بتول مارچ ۲۰۲۲ملاکا کی سیر- بتول مارچ ۲۰۲۲

ملاکا کی سیر- بتول مارچ ۲۰۲۲

ملاکا کی سیر کی تفصیلات ہمارے سرتاج من عزیز کی بیماری کی نظر ہو گئیں۔ اللہ کا شکر تھا کہ وہ جلد ٹھیک ہو گئے، لیکن کئی دن تک طبیعت نڈھال رہی اور وہ نرم غذا کے علاوہ کچھ اور نہیں کھا سکتے تھے۔
ملاکا جنوب مغربی ملیشیا کا شہر ہے جسے سیاحوں کا شہر بنا دیا گیا ہے۔ یہ بہت پرانی بندرگاہ بھی ہے جہاں سے بڑے بڑے تجارتی جہاز گزرا کرتے تھے جو ایشیا کے مختلف حصوں سے تجارتی سامان لے کر جاتے تھے۔ بہت صدیاں پہلے یہاں کے راجہ نے اسلام قبول کر لیا تھا اور ملاکا اسلامی ریاست کا صدر مقام بن گیا۔ یہاں پر کئی عجائب گھر ہیں جن میں قرآن کے قدیم نسخے، پرانے مخطوطات اور نقشے محفوظ کئے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک عجائب گھر میں ہم نے ملائی زبان کو اپنے اصلی رسم ا لخط میں لکھا ہوا دیکھا۔ ورنہ ترکی زبان کی طرح ملائی زبان بھی اب رومن رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ سمندری سفر اور جہازوں سے متعلق بہت سا سازوسامان بھی ان عجائب گھروں میں محفوظ کیا گیا تھا۔ اسی طرح انگریز دور حکومت کی یادگار کے طور پر کچھ چرچ بھی ہیں جو تقریباً کھنڈر بن چکے ہیں، اور ان کی چھتیں امتداد زمانہ کی نذر ہو گئی ہیں۔ لیکن ان کی باقیات کو سنبھال کر رکھا گیا ہے۔ ایسے ہی ایک بغیر چھت کے چرچ میں ایک نیا نویلا شادی شدہ جوڑا اپنی شادی کا فوٹو شوٹ کر رہا تھا۔ ساتھ فیملی کے لوگ بھی آئے ہوئے تھے۔ ایک فوٹو ان کی ہمارے ساتھ بھی بنی۔ اب نہ جانے وہ کہاں گئی ہے،کیونکہ وہ فون میں تھی اور اس وقت سے آج تک کئی فون بدلے جا چکے ہیں۔
ملاکا جانے کا راستہ بہت خوب صورت ہے اور ملاکا بذات خود بھی انتہائی خوب صورت شہر ہے۔ سبزہ دیکھ کر ہمارا پاکستانی پن عود کر آتا ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہریالی ہے تو یقیناً موسم بھی ٹھنڈا ہو گا، کیونکہ پاکستان میں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ سر سبز جگہیں ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ اسی طرح بارش ہو رہی ہو تو بھی ٹھنڈک کا احساس خود بخود رگ و پے میں دوڑ جاتا ہے۔ بارشں کی بوندیں اور قطرے جب زمین سے ٹکراتے ہیں تو تھوڑی ہی دیر میں ہر طرف موسم بدل جاتا ہے۔ ہمارے اس پاکستانی پن کو ملیشیا میں بے حد ٹھیس پہنچی کیونکہ بارش حبس کی شدت میں کچھ بھی کمی نہیں لاتی۔ دوسری ٹھیس ملاکا کے راستے میں لگی جب ایک پر فضا اور خوب صورت جگہ کو دیکھ کر ہم ناشتہ کرنے کے لیے رکے۔ اس قدر سبزہ کہ تل دھرنے کو جگہ نہ ملے، اس قدر صفائی کہ ایک تنکا بھی کہیں نظر نہ آئے۔ لیکن موسم میں حبس، اور مچھلی اور ناریل کی مہک نے ہمارے مشام جاں کو پریشان کر دیا۔
ملاکا پہنچے تو بہت اچھا لگا۔ یہ ایک چھوٹا سا شہر ہے لیکن بے حد صاف ستھرا اور بے انتہا پرہجوم۔ پورا شہر سیاحوں سے بھرا رہتا ہے۔ کھانے پینے کی بے شمار جگہیں ہیں جہاں سے آپ کھانا لے سکتے ہیں۔ ملیشیا کا موسم چونکہ حبس والا اور گرم ہے، اس لیے پیاس بہت لگتی ہے اور جسم پانی کی کمی کا بڑی آسانی سے شکار ہو سکتا ہے۔ ان کے ہاں ایک خاص بوتل بند مشروب ملتا ہے جو کچھ کچھ لیموں پانی جیسا ہے۔ کوک اور پیپسی کہیں سے ملے نہ ملے، یہ مشروب ہر جگہ دستیاب ہے۔ یہ بہت میٹھا نہیں ہوتا لیکن پیاس دور کرنے کے لیے بے مثال ہے۔
ہم نے ملاکا کی خوب سیر کی اور اس سیر کے دوران لاہور کو بار بار یاد کیا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ لاہور کو یاد کرنے کے لیے کوئی بہانہ نہیں چاہیے ہوتا، یہ ویسے ہی یاد آتا رہتا ہے، بس اک ذرا آنکھ موند لی اور دیکھ لی تصویر لاہور۔ اور دوسری وجہ یہ تھی کہ ہم جب ملاکا جیسے چھوٹے شہر کا لاہور کے ساتھ تقابل کرتے تھے تو یہ تاثر ہمارے اندر ابھرتا تھا کہ اتنی چھوٹی سی جگہ کو جب اتنی اہمیت مل رہی ہے تو لاہور کو تو ایشیا کے شہروں کا سرتاج ہونا چاہیے، جو اتنا بڑا بھی ہے، تاریخی بھی ہے اور اپنے آثار کے اعتبار سے ہی نہیں افراد کے اعتبار سے بھی اپنے اندر نوادرات کا خزانہ سموئے ہوئے ہے۔ خیر یہ تو ہماری سوچ تھی، لیکن اقوام متحدہ نے ملاکا شہر کو’’عالمی ثقافتی ورثہ‘‘ میں شامل کیا ہوا ہے۔ ایک اور بات جو ملاکا کے بارے میں بتانا ضروری ہے، وہ وہاں پر صفائی کا معیار تھا۔ اس قدر پر ہجوم ہونے کے باوجود کہیں پر بھی کوڑا کرکٹ یا بے ترتیبی کا نام و نشان بھی نہ تھا۔
ایک اور چیز جو ہم نے ملیشیا میں دیکھی اور ہمیں بے حد دل چسپ لگی، وہ یہ تھی کہ کسی بھی فاسٹ فوڈ ریستوران پر کھانا کھاتے ہوئے ملیشیائی افراد اپنے سارے فرنچ فرائیز کا سرونگ ٹرے میں ڈھیر لگا لیتے تھے، یعنی انہیں لفافوں سے نکال کر ٹرے میں اکٹھا کر لیتے تھے اور پھر کھاتے تھے۔ہم نے یہ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، اور ہمیں یہ دیکھ کر بہت اچھا لگتا تھا۔ ہمارا دل تو تھا کہ ہم ابھی کچھ دیر اور ٹھہریں لیکن اویس کی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے جلدی واپس آنا پڑا۔ دھوپ کی شدت اور حبس کی وجہ سے وہ کچھ اچھا محسوس نہیں کر رہے تھے، اور بیماری بھی اب شدت پکڑ رہی تھی۔
ایک دن ہم نے خاتون خانہ کو پیش کش کی کہ ہم کچھ سودا سلف کی خریداری کر لاتے ہیں کیونکہ وہ کافی مصروف تھیں۔ انہوں نے ہمارا شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا کہ کسی خاص چیز کی ضرورت نہیں ہے، بس ایک چائے کی پتی کا ڈبہ ہو سکے تو لیتی آئیے گا۔ ہم نے فوراً پورے جوش سے حامی بھر لی۔ ہمارا خیال تھا کہ ایک چائے کا ڈبہ ہمارے سودا سلف خریدنے کے تجربے کے سامنے کیا حیثیت رکھتا ہے، بلکہ کچھ اپنی سبکی سے محسوس ہوئی کہ انہوں نے ہمیں اتنی حقیرچیز (جی ہاں اس وقت وہ چائے کی پتی اپنے تجربے کی سامنے ہمیں حقیر ہی نظر آ رہی تھی) خریدنے کو کہا ہے، وہ بھی ہمارے اتنے اثرات پر۔بس ہمارا یہی تکبر ہمیں لے ڈوبا کیونکہ’’نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں‘‘چاہے وہ چائے کی پتی ہی کیوں نہ ہو۔
خیر ان کے گھر کے قریب ہی ایک ہائپر مارکیٹ تھی Tesco کے نام سے، ہم وہاں پر گئے۔ اندر جاتے ہی ایک تیز بو کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک خاص حصے میں یہ بو بہت تیز تھی۔ ہم اس طرف گئے تو اندازہ ہؤا کہ یہ مختلف اقسام کی مچھلیوں سے آ رہی ہے۔ ہم فوراً دوسرے حصے کی طرف چل پڑے۔ یہ مہک کچھ کم ہو گئی لیکن ختم نہیں ہوئی۔ ہم نے کھانے پینے کی چیزوں والے حصے سے دودھ، دہی، پنیر اور لسی کی تلاش شروع کی، کچھ زبان کے مسائل اور کچھ ہمارا نیا ہونا آڑے آیا۔ اس پر مستزاد مچھلی کی بو، جو ہمارے دماغ پر حاوی ہو کر ہماری سوچ کو دھندلا رہی تھی۔
ملیشیا میں انگریزی کا کوئی چلن نہیں ہے۔ ہر چیز کا نام اور تفصیل ان کی اپنی ملے زبان میں تحریر تھا۔ یہ سب کوئی پہلی بار نہیں تھا، ہم نے وطن عزیز سے باہر آ کر انگریزی کی خوب بے توقیری دیکھی ہے۔ سعودی عرب میں بھی انگریزی کی ٹانگ، بازو، کمر سب ٹوٹتے دیکھا ہے۔ اس لیے کہ سرکاری اور غیر سرکاری دونوں طرح سے عربی کا چلن ہی ہے۔ کمپیوٹر ہے تو اس پر انگریزی اور عربی دونوں موجود ہیں، آپ چاہیں تو انگریزی میں استعمال کریں اور نہ چاہیں تو عربی میں استعمال کریں۔ اسی طرح ہر چیز کی عربی آپشن موجود ہے، آپ نے کچھ بھی ڈھونڈنا ہے، وہ آپ کو عربی میں بھی مل جائے گا۔ ہمیں پہلی بار اندازہ ہؤا کہ کمپیوٹر پر انگریزی کے علاوہ بھی کوئی زبان موجود ہے۔ معاف کیجیے گا ، یہ کچھ ہماری کسر نفسی بھی ہے، لیکن حقیقتاً ہم نے پہلے کبھی کمپیوٹر کسی اور زبان میں اتنا استعمال ہوتا نہیں دیکھا تھا۔ اسی طرح جب بھی ہسپتال میں کوئی لیکچر ہوتا تھا، تو انگریزی کا تلفظ مختلف ہوتا تھا، دینے والے کی قومیت کے مطابق۔ لیکن کچھ چیزوں کے بارے میں سب میں قومی و دینی یک جہتی موجود تھی جیسے حرف ٹی کو سب تی اور پی کو بی بولتے تھے، تھری کو سری اور چکن کو شکن ، برگر کو برجر، چیک کو تشیک کہتے تھےاور کوئی اس پر ہنستا نہیں تھا، نہ ہی مذاق اڑاتا تھا۔ دل ہی دل میں انگریزی سے مرعوبیت ضرور ہو گی لیکن عملی طور پر انگریزی آپ کو اتنی ہی چاہیے کہ آپ سادہ زبان میں لوگوں کو اپنی بات پہنچا سکیں۔
ملیشیا میں تو ہم نے حالات اس سے بھی دگرگوں دیکھے۔ کوئی اٹک اٹک کر انگریزی بول رہا ہے تو کوئی بات نہیں، بس بات سمجھ آ جائے۔ ہر جگہ ملے زبان میں سب کچھ موجود ہے۔ ذریعہ تعلیم بھی ملے زبان ہے اور ملک ہے کہ ایشین ٹائیگر بنا پھرتا ہے۔ خیر اس ایشین ٹائیگر نے ہمیں خوب ستایا، کیا تھا اگر ملیشیا جیسے سیاحتی ملک میں چند الفاظ انگریزی کے بھی لکھ دئیے جاتے! افسوس وہاں ہماری اس سوچ کی قدر کرنے والا کوئی نہیں تھا، اس لیے تھک ہار کر ہم نے اپنا پرانا اور دیسی طریقہ اپنایا۔ وہاں کچھ برصغیر ی اصل کے سیلزمین پھر رہے تھے۔ ہم نے ان سے معلومات لیں کہ ہماری مطلوبہ اشیا کہاں پر ہیں۔ یقین جانیے ہم بس بے ہوش ہونے والے ہی تھے کیونکہ وہاں پر دودھ دہی جیسی کسی چیز کا وجود نہیں تھا۔ بس tea whitener اور اس نوعیت کی چیزیں موجود تھیں۔
چائے کی پتی کو حقیر جاننے کی سزا شروع ہو چکی تھی۔ اس کے بارے میں پوچھنا ہم سیلزمین سے بھول گئے تھے اور وہ ہمیں ابھی تک کہیں نہیں نظر آ ئی تھی۔ آخرکار ایک چائے مکس قسم کی چیز ہمیں نظر آ گئی اور خاتون خانہ کے سامنے شرمندگی سے بچنے کے لیے ہم نے وہ اٹھا لی۔ جیسے تیسے خریداری مکمل کر کے ہم فارغ ہوئے تو کھانے کا ارادہ کیا۔ دل تو یہاں کھانا کھانے پر ہر گز آمادہ نہیں ہو رہا تھا کیونکہ ناک ابھی بھی کچھ محسوس کر رہی تھی، لیکن شوہر نامدار کی طبیعت ابھی اتنی اچھی نہیں تھی کہ ہم ان کو مزید گھماتے۔ یوں بھی کھانا صرف ہمیں کھانا تھا، اویس ابھی بھی پرہیز ی کھانے پر تھے۔ خیر ہم نے کھانا کھایا اور لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔
گھر آ کر ہم نے جب دودھ اور دہی کی نایابی پر اظہار حیرت کیا تو خاتون خانہ نے ہماری اس حیرت کو دو چند کر دیا یہ بتا کر کہ ملیشیا میں ڈیری کا ملنا ،لانا ہے جوئے شیر کا، کیونکہ ملیشیائی لوگ ان چیزوں کو روزمرہ میں استعمال ہی نہیں کرتے۔ وہ خود اپنے بچوں کے لیے دودھ ایک سکھ ملیشیائی سے لیتی ہیں جنہوں نے بھینسیں پال رکھی ہیں۔ ہم اس بات سے تو دل ہی دل میں آگاہ تھے کہ جو انہوں نے کہا تھا ہم وہ بالکل نہیں لے کر آئے لیکن اتنی اخلاقی جرأت نہیں تھی کہ اس کا اعتراف کرتے یا ان سے اس کے بارے میں پو چھتے۔ چند دن بعد انہوں نے خود ہی بتا دیا کہ چائے کی پتی تو میں نے منگوا لی ہے، آپ جو ٹی مکس لے کر آئی تھیں وہ آہستہ آہستہ استعمال ہو جائے گا۔ ہم نے نظریں جھکا کر بس ’’جی ہاں‘‘ کہا اور سکھ کا سانس لیا کہ جو پھانس ضمیر میں چبھی ہوئی تھی ، کم از کم نکل تو گئی۔
ہم روزانہ سرمبان سے صبح ناشتہ کر کے اور کبھی بغیر ناشتے کے بھی نکل جاتے تھے، جتنے دن گاڑی رہی، اس پراور جب گاڑی کا رینٹ مکمل ہو گیا تو اس کے بعد ٹرین پر۔ ہم یہ چاہتے تھے کہ جو گنے چنے دن ہیں ان میں ہم کے ایل (کوالا لمپور) کو اچھی طرح دیکھ لیں۔
گاڑی کا قصہ یہ تھا کہ جب ہم نے پرانی گاڑی کا معاہدہ مکمل ہونے پر نئی گاڑی لینا چاہی تو اس دن ہفتے کا اختتام تھا اور کار رینٹل پر بے حد رش تھا۔ ہمیں کرائے پر کار نہیں مل سکی۔ ہم نے سوچا کوئی بات نہیں، دو دن گزار کر ہم اگلے ہفتے کے آغاز پر کار کرائے پر لے لیں گے، اسی بہانے ہم ملیشیا کی پبلک ٹرانسپورٹ اور خاص طور پر ٹرین کی سواری سے لطف اندوز ہو لیں۔ البتہ اپنے میزبان کو زحمت سے بچانے کے لیے ہم گاڑی لینے کا ارادہ رکھتے تھے۔ وہ ہمیں بڑی ذمہ داری سے ٹرین تک چھوڑتے اور لیتے تھے۔مگر پھرکچھ نامعلوم وجوہات کی بنا پر ہمیں گاڑی کرائے پر نہ مل سکی اور باقی ماندہ دن ہمیں پبلک ٹرانسپورٹ سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اور ہمارے میزبان کو ہماری خدمت سےلطف اندوز ہوتے ہوئے گزارنا پڑے۔ اللہ ان دونوں میاں بیوی کو اس کا بے شمار اجر عطا کرے۔ بے شک وہ دونوں بے حد عمدہ میزبان تھے۔ کوالالمپور کے قرب و جوار میں اور بھی بہت سے سیاحتی مقامات ہیں، ہم سب تک نہیں پہنچ سکے کیونکہ دوستوں سے ملاقات اور شہر کی سیر کے بعد ہمارے پاس اتنا وقت نہیں بچا کہ ہم وہاں جا سکتے۔ ہماری کانفرنس کا وقت قریب آ چکا تھا اور ہمیں کوچنگ کے لیے روانہ ہونا تھا۔
ایک دن ہمارے میزبان ملیشیا کے بہت بڑے تاجر’’رمجان دین صاحب‘‘ تھے۔ ہم بذریعہ ریل کے ایل سنٹرل اسٹیشن پہنچے جہاں سے انہوں نے ہمیں اپنے ہمراہ لیا۔ ان سے ملاقات ایک یادگار ملاقات تھی۔ ایک ایسا کامیاب انسان جو فراٹے سے پنجابی بولتا ہے اور پنجابی بولنا ہی پسند کرتا ہے، دیکھنے میں بالکل سادہ لگتا ہے لیکن ملیشیا کے سب سے بڑے تاجروں میں سے ایک ہے۔ ان کی اہمیت کا اندازا اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملیشیا کے وزیر اعظم کے انتخاب میں بھی ان کی رائے اہمیت رکھتی ہے۔ رمجان دین (رمضان دین) صاحب کے بزرگان بیسویں صدی کے آغاز میں متحدہ پنجاب سے ملیشیا چلے گئے تھے۔ ان کے دادا پردادا اور پھر ان کے والد نے جو وہیں پیدا ہوئے تھے، بہت محنت سے زندگی گزاری۔ ان کا تعلق کسی امیر خاندان سے نہیں تھا۔ رمجان دین نے بھی اپنی عملی زندگی کا آغاز محنت مزدوری سے کیا اور اسی طرح محنت کرتے کرتے اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے راستے کھول دئیے۔ انہوں نے مارکیٹ میں چینیوں کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کیا، دوسروں سے پیسہ لے کر ابتدائی سودے کیے۔ لوگوں نے ان پر بھروسہ کر کے انہیں پیسہ دیا اور انہوں نے لوگوں کے اس بھروسے کو قائم رکھا اور وہ پیسہ بروقت لوٹایا، اپنے مال کا معیار برقرار رکھا اور اس کے بدلے میں اللہ نے ان کے کاروبار کو ترقی دی۔ ان کے ساتھ ہم نے ایک پاکستانی ریستوران پر کھانا کھایا۔
کھانے کے بعد انہوں نے ہمیں اپنے چار دفاتر دکھائے اور پھر اپنے گھر لے گئے۔ ان کے ایک دفتر میں ان کے اکلوتے صاحبزادے سے ملاقات ہوئی جو برطانیہ سے تعلیم مکمل کر کے آئے تھے اور اب اپنے والد سے الگ رہتے تھے۔اپنے والد کے کاروبار میں انہیں بہت دلچسپی نہیں تھی۔ وہ اپنا کام کرتے تھے، جو شادیوں میں بالی ووڈ ڈانسنگ پر مشتمل تھا۔ اس کے لیے انہوں نے اپنا ایک گروپ بنا رکھا تھا اور لوگ شادیوں کے لیے انہیں بلاتے تھے۔ برصغیر سے تعلق رکھنے والے ہندو ملیشیائی شادیوں میں سنگیت کا پروگرام کرتے تھے جس میں ان کا گروپ پرفارم کرتا تھا ۔بقول ان کے والد کے، وہ اس سے مہینے میں ایک بڑی رقم آرام سے کما لیتے ہیں۔ اس دفتر میں ہم نے ظہر اور شاید عصر بھی ملا کر ادا کر لیں کیونکہ ہم مسافر تھے۔ان کے ایک دوسرے دفتر میں ہم گئے اور وہاں پر ان کے عملے سے ملاقات کی، وہاں ہم نے چائے کی درخواست کی اور مشہور ملیشین چائے’’ تاری‘‘ پی ۔
ان کی اہلیہ گھر پر نہیں تھیں، اس لیے ان سے ملاقات نہ ہو سکی، لیکن ان کی ایک بیٹی اور نواسی سے البتہ ملاقات ہوئی اور بہت اچھی رہی۔ ان کے ساتھ ہمارا وقت بہت اچھا گزرا۔ ان کی صاحبزادی نے اپنے خوب صورت گھر کو ایک ایسی جگہ میں تبدیل کر دیا تھا جو بچے کی پیدائش کے بعد نئی ماں بننے والی خواتین کی نگہداشت کے لیے استعمال کی جائے گی۔ نئی مائیں جتنے دن چاہیں قیام کر سکتی تھیں، اور ان کے قیام کی مدت کے حساب سے ان سے اخراجات لیے جائیں گے۔ جو خدمات میسر ہوں گی ان میں د بوانا یا مساج کروانا، بچے کی نگہداشت، ماں کے آرام کا خیال جیسی چیزیں شامل تھیں۔ ان کا کام اختتامی مراحل میں تھا اور جلد اس کاروبار کا آغاز ہونے جا رہا تھا۔ ہم نے ان کے مختلف کمرے دیکھے اور خوب تعریف کی۔ ہمارا کافی وقت ان کے ساتھ گزر گیا۔ وہ دونوں ماں بیٹی بہت منکسر المزاج اور سادہ طبیعت تھیں۔ رمجان دین صاحب کی نواسی کی عمر تقریباً گیارہ بارہ سال ہو گی اور وہ ماں کا بھر پور طریقے سے ساتھ دے رہی تھیں۔ انہوں نے بڑے خوب صورت انداز میں ملے طریقے سے ہمیں سلام کیا اور خوش آمدید کہا۔ اسی طرح رخصت کرتے ہوئے بھی انہوں نے ملے سلام کے ساتھ ہمیں رخصت کیا۔
رمجان دین صاحب کی زندگی محنت اور سادگی پریقین رکھنے والوں کے لیے ایک مثال ہے۔ انہوں نے کاروبار کی بنیاد محنت، عمدہ ویار (پنجابی کا لفظ، کاروباری اعتبار اور بھروسے سے ملتا جلتا ہے)اور چیز کی کوالٹی پر رکھی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ ہمیں بعض اوقات ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو آغاز سے ہی بے ایمانی اور شارٹ کٹ کا مشورہ دینے میں آگے آگے ہوتے ہیں۔ نیا فرد ان کے مشورے سن کر گھبرا بھی جاتا ہے اور متزلزل بھی ہو جاتا ہے۔شان دار کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد بھی ان کی طبیعت میں کوئی غرور، تکبر یا تصنع نہیں ہے۔ متحدہ پنجاب میں پیدا ہونے کے باوجود اپنے آپ کو پاکستانی الاصل کہلانے پر فخر کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان اور بھارت اکثر چکر لگاتے تھے۔ پاکستان میں اظہار احمد صاحب (ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے چھوٹے بھائی اور مشہور تاجر) کے ساتھ ان کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ ان کا زندگی کا ایک اور پہلو لوگوں کی مدد کرنا اور صلہ رحمی میں آگے آگے رہنا ہے۔ اپنے رشتے داروں سے بارہا تکالیف اٹھانے کے باوجود وہ کبھی ان کا ساتھ دینے سے پیچھے نہیں ہٹے۔ ٭
٭ ٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here