لیں جی!
رمضان کا مہینہ اپنی رحمتوں، برکتوں، عبادتوں اور رونقوں کو لے کر، ہمیں سال بھر کی جدائی دےکر جا چکا ہے۔ جنہوں نے کچھ کمائیاں کرلیں روزے رکھ لیے اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کی، ان کے بھی دن گزر گئے، اور جو کچھ حاصل نہیں کرسکے ان کے بھی دن گزر گئے۔
اور اب عید کی آمد ہے۔
میں سوچ رہی تھی کہ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہی عیدیں پھر سے آجائیں،جب عید کے چاند کو دیکھنے ہم چاروں بہن بھائی مل کے خوب کھلی جگہ کھڑے ہوتے۔ادھر چھوٹا بھائی کہتا :
’’یہ تم چاند کہاں ڈھونڈ رہے ہو، میں تو یہاں ہوں‘‘ ۔
جب اماں عصر کے وقت مہندی بھگو کے رکھ دیتی تھیں اور عید کا چاند چڑھنے کے بعد دونوں ہاتھوں پہ سیدھا لیپ کر کے مٹھیاں بند کروا کے اوپر لفافے چڑھا کے ہمیں سلا دیتی تھیں۔اگلے دن پورے ہاتھ کی لال سرخ مہندی میں سفید سفید قسمت کی لکیروں والا آٹو میٹک ڈیزائن تیار ہوتا تھا۔
رات کو جتنی بار آنکھ کھلتی سامنے بروکیڈ یا لیڈی ہملٹن کا سوٹ جس پہ خالہ جمشید نے ستارے لگا کے تیار کیا ہوتا تھا ، دیکھ دیکھ کر دل خوشی سے بھر جاتا تھا۔
پھر عید کے دن کی شام کو لازمی دونوں پھپھیاں، بڑی پھپھو اپنی اکلوتی، خوبصورت اور فیشن ایبل لمبے بالوں والی بیٹی کے ساتھ اور دونوں ماموں جان اپنی اپنی فیملی کے ساتھ عید ملنے آتے۔اماں صبونڑی حلوہ (مکھنڈی حلوہ) اور سویوں کی کھیر اور ڈھیر سارا بکرے کا کڑاہی گوشت صبح سویرے بنا کے رکھ دیتی تھیں۔
سب سے زیادہ مزہ اس وقت آتا جب ابا عید کی نماز پڑھ کے گھر پہنچتے، ہمارے عید کے کپڑوں کو بڑی محبت سے دیکھتے، پیار سے سراہتے اور ہمارے چھوٹے چھوٹے دوپٹے ہمارے سروں پہ سیٹ کر کے دس، دس والے نئے نوٹوں کی عیدی دیتے۔ میری ساری سہیلیوں اور کزنز کو بھی اسی طرح ابا سے عیدی ملتی جیسے ہمیں ملتی تھی۔
اور وہ دس روپے شام تک پوری کوشش کے باوجود ختم نہ ہو پاتے !
جب ہم تیار ہو کے داد طلب نظروں سے چھوٹے بھائی کو دیکھتے تو وہ کہتا:
’’بالکل بندریا لگ رہی ہو، اب کوئی ضرورت نہیں گھر سے باہر نکلنے کی،گھر کے اندر بیٹھو‘‘۔
اور بڑے والا کہتا:
’’واہ بھئی آج تو لشکارے ہیں.. شام کو کس سہیلی پہ بجلیاں گرانی ہیں؟مجھے بتانا، میں لے جاؤں گا‘‘(دونوں بھائی مختلف مزاج کے!)
ہر عید کے موقع پہ سب اکٹھے ہوتے تو حافظ سوڈا واٹر سرگودھا سے فالودہ کھانے ضرور جاتے اور اگلے دن کسی بڑے بھائی کی زیر نگرانی خیام، شمع یا شاہین پہ کوئی اچھی فلم بھی لازمی دیکھتے۔
پھر شادی کے بعد کے پہلے سالوں کی عیدیں!
سہمی ہوئی اداس لڑکی کی عیدیں، ابا کی کمی کا شدید احساس، امی کا انتظار…..پھرجب شام کو اماں اور بھائی آجاتے تو میری عید بھی شروع ہو جاتی۔
اور پھر 80 اور 90 کی دہائی کی عیدیں آگئیں جب مارکیٹ میں بچے (میرے بچوں سمیت) تھوڑے سے تیز آنا شروع ہو چکے تھے،جو آکے ماموؤں کو گلے مل کے کہتے تھے:
’’ماموں، عیدی مبارک‘‘ ۔
اور ماموں پوچھتے کہ عیدی تو ملے گی لیکن پہلے یہ تو بتاؤ کہ کتنے روزے رکھے؟
اور میں جو بچوں کو کہتی تھی کہ ابھی تم چھوٹے ہو اس لیے تمہیں سحری کا ثواب بھی روزے جتنا ملے گا اس لیے جمعہ کا روزہ رکھو اور باقی سحریاں….. تو بچے حساب کر کے بتاتے۔
’’ماموں 4 روزے اور 17 سحریاں رکھیں‘‘۔
پھر ماموں حساب کتاب کرکے سحریوں کی عیدیاں الگ اور پورے روزوں کی عیدیاں الگ دیا کرتے۔اور سب سے چھوٹی والی نور کے ‘‘چڑی روزے‘‘ کبھی کبھی تو 36 بھی بن جاتے۔
دل چاہتا ہے وہی عیدیں پھر سے آ جائیں۔عیدکارڈ ہوں، چوڑیاں ہوں، مہندیاں ہوں…..بیٹیوں کی وہی سہیلیاں ہوں، وہی ٹاؤن کے چوک میں سٹال پہ موتیوں والے لمبے لمبے ہار ہوں، عینکیں ہوں۔
عید کارڈوں پہ وہی شعر و شاعری ہو۔
آم لگے، انگور لگے، پھر لگے بادام
عید کارڈ کھولنے سے پہلے میرا سلام
عید آگئی زمانے میں
میری سہیلی گر گئی غسلخانے میں
عید عید نہ کر، عید بھی آجائے گی
پہلے 30 روزے رکھ، عقل ٹھکانے آجائے گی
ڈبے میں ڈبہ، ڈبے میں کیک
میری مونا، لاکھوں میں ایک
سیویاں پکی ہیں، سب نے چکھی ہیں
مت رو میری جان، تمہارے لیے بھی رکھی ہیں
چاول چنتے چنتے نیند آ گئی
صبح اٹھ کے دیکھا تو عید آگئی
اور سب سے انوکھی بات یہ کہ 80 اور 90 کی ساری یادیں میرے بچوں کی ہیں جن سے میں خود، ان بچوں سے زیادہ لطف اندوز ہوتی تھی۔ہر دور کی اپنی خوبصورتیاں ہوتی ہیں لیکن مجھے لگتا ہےکہ 80 اور 90 کی دہائی کی عیدیں بڑی یادگار تھیں جب میرے بچے نئے نئے بڑے ہونے شروع ہوئے تھے۔
پھر جب بیٹے پڑھنے کے لیے اور بیٹیاں شادی کے بعد، دنیا کے مختلف ممالک میں بکھر گئے تو کچھ عیدیں اکیلے، صرف چھوٹی بیٹی کے ساتھ بھی گزاریں ۔ابھی بھی میرے وہ بچے جو کچھ عرصے سے کووِڈ کی وجہ سے دور ہیں وہ جہاں جہاں بھی ہیں اللہ پاک انہیں خوش، صحت مند اور ایمان کی مکمل حالت میں رکھیں۔
انہیں بھی عید مبارک، اور آپ سب کو بھی عید مبارک!
اور بہت سارے ایسے گھرانے ہیں جن کی زندگیاں اس کووِڈ یا کچھ اور حادثات نے بالکل بدل دی ہیں ان کے لیے بہت دعائیں کہ اب کبھی کوئی غمزدہ عید ان کی زندگیوں میں نہیں آئے آمین۔
٭٭٭