دانش یار

خزانہ – بتول دسمبر ۲۰۲۱

عافیہ اگرچہ شکل و صورت کے اعتبار سے غیر معمولی نین نقش یا خدو خال کا کوئی دل رُبا مجسمہ نہ تھی، مگر عقل ، علم، سلیقہ مندی،اور گہرے شعور کے باعث اس نے گھرہی نہیں گائوں بھر کی بزرگ خواتین کوگرویدہ بنا لیا تھا ۔ فطری صلاحیت، جذبہ محبت و حوصلہ اور ولولہ خیر خواہی نے اُسے جس دلاویز شخصیت کا حامل بنا دیا تھا اس نے اسے ایک محبوبیت کے مقام پر فائز کر دیا تھا ۔ شادی کے بعد اس نے عالم دیہاتی دلہنوں کے برعکس اپنی ہتھیلیوں سے رنگِ حنا کے مٹنے کا انتظار کیے بغیر گھر کے سارے کاموں میں ہاتھ بٹاناشروع کردیا تھا ۔ اس کی ساس ( خالہ)اور نندیں حیرت اور مسرت سے اس پر نہال ہونے لگی تھیں ۔ ہر دل عزیز بننے کا یہی گُر ہے ۔ گھر کا معاملہ ہو یا بستی ، شہر یا پورے ملک کا ۔ اگر کوئی فرد ثابت کر دے کہ وہ سب کی ضرورت ہے تو اسے عزت کا مقام ملے گا اور سب اس کے پرستار بن جائیں گے۔
آج اگر عافیہ کو کالج میں اس کی مربی دوست نزہت آکر دیکھتی تو اسے اپنے پڑھائے ہوئے لٹریچر کی اثر انگیزی دیکھ کرفخر محسوس…

مزید پڑھیں

راکب ِ زمانہ – بتول فروری ۲۰۲۳

بدر دین گائوںکا ایک معتبر زمیندار تھا ۔ وہ واحد شخص تھا ، جس نے اپنے بیٹے شعیب کو ایف اے تک تعلیم دلائی تھی حالانکہ اس کے گائوں کے دیگر زمیندار یہی کہتے رہتے تھے کہ بچوں کو پڑھانے کا کیا فائدہ ، ہمیں ان سے سر کاری نوکری تونہیں کروانی ۔ شعیب نے اب اپنا ٹریکٹر سنبھال لیا تھا اور زمین کے چھوٹے موٹے کاموں کے لیے دو معاون افراد کو ملازم رکھ لیا تھا ۔ اس طرح اس نے کاشت کاری میں دوسروں سے بڑھ کر پیداوار حاصل کرنا شروع کی تھی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب رشتہ ناتا خاندان کے بزرگوں کا غیر متنازعہ کُلّی اختیار ہوتا تھا اور ابھی لوگوںمیں کزن میرج نے ہولناک صورت اختیار نہ کی تھی ۔ اس لیے بدر دین کی اہلیہ شہر میں اپنے بھائی مظہر الحق ایڈووکیٹ کی اکلوتی بیٹی عافیہ سے شعیب کا بیاہ کرنے کی بات پکی کر آئی۔
عافیہ بہت ذہین طالبہ تھی ، اپنے کالج میں وہ ہم نصابی سرگرمیوںمیںحصہ لیتی تھی ۔ اپنی روایتی تعلیم میں وہ ہمیشہ اول دوم درجہ پر رہتی ، لیکن ادبی مباحثوں میں اس کی کار گزاری قابل فخر تھی، اس کی ایک ہم جماعت نزہت نے ملاقاتوںکے ذریعے اُسے مطالعہ…

مزید پڑھیں

با مروّت ہیڈ ماسٹر – دانش یار

حریک پاکستان کے ایک کارکن کا تذکرہ جس نے سید مودودیؒ کی تحریروں سے دو قومی نظریہ پھیلانے کا کام کیا
1961ء میں ہمارے ملک میں انگریزی زبان کی تدریس کے لیے نیا نصاب رائج کیا گیا تھا ۔ اس کی تدریس میں اہم جدت Teaching by direct methodتھی۔ سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں انگریزی کی تدریس کے استاد شیخ عبد الحق ؒ ہوتے تھے ۔ انہیں نصابی سفارشات کے مطابق چھٹی جماعت سے دسویں جماعت تک کی درسی کتب لکھنے والی فاضل شخصیات میں ایک ممتاز مقام حاصل تھا ۔ وہ بعض اسباق لکھتے اور ساتھ ہی ہمیں وہ پڑھا کر دکھاتے۔ یوںپڑھاتے ہوئے استاد کو مستعدی اور پورے تحرک سے طلبہ کو متوجہ رکھنا پڑتا تھا ۔دوران تدریس یہ ممکن نہ تھا کہ استاد کرسی پر بیٹھ سکے ۔ مجھ جیسے طلبہ کو بیداری بخت کے سبب جو تصور ِ تعلیم تحریکی لٹریچر سے ملا تھا اس کے تحت استاد کی شخصیت خود نمونہ بن کر طلبہ کی رہنمائی کرتی تھی۔
میں نے اپنے ٹریننگ کے دورانیہ سے فراغت کے بعد 22اگست 1961ء سے ہائی سکول میں پڑھانا شروع کردیا تھا ۔ ستمبر  1962ء میں گورنمنٹ سروس میں تقرر ہؤا اور میں اگست 1963ء میں بہاول پور کے گورنمنٹ ہائی…

مزید پڑھیں

مدّو جَزَر – بتول جولائی ۲۰۲۱

میں نے کوئی پندرہ سولہ سال کے ایک لڑکے کو پہلی دفعہ مسجد میں دیکھا تو یہ اندازہ نہ ہو سکا کہ ہمارے اس وسیب کے تقریباً سبھی گھرانوں سے ہمارا پڑوسیوں جیسا معاملہ ہے اور اس لڑکے کو میں نے اب تک کیوں نہ جانا ! جب غوری صاحب نے اپنے نوافل ختم کیے تو میں نے ان سے اس لڑکے کے متعلق پوچھا وہ کہنے لگے بھٹی صاحب کے ہاں ایک خاتون کام کرتی ہے یہ اس کا بیٹا ہے اور بھٹی صاحب از راہ ِ کرم فرمائی اس لڑکے کو اپنے بیٹے مظہر کے ساتھ سکول بھیج رہے ہیں تاکہ یہ بھی ایک اچھا طالب علم بنے اور کل کو یہ اس قابل ہو جائے کہ اس کی والدہ کو لوگوں کے گھروں میں نوکری نہ کرنی پڑے ۔
پھر جب اس کی والدہ بھٹی صاحب کے ہاں سے نیاز کے چاول لیے ہماری بیٹی کے گھر آئی تو میں نے نزہت بیٹی سے اس خاتون کے بارے میں پوچھا ۔ مجھے اس خاتون کی دکھ بھری کہانی سنا دی گئی ۔ یہ خاتون ایک ایسے ایڈیشنل کمشنر کی بیوی ہے جس نے شہر کی ایک گریجو ایٹ لڑکی سے شادی کرلی ہے اور اس بے چاری کو…

مزید پڑھیں

ماں واہلی- بتول مئی ۲۰۲۱

جب بابا تاج فوت ہو گیا تو ریاست بہاولپور میں مقیم اس کے بھائی اس کی تعزیت کے لیے اپنی بھاوج کے پاس ہمارے گائوں میں آئے ۔ وہ ایک مدت پہلے یہاں سے اپنا زرعی رقبہ فروخت کر کے چلے گئے تھے ۔
نواب بہاولپور کو ان کے ایک ڈپٹی کمشنر نے زمینوں کو زیر کاشت لانے کے لیے اچھے مشورے دیے تھے جن کے تحت ہیڈ سلیمانکی سے ایک نہر ضلع بہاول نگر کو سیراب کرنے کے لیے نکالی گئی تھی ۔ پنجاب کے مشرقی شمالی اضلاع کے لوگ نہایت جفا کش اور بہتر کاشت کار تھے لیکن ان کے پاس زرعی اراضی فی خاندان کم تھی۔ ضلع بہاولنگر کے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر نے نواب صاحب کو تجویز دی کہ وہ اپنی ریاست کی بے کار پڑی ہوئی زمین کی اُسی طرح چک بندی کرائیں جیسے انگریزوں نے پنجاب میں گنجی بار اور ساندل بار میں چکوک بنوا کر لوگوں کو زراعت میں ترقی کا موقع دیا تھااور پنجاب کے زمین داروں کو مناسب داموں پر آباد کاری کے لیے آنے کا اعلان کروائیں ۔
اس اعلان کا فائدہ یہ ہؤا کہ اُدھر کے کاشتکار اپنا ایک ایکڑ بیچ کر جب ریاست بہاولپور آتے تو اسی قیمت میں…

مزید پڑھیں