۲۰۲۱ بتول اگستیہ ہیں مولانا مودودیؒ کی والدہ - بتول اگست ۲۰۲۱

یہ ہیں مولانا مودودیؒ کی والدہ – بتول اگست ۲۰۲۱

جماعت اسلامی کے قیام کو اگست2021 میں 80 برس ہو جائیں گے ۔ اس موقع پر آپ مولانا مودودیؒ کی مربوط اور جامع فکر ، ان کے تعلیمی افکار ، لسانی و ادبی خدمات، تشکیل جماعت ، دارالاسلام سے منصورہ تک کے سفر وغیرہ کے بارے میں بہت کچھ پڑھیں گے ۔ مولاناابو الاعلیٰ مودودیؒ جیسی’حکیم جہادآرا‘ شخصیات جس گود میں پروان چڑھی ہوں ان کے بارے میں جاننے کی امنگ پیدا ہوتی ہے!
ہر بڑے آدمی کو جان کر جب اس کی ماں کے بارے میں جانا، تو پتہ یہی چلا کہ گہوارے کی تربیت شخصیت سازی کا لازمی عنصر ہے ۔ ہم کسی فردکو ڈگریوں میں ناپیں تو یہ ہماری کم فہمی ہو گی ۔ تعلیم ، تربیت، خاندانی پس منظر ان کاغذی ڈگریوں سے بہت بلند سطح کی چیز ہے ۔
جب مولانا مودودیؒؒ کی والدہ کے بارے میں پڑھا تو جی چاہا کہ ان کی عظیم ماں کا ذکر بھی بار بار کیا جائے جس نے عالم اسلام کو ایسا فقید المثال مجتہد عطا کیا۔
خواجہ اقبال احمد ندوی ’’ مولانا مودودی کی رفاقت میں‘‘ نامی کتاب جو ان مضامین پرمشتمل ہے جو اخبار ’دعوت ‘ اورماہ نامہ زندگی نو میں شائع ہوئے تھے ۔ سلیم منصور خالد نے 1998 میں اس کو کتابی شکل میں یک جا کیا۔ خواجہ صاحب رقم طراز ہیں ۔
’’ دارالاسلام میں ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہؤا کہ وہاں مقیم تمام حضرات مختلف ضروریات کے تحت باہر چلے گئے اور وہاں اقامت کرنے والوں میں ، میں رہ گیا ، شمس الحسن صاحب کی اہلیہ محترمہ اور مولانا مودودیؒ کی والدہ مرحومہ، شمس الحسن صاحب کی اہلیہ ، مولانا کی والدہ کی تنہائی کا خیال کر کے انہی کے پاس چلی گئی تھیںاور کہہ دیا تھا کہ میرا کھانا بھی وہیں پکا دیا کریں گی ۔ دارالاسلام میں گوشت اور سبزی قسم کی کوئی چیز توملتی نہ تھی ، جوکچھ ملتا وہ بھی پٹھان کوٹ ہی سے ملتا تھا ۔ اس لیے میں نے مولانا کی والدہ محترمہ اور شمس الحسن صاحب کی اہلیہ سے دریافت کیا کہ جوکچھ وہ کہیں ، پٹھان کوٹ سے لا دیا کروں ۔ ان دونوں نے کہا کہ کوئی چیز لانے کی ضرورت نہیں ۔ اب میں تنہا اپنے لیے سبزی لانے چھ کلو میٹر دور کیا آتاجاتا ؟ لہٰذا دال روٹی ہی چل رہی تھی۔
بہر حال ، پہلے دن جب مولانا مودودی کے یہاں سے میرا کھانا آیا تو یہ دیکھ کر تعجب ہؤا کہ ٹرے میں دال روٹی کے ساتھ ایک چھوٹی پلیٹ میں اتنی بالائی رکھی ہوئی ہے کہ اگر دال نہ بھی ہوتی تو میں تنہا بالائی کے ساتھ روٹی کھا کر آسودہ ہو سکتا تھا ۔ میں نے سوچا ممکن ہے دودھ فروش آج بھی مولانا کے بچوں کے لیے دودھ دے گیا ہے ، اسی کی یہ بالائی بن گئی ہے ۔ دوسرے دن ٹرے کے اندر پھر اسی مقدار میں بالائی دیکھ کرمیں نے شمس الحسن صاحب کی اہلیہ سے دریافت کیا ’’ یہ بالائی کہاںسے آجاتی ہے ؟‘‘
فرمانے لگیں ’’ آپ کے حصےکا جودودھ آتا ہے ، کھانا پک جانے کے بعد مولانا محترم کی والدہ صاحبہ اسے لے کر باورچی خانہ میں بیٹھ جاتی ہیں اور پھاپھی اتار اتار کر پرچ میں رکھتی جاتی ہیں ، حالانکہ اس طرح بالائی تیار ہونے میں انہیں بڑی دیر لگ جاتی ہے مگر وہ کسی طرح مانتی نہیں اور اسی دودھ میں سے صبح و شام کی چائے کے لیے دودھ بھی بچا لیتی ہیں ‘‘۔
یہ سننے کے بعد میں نے انہی کے ذریعے مولانا مودودی کی والدہ محترمہ کو کہہ بھیجا’’ آپ کی اس زحمت فرمائی کی اطلاع سے مجھے سخت دلی تکلیف پہنچ رہی ہے ، اور اب اس دلی تکلیف اور احساس ندامت سے بالائی میرے حلق سے نیچے نہ اتر پائے گی ‘‘۔
تیسرے دن پھر کھانے میں بالائی دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے مولانا کی والدہ محترمہ ہی سے براہ راست التجا کی کہ’’ آپ یہ زحمت نہ فرمایا کریں ، دال میرے لیے کافی رہتی ہے اور وہ مجھے مرغوب

بھی ہے ‘‘۔
لیکن اماں جان یہی فرماتی رہیں ’’ اقبال بات اصل یہ ہے کہ میں یہ بات دیکھ ہی نہیں سکتی کہ گھر سے کسی کو کھانا جائے اور اس میں خالی دال رکھی ہو، اس لیے تم یہ سب باتیں نہ سوچو‘‘۔
چنانچہ آٹھ ، دس دن جب تک شمس الحسن صاحب کی اہلیہ مولانا کے گھر میں رہیں مولانا کی ضعیف اور سن رسیدہ والدہ محترمہ کافی دیرتک باورچی خانہ میں بیٹھ کر خود بالائی تیار کرتی رہیں اور اسے دال کے ساتھ مجھے بھیجتی رہیں۔
کتنا بڑا دل تھا مولانا مودودی کی والدہ محترمہ کا کہ ایک ایسے لڑکے کے ساتھ اتنا اچھا برتائو جس کی حیثیت ان کے گھر کے ملازم سے زیادہ نہ ہو سکتی تھی۔اتنا بڑا دل تھا مولانا مودودی کی والدہ کا !
خواجہ اقبال احمد ندوی صاحب نے جس رواں تحریر میں مولانا کی والدہ کا ذکر کیا مناسب معلوم ہؤا کہ انہی کے الفاظ میں آپ تک پہنچایا جائے۔ صرف اسی ایک گواہی سے مولانا کی والدہ کے کردار تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے ۔
کم وسائل کے ساتھ کس طرح گھر آئے مہمان کا دل جیتا جا سکتا ہے ۔ اصل چیز بھرا ہؤادستر خوان اورڈشز کی تعداد نہیں ، اصل بات مہمان کو اکرام دینا ہے ۔ آپ بظاہر مہمان کی بہت خاطر داری کریں لیکن مہمان یہ محسوس کرے کہ اس کو بوجھ سمجھ کر اتارا جا رہا ہے یا اہل خانہ اس کو تکریم کا احساس ہی نہ د ےسکیں ، شریعت کو یہ مقصود نہیں۔
فی نفسہٖ انسان بہت قیمتی ہے۔ پھر وہ انسان جو کسی کا مہمان ہو اسلام اسے بہت خاص تکریم دیتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ کسی خاص مہمان کے ساتھ ’’ خاص سلوک ‘‘ ہونا چاہیے ۔ صاحب تحریر خود بتاتے ہیں کہ وہ معروف معنوں میں کوئی بڑے آدمی نہ تھے ۔ ان کے گھر کے ملازموں جیسی پوزیشن رکھتے تھے ۔ لیکن اماں جان کو غرض فرد کے اسٹیٹس سے نہیں تھی ، بس مہمان کا مہمان ہونا کافی تھا ان کی نظر میں ۔ شریعت سے بھی جو مہمان داری کے آداب بتائے ہیں اس کو فرد کے اسٹیٹس سے مشروط نہیں کیا !
یہاں یہ بھی دیکھیں کہ وہ پیرانہ سالی میں کتنی مشقت کر رہی ہیں اور قرض اتار رہی ہیں جو ان پر واجب بھی نہیں تھے اس کا سادہ اور آسان سا مطلب یہ ہے کہ جب وہ جوان ہوں گی ، جب ان کے قویٰ زیادہ مضبوط ہوں گے اس وقت وہ اپنے مہمانوں کا کیسا کیسا اکرام نہ کرتی ہوں گی ؟ سچی بات ہےکہ صفت ِ مہمان داری ایمان کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے ۔
اُس وقت امریکن کچن کا تو رواج نہ تھا ۔ چولھے زمین پر رکھے ہوتے ، ان کے سامنے پٹڑی یا پیڑھی بچھا کر کھانا پکایا جاتا تھا ۔ اس وقت تو سوئی گیس ، بھی دریافت نہ ہوئی تھی ۔ نہ معلوم مٹی کے تیل کا چولھا ہوگا یا لکڑیاں جلائی جاتی ہوں گی ۔ تپتے ہوئے انگاروں کے سامنے بیٹھ کر چھوٹی دیگچی کے دودھ پر سے ذرا ذرا سی بالائی گھنٹوں اتارنا اور مہمان کو پیش کر کے خوش ہونا کیونکہ اس دور دراز علاقے میں سبزی تک دستیاب نہ تھی ۔اماں جان خود تو دال ہی کھاتی ہوں گی اس دودھ کی بالائی کی شکل میں ڈھال کر بس اتنا دودھ بچا لیتیں کہ دو تین لوگوں کی دو وقت کی چائے بن سکے ۔
جب مہمان کی جانب سے بہ اصرار منع کیا جاتاہے تو کہتی ہیں کہ مہمان کو صرف دال دی جائے ایسا میرے لیے ممکن نہیں ۔ یعنی امکان کی آخری حد تک سوچنا، وہ بھی دوسرے کی خاطر!!
وہ پیارا دل جو دوسروں کے لیے اس اندا ز میں دھڑکتا ہو، وہ وجود جو دوسرے کے لیے قربان ہونے کا اتنا داعیہ رکھتا ہو یقینا ً انہوں نے اپنے بچوں کی پرورش کتنے خوف خدا والے ماحول میں کی ہو گی۔
جن لوگوں کی خاطر تواضع میں ہم زیادہ ’’ پھرتی ‘‘ دکھا رہے ہوتے ہیں اس کے پس پشت یہ محرکات ہوتے ہیں عموماًایک تو یہ کہ ہم ان کے یہاں جاتے ہیں تو وہ بھی مقدور بھر ہماری تواضع میں کوئی کمی اٹھا نہیں رکھتے۔
دوم یہ کہ بہت عزت دار گھرانے سے ہیں ، اونچ نیچ رہ گئی تواضع میں تو ہماری ساکھ ان کے خاندان کی نظروں میں مجروح ہو جائے گی ۔ نیز یہ بھی کہ مستقبل میں ان سے اچھے روابط کے فوائد اٹھائے جا سکتے ہیں۔

یہاں ان میں سے کوئی بھی جذبہ محرکہ نہ تھا ۔ چونکہ قدر دان دل ہے اس لیے ہر مہمان کی قدر کرتا ہے ۔ جزا مہمان سے مطلوب نہیں اس ہستی سے مطلوب ہے جو مہمان کی قدر دانی کا حکم دیتا ہے۔
سچی بات ہے کہ مہمان نوازی، اچھے اچھوں کے پول کھول دیتی ہے۔ خواجہ اقبال مزید فرماتے ہیں’’ پھر دارالاسلام سے میرے آنے کے بعد ہروارہ ( الٰہ آباد) کے اجتماع میں جب مجھے مولانا کی والدہ کی تشریف آوری کی اطلاع ملی اور میں نے انھیںسلام کہلا بھیجا تو دروازے کے قریب تشریف لائیں اور دیر تک خیریت دریافت کرتی رہیں ۔ دوران گفتگو جب انہوں نے مجھ سے میری شادی کے بارے میں دریافت کیا اور میں نے اثبات میں جواب دیا تو فرمانے لگیں :’’ بیٹا اقبال تم نے اچھا نہیں کیا جو اپنی بیوی کو یہاں ساتھ نہیں لائے ۔ تم اسے یہاں لائے ہوتے تو ملاقات ہو جاتی ۔ اب اسے کیا دیکھوں گی ، اب کیا اس سے ملاقات ہو گی ؟‘‘
میں نے عرض کیا ’’ اماں جان، ایسا نہ فرمائیے ۔ جیسےہی موقع ملا اسے لے کر حاضر ہوں گا ۔آپ کی خدمت میں حاضری کی اسے خود بڑی تمنا ہے ‘‘۔ لیکن وہ اپنی بات دہراتی رہیں ۔ پھر جتنی دیر کھڑی رہیں تاسف کا اظہار کرتی رہیں۔ میرے گائوں کا راستہ اتنا خراب تھا کہ میں وہاں جا کر مولانا کی والدہ محترمہ کی روانگی سے قبل واپس نہیں آ سکتا تھا ۔ ورنہ دل اما ں جان کی اس محبت ،شفقت اور اپنائیت کو دیکھ کر یہی چاہ رہا تھا کہ اجتماع چھوڑ کر بیوی کو لے آئوں ، مگر دل مسوس کر رہ گیا۔
پھر دیکھیے اللہ کا حکم، مولانا مودودی کی والدہ محترمہ جوفرما رہی تھیں وہی ہؤا1958……کے اوائل میں مولانا کی والدہ محترمہ کے انتقال کی خبر سن کر کئی روز تک میرا برا حال رہا ۔ اللہ ان پر اپنی رحمتوں کی بارش فرمائے ، بڑی شفیق ، ہمدرد اور اللہ والی خاتون تھیں مولانا کی والدہ محترمہ ‘‘۔
یہ ان کے کسی قریبی عزیز یا جماعت کے کسی بڑے منصب پر فائز فرد کی گواہی نہیں ہے ۔ ایسے بے شمار افراد کی یہی گواہیاں ہوں گی ان کے حق میں احساسات کی کتنی گہرائی ۔ نوبیاہتا دلہن جس کو دیکھا تک نہیں اس سے ملنے کی اتنی شدید خواہش کہ موصوف فرماتے ہیں کہ اگر راستہ اتنا خراب اور طویل نہ ہوتا تو اماں جی کی خاطر میں دلہن کو ان سے ملانے لے ہی آتا ۔
یہ فردکی قدر دانی ہے جو اسے اپنی نظروں میں معتبر بناتی ہے ۔ ایسے بے شمار لوگ مولانا کے گھر میں آتے ہوں گے وہ ہر ایک سے محبت و شفقت کا یہی معاملہ اپنے بس بھررکھتی ہوں گی۔ بلا شبہ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر بڑے نصیب والوں کو۔
عمومی صورت حال تو یہی ہے کہ ’مجھے اپنی پڑی ہے تو اپنے غم نبیڑ‘
مولانا مودودی کی اہلیہ سیدہ محمودہ بیگم مرحومہ سے ایک انٹرویو فرزانہ چیمہ نے ’’ تذکرہ سید مودودی ‘‘ کی تیسری جلد کے لیے لیا ۔ اس میں وہ اپنی ساس( مولانا کی والدہ محترمہ ) کے بارے میں فرماتی ہیں ’’وہ بہت پیاری خاتون تھیں ۔ ان کی باتیں اتنی دلچسپ ہوتی تھیں کہ آدمی فراموش نہیں کر سکتا ۔ دونوں ماں بیٹے کی باتوں میں حددرجے کی لطافت تھی۔
ایک بار با قر خان صاحب کی بیگم آئیں ۔ انہوں نے غالباً دوسری یا تیسری شادی کی تھی ۔ ان کی پہلی بیوی مولانا صاحب کی والدہ کے پاس آکر بیٹھی دکھڑا روتی رہیں ۔ انہیں بہت غصہ آیااور جب مولانا مودودی کھانا کھانے اندر آئے تو ان کے پاس گئیں اور کہا ’’ منے! تمہاری جماعت والے کیسے لوگ ہیں ، کئی کئی شادیا ں کرتے رہتے ہیں اور پہلی بیویاں بے چاری روتی رہتی ہیں ‘‘۔ مولانا یہ سن کر مسکرائے اور آہستہ سے بولے ’’ اماں بی ! میرا بھی کچھ ایسا ہی ارادہ ہو رہا ہے ‘‘۔ والدہ یہ سن کر چپ ہوگئیں اور سمجھ گئیں کہ ان کا منا بات مذاق میں ٹال رہا ہے ‘‘۔
ہر پریشان حال فرد کو مالی مددہی درکار نہیں ہوتی ۔ کسی غم زدہ دل کی بات سن لینا ، اسے تسلی اور دعا دے دینا ، اپنائیت کا احساس دلادینا ۔ بعض اوقات یہ ’’تھراپی ‘‘ ہی بہت سے دکھوں کا مداوا ثابت ہوتی ہے۔کبھی کبھی صرف ایک کندھا درکار ہوتا ہے جس پہ سر رکھ کر انسان اپنے دکھ سنا سکے ۔ فی زمانہ قحط الرجال میں کوئی سنننے والا دستیاب نہ ہو نا بہت اہم مسئلہ بلکہ ام المسائل ہے ۔ باقر صاحب کی پہلی دکھی دل بیگم سے کوئی مولانا

صاحب کی والدہ کی قدر و قیمت پوچھے، آپ کا دروازہ ہر ایک کے لیے کھلا ہے ۔ آپ ہر ایک کو دستیاب ہیں ۔ پھر اتنی اپنائیت ہے آپ کی ذات میں کہ اگلا آپ سے اپنا دکھ شیئر کرنے کا حوصلہ بھی رکھتاہے ۔ باقر صاحب کی بیگم جیسی سینکڑوں خواتین ہوں گی اماں جان کی زندگی میں جن کے لیے وہ شجر سایہ دار کی مانند ہوں گی ۔ جن کی وفات کا سن کر بہت سوں کو محسوس ہؤا ہوگا کہ ان کے سر سے چھت ہٹ گئی ۔اس تمازت بھری جیون کی دوپہر میں وہ سورج کی تیز کرنوں کی زد میں ہیں ان کا محبوب سایہ چھن چکا ہے۔
مولانا مودودی کی اہلیہ اس انٹرویو میں مزید بتاتی ہیں ۔’’ مولانا صاحب خدمت گزار اور سعادت مند بیٹے تھے ۔ میں نے اتنا خدمت گزار بیٹا کبھی نہیں دیکھا ۔ جب بھی ان کے سامنے آتے نہایت ادب اور تعظیم سے ملتے کبھی ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کی جسارت نہیں کی۔ ہمیشہ سر جھکا کے نہایت نرم اور دھیمی آواز میں بات کرتے ، ان کے سامنے بیٹھتے تو گود میں ہاتھ ہوتے اور سر تعظیماً بہت جھکا ہؤا ہوتا ۔ قرآن کی اس آیت کی مجسم تفسیر ہوتے جس میں اولاد کو والدین کے آگے جھکے رہنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ والدہ کا بھی بیٹے کے ساتھ بہت پیار تھا ‘‘۔
یہ قرآن و حدیث کی تعلیمات کے عملی مظاہر تھے ۔ یہ اقدار ورثہ میں ملتی ہیں ۔سینہ در سینہ منتقل ہوتی ہیں ۔ والدین کا ادب و احترام خود والدین سکھاتے ہیں تربیتی ورکشاپس ، تقریروں اور تحریروں کےذریعے نہیں بلکہ عملی مظاہرے کر کے ۔ جس گھر میں بچے نے اپنے باپ کو ماں کا از حد احترام کرتے ہوئے دیکھا ہو لامحالہ اپنی ماں کا احترام اس کی گھٹی میں پڑا ہوگا ۔ ہمارا المیہ ہی یہ ہے کہ ہم اپنی اولادوں سے جو توقعات وابستہ کرتے ہیں ہماری عملی زندگی اس کے برعکس ہوتی ہے ۔ کسی آدمی کے پاس فرصت کی دو گھڑیاں نہ ہوں والدین کو دینے کے لیے ، والدین کی مشکل گھڑیوں میں بے نیازی روا رکھی ہو ۔ وہ اپنے بچوں سے یہ توقع رکھے کہ بچے ماں کا احترام کریں گے ، اس کے حقوق ادا کریں گے ۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ بچوں نے اپنے والدین سے عملی سبق سیکھا ہو کہ والدین اس روئے زمین کی کتنی قابل اکرام ہستیاں ہیں ۔ جو خاتون اپنی والدہ سے ترش و تیز گفتگو کرتی ہو وہ یہ توقع کرے کہ اس کی بیٹی اس کے ساتھ نہایت شائستہ طرز گفتگو اپنائے ، ایسا کیسے ممکن ہے ؟ کسی نے درست کہا کہ ہمارے گھر گنبد کی آواز ہیں ۔ جو کچھ ہم بولتے ہیں وہی پلٹ کر ہماری سماعتوں سے ٹکراتا ہے ۔
اپنے اسلاف کےان تذکروں میںہمارے لیے کتنا سبق پوشیدہ ہے کہ بچوں کی عملی تربیت کس طرح کی جاتی ہے ۔ رویےّ اور کردار منعکس ہوتے ہیں ۔ یہاں مولانا مودودی ؒ کی والدہ کی دو چار مثالوںاور ایک دو افراد کی شہادتوں سے ہم نے ان کے گھر کے ماحول کا اندازہ لگایا۔
یقیناً مولانا مودودی ؒ کی شخصیت ان کے والدین کی پر چھائیں تھی، ان کی والدہ ان لوگوں میں تھیں جو اپنی ذات میں انجمن ہوتے ہیں۔ایسے شجر ثمر دار کی مانند جن کی گھنی چھائوں میں اپنے پرائے ، امیر غریب، مسافر مقیم ، بچے بوڑھے سب پناہ لیتے ہیں ۔ درخت صرف اپنے پھلوںاور پھولوں سے نہیں اپنے سایہ سے بھی پہچانے جاتے ہیں ۔ بہت سےدرخت نہ پھل دیتے ہیں نہ پھول صرف سایہ رکھتے ہیں ۔ ان کی چھائوں سب کے لیے ہوتی ہے ۔ ان کی چھائوں ہی ان کا ثمر ہوتی ہے یقیناً مولانا مودودیؒ کی شخصیت ان کے والدین کا پرتو ہے۔
مولانا کے ذریعے جو خیر صدیوں تک پھیلتا رہے گا ان شاء اللہ وہ ان کے والدین کا بھی صدقہ جاریہ ہوگا۔
یہ قافلہ جو قیامت تک حق کا علم تھامے رہے گا آنے والے مسافر اپنے اسلاف کے نقوش پایہ حل کی جانب منزل رواں دواں رہیں گے ۔ اللہ اس رستے کے ہر مسافر کو ان کا صدقہ جاریہ بنائے ،آمین ربنا آمین ۔
٭ ٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here