ادھوری خواہش- بتول ستمبر ۲۰۲۱
چررررر……
ارے یہ کیا ہؤا؟
ایمبولینس کو بلاؤ……
خون بہت بہہ گیا ہے……
کیا یہ زندہ ہے؟
٭٭٭
جھلستی جولائی کی دوپہر میں ایک عمارت کا نا مکمل ڈھانچہ بڑی رعونت سے کھڑا ہے۔سورج کی شدید تپش سے بارہماسی اور کنیر کی جھاڑیاں سوکھ کر کانٹا ہو رہی ہیں،جبکہ روزحساب جیسی گرمی نے پرندوں کو نڈھال کر رکھا ہے۔ایسے میں پسینے سے شرابور ، تپتے چہرے لیے کئی مزدور اینٹیں ڈھوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ بھوک پیاس سے بے نیاز،قہر برساتی دھوپ سے بے پرواہ،ستائیس اٹھائیس سالہ گندمی رنگت اور مضبوط قد کاٹھ کا ایک لڑکا ریڑھی میں اینٹیں ڈھو رہا ہے۔
’’ اوئے بابو! ٹھیکیدار سے پوچھ کر روٹی ٹکر کا بندوبست کر یار‘‘بوڑھے مجیدے مزدور نے اعظم عرف بابو کو ہانک لگائی۔
’’چاچا مجید! کام پورا ہوگا تو ہی روٹی حلال ہوگی ہم پر۔ اینٹیں ڈھونے کے بعد ہی کھانا کھائیں گے‘‘۔
اعظم نے مجیدے کی آسوں پر پانی انڈیلا جو ریڑھی گھسیٹتے ہوئے ہر تھوڑی دیر بعد کھانے کے لیے دہائی دینے لگتا تھا۔
جب سورج کا قہر ماند پڑنے لگا اور شفق کی سرخی نے پرندوں کو گھروں کی جانب واپسی کا عندیہ دیا تو اعظم عرف بابو بھی اپنے گاؤں کی بڑی نہر والی پگڈنڈی پر چل پڑا۔ اس کے گھر میں دو ہی نفوس…