بہاولپور میں اجنبی، مظہر اقبال مظہر کی اس تاریخی شہر میں تعلیم کی غرض سے آمد اور قیام کی مختصر یادداشتوں اور ڈائری کا مجموعہ ہے۔ بہا و لپو ر میں اپنے قیام کے آغاز ہی سے مصنف کو اس شہر کی تاریخ اور معاشرت میں گہری دلچسپی پیدا ہو گئی۔انہوں نے ایک اجنبی کی طرح اس شہر میں قدم رکھا اور اپنی آبائی روایات کے ساتھ مقامی معاشرت میں مماثلت تلاش کی۔شہر میں قریہ قریہ سیر کی، مقامی افراد سے ملاقاتیں اور رہنمائی حاصل کی۔
سرائیکی زبان کی مٹھاس کو محسوس کیا اور ہلکے ہلکے پھلکے انداز میں زبانوں کے تنوع میں شناخت کے موضوع پر گفتگو کی۔
تاریخی شہر’اچ‘ کے قریب اس شہر کو شکار پور سے آئے نواب بہاول خان نے آباد کیا ،ایک ایک اینٹ کو اس طرح سینچا کہ صدیوں بعد بھی محسوس ہوتا ہے گارے اور مٹی کی بجائے اس شہر کی اینٹیں تہذیب اور تمدن سے آراستہ کی گئی ہیں۔
کشمیر کے ایک شہر سے علم کی تلاش میں نکلے ہوئے ایک طالب علم کا ٹھکانہ جب کچھ عرصے کے لیے یہ شہر بنا تو علم کے متلاشی نے اپنی تعلیم تو مکمل کی ہی ساتھ ساتھ ہی اس نے اس شہر میں بسنے کا حق اس طرح ادا کیا کہ اس شہر کے چپے چپے کو دیکھا،اس کی گلیوں میں رچی تاریخ کی خوشبو کو محسوس کیا اور اپنے تاثرات کو قلمبند کر دیا ۔
آئیے نور محل چلتے ہیں، مشرقی اور مغربی طرز تعمیر کا مرقع جس کی راہداریوں میں شاندار عباسی دور کا طمطراق دم سادھے محسوس ہوتا ہے۔ذرا ادھر دیکھیں، یہ جامع مسجد الصادق ہے،بلند و بالا عمارت، فلک بوس مینار اور کشادہ صحن والی اس مسجد کے سنگ مر مر سے بنے درو دیوار پر دیدہ زیب خطاطی اور نقش و نگار اس دور کے ہنر مندوں کی داستان سناتے ہیں۔ فرید گیٹ، مرکزی لائبریری، چوک فوارہ، میڈیکل کالج اور ہسپتال جو اس شہر کے مرکزی مقامات ہیں، ان کی سیر کے ساتھ ساتھ طالب علم بہاولپور کی گلیوں اور محلوں سے بھی تعارف کرواتے ہیں۔ مچھلی بازار رنگیلا بازار، شہزادی چوک، کیا کیا نام ہیں جہاں گزرے کل اور بستے آج کی رنگینیاں برابر محسوس ہوتی ہیں۔
کتاب میں ایک جگہ مصنف لکھتے ہیں:
’’تاریخ کی ایک اور ستم ظریفی یہ ہے کہ جس دل نشین تصویر اور سنہری خواب کی تعبیر کی تلاش میں بہاولپور کے آخری نواب حکمران نواب صادق محمد خان پنجم نے ریاست کو پاکستان میں ضم کیا ،اس کے نقوش دھندلے ہوتے چلے گئے۔ جس صبح صادق کے نظارے یہاں کی عوام نے محض نصف صدی قبل دیکھے تھے وہ آہستہ آہستہ ایک مرتبہ پھر صبح کاذبب میں تبدیل ہوگئی جس کا دورانیہ طویل تر ہوتا چلا گیا۔
تاریخ نے یہ بھی دکھایا کہ اسی صبح صادق کی تلاش میں بہاولپور کی دھرتی کو اس کی شناخت لوٹانے کا مطالبہ کرنے والوں نے اپنے سینے پر گولیاں بھی کھائیں اور خون کا نذرانہ بھی پیش کیا ۔ تاریخ کے اوراق پلٹیں تو یوں لگتا ہے کہ جس شہ رگ کے تذکرےکشمیریوں کی تین نسلوں کو ازبر کروائے ،گئے ایسی ہی ایک شاہ رگ عباسیوں کو ملت کی لڑی میں پرونے کے خواب دکھانے والوں نے بھی گھڑ لی تھی۔ پاکستان کو اپنی ریاست کا مرکزی دروازہ اور راجپوتانا کو ریاست کا پچھواڑاکہنے والے نواب آف بہاولپور اگر ان دروازوںکو بند کر دیتے یا ان کی حیثیت کو تبدیل کرتے تو نوزائیدہ ریاست پاکستان کو ویسا ہی خطرہ تھا جیسا جموں و کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ سمجھنے والوں سے تھا۔ زبان، رنگ ، نسل، خاندانی حسب و نسب اور عقیدے کے جو بت اسلام مٹانے آیا تھا، عباسی امیران نے بھر پور کوشش کرکے اپنے زیر اثر علاقوں میں اسی طرز فکر کے تحت جدید ریاست بہاولپور کو پروان چڑھایا تھا۔ اسی لیے متحدہ ہندوستان کی لگ بھگ 600 ریاستوں میں بہاولپور کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ اس مرکزی حیثیت، عوامی فلاح کے یادگار عہد اور صبح صادق کی تلاش بہاولپور والوں کو آج بھی اسی طرح ہے، جیسے اہل کشمیر ایسی ہی کسی صبح کے منتظر ہیں‘‘۔
اپنی مادر علمی اسلامیہ یونیورسٹی کے قدیم و جدید کیمپس کا ذکر مصنف نے ذرا اختصار سے کیا ہے، کیا ہی اچھا ہوتا کہ جامعہ کے حوالے سے جن اکابرین سے مصنف کی ملاقات ہوئی ان کے بارے میں کچھ تفصیل دستیاب ہو جاتی۔
کتاب کے آخر میں مصنف نے اپنے دو عدد افسانے بھی زیب داستان کے لیے شامل کر دیے ہیں۔کتاب کا انتساب مادر حقیقی اور مادر علمی دونوں کے نام ہے۔
قیمتی سفید کاغذ اور دیدہ زیب سرورق کے ساتھ اس کتاب کو ‘ پریس فار پیس فاونڈیشن یو کے ‘ نے آزاد کشمیر سے شائع کیا ہے۔
ملنے کا پتہ
پریس فار پیس فائونڈیشن، باغ، آزاد کشمیر۔
فون نمبر:058 02342011
٭ ٭ ٭