر کر دیں۔ انھیں سخت جان اور پر اعتماد بنانا ہے۔احساس ذمہ داری پیدا کرنا ہے ان کے اندر۔
اس کی بات کا اثر تھا کہ میں نے بھی…

مزید پڑھیں

سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ – بتول نومبر ۲۰۲۱

مسجد النبوی شریف کی زیارت سے بہت اطمینان ہؤا ۔اگرچہ پہلی بار اس قدر سناٹا اور خالی سڑکیں دیکھی تھیں، لیکن پھر بھی بے حد سکون ملا اور مدینہ شریف کی اپنی رونق ہر لحظہ محسوس ہوتی رہی۔ طیبہ شریف ہر حال میں بارونق اور خوبصورت لگتا ہے۔ ہمیں تو ایک بڑی کمینی سی خوشی بھی ہو رہی تھی کہ ہم نے کم لوگوں کی وجہ سے مدینہ شریف کو خوب اچھی طرح سے دیکھ لیا ہے۔
وبا کے مضر اثرات اور اقتصادی خسارے کا اندازہ تب ہؤا جب سب بازار اور ہوٹل بند دیکھے۔ وبا کے پہلے پانچ مہینوں میں سوائے ہسپتال کے کہیں اور جانے کا موقع ہی نہیں ملا۔ یہ ہمارا پہلا سفر تھا۔ تیسرے دن ہم مدینہ شریف سے رخصت ہوئے اور واپسی کے سفر میں قصیم رکے، جہاں میمونہ حمزہ ہمارا انتظار کر رہی تھیں۔ انہوں نے کھانے پر بہت اہتمام کر رکھا تھا، اور اپنی دوستوں کو بھی ہم سے ملنے کی دعوت دے رکھی تھی۔ ہمیں ان سب سے مل کر بہت اچھا لگا۔ وہ سب بالکل ایک خاندان کی طرح رہتے ہیں۔ ان کی کچھ دوستوں سے بھی ملاقات ہوئی۔ اگلے دن ان سب نے ہمارے ساتھ ناشتے کا پروگرام بھی بنا رکھا…

مزید پڑھیں

مدینہ کا تاریخی پس منظر – بتول نومبر ۲۰۲۱

یہ شہر جو آج مدینۃ النبیؐ، طیبہ، مدینہ منورہ، مدینہ طیبہ اور تقریبا ً دیگر سو ناموں سے موسوم ہے کہا جاتا ہے کہ پہلے یثرب کہلاتا تھا کیوں کہ یہ ’’ حضرت نوحؑ کی اولاد میں سے کسی ایک کا نام ہے جب ان کی اولاد متفرق شہروں میںآباد ہوئی تو یثرب نے اس سر زمین میں قیام کیا ‘‘ ؎۱
ویسے اس روایت کو تقویت عمالقہ کے یہاں مقیم ہونے سے بھی ملتی ہے ۔ حضرت نوح ؑ کی کشتی پر سوار وہ لوگ تھے جو کفر و شرک اختیار کرنے کے بعد بابل سے مدینہ کی طرف آ بسے تھے اور انہوں نے زراعت کے پیشے کو اپناتے ہوئے بکثرت کھجوروں کے درخت لگائے یہ مسام بن نوح کی اولاد میں سے تھے ۔ ان کا اقتدار حجاز کے کافی بڑے علاقے پر قائم تھا وہ تکبر میں مبتلا ہوگئے ۔ اس وقت ان کا بادشاہ ارقم تھا جب حضرت موسیٰؑ نے فرعون کی ہلاکت کے بعد مصر و شام کو فتح کیا او ر دیگر علاقوں کی تسخیر کے لیے بنی اسرائیل کو روانہ کیا تو ایک گروہ نے عمالقہ کے تمام مردوں کو بشمول بادشاہ قتل کر دیا او ریہیں آباد ہوگئے اور اس طرح یہود…

مزید پڑھیں

اللہ کی محبت اور اللہ کے لیے محبت- بتول نومبر ۲۰۲۱

اللہ کی محبت کیا ہے؟
احادیث سے پہلے ہم کچھ قرآنی آیات کے ذریعے یہ دیکھیں گے کہ اللہ کی محبت سے کیا مراد ہے، یہ کیسی ہوتی ہے اور اللہ کی محبت پانے کی کیا شرائط ہیں، یعنی وہ خوش نصیب کون ہیں جن سے اللہ تبارک وتعالیٰ محبت فرماتا ہے ۔
اللہ کی محبت ایک ایسا جذبہ ہے جس سے انسان دنیا و مافیہا کی ہر پریشانی اور دکھ سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اللہ کی محبت کے سرور میں انسان دنیا اور اس کی لذتوں سے بے نیازہو جاتا ہے۔ اللہ کی محبت انسان کو دنیا والوں اور ان کی تلخ باتوں سے بھی بے نیاز کر دیتی ہے۔ یعنی انسان کو پروا نہیں رہتی کہ لوگ کیا کہیں گے بلکہ وہ صرف اللہ کے احکام کو پورا کر کے، اللہ کی محبت حاصل کرنے کی پروا کرتا ہے۔ جس کو اللہ سے محبت ہوتی ہے اس کا دل و دماغ ہمیشہ اللہ کی باتوں اور اللہ کے ذکر میں لگا رہتا ہے۔ وہ اللہ سے ملاقات کے لیے بیتاب رہتا ہے ۔ پھر ایسے شخص کے لیے نماز بوجھ کیوں کر ہوگی (نماز بھی تو اللہ سے ملاقات ہی ہوتی ہے ناں!) پھر اللہ سے محبت کرنے والے…

مزید پڑھیں