ماں جی کی آنکھوں سے ڈھیروں موتی جیسے آنسو گر گر کر بکھرتے جارہے تھے ۔وہ دلاسہ دینے پر اور زیادہ رونے لگتیں۔ ہم سب کے اوسان خطا تھے ۔بجیا کے آنگن میں دوسرا پھول کھلنے والا تھا ،وہ میکے رکنے آئی ہوئی تھیں ،دو دن سے وہی ہم سب کو سنبھال رہی تھیں۔ان دو دنوں میں غیر محسوس طور سے ابا کے جھکے شانے اور جھک چکےتھے۔بات ہی کچھ ایسی تھی ۔کسی سے کہتے تو وہ بھی ملامت ہی کرتا ۔لوگوں کا سامنا کرنے کی ہمت کہاں سے لائیں گے ۔سو سوالات سو اندیشے ۔ گھر بھر پر سوگ طاری تھا ۔
معاملہ ہی کچھ ایسا تھا کہ الفاظ کا دامن تنگ پڑ گیا تھا۔میرے خیال میں وہ اکیلا مجرم نہ تھا قصور تو ہم سب کا تھا۔ شمیم کی عمر سترہ برس سے اوپر ہو چکی تھی ۔وہ اکلوتا نر بچہ تھا جو ہماری ماں کی کوکھ سے پیدا ہؤا ہم سب بہنوں سے چھوٹا ، چھے بیٹیوں والے گھر میں اکلوتے بیٹے کی حیثیت ملک کے بادشاہ یا وزیراعظم سے کم نہیں ہوتی لاڈلا چہیتا بیٹا ماں باپ اور ہم سب بہنوں کا راج دلارا ۔
اباجی تو شروع سے ہی راضی برضا رہنے والے شریف النفس انسان تھے چھے بیٹیوں کے اوپر تلے پیدائش پر بھی مسرور و مطمئن تھے ۔ انہیں کبھی بیٹے کی پیدائش کی خواہش پر ہوکے بھرتے نہ دیکھا تھا۔بس ہماری اماں کو نہ جانے کس نجومی نے بتا دیا تھا کہ بیٹے کی پیدائش پر قسمت خوش بختی کے دروازے کھول دے گی یا پھر بیٹے کی ماں بنتے ہی انہیں سرخاب کے پر لگ جائیں گے۔دس سال کی بجیا شبرینہ سے لے کر ایک سالہ سلیمہ یعنی کہ مابدولت تک کل چھےعدد تندرست صحت مند اولادیں دو کمروں کے کوارٹر کو گل و گلزار بنا رہی تھیں۔اباکی کریانہ کی دکان کی آمدن سے گھر میں قدرے آسودگی تھی ۔
ایسے میں ایک نئے مہمان کی آمد ہوئی ۔ہمارے ننھے بھائی شمیم کی پیدائش ہوئی تو اماں جی کے پاؤں خوشی کے مارے زمین پر نہ ٹک رہے تھے ۔میری عمر اس وقت بارہ ماہ کے قریب تھی ۔پہلے تو حصہ بقدر جثہ کے مصداق مجھے ان کی آغوش کی مقدور بھر راحت میسر آجاتی تھی ۔ پر شمیم کے اس دنیا میں قدم رکھتے ہی اماں جی مانو جیسے سدھ بدھ ہی کھو بیٹھیں تھیں۔رات دن اسی کی خدمت اور سیوا میں مگن ۔گھر شوہر اور آدھی درجن بیٹیاں سب جیسے سلیمانی ٹوپی پہن کر ان کی نگاہوں سےاوجھل ہو چکے تھے ۔ ہم سب بہنیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بجیا کی زیر نگرانی پلنے لگیں ۔
اباکبھی اعتدال برتنے کی تاکید کرتے تو جھٹ جواب ملتا ۔’’ایسے ہی نہ پل گئی یہ آدھی درجن کی فوج آپ بھی کمال کی بات کرتے ہیں کبھی ماں کی ممتا بھی پیمانوں پر تولی جاتی ہے؟‘‘
اور اباجان لاجواب ہوکر خاموش ہو جاتے۔
شمیم کی رنگت گوری چٹی اور نین نقش تیکھے تھے ۔وہ ہو بہو اماں جی کی کاربن کاپی تھا۔وہ جب بھی ہمارے کپڑوں کی سلائی کرتیں تو شمیم کے کرتے کا ٹکڑا ضرور بچاتیں اور پھر رنگ برنگی پیاری پیاری بش شرٹیں سی سی کر اسے پہناتیں ۔ نہلانے کے بعد چاؤ میں آکر اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں بھر بھر کر سرمہ ڈالتیں ۔اور نظر بد سے بچانے کے لیے دونوں ابروؤں کے بیچوں بیچ لمبا سا کالا ٹیکا ضرور لگاتیں۔ جو بھی اسے دیکھتا وہ پہلی نظر میں اسے لڑکی ہی سمجھتا ۔
کوئی کہتا’’ہم نے کبھی ایسے کٹیلے نین نقش والا لڑکا نہیں دیکھا ‘‘۔
تو دوسری لقمہ دیتیں۔
’’بہن شکر کرو اللہ نے تمہاری دعائیں سن لیں اور اسے لڑکا بنا دیا۔ حالانکہ اسے دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ اب کی بار بھی لڑکی دینےکا ارادہ کر رکھا تھااس نے ‘‘۔
الغرض جتنے منہ اتنی ہی باتیں! اماں جی کو کسی کی باتوں کی پروا نہ تھی وہ تو بس دیوانہ وار اپنے اکلوتے چشم و چراغ کے صدقے واری ہو ہو جاتیں۔
ہم سب بہنیں بھی اپنے گول مٹول بھائی کو گودوں سے اک پل بھی نیچے نہ اتارتیں۔وقت کا پہیہ تیزی سے چلتا گیا ۔.ہمارے ساتھ گڑیا گڈے کی شادی ’’اور‘‘’’مس مس ‘‘کھیلتے وہ بڑا ہؤا ۔ہماری سہیلیاں ہی اس کی سہیلیاں اور ہمارے کھیل ہی اس کے من پسند کھیل بن گئے۔ اماں جی بھی اپنے جگر گوشے کوگلی کے آوارہ لڑکوں دور سے رکھنا چاہتی تھیں ۔بس گھر کی چار دیواری میں ہنستے کھیلتےاپنے شہزادے کو دیکھ دیکھ کر نہال ہو جاتیں ۔کبھی اسے نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیتیں۔ ہر دم بہنوں کے جھرمٹ میں گھرا تاروں بھرے آسمان پر کسی چاند کی طرح ۔
٭ ٭ ٭
اسکول جانے کی عمر تک اس نے باہر کی دنیا دیکھی تک نہ تھی ۔ اسکول کا داخلہ بھی ایک کڑا امتحان تھا اماں جی کی خواہش پر گھر سے قریب ترین اسکول کے نام قرعہ نکلا۔
پہلے روز اسکول بھجواتے ہوئے اسے امام ضامن باندھا گیارہ روپے صدقہ دیا ۔الوداع کہتے ہوئے ایسے ساون بھادوں برسائے جیسے بیٹی کی رخصتی کے وقت مائیں روتی ہیں۔
کچھ ہی دن گزرے تھے کہ شمیم اسکول سے روتا ہؤا واپس آیا۔ہم سب بے حد پریشان ہوئےپوچھنے پر کہنے لگا ۔
’’سب لڑکے میرا مذاق اڑاتے ہیں مجھے نہیں جانا اسکول ‘‘۔
اماں جی کا ماتھاٹھنکا ۔
’’ارے کس میں جرأت ہے کہ وہ میرے شہزادے کو ستائے… نام بتاؤ اس کا کل اسکول پہنچ کر ہیڈ ماسٹر سے اس کی پٹائی کرواتی ہوں‘‘۔
شمیم کا چہرہ رونے سے لال ٹماٹر ہو رہا تھا ۔اس نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا ۔
’’نہیں اماں جی ایک لڑکا نہیں پوری جماعت نے میرا مذاق اڑایا ہے کیا آپ سب کی پٹائی کروائیں گی؟‘‘
اماں جی اب تو سخت غضبناک ہو ئیں۔
’’اے لو کیا اسی لیے ہزاروں روپے کی فیسیں بھرتے ہیں کہ میرے چھٹانک بھر کے بچے کو سب مل کر ستائیں ‘‘۔
بے چارے شمیم کو اس دن تیز بخار بھی چڑھ گیا ۔اماں جی اگلے روز غصے سے بپھری شیرنی کی طرح اسکول کے ہیڈ ماسٹر کی پاس پہنچیں ۔ وہاں سارا قصہ کلاس ٹیچر کی زبانی معلوم ہؤا۔کلاس ٹیچر نے بتایا کہ شمیم کلاس کے دیگر لڑکوں کےساتھ بیٹھنے سے ڈرتا ہے۔انہوں نے بارہا اسے لڑکوں کے ساتھ بٹھایا پر وہ وہاں سے اٹھ کر لڑکیوں کے بیچ چلا جاتا ہے۔اسی بات پر سب لڑکے اس کا مذاق اڑا رہے تھے ۔
’’بچے تو اکثر ایک دوسرے کا مذاق اڑاتے ہیں ۔لیکن شمیم بہت حساس بچہ ہےاسی لیے اوور رئیکٹ کر رہا ہے‘‘۔
لیکن ماسٹر صاحب کی بات سن کر اور الٹا وہ ان پر غصہ سے پھٹ پڑیں۔
’’میرا بچہ بہت معصوم اور شرمیلا ہے کلاس کے لڑکے یقیناًبہت تیز طرار اور لڑاکا ہوں گےورنہ میرا بیٹا کبھی ان کے ساتھ بیٹھنے سے انکار نہ کرتا ‘‘۔
وہ بضد تھیں کہ ان کی تسلی کے لیے کلاس کی لڑکیوں کے ساتھ ہی ان کے معصوم بیٹے کو بٹھایا جائے۔
قصہ مختصر ہیڈ ماسٹر بھی اصول پسند تھے اسکول کے ڈسپلن پر سختی سے عمل کروانےپر ڈٹے رہے۔اماں جی نے شمیم کو اس اسکول سے ہی نکلوا لیا بقول اماں جی ایسے جلاّد ہیڈ ماسٹراور شیطان لڑکوں کے اسکول میں ان کابھولا بھالا بچہ محفوظ نہیں تھا۔
لیکن معاملہ یہیں تک نہ رکا بلکہ اس کے بعد کئی اسکول تبدیل کروائے گئے مگر ہر بار اسی طرح کی مشکلات پیش آئیں ۔کبھی بچوں کا مذاق اڑانا کبھی اساتذہ کی ڈانٹ کا رونا تو کبھی طبیعت کا بار بار خراب ہو جانا ۔بالآخر اماں جی نے حکم صادر کر دیاکہ ایسے واہیات اسکولوں میں پڑھا کر انہیں اپنے بچے کو نفسیاتی مریض نہیں بنانااس لیے وہ اسےگھر پر ہی ٹیوشن کے ذریعے پڑھائیں گی ۔ہم سب بہنیں تو اس فیصلے سے بہت خوش
تھیں۔روز روز اپنے بھیا کو اسکول سے روتے بسورتے آتے دیکھنا ہمیں گوارا نہ تھا۔ ابا جی نے دبے لفظوں میں اماں جی کو سمجھانے کی کوشش کی ۔
’’نیک بخت شمیم لڑکا ہے اسے گھر بٹھا کر کم ہمت نہ بناؤ بڑے ہوکر یہی تو اپنے ابا کی دکان سنبھالے گا ‘‘۔
مگر انہوں نے ابا جی کی ایک نہ سنی۔
’’آپ کو نہیں پتہ یہ سب اسکول بچوں کو بگاڑنے کے لیے بنے ہیں۔جب اسکول نہ تھے تو بچے زیادہ تمیزدار اور نیک تھے ۔آپ اس معاملے میں نہ بولیں میں خود اسے پڑھا لوں گی ۔لیکن اب اپنے چاند کو اسکول کے دھکے کھانے نہ بھجواؤں گی‘‘۔
آخر کار ابا جی نے ہمیشہ کی طرح ان کے آگے ہتھیار ڈال دیے ۔
یوں شمیم کی زندگی میں سکون آگیا ۔مزے سے شاہی انداز سے گھر میں بادام پستے کھاتے ٹیوشن ٹیچر سے پڑھتے بڑا ہو گیا۔دن تیزی سے گزرتے گئے ۔شمیم بچپن سے ماں کے سلے رنگ برنگے پھولدار کرتے پاجامے پہنتا رہا تھا۔ بڑے ہوکر بھی اسے ایسے ہی زنانہ رنگ اور ڈیزائن کے کپڑے پسند آتے ۔گھر سے باہر جانا اسے شروع سے ہی ناپسند تھا اور اماں جی کی حد سے زیادہ فکر کرنے سے وہ اور بھی زیادہ نازک اندام بن گیا ۔
اس دوران اماں جی سوائے میرے تمام بیٹیوں کے فرض سے فارغ ہوچکی تھیں۔ دسویں پاس کرتے ہی رشتے دیکھ کر پانچوں بڑی بیٹیوں کو بیاہ دیا ۔میں اپنے تمام بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ ذہین تھی اور ہمیشہ اول پوزیشن لیتی تھی میری خواہش تھی کہ مجھے کالج کی پڑھائی کرنی ہے ۔اماں جی میری محنت اور لگن کو دیکھ کر مان گئیں اور یوں مجھے کچھ رعایت مل گئی ۔ شہر کے ایک اچھے کالج میں میرا داخلہ کروا دیا گیا۔شمیم بھی پرائیویٹ امتحان دے کر دسویں جماعت تک پہنچ چکا تھا۔
اسی دوران ہماری زندگیوں میں وہ ناقابل فہم واقع پیش آیا جس نے ہماری پر سکون زندگی میں ہلچل مچا دی ۔
’’نوما مفتی میری کلاس فیلو اور بے حد خوبصورت لڑکی تھی ۔اس کا تعلق ایک رئیس گھرانے سے تھا۔وہ خوش مزاج لڑکی تھی۔جو بھی اسے ایک بار ملتا اس کا گرویدہ ہو جاتا۔اس کی والدہ کا انتقال اس کے بچپن میں ہی ہو گیا تھا اس کا ایک ہی بھائی تھا جو اس سے دوسال چھوٹا تھا۔جلد ہی میری اور نوما کی بہت اچھی دوستی ہو گئی ۔نوما کو اکثر اپنے‘‘اسائن منٹس تیار کرنے میں میری مدد کی ضرورت پیش آتی ۔کبھی لنچ بریک اور کبھی لائبریری کے پیریڈ میں ہم دونوں اکٹھے کام مکمل کر لیتے۔ امتحانات قریب آئے تو ہم نے کمبائن اسٹڈیز کرنے کا سوچا ۔مجھے گھر سے باہر زیادہ دیر جانے کی اجازت ملنا ناممکن تھا اسی لیے نوما نے میرے گھر آکر پڑھائی کا پروگرام بنایا ۔
نوما کو چھوڑنے اور لینے اس کا چھوٹا بھائی شیزی آیا کرتا ۔شیزی ایک عجیب و غریب سے حلیے کا ٹین ایج لڑکا تھا ۔لمبے بالوں کی پونی ماتھے پر ست رنگی بینڈز اور ایک کان میں کبھی ٹاپس اور کبھی بالی پہنتا۔اس کے چہرے کے تاثرات میں نہ جانے کیوں ہمیشہ مجھے عجیب سی پر اسرارئیت دکھائی دیتی۔ نوما البتہ اماں جی سے مل کر بہت خوش ہوئی ۔اماں جی کو بھی اس بن ماں کی بچی سے بہت لگاؤ ہو گیا۔شمیم بھی نوما کے خوبصورت تراش خراش کے کپڑوں اور نت نئے ڈیزائنز کی سینڈلز اور ہینڈ بیگز دیکھ کر کافی خوش تھا۔بلکہ شمیم خود بھی نوما کے آنے سے پہلے اچھے اچھے کپڑے پہن کر تیار ہوجاتا۔ہم دونوں اپنی پڑھائی میں مصروف ہوتیں تو اماں جی مزے مزے کے پکوان بنا کر کھلاتی رہتیں۔
ایک روز نوما کا بھائی اسے لینے پہنچا تو ہمارا کام مکمل نہ ہؤا تھا ۔ انہوں نے اسے کچھ دیر انتظار کرنے کو کہا اور ڈرائنگ روم میں بٹھا دیااماں جی نے مزیدار دہی بڑے بنا رکھے تھے انہوں نے دہی بڑے اور چائے ناشتہ شمیم کے ہاتھ ڈرائنگ روم میں بھجوا دیا۔
بس ہماری قسمت پھوٹی کہ اس روز شمیم کی ملاقات شیزی سے ہو گئی۔ اللہ کو نہ جانے کیا منظور تھا لاڈوں کا پلا ہمارا شمیم جو چھوٹے سے چھوٹا کام بھی اماں جی سے پوچھے بنا نہ کرتا تھا جسے گھر سے باہر جاتے وحشت ہوتی تھی شیزی سے ملاقات ہوتے ہی بالکل بدل گیا.ان دونوں کے درمیان یوں دوستی ہوئی جیسے برسوں سے ملاقات ہو۔اکثر وہ شیزی کے ساتھ اس کی موٹر سائیکل پر باہر بھی جانے لگا ہم سب اس بات سے خوش
تھے کہ چلو اپنی ہم عمر لڑکے کا ساتھ ملا ہے تو گھر سے باہر جانے کا خوف بھی دور ہؤا ۔ اس دن کے بعد اکثر شیزی وقت سے پہلے ہی پہنچ جاتا اور نوما کے فارغ ہونے تک انتظار کرلیتا ۔اس دوران وہ دونوں ڈرائنگ روم میں خوب گپ شپ کرتے ہمیں تو کچھ علم نہ ہؤا کہ ان دونوں کے درمیان کیا کھچڑی پک رہی ہے ۔
قیامت تو اس روز ٹوٹی جس روز شمیم خاموشی سے گھر چھوڑ کر چلا گیا ۔علی الصبح جب میں اسے جگانے گئی تو وہ کمرے سے غائب تھا اور اس کے پلنگ کے سرہانے اس کے ہاتھوں سے لکھا خط رکھا تھا۔
اس خط کو پڑھ کر اماں جی بے ہوش ہو گئیں۔ بڑی مشکل سے پانی کا چھینٹا مار کر انہیں اٹھایا گیا۔ ابا جی نے وہ خط اٹھا کر پڑھنا شروع کیا۔ لکھا تھا:
’’میری پیاری اماں جی! میں اپنی مرضی سے گھر چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ آپ جانتی ہیں نا کہ میں لڑکیوں جیسا سوچتا ہوں،لڑکیوں کی طرح گھر میں رہنا پسند کرتا ہوں،مجھے لڑکیوں کے کپڑے ہینڈ بیگ اور لڑکیوں کا میک اپ بہت پسند ہے۔میں لڑکا بن کر خوش نہیں رہ سکتا میں نے فیصلہ کر لیا ہے مجھے لڑکی بن کر رہنا چاہیے جیسے میرا دل چاہتا ہے مجھے ویسا ہی کرنا چاہیے۔ شیزی بھی میرے جیسا ہی ہے وہ اکیلا نہیں ہے اس کے ساتھ بہت سے اورلوگ بھی ہیں وہ سب بہت اچھے ہیں ،میری زندگی آسان کرنے میں میری مدد کر رہے ہیں ۔ہم نادرا کے دفتر جا کر اپنی پہچان بھی درست کروا لیں گے ۔ میں جانتا ہوں آپ کو بیٹے کا بہت ارمان ہے آپ کبھی مجھے ایسا کرنے نہیں دیں گی اسی لیے اس این جی او سے مدد مانگی اور انہوں نے ایک ہاسٹل میں میری اور شیزی کی رہائش کا انتظام کر دیا ہے۔آپ میری فکر نہ کریں،میں اپنی نئ زندگی اور نئ پہچان حاصل کرکے ہی لوٹوں گا ۔فقط آپکا بیٹا +بیٹی شمیم‘‘۔
یہ خط تھا یا ایٹم بم لمحے بھر میں ہماری ہنستی بستی زندگیوں کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔خاندان بھر میں ایسی رسوائی ہوئی کہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے ۔اس دن نوما بھی اپنے پاپا کے ساتھ روتی ہوئی ہمارے گھر پہنچی ۔وہ دونوں سخت پریشان تھے ۔شیزی بھی اپنے کمرے میں ایسا ہی خط چھوڑ کر گیا تھا۔افسوسناک بات یہ تھی کہ وہ اپنے پاپا کی الماری سے بڑی رقم بھی چوری کرکے فرار ہؤا تھا ۔نوماکے پاپابہت اثر و رسوخ والے تھے۔انہوں نے ہر ممکن کوشش کی ہر جگہ رابطے کیے مگر ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے نام پر ایسے افراد کو حفاظت دینے والا ادارہ ایک طاقتور بین الاقوامی ادارہ تھا۔دونوں لڑکوں کو کہاں چھپا کر رکھا ہمیں اس کی ہوا بھی لگنے نہ دی۔
آج اس حادثے کو گزرے کئ برس بیت چکے ہیں۔شمیم کی اس حرکت کے بعد لوگوں کے الٹے سیدھے سوالات اور استہزاسے بچنے کے لیے ہم نے اپنا شہر ہی چھوڑ دیا ۔لیکن شمیم کے کارنامے کی شہرت نے کسی جگہ ہمارا پیچھا نہ چھوڑا۔ابا جی بڑھاپے میں اس غم سے بلڈ پریشر اور شوگر کے مریض بن کر بستر سے لگ گئے ۔اب ان کی صحت اس قابل نہ رہی تھی کہ وہ کوئی بھی کام کرتے ۔اماں جی اپنی حواسوں میں نہ رہی تھیں ۔ وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر شمیم کو پکارتی رہتیں ۔بڑی بہنوں کو بھی اپنے اپنے گھروں میں طرح طرح کے طعنے برداشت کر نے پڑ رہے تھے۔ اس بدنامی کے نتیجے میں میری زندگی بھی برباد ہوئی مجھ سے شادی کرنے کا کوئی بھی خواہشمند دور دور تک دکھائی نہ دیتا تھا۔تعلیم مکمل کر کے میں نے زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے ایک بڑی کمپنی میں نوکری کر لی ہے ۔
شمیم تم جہاں بھی ہو واپس آجاؤ کیونکہ بہت سی سانسوں کی ڈور تمہارے قدموں کی آہٹ سے بندھی ہے۔
فقط :ایک دکھی بہن