’’یہ گڑیا اتنی پیاری ہے…. اس کے کپڑے کتنے اچھے ہیں‘‘….نورین نے حسرت سے لائبہ کے ہاتھ میں پکڑی گڑیا کو دیکھ کر کہا۔
’’ ہاں یہ مجھے بھی بہت اچھی لگتی ہے ۔ یہ میرے بابا نے مجھے پاس ہونے کی خوشی میں گفٹ دیا تھا‘‘ ۔ لائبہ نے فخریہ لہجے میں کہا ۔
’’ تمھارے بابا نے بہت اچھا گفٹ دیا تمہیں!‘‘نورین کی نظریں گڑیا پر ہی جمی تھیں۔
’’چلو لائبہ چلیں ! بہت دیر ہو گئی ہے ۔ بہت کھیل لیا‘‘ ۔
دانیہ اپنی پانچ سالہ بیٹی کو پارک میں کھیلنے لائی تھی۔ یہیں اس کی دوستی اپنی ہم عمر نورین سے ہوئی جوکہ بہت معصوم اور پیاری بچی تھی ۔
’’مما ! نورین کے پاس گڑیا نہیں ہے میں اسے یہ گڑیا دے دوں؟ ‘‘لائبہ نے اپنی والدہ سے اجازت چاہی ۔
’’ ہاں دے دو آپ کے پاس اور بھی ہیں‘‘ ۔
لائبہ نے خوشی خوشی وہ گڑیا نورین کو دے د ی۔ نورین کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا ۔’’ نورین آپ کہاں رہتی ہو ؟‘‘
’’یہیں قریب ہی میں‘‘….نورین ابھی تک گڑیا کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھی جیسے اسے اپنی آنکھوں پہ یقین نہ آرہا ہو کہ یہ گڑیا اس کی بھی ہوسکتی ہے۔
’’ اچھا کبھی آپ کی امی نہیں آئیں پارک میں؟‘‘
’’ وہ…. امی مصروف ہوتی ہیں ان کے پاس وقت نہیں‘‘۔ نورین نے مایوسانہ لہجے میں کہا ۔
’’اچھا آپ کی امی کام کرتی ہیں ؟ ‘‘
’’ہاں وہ سارا دن کپڑے سیتی رہتی ہیں ‘‘۔
’’ اچھا۔ اور آپ کے ابو کیا کام کرتے ہیں؟‘‘
’’ ابو کو اتنا عرصہ ہؤا ہے دیکھا نہیں‘‘ ۔ نورین نے اپنے آنسو چھپاتے ہوئے کہا ۔’’ امی کہتی ہیں کہ تمھارے ابو کو پولیس پکڑ کر لے گئی‘‘ ۔ ’’اب وہ تب آئیں گے جب پولیس کو اتنے سارے پیسے دیں گے‘‘ ۔ نورین نے ہاتھ کے اشارے سے پیسے بتانے کی کوشش کی ۔
’’ پولیس کیوں پکڑ کرلے گئی ؟ کیا کیا تھا آپ کے ابو نے؟‘‘ لائبہ حیران سی تھی۔
’’ میرے ابو فٹ پاتھ پر لیموں پانی کی ریڑھی لگاتے تھے۔ تب امی اتنا کام نہیں کرتی تھیں ۔ صرف ابو ہی کام پر جاتے تھے ۔پولیس والے انکل نے ابو کی ریڑھی ہٹانے کی کوشش کی اس پر ابو کو بھی غصہ آیا اور ان کی لڑائی ہوئی ۔وہ ابو کو پکڑ کر لے گئے ۔امی کہتی ہیں ابو کو وہ نہیں چھوڑ رہے‘‘ نورین نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا ۔
دانیہ پاس کھڑی یہ گفتگو سن رہی تھی۔ وہ آگے بڑھی۔
’’ نہیں رو مت ۔تم مجھے اپنی امی سے ملواؤ گی ؟ ‘‘دانیہ نے نورین کو پیار سے دیکھتے ہوئے کہا ۔
’’ جی وہاں ہے میرا گھر‘‘۔
پارک کے پچھلی طرف ایک ملحقہ گاؤں کی کچی آبادی شروع ہوتی تھی ۔ نورین کا گھر بھی ان گھرانوں میں سے ایک تھا۔
نورین کے ساتھ دانیہ ان کے گھر گئی ۔چھوٹا سا دو کمروں کا کچا سا مکان تھا ۔ نورین کا ایک تین سالہ بھائی بھی تھا ۔ گھر پہنچے تو دیکھا ایک دھان پان گندمی رنگت والی درمیانی عمر کی خاتون سلائی میں مصروف تھی۔ پاس ہی کپڑوں کا ڈھیر بھی لگا تھا ۔ اپنے کام میں مگن اردگرد سے بے گانہ تھی ۔
مخاطب کرنے پر اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔’’ جی بی بی جی بیٹھیں ۔ آپ نے سلائی کروانی ہے ؟‘‘ رانی یہ کہہ کر اپنے کام میں پھر سے جت گئی۔
’’ نہیں میں نے تو سلائی نہیں کروانی ۔میں تو آپ سے ملنے آئی ہوں۔ آپ کی بیٹی سے روز پارک میں ملاقات ہوتی تھی اس لیے أپ سے ملنے کا شوق پیدا ہؤا ۔آپ کا نام کیا ہے؟‘‘
رانی! وہ پہلی بار ہلکا سامسکرائی اور اسے حیرت سے دیکھا جو بغیر غرض کے ا س سے ملنے آئی تھی۔
’’ اصل میں ماہِ رمضان قریب ہے، لوگ سلائیاں کروارہے ہیں‘‘۔اس لیے میں سمجھی کہ آپ بھی اسی کام سے آئی ہیں ۔
’’وہ دراصل مجھے آپ کی بیٹی سے پتا چلا کہ آپ کے شوہر کو بے قصور پولیس پکڑ کرلے گئی‘‘۔
’’جی باجی اپنے دکھ کیوں کسی کو بتائیں….یہ بچی ہے اس کے منہ سے نکل گیا ہو گا ۔اپنے باپ کو بہت یاد کرتی ہے ۔ تین عیدیں اس کے بغیر گزار لیں۔ پولیس جرمانے پر اتنے پیسے مانگتی ہے ۔ابھی بھی عید پر نئے سوٹ کی فرمائش کر رہی ہے۔ بس ان کے لیے ہی دن رات سلائی کر رہی ہوں‘‘۔ رانی کے آنکھوں میں کئی رت جگے اپنی داستان سنا رہے تھے ۔
’’ یہ مشین کس نے دی؟‘‘
’’ باجی شوہر کو تو پولیس لے گئی اس کی ریڑھی اور لیموں پانی کا سامان کا بیچ کر اور کچھ ادھار مانگ کر یہ سلائی مشین خرید لی ۔ بس اسی سے گذر بسر ہوتی ہے‘‘ ۔
’’ اچھا مجھ سے جو ہو سکا میں تمھارے لیے کروں گی ۔ تم میرے ساتھ کل پولیس اسٹیشن چلنا‘‘ ۔ دانیہ نے ملتجی لہجے میں کہا۔
بی بی کیوں ؟ آپ کیوں جائیں گی پولیس اسٹیشن ؟
تمھارےشوہر کی ضمانت کروانے….جب کہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا ۔
’’کیا ایسا ہو سکتا ہے ؟‘‘رانی نے حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات میں کہا ۔
’’ ہاں کیوں نہیں ۔اچھا یہ کچھ پیسے رکھ لو نورین کے لیے کچھ لے لینا‘‘۔ دانیہ نے کچھ پیسے نورین کو زبردستی پکڑا دلیے ۔
’’نہیں باجی رہنے دیں‘‘۔
رانی منع کرتی رہ گئی اور دانیہ اجازت طلب کر کے نکل گئی کیونکہ اگلے مرحلے کے لیےاسے اپنے شوہر سے بات کرنی تھی۔ گھر پہنچتے ہی اس نے مناسب موقع دیکھ کر شوہر سے زکوٰۃ کی رقم مانگ لی ۔ شوہر یہ مطالبہ رمضان شروع ہونے سے پہلے سن کر حیران ہوئے ۔
’’اتنی جلدی زکوٰۃ کیوں چاہیے ابھی تو رمضان میں تین دن باقی ہیں؟‘‘
’’ اصل میں کسی کی مدد کرنی ہے ۔میں چاہتی ہوں آپ بھی میرے ساتھ کل پولیس اسٹیشن چلیں‘‘ ۔
’’ آخر ایسے کس کی مدد کرنی ہے ؟ ‘‘ارسل نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔ دانیہ نے نورین کے والد کے بارے میں سب بتایا۔
’’ وہ تو ٹھیک ہے ۔ لیکن تمھیں یہ کس نے بتایا کہ قیدیوں کو چھڑوانے پر بھی زکوٰۃ دی جاسکتی ہے ؟‘‘ ارسل دانیہ کے بدلتے رویے کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’وہ میں آن لائن قرآن کلاس لے رہی ہوں اس میں ہماری معلمہ نے مصارف زکوٰۃ بتائے ۔اس سے پتا چلا کہ ہم تو صرف فقیر مسکین یا ضرورت مند کو دیتے ہیں باقی بھی لوگ ہیں، جو ضرورت مند ہیں ان کو بھی زکوٰۃ دی جاسکتی ہے ‘‘۔
’’ ارے واہ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔یعنی اگر ہم صرف زکوٰۃ کی تقسیم صحیح کر لیں تب بھی اس معاشرے سے غربت و تنگدستی کو ختم کیا جاسکتاہے‘‘۔ ارسل نے مسکراتے ہوئے کہا ۔دانیہ نے تائید میں گردن ہلادی۔
پھر کل جانے کے لیے تیار ہیں ؟
جی کیوں نہیں !ارسل مسکرا دیا۔
٭ ٭ ٭