ام ایمان

پانچویںٹرین – بتول نومبر۲۰۲۰

وہ ریلوے اسٹیشن کے بینچ پر بیٹھی تھی۔سامنے سے ریل گاڑی تیزی سے شور مچاتی گزری گھڑ گھڑ گھڑ دھڑ دھڑ دھڑ … وہ محویت سے ریل گاڑی کو دیکھ رہی تھی ۔ یہ ریل گاڑی اسٹیشن پر رکی نہیں بسذرا سی ہلکی ہوئی ۔ اتنی ہلکی کہ روشانہ کو کھڑکیوں سے جھانکتے لوگ صاف طور پر نظر آئے کسی کھڑکی سے کوئی ماں اور بچے جھانک رہے تھے اور کسی سے مرد … اکثر اسے ہاتھ ہلا رہے تھے۔
نہیں وہ اسے ہاتھ ہلا کر خدا حافظ تھوڑی کہہ رہے تھے ۔ خدا حافظ تو جان پہچان والے ایک دوسرے کو کہتے ہیں ۔ روشانہ نے سوچا ان کی اور میری کون سی جان پہچان ہے ۔ یہ ریل گاڑی کے مسافر ہیں اور میں اس کے لیے ابھی انتظار کر رہی ہوں۔یہ تو ان ہوائوں فضائوں اسٹیشن کے ہر ذی روح کو خدا حافظ کہہ رہے ہیں کہ تم ابھی یہاں ہی رہو ہم آگے روانہ ہو رہے ہیں۔
تیزی سے چلتی ریل گاڑی کا آخری ڈبہ گزر گیا روشانہ نے دور جاتی ریل گاڑی کو دیکھا جو تیزی سے بڑے چھوٹے نکتے میںتبدیل ہوتی جا رہی تھی اور پھر تھوڑی دیر بعد ہی یوں محسوس ہو گا کہ گویا…

مزید پڑھیں

سات دن – بتول جون ۲۰۲۲

کراچی شہر میں آباد ہوئے انہیں عشروں کا عرصہ گذر چکا تھا ۔
ابتدا میں جب وہ یہاں آئے تھے تو پلے میں کچھ ہی روپے تھے۔ اسٹیشن کے قریب ایک نچلے درجے کے ہوٹل میں ایک چھوٹا کمرہ کرایہ کا لیا۔کمرے کے ساتھ غسل خانہ نہیں تھا وہ باہر مشترکہ تھا آج کے عبد الصمد صاحب نے کل اس بات کو محسوس ہی نہیں کیا ۔پلے جو پیسے تھے انہیں بہت سوچ سمجھ کر خرچ کرنا تھا ۔
دو دن تو سوچ بچار میں ہی لگائے ۔
اسٹیشن کے ہوٹل سے نکل ادھر اُدھر آوارہ گردی کی لوگوں کو دیکھا پرکھا راستوں کو جانا صبح کا ناشتہ گول کر کے دوپہر کو بارہ بجے چھپر والے ہوٹل میں بیٹھ جاتے ۔ اور پیٹ پوجا کر کے دوبارہ ہوٹل کے تنگ کمرے کا رخ کرتے۔
کچھ دیر قیلولہ کرتے اور ذرا دھوپ کے ڈھلتے ہی دوبارہ باہر کارخ کرتے۔ سڑکیں ناپتے ہوئے کبھی کسی فٹ پاتھ پربیٹھ جاتے ۔ زن زن جاتی گاڑیوں کو دیکھتے ہوئے چکرآنے لگتے تواٹھ کھڑے ہوتے۔ کسی دوکان میں اے سی چل رہا ہوتاتوضرور شوق میں داخل ہوتے ۔ کچھ نہ لینا ہوتا لیکن پھر کچھ چیزوں کی قیمتیں معلوم کرکے کچھ ٹھنڈی ہوا کی سانسیں لے کر باہرنکل…

مزید پڑھیں

چاندی کا تاج محل – بتول فروری ۲۰۲۳

دروازہ ہلکے سے بجا ۔
شہلا اٹھ چکی تھی لیکن بستر جیسے ابھی اُسے جکڑے رکھنا چاہتا تھا ۔ اس نے نرم گرم روئی کے گالے جیسے کمبل کو سمیٹ کر زور سے بھینچا اور گہری سانس لے کر جواب دیا ۔
’’آجائیں بوا‘‘۔
چالیس پینتالیس سال کی موڈرن بوا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئیں ۔شہلاکو قدیم اور جدید کا امتراج اچھا لگتا تھا گھر کے لیے میڈ منتخب کی تو اسے پہلے دن ہی دوسری ہدایات کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ انہیں بوا کہا جائے گااور وہ شہلا کو شہلا بی کہیں گی۔
وہ اس طرح اپنی خاندانی روایات سے جڑ کر رہنا چاہتی تھیں انہیں اچھا لگتا تھا ۔ جب اپنی کسی موڈرن سہیلیوں کے سامنے وہ میڈ کو بوا اور بوا اُن کو شہلا بی کہتیں تو انہیں اپنی سہیلیوں سے یہ کہنا بہت اچھا لگتا کہ یہ سب ان کے بزرگوں کی روایات ہیں۔
نادیہ ماچس والا ، میشاء سیٹھانی ، زرینہ مارکوس تو اتنے متاثر ہوتے کہ جتنے ان کی ڈرائینگ روم کی مہنگی اور حسین سجاوٹ سے نہ ہوتے جو وہ ہر سال بہت شوق سے تبدیل کرتی تھی۔ ہاتھی کے دانت کی نازک اور حسین بگھی چاندی کا تاج محل جس کے میناروں پر سبز…

مزید پڑھیں

ٹانگے والا خیر منگد – بتول مارچ ۲۰۲۲

رشیدہ نے باورچی خانے کے ساتھ بنی پڑچھتی پر تام چینی کے برتن ٹکائے ۔ صحن میں جلدی جلدی جھاڑو دی باقی دیگچیاں دھونے کا ارادہ چھوڑ دیا ۔ کمر سیدھی کر کے دل ہی دل میںکہا باقی برتن اماںہاجرہ پھوپھی کے گھر سے آکر خود ھو لے گی ۔رشیدہ نے باہر نکلنے سے پہلے صحن اور باورچی خانے کی طرف ایک تنقیدی نظر ڈالی۔’’ کام سارا نبیڑ تو لیا ہے‘‘۔
اماںنے کہا تھا خبر دار کام ختم کیے بغیر گھر سے باہر قدم نکالا۔
نوسالہ رشیدہ کا دل تو مامی صغراںکے ہاں ہی اٹکا رہتا تھا ۔ نیا نیا ٹیلی ویژن آیا تھا ۔ ماما پچھلے ماہ پورے ایک ماہ رہ کر واپس سعودیہ گیا تھا ، چلتی پھرتی تصویریں دیکھتے رشیدہ گم ہو جاتی ۔ جیسے اس کی روح اسکرین میںاتر گئی ہو اور جسم سامنے سن بیٹھااُسے تکے جا رہا ہے۔
اسکرین پر وہ گانا سنا جو مسافروں کو ادھر سے اُدھر لے جاتے ہوئے اس نے پہلی دفعہ ملنگا ٹانگے والے کو گاتے سنا تھا ۔ اسکرین پر سنا تو رشیدہ کی زبان پر چڑھ گیا ۔ مسعود رانا نے جیسے یہ گانا سارے ٹانگے والوںکے لیے ہی گایا تھا ۔ ٹانگہ چلاتے ہوئے ٹانگے والے گاتے تو دیہات…

مزید پڑھیں

ملاقات – بتول جون ۲۰۲۳

جس طرح بند کمرے کے ایک چھوٹے سے سوراخ سے پتہ چل جاتا ہے کہ باہر دن نکل آیا ہے اسی طرح چھوٹی چھوٹی باتوں سے آدمی کاکردار بے نقاب ہوجاتا ہے ۔
ساجدہ ماسی کا حال کچھ ایسا ہی تھا جہاں کام کرتی وہاں کے لوگ اس کو چھوڑ کردوسری ماسی رکھنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ ہاں اگر وہ خود گاؤں جانے کا ارادہ کرلے جو کہ ہر سال ہی کر لیتی تھی تو کسی کے روکے نہ رکتی ۔ جہاں جہاں کام کرتی تھی ….وہاں وہاں کے لوگ مجبوراً کسی دوسری ماسی کو رکھ تو لیتے لیکن دل سے اس کے جلد آنے کی دعائیں کرتے ….واقعی اچھامدد گار بھی تو اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے خاص طور سے خواتین کے لیے…. اُن میں سے بھی خاص اُن خواتین کے لیے جو جاب کرتی ہوں ۔
ساجدہ کی ایک باجی صبح بچوں کو اسکول بھیج کر نکلتی تو ساجدہ آ چکی ہوتی ۔ وہ اسے چھوڑ کر نکل جاتیں ، اس قدر اعتماد تھا ۔ ساجدہ سارے گھر کی صفائی کے ساتھ باورچی خانہ صاف کرتی برتن دھو کر روٹی پکاتی اورپھر باہر کا دروازہ بند کر کے چلی جاتی۔ لاک اندر سے بٹن دبا کر بند…

مزید پڑھیں

نصیب – ام ایمان

علیزے کی چلبلاہت پورے خاندان میں مشہور تھی ۔ شوخ چنچل ہنسنے مسکرانے والی بات بات پر چٹکلے چھوڑتی ساری سہیلیاں اور چچا زاد خالہ زاد اس پر فدا اور وہ ان پر فدا ۔ جس محفل میں ہوتی باتوں کی آوازیں اور ہنسی بتادیتی کہ علیزے یہاںموجود ہے۔
کالج میں بھی سب کی سہیلی تھی اساتذہ کو بھی اس کا نام اور کام خوب پتہ تھے ۔ چھوٹی چھوٹی شرارتوں سے سب کو ہنسنے مسکرانے پر مجبور کر دیتی ۔ ابھی انٹر کا رزلٹ نہیں آیا تھا کہ اسے کھونٹے سے باندھنے کا بندو بست ہو گیا ، لڑکے کی سب سے بڑی خوبی تھی کہ وہ پڑھا لکھا اور بھاری تنخواہ والا تھا ۔ دوسری دو بڑی خوبیاں علاوہ تھیں کہ مناسب عمر اور اکیلا … والدین دور… سب کی نظر میں تو جیسے علیزے کی لاٹری نکل آئی۔
جھٹ پٹ رشتہ طے ہؤا ۔ والدین رخصتی کے لیے مقررہ تاریخ سے پہلے آگئے ۔ تصویر دیکھ کر پہلے ہی خوشی سے حامی بھر لی تھی ۔ سارے خاندان والے علیزے کی قسمت کے گن گا رہے تھے ۔ رخصتی کی تاریخ اتنی جلدی آگئی یہ کوئی علیزے سے پوچھے ۔ یونیورسٹی جانے کا خواب لیے علیزے پیا دیس سدھار…

مزید پڑھیں