۲۰۲۳ بتول مارچیہ دکھ صرف تیرا نہیں - بتول مارچ ۲۰۲۳

یہ دکھ صرف تیرا نہیں – بتول مارچ ۲۰۲۳

دوپہر تو کیا، دن سہہ پہر پکڑنے والا تھا اور ڈھلنے کی طرف رواں تھا۔ سورج مغرب کی طرف چھلانگیں لگاتا ہؤا دوڑ رہا تھا۔ گھڑیال کی گھنٹہ والی سوئی دو کا ہندسہ پار کرکے سوا دو کا وقت بتا رہی تھی لیکن عذرا کا کہیں دور تک نام و نشان بھی نہ تھا۔
عذرا گھر کے کاموں میں میری مدد گار کے طور پر کام کرتی تھی۔ مجھے عذرا کے لیے’’ کام والی‘‘ یا’’ماسی‘‘ کا لفظ بالکل بھی پسند نہیں تھا۔ میرے خیال میں ہم ان کے لیے یہ الفاظ بول کر انہیں ان کی کم مائیگی کا احساس دلاتے ہیں اور وہ اپنے لیے ہماری زبانوں سے ایسے الفاظ سن کر اپنے آپ کو ہم سے الگ مخلوق سمجھتے ہیں۔ اس وجہ سے میں اپنے بچوں کو بھی ان کے لیے یہ الفاظ نہیں بولنے دیتی۔ اس لیے میرے بچے بھی انہیں ہمیشہ آنٹی یا خالہ ہی کہتے ہیں۔
جب دن کے اختتام میں دو گھنٹے رہ گئے تو اس بات پر مہر ثبت ہو گئی کہ اب عذرا نہیں آئے گی۔ اس کے نہ آنے کا یقین پاکر میں نے ہمت باندھی، چولہے پر سبزی چڑھائی۔ چولھے کی آگ مدھم کرکے تاکہ سبزی ہلکی آنچ پر آہستہ آہستہ پکتی رہے اور خود جھاڑو پکڑ کر، دل میں عذرا کو کوستے ہوئے، پورے جوش و خروش سے جھاڑو لگانی شروع کر دی۔
غصہ اور جوش کا حال یہ تھا کہ اگر خدا نخواستہ اس وقت عذرا آجاتی تو اسے بھی جھاڑو کے ساتھ ہی کھینچ کر کوڑے کا حصہ بنا دیتی لیکن اس کی قسمت اچھی یا میری قسمت بری وہ اگلے پانچ دن بھی نہ آئی۔ اس دوران کام کر کرکے میرا غصہ بھی ٹھنڈا ہوگیا، جوش ختم ہوگیا اور میں عذرا کی واپسی کے لیے دعائیں مانگنے لگی۔
اس کے بغیر بتائے چھٹیاں کرنے پر اس کے لیے پریشان اس لیے نہ تھی کہ پہلے بھی کئی بار ایسا ہو چکا تھا بلکہ یہ ہر چند دن بعد معمول تھا اور پھر آکر پورا گھنٹہ بیٹھ کر پہلے اپنی رام کہانی سناتی، ٹھنڈا پانی پیتی، آخر میں اپنے ماں باپ کے گھر میں گزاری ہوئی عیش و فراغت والی زندگی کو یاد کرتی۔ اپنی خراب قسمت کو دو چار کوسے دیتی۔ اس ساری ترتیب وار روٹین سے فارغ ہوکر جھاڑو پکڑتی اور میرا غصہ ختم کرنے کے لیے اس دن جھاڑو سے صوفوں اور بیڈ کے نیچے سے بلکہ گھر کے ہر کونے سے کوڑا نکالتی۔ غسل خانے کی دیواریں بھی رگڑ رگڑ کر سرف سے دھوتی اور پھر چمکتا دمکتا گھر دیکھ کر میرا غصہ ایسا ٹھنڈا ہوتا کہ میں اسے رخصت کرتے ہوئے گھر میں بنی سوغاتوں میں سے اس کا حصہ وافر مقدار میں نکال کر اسے تھما دیتی۔ چاہے وہ اس سارے مدارج کے تیسرے دن ہی پھر چھٹی کر کے بیٹھ جاتی۔
میں نے کئی بار اپنے دل میں ارادہ کیا کہ اسے پکی پکی چھٹی دے کر کوئی اور مددگار ڈھونڈ لیتی ہوں کیونکہ اس کی آئے روز کی چھٹیاں مجھے سخت کوفت میں مبتلا کرتی تھیں لیکن میں ایسا بھی نہ کر پاتی۔ مجھے کبھی تو اس کے چھوٹے چھوٹے بچوں کا خیال آتا کہ اس کی آمدن کم ہو جائے گی اور کبھی اپنا مفاد بھی نظر آ جاتا کہ چلیں چھٹیاں ہی کرتی ہے کبھی چوری چکاری تو نہیں کی۔ جب کبھی مجھے گھنٹہ دو گھنٹہ کے لیے کسی کے ہاں جانا پڑتا تو میں بچے بھی اس کی نگرانی میں چھوڑ جاتی۔ کئی بار میں سو جاتی اور وہ کام نمٹا کر دروازہ بند کر کے چلی جاتی مجھے کوئی فکر نہیں تھی۔ وہ پرانی تھی، گھر میں آنے والے سبھی مہمانوں کو بھی جانتی تھی اس لیے ان کے ساتھ بھی اخلاق سے پیش آتی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ میری کمزوریاں جانتے ہوئے مجھے خوش کرنا جانتی تھی لیکن میں اسے نہ جان سکی اور کبھی ٹھیک اندازہ نہ لگا پائی کہ یہ کب پھر سے اڑ کر چھٹیوں کے موج مزے کے ٹوکرے میں جا بیٹھے گی۔

اس کی ایک عادت جو مجھے بغیر اطلاع کی چھٹیوں سے بھی زیادہ بری لگتی تھی وہ اس کا جھوٹ بولنا تھا کہ وہ جھوٹ بڑی آسانی سے بول جاتی حالانکہ میں نے اسے کہا تھا کہ چاہے جو مرضی ہو تم نے جھوٹ نہیں بولنا۔ کئی بار ایسا ہؤا کہ میرے بچوں نے مجھے بتایا کہ آنٹی عذرا آج ہمارے دروازے کے سامنے سے گزری ہے یا آج ہم نے پچھلی گلی میں جاتے ہوئے دیکھا لیکن اگلے دن عذرا اس بات سے صاف انکاری ہوتی تھی اور کہتی کہ باجی! میں تو کل آئی ہی نہیں تھی، میرا فلاں مسئلہ تھا یا فلاں جگہ فوتگی ہو گئی تھی ، میں بیمار تھی وغیرہ۔ وہ اس طرح دلیلوں کے ساتھ اپنی بات کی یقین دہانی کرواتی کہ مجھے اپنے بچوں کی بجائے عذرا پر اعتماد کرنا پڑتا۔
البتہ اس کے اندر دل کی وہ کمینگی بالکل نہیں تھی جو اس شعبہ سے تعلق رکھنے والی کئی خواتین کے اندر ہوتی ہے۔ اس کے سامنے نئے کپڑے آئیں، نئے جوتے آئیں یا کھانے پینے کا سامان۔اس نے سوائے اپنی محنت کی تنخواہ کے کبھی کچھ لینے کا مطالبہ نہ کیا بلکہ کھانا بھی اسے خود کہہ کر کھلانا پڑتا۔ مجھے اس کا خود خیال رکھنا پڑتا۔ وہ بھوک لگنے پر بھی چائے، کھانے کا مطالبہ نہ کرتی۔ اپنی زبان سے نہ کبھی عیدی مانگی نہ کپڑا اور نہ ہی اپنے بچوں کے لیے کچھ۔ اس کی یہی خوبی مجھے اس کا خیال رکھنے کے لیے زیادہ محتاط کرتی تھی۔
٭٭٭
اس دن عذرا پورے پانچ دن کی چھٹی کے بعد چھٹے دن تشریف لائی تھی۔ اسے دیکھتے ہی میرے غصے کا پارہ بھی اپنے تھرمامیٹر کی چوٹی پر پہنچ چکا تھا۔ میں اپنے غصے کی شدت پر ضبط کیے، زبان دانتوں تلے دبائے بیٹھی تھی کہ پہلے اس کی جھوٹی رام کہانی سن لوں اور پھر اسے یہاں کھڑی کھڑی نکال دوں کہ اچانک اس کی چادر کے نیچے سے پٹیوں سے بند ہؤا بازو نظر آیا۔ جب چادر ہٹا کر دیکھا تو بازو گلے کے ساتھ بندھی پٹی کے ساتھ ہی باندھا گیا تھا جس کا مطلب صاف تھا کہ بازو کی ہڈی ٹوٹی ہے۔ میرا سارا غصہ کافور ہو گیا، دل مٹھی میں آ گیا۔ میں فکر مندی سے عذرا کے شانے تھام کر پوچھنے لگی کہ تمہیں کیا ہؤا ہے،یہ سب کچھ کیسے ہوگیا!
عذرا وہاں پڑے صوفے پر بیٹھ گئی میں بھی اس کے پاس ہی بیٹھ گئی۔ جواباً مجھے عذرا نے کوئی رام کہانی نہیں سنائی۔ صرف آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو ہی برس رہے تھے۔ میں نے اس کا سر اپنے کندھے سے ٹکا لیا۔ میرے کندھے کا سہارا پاتے ہی وہ ہچکیاں لے کر رونے لگی۔ میں نہیں جانتی تھی کہ وہ غم و کرب کی کس وادی سے گزر رہی ہے۔ اس لیے چپ رہی تاکہ وہ روئے، خوب روئے اور رو رو کر اپنے دل کا غبار آنکھوں کے راستے سے باہر نکال لے۔ ہم دونوں کافی دیر ایسے ہی بیٹھی رہیں۔ جب اس نے اپنی من مرضی کا رو لیا، رونے سے اس کی آنکھوں میں سرخی اور سوزش بھی آ چکی تھی تو وہ مجھ سے مخاطب ہو کر پوچھنے لگی۔
’’باجی! کیا میں اپنی قسمت خود ہی ایسی لکھوا کر آئی ہوں یا میرے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے یہ میرے اللہ میاں کی مرضی سے ہو رہا ہے؟‘‘
’’اللہ خیر کرے عذرا! کیا ہؤا؟‘‘ آج عذرا کا لہجہ، باتیں ہر چیز میں فرق تھا۔
باجی! جب میں آخری دن یہاں سے واپسی پہ آپ سے ہزار روپے ایڈوانس لے کر گئی تھی تاکہ گھر کا تھوڑا سا راشن منگوا لوں اور دو تین دن میرا گھر چل جائے۔ میں بیٹے کو بازار سے لانے کے لیے سودے بتا رہی تھی کہ اسے پیسے پکڑاتے ہوئے بشیرے نے ہزار کا نوٹ دیکھ لیا۔ اس نے آگے بڑھ کر بیٹے کے ہاتھ سے نوٹ جھپٹ لیا اور کہنے لگا چھوڑو سودے وغیرہ مجھے ان پیسوں کی ضرورت ہے۔ باجی! نہ گھر میں راشن تھا نہ میرے پاس اس کے علاوہ کوئی پیسے تھے۔ اس کا نشہ پانی تو پورا ہو جاتا لیکن بچے بھوکے رہتے۔ میں بشیرے سے پیسے چھیننے کی کوشش کرنے لگی۔ بشیرے پر تو نشے کا بھوت ایسا سوار تھا کہ کپڑوں کو کوٹنے والا ڈنڈا پکڑ کر مجھے مارنا شروع کر دیا اور ڈنڈا لگنے سے میرے بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی۔
’’ باجی! میں سوچتی ہوں کہ کیا میری زندگی سدا ایسے ہی مشقتوں اور تکلیف والی زندگی رہے گی؟ میں نے ایسا کون سا جرم کر دیا ہے جس کی سزا مجھے ساری زندگی ملے گی؟ ماں باپ کے گھر میں لاڈوں میں پلی تھی۔ باپ غریب ضرور تھا لیکن ہمیں عزت سے گھر میں بٹھا کر کھلاتا تھا۔ یہاں شادی کے ایک ماہ بعد سے ہی میں نے گھروں میں کام کرنا شروع کر دیا،

وہ دن ہے اور آج کا دن مجھے ہر حال میں کام کرنا پڑ رہا ہے۔ نہ کروں تو پانچ بچے دو ہم، سات لوگوں کے ٹبر کا پیٹ کیسے پالوں؟سارے گھر کی ذمہ داری مجھ پر ہی ہے۔ بشیرے نے تو پہلے بچے کی پیدائش کے بعد ہی کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔اگر کبھی دیہاڑی، مزدوری کرتا بھی ہے تو صرف اپنا نشہ پانی پورا کرنے کے لیے۔ مجھ سے اور بچوں سے اسے کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی ہماری کوئی فکر۔ میں نے تو کام اس کی معاشی مدد کے لیے شروع کیا تھا لیکن اس نے تو اپنے آپ کو ہر ذمہ داری سے فارغ سمجھ کر سارے گھر کا بوجھ ہی میرے ذمہ کردیا اور باجی! یہ میری جان ہی جانتی ہے کہ میں کیسے کھینچ تان کر گھر چلاتی ہوں۔
’’ اور ہاں باجی! آج میں آپ کو ایک بات سچ سچ بتاتی ہوں ۔ یہ جو آپ کہتی تھی ناں کہ آپ نے یا آپ کے بچوں نے مجھے محلے میں آئے دیکھا ہے یہ بالکل سچ ہے۔ میں آتی تھی روز آتی تھی بلکہ میں نے تو کبھی اتوار کی بھی چھٹی نہیں کی۔ میں نے ادھر بہت سارے گھروں میں کام شروع کر رکھا ہے وہ اکثر پورا نہیں ہو پاتا اس لیے کبھی کسی کے گھر سے چھٹی کرتی ہوں اور کبھی کسی کے گھر سے تاکہ میرے پاس اتنے پیسے ہو جائیں کہ میں گھر کا کرایہ اور دوسرے اخراجات پورے کر سکوں‘‘۔
عذرا کی صاف گوئی میرے دل کو بہت بھلی لگ رہی تھی۔ اس کا چہرہ کسی معصوم سی بچی کے مانند لگ رہا تھا۔ میں نے محبت سے اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھامے اور دلاسہ دینے کے لیے کہا۔
’’عذرا میری بہن! تم پریشان نہ ہو۔ اس میں تمہارے لیے کوئی سزا نہیں یہ تو ایک آزمائش ہے ۔لیکن ہاں، تھوڑی سی غلطی ضرور ہے۔فطرت میں مرد ذمہ دار ہے گھر چلانے کا،کمانے کی ذمہ داری مرد کو سونپی گئی ہے۔ عورت اگر اپنے مرد کی معاشی معاون بننا چاہتی ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں لیکن مرد اگر اس معاشی تعاون کا قدر دان نہیں اور ہڈحرامی، کاہلی، سستی اور لالچ کی راہ اپنا لیتا ہے تو عورت کو شروع سے ہی پیچھے ہٹ جانا چاہیے تا کہ مرد کو احساس ہو کہ گھر چلانے کے لیے جو کچھ کرنا ہے اس نے خود ہی اپنی محنت کے بل بوتے پر کرنا ہے اور اسے شروع سے ہی کام کرنے کی عادت پڑے‘‘ ۔
میری بات سن کر عذرا گہری سوچ میں ڈوب گئی پھر کچھ دیر بعد بولی۔
’’ہاں باجی! کہتی تو آپ ٹھیک ہیں۔ شروع میں مجھے بشیرے نے تو کام کرنے کے لیے نہیں کہا تھا بلکہ میں نے اپنے چاؤ سے، گھر میں خوشحالی لانے کے لیے خود ہی کام کرنا شروع کیا تھا ۔پھر خوشحالی کیا آنی تھی بلکہ بشیرا ہر ذمہ داری سے بے فکر ہوکر نشے پر لگ گیا اور میں کوہلو کے بیل کی طرح گھر، باہر کے کام میں جت گئی۔ نہ ٹھیک سے اپنے بچوں پر توجہ دے سکی نہ گھر پر ۔بلکہ اب تو بشیرا کہتا ہے کہ بچوں کو بھی پڑھائی سے اٹھا کر کام پر لگوا دوں چار پیسے مزید آئیں گے۔ باجی! واقعی میں غلطی میری ہے ورنہ آج بشیرے کو بھی بچوں کی فکر ہوتی۔ کاش! میں پڑھی لکھی ہوتی تو مجھے بھی اتنی عقل ہوتی‘‘۔
لیکن پانچ جماعت پاس عذرا کو کیا معلوم کہ کئی پڑھی لکھی عقل والیاں بھی اس خلاف فطرت گرداب میں پھنسی ہوئی ہیں!
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here