آسیہ راشد

دشتِ تنہائی – بتول نومبر ۲۰۲۲

زلفی بابا تھا تو چالیس پینتالیس برس کا مگر اپنے ظاہری حلیے سے پچاس ساٹھ کا دکھائی دیتا تھا ۔ قدرے سانولا رنگ ، تاڑ کا سا قد، دبلا پتلا جسم ، سر پر اکا دُکا بھورے بال جو ہر وقت بکھرے رہتے ۔ جنہیں سمیٹنے کی کبھی ضرورت محسوس نہ ہوتی تھی ۔ اس کا لباس بھی اس کی شخصیت کا عکاس تھا ۔ زرد رنگ کا لمبوترا سا کرتا ، دو رنگوں کے ڈبوں والی دھوتی ، لال اور سفید دھاریوں والا رومال جو کندھے پہ رکھا ہوتا اور بوقت ضرورت اسے صافے کے طور پر سر پر باندھ لیا جاتا ۔ اس کی شخصیت کو دیکھ کر اداسی ، ویرانی اور غربت کا احساس ہوتا ۔ ہم سوچتے شاید غریب آدمی ایسے ہی ہوتے ہیں۔
جب وہ دس بارہ برس کا تھا تب وہ پہلی بار بڑی کوٹھی میں آیا تھا ۔ اس کا کوئی عزیز اسے بڑے ابا جی کی سر پرستی میں ان کے پاس چھوڑ گیا تھا۔ وہ کون تھا ، کہاں سے آیا تھا اس کے کوئی اپنے تھے بھی یا نہیں یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔مگر یہ راز صرف بڑے ابا جی جانتے تھے ۔ قسمت کا مارا زلفی پیدائشی ہیجڑا تھا ۔…

مزید پڑھیں

حیاتِ زریں اسما مودودی مرحومہ کی یادیں – بتول مارچ ۲۰۲۳

وقت کی لہریں سبھی جذبے بہا کر لے گئیں
ذہن کی دیوار پر یہ نقش کیسا رہ گیا
14جنوری2023ء بروز اتوار شام تقریباًچھ بجے محترمہ اسما مودودی صاحبہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئیں اِنا للہ واِنا الیہ راجعون۔ آپ نے 82سال عمر پائی ۔دل غم سے بوجھل ہے ۔ آنکھیں پرنم ہیں ۔ میں دھندلائی آنکھوں سے بچپن کی یادیں تلاش رہی ہوں۔
پہلا منظر جو میر ی نگاہوں میں گھومتا ہے ، ایک نوجوان لڑکی سفید چادر میں لپٹی ہوئی والدہ صفیہ سلطانہ کے پاس بیٹھی اپنا قرآن کا سبق سنا رہی ہیں ۔ کبھی وہ برقعہ میں آتی ہیں اور کبھی چادر میں ۔ میں بوجوہ کوشش کے ان کے چہرے کو دیکھ نہیں پاتی۔ میں نے انہیں کبھی کوئی فالتو بات کرتے نہیں سنا ۔ وہ خاموشی سے آتیں اور سبق سنا کر چلی جاتیں ۔ یہ اسما مودودی صاحبہ تھیں۔
پھر دوسرا منظر میری آنکھوں کے سامنے ابھرتا ہے ۔ ہم سب گھر والے بہت تیاری کے ساتھ اسما مودودی صاحبہ کی شادی میں شرکت کے لیے گورمانی ہائوس جانے کی تیاری کر رہے ہیں ۔ گورمانی ہائوس کے وسیع و عریض لان میں گول میزیں سجائی گئی تھیں ۔ سن ستر میں ایسی سجاوٹ خال خال ہی ہوتی…

مزید پڑھیں

ابتدا تیرے نام سے – بتول اپریل ۲۰۲۲

قارئین کرام ! جس وقت یہ پرچہ آپ کے ہاتھوں میں پہنچے گا آپ رمضان المبارک کی نعمتوں اور برکتوں سے فیض یاب ہورہے ہوں گے ۔ ہم سب کو اس ماہ مبارک کی آمد مبارک ہو اور ساتھ ہی عید سعید کی خوشیاں ہمارے نصیب میں ہوں ، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ رمضان کا مہینہ ہمارے ملک پاکستان اور عالم اسلام کے لیے رحمتوں اور خوشیوں کی بہار لے کر آئے ( آمین )
رب کریم کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اپنی زندگی میں ایک بار پھر اس نعمت سے فیض یاب ہونے کا موقع فراہم کیا ۔ دل باغ باغ ہر سو رمضان کا جشن منایا جا رہا ہے … ہر کوئی دورہ قرآن سے فیض یاب ہو رہا ہے کیوں کہ یہ سنت رسولؐ ہے قیام اللیل کا اہتمام کیا جا رہا ہے …لیلۃ القدرمیں تمام رات جاگنے کا اہتمام ہے،اعتکاف کی تیاریاں کی جا رہی ہیں کیونکہ یہ سنت رسولؐ ہے…
اللہ کی کتنی بڑی رحمت ہے بخیل شخص بھی کچھ نہ کچھ خیرات کرتا دکھائی دیتا ہے ہر کوئی انفاق فی سبیل اللہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے ۔ شب بیداریوں کا اہتمام ہے ، نمازوں میں خشوع و خضوع…

مزید پڑھیں

وہ دن! – بتول مئی ۲۰۲۳

اس یاد گار دن کا تذکرہ جب میں نے وقت کو اپنی مٹھی میں قید کرلیا
وقت تیزی سے گزارا روزمرہ میں منیرؔ
آج کل ہوتا گیا اور دن ہوا ہوتے گئے
دن مہینے سال تیزی سے گزرتے جا رہے ہیں ۔ وقت سیل رواں کی طرح بہتا چلا جا رہا ہے ۔ کبھی تو وقت انسان کے ساتھ ہوتا ہے اور کبھی انسان کو وقت کے ساتھ چلنا پڑتا ہے ۔ کبھی وہ تیز دوڑ کر آگے نکلنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کوشش میں اکثر وہ منہ کے بل گرتا ہے ۔ وقت اب دریا ہے جس کے آگے بند نہیں باندھا جا سکتا ۔ گزرے ہوئے وقت پر نگاہ دوڑائیں تو ابھی کل کی بات لگتی ہے ، کل ہم بچے تھے آج ہمارے بچے جو ان ہیں اور ہم ان کے بچوں کی خوشیاں دیکھ رہے ہیں ۔
ہزاروں سالوں سے انسان وقت کو شکست دینے کی کوشش میں مصروف ہے لیکن وہ ابھی بھی وقت سے بہت پیچھے ہے۔ وہ جتنی بھی کوشش کر لے وقت اس کے ارادوں کو پچھاڑ دیتا ہے اس کے اندازوں کو غلط ثابت کر دیتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ ابھی اس کام کے ہونے کا وقت نہیں آیا ۔ ہر…

مزید پڑھیں

چوڑھا ہی اوئے! – بتول جون ۲۰۲۳

آج برسوں پرانی یادوں نے میرے گھر کے دروازوں اور کھڑکیوں پردستک دینا شروع کردی ہے ۔ خوش آہنگ صدائوں اور خوش رنگ مناظر نے یاد رفتہ کو جگا دیا ہے میں نے پہلی کھڑکی کھولی تو وہ ہماری قدیم مین بازار اچھرہ کی حویلی تھی جو کہ سہ منزلہ تھی ۔ اوائل عمری کے چار پانچ برس میں نے اسی گھر میں گزارے ۔ بچپن کی بہت سی باتیں اکثر یاد آتی ہیں جو آخری عمر تک سرمایۂ حیات بن کر ہمارے ساتھ رہتی ہیں ۔
یہی وہ حویلی تھی جہاں میں نے آنکھ کھولی اور یہی وہ گھر تھا جہاں سے میری والدہ رخشندہ کوکب( بانی مدیرہ عفت و بتول) کا جنازہ اٹھا ۔
اس حویلی کے ساتھ پرانے دور کے طرز تعمیر اور رہن سہن کی ایک تاریخ جڑی ہوئی ہے ۔ اس کا نقشہ کچھ یوں تھا کہ زمینی یا نچلی منزل میں ایک برآمدہ او رایک بڑا کمرہ تھا جسے بیٹھک کے طور پر استعمال کیا جاتا ۔ اس کے ساتھ دو مہمان خانے تھے ۔ بائیں جانب مویشیوں کے باندھنے کے لیے اصطبل تھا جو اب ویران پڑا ہؤا تھا اور ان کمروں کوسٹور کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا ۔ دائیں جانب ایک کنواں…

مزید پڑھیں

جیل کہانی – وہ جو قافلے سے بچھڑ گئے – آسیہ راشد

ان کی آہ و بکامیں ان راستوں کی تلاش تھی جوان کے گھروں کوجاتے تھے …. ایک انوکھے تجربے کا احوال
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ویمن ایڈ ٹرسٹ کا ایک گروپ قیدی خواتین کے مسائل حل کے لیے کوٹ لکھپت جیل لاہور میں اپنی خدمات انجام دے رہا تھا۔ جو خواتین کسی بھی وجہ سے جیلوںمیں قید تھیں اور ان کے پیچھے کوئی پر سانِ حال نہیں تھا اور نہ ہی ان کو دیکھنے والا تھا، دوران قید فی سبیل اللہ ان کی مدد کی جا رہی تھی ۔ ان کی صحت کی دیکھ بھال ، تعلیم و تربیت قانونی مشورے اور وکیل کی خدمات (WAT)کی طرف سے سبھی ان کو مفت فراہم کیا جا رہا تھا ۔ قید سے رہائی کے بعد اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے مواقع بھی فراہم کیے جا تے تھے ۔ اس کے ساتھ ساتھ وسائل اور رہنمائی بھی دی جاتی۔
خواتین کا ایک گروپ ہر ہفتے یا پندرہ دن کے بعد جیل جا کر خواتین کا میڈیکل چیک اپ کرتا ۔ ان کے ساتھ ایک لیڈی ڈاکٹر یا ہیلتھ وزیٹر ہوتیں جو ان خواتین کا بلڈ پریشر چیک کرتیں ان کا مکمل طبی معائنہ ہوتا اور روز مرہ کے معمولی بخار ،…

مزید پڑھیں

سلاخوں کے پیچھے – آسیہ راشد

کوٹ لکھپت جیل میں یہ ہمارا تیسرا دورہ تھا ۔ وہاں کے ماحول سے کچھ کچھ شناسائی ہوتی جا رہی تھی ۔ اب پہلے والی گھبراہٹ بھی باقی نہ رہی تھی ۔جس کمرے میں ہمارا کلینک سجتا تھا اس کے راستے کوبھی ہم پہچان چکے تھے ۔
اپنے کلینک کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے ہمیںتیز میوزک کی آواز سنائی دی ہمارے بڑھتے قدم رک گئے ۔ اپنی دائیں جانب دیکھا تو چھوٹی سی عمارت کے دو کمروں کے باہر دو حبشی عورتیں جودرمیانی عمر کی تھیںتیز میوزک پرناچ رہی تھیں۔ ہم حیرت سے انہیںدیکھنے لگے جیل میں ایسا تفریحی منظر ہمارے لیے حیران کن تھا ۔ انہوںنے جب چھ سات خواتین کواپنی جانب دیکھتے ہوئے پایا تو وہ تیوریاںچڑھا کر اندر چلی گئیں دونوںکمروں کے دروازے کھلے ہوئے تھے اور دونوںساتھ ساتھ بنے ہوئے تھے ، اندر کامنظر بخوبی دیکھاجا سکتا تھا ۔ دونوںکمرے جدید سہولتوں سے آراستہ تھے ۔ فوم کے گدوں والے بیڈ ، کولر، فرج ، ٹی وی ، ڈیک اور بے شمار الیکٹرونکس کی اشیا تھیں جو کمرے میں پوری نہ آنے کی وجہ سے باہر رکھ دی گئی تھیں ۔کمروںکی دیواریں جلتی بجھتی چھوٹی چھوٹی بتیوںسے آراستہ تھیں جوڈیک کے میوزک کے ساتھ جل بجھ رہی…

مزید پڑھیں