بنتِ سحر

برکت کا وقت – بتول اپریل ۲۰۲۳

بھری دوپہر میں دروازے پر بیل ہوئی اور یوں لگا کہ بجانے والے نے انگلی دروازے پر ہی رکھ دی ہے۔ ہادی کو کمرے سے لاؤنج اور لاؤنج سے دروازے تک جانے میں جتنا وقت لگا اس میں بیل بجتی ہی رہی۔
”کھول رہا ہوں ، کھول رہا ہوں۔ کیا پوری کالونی کو جگانا ہے؟“ چلا کر کہتے ہوئے اس نے دروازہ کھولا لیکن سامنے کھڑی ہستی کو دیکھتے ہی اس کی سٹی گم ہو گئی۔
”ا آ آپ؟ بوا وہ میں….“
”ارے ہٹو ہٹو سامنے سے۔ پتہ ہے مجھے…. کیا میں میں ؟“ بمشکل اس کو دھکیلتے ہوئے بوا اندر داخل ہو گئیں۔
اس نے مڑ کر دیکھا اور ضبط سے دانت پیس کر رہ گیا۔ دروازہ بند کر کے مڑا تو بوا کو خود کو گھورتے پایا ۔
”اب چلنا ہے یا دروازے پہ کھڑی رہوں؟“۔ ہادی نے ان کو دیکھا ، کچھ سوچا اور لمحے بھر میں اندر کی طرف دوڑ لگا دی لیکن ساتھ ہی وہ مسلسل چلا رہا تھا۔
”بھاگو دوڑو۔ قیامت آ گئی۔ قیامت آ گئی“۔
”ارے کیا ہو گیا ہے؟ کیا اول فول بک رہے ہو۔ کون آ گئی ؟“
ماما چپل اڑستے ہوئے لونگ سے باہر نکلیں۔ لیکن سامنے گیلری میں شاکرہ بوا کو دیکھ کر سٹپٹا کر گلے میں…

مزید پڑھیں

زیتون کہانی – بنتِ سحر

ایک صحن سے دوسرے صحن تک کا فاصلہ لامتناہی بن جائے گا، کسے خبر تھی! اس سرزمین کی کہانی جہاں لکھی جانے والی ہر داستانِ محبت جدائیوں کی پُرپیچ راہوں سے ہو کر گزرتی ہے
 
” ٹک “کر کے کچھ اس کے سر میں لگا تھا۔ اس نے چونک کر سر اٹھایا اور سامنے دیکھا۔ وہ نظروں کے بالکل سامنے تھا۔ وہ جس کی آنکھیں بولتی تھیں۔ نیلی آنکھوں میں شوق کا جہاں آباد کیے ، ذرا ذرا سی ندامت بھری نرمی لیے وہ صالح نضال….جو صلاحیت، قوت اور طاقت میں اپنے نام کا ایک تھا ، اس لڑکی کے سامنے کھڑا تھا۔ یقیناً وہ اپنے ہم دیوار گھر میں جھکی چچا کے زیتون کی واحد ٹہنی سے لٹک کر اسی کے ذریعے ان کے گھر میں کودا تھا۔
اور وہ سنہری تاروں سے بنے بالوں اور سبز آنکھوں والی خلیلہ یحییٰ جو چند لمحے قبل سر جھکائے اپنی سوچوں میں گم تھی، صالح کو دیکھتی اس کی آنکھوں میں پہلے غصے اور پھر دُکھ نے جنم لیا اور لمحے بھر میں اس کی آنکھیں بھرآئیں۔
صالح نے ایک لمحہ نہیں لگایا اور جلدی سے اس کے سامنے پتھر کی سل پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ آس پاس چند سبز زیتون…

مزید پڑھیں

بتو ل میگزین

مضبوط جڑیں
شازیہ نعمان
امی امی! وہ دیکھیں درخت کی جڑوں نے کیسے پہاڑ کے ایک حصے کو باندھ کر رکھا ہؤاہے اور جو حصہ پہاڑ کے ساتھ نہیں تھا وہ گر گیا ہے‘‘۔
عافیہ نے اپنی امی سے کہا جو اپنی فیملی کے ساتھ سوات کی سیر کررہی تھی۔ہاں بیٹا! جو جڑیں مضبوط ہوں اور ان کے ساتھ جڑ کر رہا جائے وہ جڑیں مضبوط حصار فراہم کرتی ہیں ۔
جیسے ہم بہن بھائی امی بابا، دادا دادی کے ساتھ مل کر رہتے ہیں اور دادا دادی ہمیں اچھی اچھی باتیں اور اپنے تجربے بتاتے ہیں۔
بالکل صحیح سمجھی میری بیٹی ۔
صائمہ کی یہ کوشش رہتی کہ کھیل وتفریح میں بھی اپنے بچوں کی تربیت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں ۔
یہی وجہ تھی کہ بچے بھی ہر موقع پر اچھے اچھے سوالات کرتے نصیحتیں سنتے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے۔
وقت تیزی سے گزرتا رہا ۔دیکھتے ہی دیکھتے عافیہ شادی کی عمر کو پہنچ گئی ۔
عافیہ اپنے گھر کی ہوگئی ۔عافیہ کی ساس تیز مزاج اور اس کا شوہر غصہ کا تیز تھا ۔عافیہ نے کبھی گرم مزاجی کا سامنا نہیں کیا تھا ۔اس کے امی بابا ٹھنڈے مزاج کے حامل جبکہ ساس اور شوہر بالکل متضاد ۔
شروع میں…

مزید پڑھیں

خفتگانِ خاک – خالی ہاتھ – بنتِ سحر

اصل رونق تو دو بوڑھے وجود تھے جن کے دم سے زندگی ہنستی تھی!
 
دسمبر شروع ہے۔ ہڈیوں میں گھستی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگی ہیں۔ شاعر لوگ دسمبر کو اداس کہتے ہیں ، ہم شد و مد سے اس تصور کی نفی کر دیا کرتے تھے۔ جب تک کہ امی جی (نانی امی) کا گرم نرم محبت میں پور پور بھیگا وجود دسمبر کی ایک سرد ٹھٹھرتی سہہ پہر ساکت جامد پڑا نہ دیکھا تھا۔
نجانے کس احساس کے تحت میں نے ہاتھ بڑھا کر ان کا چہرہ چھو لیا ، مگر اس سے پہلے ہاتھ رگڑ کر گرم کرنا نہ بھولی ۔ اب خیال آتا ہے کہ تب یہ نہ سوچا کہ بھلا اب گرم سرد کہاں کچھ کہے گا!چھو کر دیکھ بھی لیا تو زندگی کی کوئی رمق نہ اس چہرے پر نظر آئی ،نہ ہمیں دیکھ دیکھ پیار چھلکاتی آنکھیں ہی وا ہوئیں۔ کرب سے آنکھیں میچ کر آنسوؤں کو راستہ دیتے دھیرے سے ہاتھ واپس کھینچ لیا۔
کبھی کبھی ہاتھ بالکل ہی خالی لوٹ آتے ہیں۔ اور ہم وقت کی تمسخر اڑاتی ہنسی سے بچنے کے لیے مٹھی زور سے بند کر کے خالی ہاتھ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔
وقت کے ساتھ گھر میں کئی تبدیلیاں ہو گئیں۔ وہ…

مزید پڑھیں