روبینہ قریشی

خواب سراب – بتول جون ۲۰۲۲

میں میٹرک میں تھی جب مجھ سے بڑی بہن کی منگنی ہو گئی۔اس کے منگیتر کی آمد پہ وہ گھر میں چھپتی پھرتی لیکن ہونے والے جیجا جی کی نظریں اسے ڈھونڈ ہی لیتیں۔بہت مرتبہ میری منت سماجت بھی کرتے کہ بس پانچ منٹ کے لیے بات کروا دو۔ میں نے بہت مرتبہ ان سے آئس کریم کھائی، گفٹس لیے بلکہ یہ کہیں کہ انہیں دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔لیکن کمال بھائی بھی کمال کے انسان تھے۔ آپو کی بس ایک جھلک کےلیے ہر ہفتے گھنٹوں کا سفر کر کے آجاتے۔
خیر آپو جیسی خوبصورت اور خوب سیرت لڑکی کے لیے کم از کم اتنا پیار کرنے والا ساتھی تو بنتا تھا!
کمال بھائی اپنے گھر میں سب سے بڑے تھے۔انکے والد صاحب جب وہ میٹرک میں تھے تب وفات پاچکے تھے۔باپ کی وفات کے بعد انہوں نے دن رات ایک کرکے اپنے والد صاحب کے کاروبار کو سنبھالا اور اب وہ اپنے چھوٹے سے شہر کے ایک جانے پہچانے انسان تھے جن کی وجہ شہرت ان کی بہترین کاروباری ساکھ اور ایمانداری تھی۔
آپو کی شادی بہت دھوم دھام سے ہوئی۔ میرے بابا نے اس کی شادی پہ کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
آپو شروع سے ہی بہت سگھڑ، کم گواور خوبصورت تھیں۔ میں خوبصورتی…

مزید پڑھیں

تربیت کہاں رہ گئی! – بتول اپریل ۲۰۲۲

ایک مرتبہ ایسا ہؤا کہ ایک والدہ نے کال کی کہ ان کی بچی کو او لیول کی ٹیوشن چاہیے ۔
ان دنوں میری بیٹی MS Chemistry کے بعد شہر کے ایک well known ادارے میں او لیول اور اے لیول کی بچیوں کو کیمسٹری پڑھارہی تھی.. یہ کسی کے توسط سے ایک ڈاکٹر والدین کی بیٹی کے لیے والدہ نے کال کی کہ ان کی بیٹی، میری بیٹی کی طالبہ تو نہیں یعنی کسی اور ادارے میں پڑھتی ہے لیکن وہ چاہتی تھیں کہ میری بیٹی ان کی بچی کو ٹیوشن پڑھائے ۔
اس خاتون نے اتنی محبت اور عاجزی سے بات کی کہ میں نے ان سے وعدہ کر لیا کہ آپ بچی کو بھیج دیا کریں ۔
بیٹی کو بتایا کہ میں نے وعدہ کر لیا ہے تو آپ اب اپنا ٹائم ٹیبل سیٹ کر لیں.. ایک ہی مہینے کی تو بات ہے۔
یہ گرمیوں کی چھٹیوں کے دن تھے\۔بڑی والی بیٹی چھٹیوں میں پاکستان آئی ہوئی تھی\۔اس کی بیٹی کے لیے بہت سارے کھلونوں کے ساتھ ساتھ بار بی والے کارٹون ڈائون لوڈ کر کے فلیش میں ڈال کے رکھے ہوتے تھے۔
اگلے دن سے وہ بچی مقررہ وقت پہ آگئی۔
بچی 13یا 14 سال کی تھی….. بہت پیاری کم گو اور…

مزید پڑھیں

میں اس کرم کے کہاں تھا قابل! – بتول جولائی۲۰۲۲

یہ مئی 2014 کی بات ہےجب بڑی بیٹی نے سعودیہ سے کال کی تو اس نے بتایا کہ امی اس سال میرا حج کا ارادہ ہےتو میں نے آپ کی اور دونوں چھوٹی بہنوں کی بھی ویزہ درخواست بھیج دی ہےتا کہ جب میں حج پہ جائوں تو میرے دونوں بچوں کے پاس آپ ہوں اور آپ اکیلے نہیں سنبھال پائیں گی تو جس بہن کا ویزہ نکل آئے اسے بھی ساتھ لانا ہوگا۔آپ دعا کیجیے گا اللہ سارے کام آسان بنا دیں۔
جب میں 2012 میں سعودیہ سے واپس آئی تھی تو آنے سے پہلے خانہ کعبہ کو اللہ حافظ کہتے ہوئے بہت روئی تھی۔ مجھےدوبارہ ادھر جانے کی امید اس طرح نہیں تھی کہ نہ تو مالی وسائل ایسے تھےاور نہ ہی گھریلو مسائل ایسے تھےکہ بظاہر جانے کا امکان نظر آتا۔مریم کی کال سن کے میری آنکھوں سے آنسو رواںہو گئے۔ امید نظر آرہی تھی کہ شاید میرا پھر بلاواہےاللہ کے گھر سے اور حاضری کا اذن ہےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں۔
ایک ہفتہ گزرا تو بیٹی نے بتایا کہ امی آپ کا اور دونوں چھوٹی بہنوں کا ویزہ آگیا ہےجو کہ تین ماہ تک کار آمد ہے۔ ابھی مئی کا مہینہ ہےیعنی آپ لوگوں نےاگست…

مزید پڑھیں

میں اس کرم کے کہاں تھا قابل! – بتولاگست۲۰۲۲

پھر منتہیٰ اور میں نے عمرہ شروع کرنے والے مقام پہ جہاں سبز روشنی ہے آکر عمرہ کی نیت کر کے طواف شروع کیا۔ طواف کے دوران ہاتھ اٹھا کے دعا مانگنے کی بجاے مسنون دعائیں مسلسل پڑھتی رہی۔ جہاں سے پہلا چکر شروع ہوتا ہے وہاںہر دفعہ ربنا اتنا فی الدنیا حسنہ و فی الا آ خرۃ حسنہ وقنا عذاب النار پڑھنی ہوتی ہے اورہر دفعہ حجر اسود کے سامنے گزرتے ہوے دایاں ہاتھ اٹھا کر بسم اللہ اللہ اکبر کہنا ہے۔باقی سات چکروں میں دعائیں اگر نہیں یاد تو کتاب رکھ کے پڑھ لیں یا جو دعائیں یاد ہیں وہ ہی پڑھ لیں۔اس کے بعد مقام ابراہیم پہ دونفل پڑھے اور ہم دونوں صفا مروہ پہ آگئے۔
یہاں چاہے آپ کسی بھی زبان میں اللہ سے مانگیں، تو ہم دونوں نے بھی اللہ کو دل کی ساری باتیں بتائیں۔ اس کے بعد بال کاٹے دونفل پڑہے اور عمرہ مکمل ہؤا۔تب فجر کی اذان ہو رہی تھی\۔کچھ دیر میں جماعت کھڑی ہو گئی۔ نماز فجر سے فارغ ہوے تو گھر فون کر کے بتایا کہ ہم دونوں نے عمرہ کرلیا ہے۔چھوٹی والی مونا کو اپنی دعاؤں کا پوچھ رہی تھی کہ مانگیں یا نہیں۔ منتہیٰ مسلسل رو رہی تھی اور…

مزید پڑھیں

وہ عیدیں! – بتول مئی ۲۰۲۲

لیں جی!
رمضان کا مہینہ اپنی رحمتوں، برکتوں، عبادتوں اور رونقوں کو لے کر، ہمیں سال بھر کی جدائی دےکر جا چکا ہے۔ جنہوں نے کچھ کمائیاں کرلیں روزے رکھ لیے اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کی، ان کے بھی دن گزر گئے، اور جو کچھ حاصل نہیں کرسکے ان کے بھی دن گزر گئے۔
اور اب عید کی آمد ہے۔
میں سوچ رہی تھی کہ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہی عیدیں پھر سے آجائیں،جب عید کے چاند کو دیکھنے ہم چاروں بہن بھائی مل کے خوب کھلی جگہ کھڑے ہوتے۔ادھر چھوٹا بھائی کہتا :
’’یہ تم چاند کہاں ڈھونڈ رہے ہو، میں تو یہاں ہوں‘‘ ۔
جب اماں عصر کے وقت مہندی بھگو کے رکھ دیتی تھیں اور عید کا چاند چڑھنے کے بعد دونوں ہاتھوں پہ سیدھا لیپ کر کے مٹھیاں بند کروا کے اوپر لفافے چڑھا کے ہمیں سلا دیتی تھیں۔اگلے دن پورے ہاتھ کی لال سرخ مہندی میں سفید سفید قسمت کی لکیروں والا آٹو میٹک ڈیزائن تیار ہوتا تھا۔
رات کو جتنی بار آنکھ کھلتی سامنے بروکیڈ یا لیڈی ہملٹن کا سوٹ جس پہ خالہ جمشید نے ستارے لگا کے تیار کیا ہوتا تھا ، دیکھ دیکھ کر دل خوشی سے بھر جاتا تھا۔
پھر عید کے دن کی شام…

مزید پڑھیں

سات نسلیں – روبینہ قریشی

جہاز رن وے پر دوڑ رہا تھا، صائمہ پانچ سال کے بعد کینیڈا سے پاکستان آنے پر جہاں بہت خوش تھی وہاں اداس بھی تھی۔ان سالوں میں اس کے بہت پیارے کچھ رشتے اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے تھے جن میں ایک اس کے بہنوئی تھےاور دوسری اس کی دوست عشاء۔
کووڈ سے پہلے تو وہ باقاعدگی سے ہر سال اپنے شوہر کے ساتھ پاکستان آتی رہتی تھی لیکن 2018 کے بعد کووڈ کے علاوہ بھی کچھ وجوہات کی بنا پر وہ پاکستان نہیں آسکی تھی۔اور اب پاکستان جاتے ہوئے وہ اپنی دوست اور بہنوئی کے ساتھ پچھلے سالوں میں اپنی ملاقاتوں کو یاد کرتے ہوئے اداس ہو رہی تھی۔
جہاز اسلام آباد ایئر پورٹ پر اتر چکا تھا۔اس کی بڑی بہن اور بھانجا اسے لینے ایئرپورٹ پر موجود تھے۔
آپا کو سفید بالوں، سفید دوپٹے اور سادہ چہرے میں دیکھ کر پھر سے بہنوئی کا اچانک دنیا سے جانا یاد آگیا۔
وہ ایئر پورٹ پر ان کے گلے لگ کر بہت سارا رونا چاہتی تھی لیکن اِدھر اُدھر لوگوں کی موجودگی کی وجہ سے اس نے اپنے آپ کو بڑی مشکل سے سنبھالا۔
یہ مئی کی نسبتاً گرم دوپہر تھی۔گھر جاتے ہوئے سڑک کے کنارے درختوں پر مٹی کی ایک تہہ کو دیکھتے…

مزید پڑھیں

قصیدہ برد ہ – روبینہ قریشی

جس کا فیض آج بھی جاری ہے، کیا خاص بات اس سے منسوب ہے؟
مصر کے ایک مشہور بزرگ شرف الدین بوصیری گزرے ہیں۔انہوں نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔جیسا کہ والدین بچوں کو سکولوں مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے بھیجتے ہیں اسی طرح بوصیری کو بھی والدین نے مدرسے بھیجنا شروع کیااور جلد ہی آپ نے قرآن پاک حفظ کر لیا۔
اس کے بعد آپ کے والد صاحب کی خواہش تھی کہ اب آپ کچھ کام کاج کریں تا کہ گھر سے غربت کا خاتمہ ہوجبکہ بوصیری ابھی مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے۔ وہ ایک زیادہ روشن مستقبل چاہتے تھے۔گھر میں باپ بیٹے کے درمیان کھینچا تانی شروع ہو گئی۔آخر کار بوصیری نے اپنی والدہ کو اپنے ساتھ ملا کے والد سے مزید پڑھنے کی اجازت لے لی۔
اس کے بعد آپ نے تجوید، فقہ اور باقی ضروری مضامین کو پڑھا اور بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا۔اس وقت تک آپ ایک دنیادار شخص تھے اور مادی کامیابیوں کو ہی ترجیح دیتے تھے۔آپ غربت سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے۔شاعری کا وصف آپ کو اللہ کی طرف سے ودیعت کیا گیا تھا۔اب آپ بادشاہوں کی شان میں قصیدے بھی لکھتے تھے اور نئے شعراکی اصلاح بھی کیا کرتے تھے۔درس…

مزید پڑھیں

محشرِ خیال

پروفیسر خواجہ مسعود ۔ اسلام آباد
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘ ‘ اب کے مدیرہ محترمہ ڈاکٹر صائمہ اسما کا تحریر کردہ اداریہ دل دہلا دینے والا ہے ۔ ملکی اور بین الاقوامی حالات پر جس پُر درد اور تلخ لہجے ( اور سچ تلخ ہی ہوتا ہے )میں آپ نے تبصرہ کیا ہےاُسے جرأت مندانہ ہی کہا جا سکتا ہے ۔ واقعی حالاتِ حاضرہ پر آپ کی کڑی نظر رہتی ہے جو ہر ماہ تبصرے کی شکل میں ہمارے سامنے آجاتی ہے ۔ کاش ارباب اختیار بھی یہ تبصرہ غور سے پڑھ لیا کریں ۔ اداریہ کے یہ جملے خوبصورت ہیں ’’ نبی اکرمؐ نے جس شاندار ریاست اور معاشرے کی بنیاد ڈالی اُس کی ایک مثال دنیا کے سامنے پیش کریں ، سچ ، دیانت داری ، امانت کا پاس، عدل وانصاف ، مساوات ، شجاعت ، خودداری ، محنت ، خود انحصاری ، ایک دوسرے کی خیر خواہی ، بھائی چارہ اور حقوق العبادمیں کمال حاصل کریں ‘‘۔ مدیرہ صاحبہ نے تو اسلامی تعلیمات کا نچوڑ پیش کر دیا ہے۔واقعہ کربلا پربھی آپ کا تبصرہ زبردست ہے ۔یہ جملے قابل داد ہیں ’’ واقعہ کربلا اصول پسندی، جرأت و شجاعت ، فرض شناسی اور حق گوئی کی…

مزید پڑھیں