پانچویںٹرین – بتول نومبر۲۰۲۰
وہ ریلوے اسٹیشن کے بینچ پر بیٹھی تھی۔سامنے سے ریل گاڑی تیزی سے شور مچاتی گزری گھڑ گھڑ گھڑ دھڑ دھڑ دھڑ … وہ محویت سے ریل گاڑی کو دیکھ رہی تھی ۔ یہ ریل گاڑی اسٹیشن پر رکی نہیں بسذرا سی ہلکی ہوئی ۔ اتنی ہلکی کہ روشانہ کو کھڑکیوں سے جھانکتے لوگ صاف طور پر نظر آئے کسی کھڑکی سے کوئی ماں اور بچے جھانک رہے تھے اور کسی سے مرد … اکثر اسے ہاتھ ہلا رہے تھے۔ نہیں وہ اسے ہاتھ ہلا کر خدا حافظ تھوڑی کہہ رہے تھے ۔ خدا حافظ تو جان پہچان والے ایک دوسرے کو کہتے ہیں ۔ روشانہ نے سوچا ان کی اور میری کون سی جان پہچان ہے ۔ یہ ریل گاڑی کے مسافر ہیں اور میں اس کے لیے ابھی انتظار کر رہی ہوں۔یہ تو ان ہوائوں فضائوں اسٹیشن کے ہر ذی روح کو خدا حافظ کہہ رہے ہیں کہ