بڑی مستعدی اور مہارت سے گھر کا رنگ و روغن جاری تھا ۔جو سامان باآسانی کھسکایا جا سکتا تھا اسے مزدوروں کی مدد سے صحن میں رکھوا دیا گیا تھا ۔بھاری سامان کو چادریں ڈال کر ڈھانپ دیا گیا تھا ۔برکت صاحب کے گھر برسوں سے اسی طرح رمضان المبارک کا استقبال کیا جاتا تھا ۔ نماز تراویح میں شرکت کے لیے آس پاس کی گلیوں سے بہت بڑی تعداد میں افراد ان کے گھر آتے ۔اب تو چند سال سے ان کاحافظ قرآن بیٹا اجمل بی تراویاں پڑھا رہا تھا۔دونوں بیٹیوں کے فرض سے فارغ ہو چکے تھے ۔بیٹا اعلیٰ دینی تعلیم حاصل کر رہا تھا ۔بس اب تو ایک ہی تمنا تھی کہ اپنی شریک حیات کے ساتھ حج کی سعادت بھی نصیب ہو جائے ۔اسی لیے اپنی محدود آمدنی میں سے کچھ نہ کچھ حصہ پس انداز کررہے تھے ۔
لائنز ایریا کی ان تنگ گلیوں میں وسیع صحن والا یہ واحد مکان تھا۔ اس کی پیمائش تو سب مکانوں کی برابر ہی تھی ‘ لیکن برکت قریشی کے گھر کا آنگن چار مکانوں کے برابر وسیع وعریض تھا۔اس کا معاملہ کچھ یوں تھا کہ کسی زمانے میں اس ساڑھے چار فٹ کی تنگ رو کے بیچوں بیچ چار پانچ بڑے بڑے پیپل کے پیڑ ہوا کرتےتھے ۔ اکا دکا پھیری والے بھی وہاں مستقل ٹھیلا لگا کر بیٹھے رہتے۔ موسم گرما کی تپتی دوپہروں میں مقامی افراد پیڑوں کی ٹھنڈی چھاؤں تلے راحت کا سانس لیتے ۔ رات کو مزدوری پیشہ افراد چائے سگریٹ کے دور کے ساتھ حالات حاظرہ پر گفتگو کرنے بیٹھک لگاتے نہ جانے کب اور کیسے چند کبوتروں کے غول اس جگہ آباد ہوئے ۔ان کی غٹر غوں کی آواز اور پر سکون پیپل کی چھاؤں کے امتزاج سے ماحول پر کسی خانقاں کی سی پر اسراریت طاری ہوگئی۔ چند سالوں میں دیکھتے ہی دیکھتے آبادی دوگنی ہو گئی اور مکان بنتے گئے ۔یہ پیڑ اور چند گز کا یہ احاطہ اپنی جگہ جوں کا توں قائم رہا ۔لوگوں کو اس چھوٹے سے احاطے سے غیر محسوس طور سے عقیدت اور کبوتروں سے انسیت ہو گئی ۔
پھر بلدیہ کو علاقے کی پیمائش اورگلیوں کی ترتیب کا خیال آیا تو ان پیڑوں کو بھی کاٹ ڈالا ۔تمام کبوتر اردگرد کے مکانوں کی چھتوں پر جابسے ۔ اس قطعۂ زمین کا محل وقوع ایسا تھا کہ اس پر ایک مکان الاٹ کیا گیا اور بقیہ زمین کا ٹکڑا اس پلاٹ خریدنے والے کو کم قیمت پر بطور صحن شامل کرنے کا نقشہ منظور ہؤا ۔یوں برکت صاحب کے والد راشد قریشی کوڑیوں کے مول اس اضافی زمین کے مالک بن گئے۔
راشد صاحب رکشہ چلاتے تھے۔وہ نہائیت نیک تہجد گزار انسان تھے.جیب میں چاہے کتنی معمولی رقم ہو وہ ضرورت مندوں کی مدد کا کوئ موقع نہ جانے دیتے ۔ ان کی بیوی رقیہ خالہ دیندار اور باپردہ خاتون تھیں ۔ان کی دو اولادیں تھیں، برکت اور میمونہ ۔راشد صاحب نے پائی پا ئی جوڑ کر اس پلاٹ پر دو کمروں کا مکان تعمیر کیا۔جیسے ہی مکان کی تعمیر مکمل ہوئی کچھ انوکھا معاملہ ہؤا ۔تمام کبوتر ارد گرد کے گھروں سے اڑ کر راشد صاحب کی چھت پر آکر بیٹھ گئے اور غٹر غوں غٹر غوں کرنے لگے ۔ معصوم پرندوں کی اپنے ٹھکانےسے لگاوٹ دیکھ کر سب لوگ بہت متاثر ہوئے ۔
بس اس دن سے ہی ان کبوتروں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری راشد صاحب نے سنبھال لی ۔ انہوں نے گھر کی تکمیل پر شکرانے کے طور پر پہلے رمضان سے ہی اپنے وسیع و عریض آنگن میں نماز تراویح کا اہتمام کیا ۔اور پھر ہر سال باقاعدگی سے نماز تراویح ان کے گھر پر ہو نے لگی ۔ اب ان کے انتقال کے بعد ان کابیٹا برکت اس ذمے داری کو فرض سمجھ کر نبھا رہا تھا ۔
٭ ٭ ٭
زور زور سے دروازہ پیٹنے کی آواز سے سب چونک گئے ۔آواز اتنی زوردار تھی کہ دروازے کے کواڑ لرزنے لگے ۔
’’ کون ہے بھئی…..آ رہا ہوں …..کیا دروازہ توڑنے کا ارادہ ہے ؟‘‘برکت صاحب مزدوروں کے پاس کھڑے تھے۔انہوں نے قدرے خفگی سے کہا:
دروازے پر جو کوئی بھی تھا اس پر ان کی بات کا کوئی اثر نہ ہؤا اور بدستور دروازہ زور زور سے پیٹتا رہا ۔
برکت صاحب کی بیگم ساجدہ بھی پریشانی کے عالم میں باورچی خانے سے نکل کر صحن میں آگئیں ۔
’’اللہ خیر کرے !کون ہے باہرجلدی سے دیکھیں….میرا دل ہول رہا ہے‘‘۔
ساجدہ بہت کمزور دل کی مالک تھیں ۔اتنی ذوردار آواز سے ان کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا۔
برکت صاحب نے لپک کر دروازہ کھولا ۔دروازہ کھلتے ہی ان کا اکلوتا بھانجا زبیر چار پانچ مشٹنڈوں سمیت گھر میں گھس آیا ۔چاروں طرف تازہ رنگ و روغن ہوئی اجلی دیواروں پر نظر دوڑائی اور بولا
’’واہ ماموں واہ بہن کا حصہ کھا کر خوب عیاشیاں چل رہی ہیں ۔ شرم نہی آتی مولوی بنے پھرتے ہو اور بیوہ بہن کا حق یاد نہیں‘‘زبیر نے نہایت بد تمیزی سے برکت چاچا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ۔
برکت صاحب حیران ہو گئے ۔
’’میمونہ کو تو برسوں پہلے ہی میں اس کے حصے کی رقم دے چکا ہوں ۔ اب تم کس حصے کی بات کر رہے ہو ؟‘‘
بچپن سے ہی باپ کا سایہ اٹھ جانے سے زبیر بہت بگڑ چکا تھا۔غلط دوستوں کی سنگت میں اسے جوئے اور نشے کی لت بھی لگ گئی تھی۔وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ ماموں سچ بول رہے ہیں۔ماں کی رقم تو اس نے کب کی عیاشیوں میں اڑادی اور اب اس کے شیطانی دماغ نے ماموں سے پیسے بٹورنے کا یہ منصوبہ بنایا تھا
’’آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ آپ نےمیری ماں کو رقم دی تھی ۔کوئی گواہ ہے تو لاؤ ۔‘‘
زبیر شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ دانت نکالتے ہوئے بولا ۔
’’ ثبوت کی کیا ضرورت ہے میری بہن خود گواہ ہے ۔تم اپنے چمچوں کو لے کر دفع ہو جاؤ یہاں سے‘‘۔
برکت صاحب شدید غصے میں تھے ۔وہ زبیر کے کر توتوں سےواقف تو تھے ۔پر وہ اسقدر گری ہوئی حرکت بھی کر سکتا ہے اس کا انہیں بالکل اندازہ نہ تھا ۔
’’شرافت سے آج کی قیمت کے حساب سے رقم کا بندوبست کر لو نہیں تو تمہارا سامان اٹھا کر گلی میں پھینکنا میرے دوستوں کے بائیں ہاتھ کا کام ہے‘‘۔
زبیر نے غراتے ہوئے اپنے دوستوں کی طرف اشارہ کر کے کہا
’’ایک ہفتے کی مہلت ہے تمہارے پاس ۔اس کے بعد یہ لڑکے جانیں اور تم….میری ذمے داری نہیں‘‘ ۔
برکت صاحب نے کہا:
’’زبیر تم جانتے ہو کہ اس گھر میں برسوں سے نماز تراویح پڑھا ئی جاتی ہے ۔رمضان کے قریب تم کیسے اسے خالی کروانے کا سوچ سکتے ہو ‘‘۔
زبیر نے بد تمیزی کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے کہا۔
’’میں بھی دیکھتا ہوں کہ یہاں تم تراویح کیسے پڑھاؤ گے ‘‘۔
اور جیسے آندھی کی طرح آیا تھا ویسے ہی طوفان کی طرح واپس چلا گیا ۔
اچانک سےصحن میں بیٹھے کبوتر نہ جانے کیوں بے کل ہو کر زور زور سے پھڑ پھڑانے لگے اوران کی غٹر غوں کی آوازوں سے آنگن گونج اٹھا ۔برکت صاحب اور ساجدہ بیگم بت بنے کھڑے تھے ۔وہ جانتے تھے کہ کاغذی ثبوت کی صورت میں ان کے پاس کچھ بھی نہیںاور زبیر لالچ میں اندھا ہو چکا تھا۔
٭ ٭ ٭
خود سر تو وہ شروع سے ہی تھا ۔اب غنڈہ گردی پر بھی اتر آیا تھا ۔ ماں کی نہ پہلے کبھی کوئی فکر تھی اور نہ ہی اب ۔اس کو دلچسپی تو بس روپے پیسے سے تھی ۔جس کے لیے وہ کچھ بھی کر گزرنے کو تیار تھا ۔
میمونہ کو بیٹے کی اس گھٹیا حرکت کا پتہ لگ چکا تھا۔وہ سخت رنجیدہ تھی۔ اس نے زبیر کو خوب ڈانٹا اور کہا۔
’’ ابھی فوراً تم میرے ساتھ چل کر ماموں سے معافی مانگو ۔ میرے بھائی کی ایمانداری اور شرافت کی دنیا گواہی دیتی ہے اور تم نے ان پراتنا بڑا بہتان لگا دیا ‘‘ ۔
زبیر تلملا کر اٹھ کر کھڑا ہوگیااور غصے سے لال پیلا ہو کر بولا ۔
’’ آپ اس معاملے سے دور رہیں ۔اگر آپ نے میری بات نہ مانی تو میں خود کشی کر کے اس ذلت بھری زندگی سے نجات حاصل کر لوں گا ‘‘۔
میمونہ بیٹے کی بات سن کر رونے لگی ۔اکلوتا بیٹا ہی تو اس کا واحد سہارا تھا ۔وہ اس کے خیالات سن کر کانپ گئ ۔ زبیر پیر پٹختا گھر سے باہر نکل گیا۔
٭ ٭ ٭
رمضان سے چند دن پہلے اتنی بڑی پریشانی سر پر پڑ ی تو برکت صاحب کی راتوں کی نیندیں اڑگئیں ۔ان سے بہت بڑی غلطی ہوگئی تھی جو لکھے پڑھے بغیر بہن کو ایمانداری سے اس کیے حصے کی رقم دے دی تھی ۔ اللہ کا حکم ہے کہ لین دین کے معاملات میں تحریری معاہدہ اور گواہ بھی ہونے چاہئیں۔ ساجدہ بیگم ایک سادہ لوح خاتون تھیں وہ اس مسئلہ کی وجہ سے حواس باختہ ہو گئ تھیں ۔ دونوں بیٹیاں سسرال میں سکھی تھیں انہیں بتا کر پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے ۔بیٹے نے ابھی مدرسے کی تعلیم مکمل نہیںکی تھی۔نوکری بھی نہی کرتا تھا ابھی ۔وہ بھی کیا کر سکتا تھا ۔بہن سے ملنے کی کوشش کی پر زبیر نے انہیں گھر میں داخل ہی نہیں ہونے دیا ۔
برکت صاحب کا واحد سہارا اللہ کی ذات تھی ۔وہ تہجد کے وقت کھلے آسمان تلے آنگن میں اپنے رب کے آگے ماتھا ٹیک کر گڑگڑا گڑا گڑا کر دعائیں کر رہے تھے ۔
’’ اے مالک تو ہی واحد سہارا ہے ۔جیسے تو نے یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نکالا تھا۔اسی طرح مجھے بھی اس مشکل سے نکال لے ‘‘۔
عاجزی سے جھکی جبین ، طویل سجدے اور رقت بھری دعائیں ۔ رب کی رحمت اور کریمی کو جوش کیوں نہ آتا ۔پھر وہ ہؤا جو کسی نے سوچا نہ تھا ۔
٭ ٭ ٭
رات گئے جوئے کے دوران زبیر کا جھگڑا ہوگیا ۔نشے میں دھت بدمعاش لڑکوں نے مار مار کر زبیر کی ہڈی پسلی ایک کر دی اور اسے گھر سے باہر پھینک کر چلے گئے۔
غریب ماں کا رو رو کر برا حال تھا ۔ برکت صاحب کو جیسے ہی خبر ملی دوڑ کر بہن کے پاس پہنچے ۔گاڑی میں ڈال کر زبیر کو ہسپتال لے کر گئے ۔ زبیر کے سر پر گہری چوٹیں آئی تھیں ۔حالت کافی نازک تھی ۔ڈاکٹروں نےفوری طور پر آپریشن کا کہا ۔آپر یشن کے لیے بہت بڑی رقم اور خون کی آٹھ بوتلیں درکار تھیں۔
اتنی بڑی رقم کا فوری بندوبست بہت مشکل تھا ۔
برکت صاحب نے ایک لمحے کی دیر کیے بغیر گھر پر حج کی جمع شدہ رقم لا کر بہن کے ہاتھ پر رکھ دی ۔اجمل اور اس کے مدرسے کے دوستوں نے خون کا عطیہ دیا ۔آپریشن کامیاب رہا اور زبیر کی جان بچ گئ۔
ہوش میں آنے پر زبیر کو پتہ چلا کہ ماموں اور اجمل کی مدد سے اس کی جان بچی ہے۔شام کو جب رحمت صاحب ، ساجدہ بیگم اور اجمل اس سے ملنے آئے تو زبیر رونے لگا اور ان کے آگے ہاتھ جوڑ دیے۔
’’ مجھے معاف کر دیں ماموں ،میں لالچ میں آگیا تھا ….میں نے دوستوں کے بہکاوے میں آکر آپ جیسے نیک انسان کا دل دکھایا تھا اور آپ….جنہوں نے برسوں سے حج کے لیے جوڑ ی رقم مجھ گناہگار پر لٹا دی ‘‘۔
اتنا کہہ کر وہ زارو قطار رونے لگا ۔
رحمت صاحب نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اورمسکرا کر بولے’’ نہیں بیٹے جسے اپنی غلطی کا احساس ہو جائےوہ گناہگار نہیںرہتا ‘ اسے تو اللہ تعالیٰ بھی معاف کر دیتے ہیں‘‘ ۔
کمرے میں موجود سب گھر والوں کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔
چند دن بعد رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کا آغاز ہؤا ۔ حسبِ روایت پہلے روزے کی تراویح رحمت صاحب کے پر سکون ہوا دار آنگن میں عقیدت اور احترام سے پڑھی جا رہی تھیں۔ اللہ کے کرم سے سب سے پہلی صف میں زبیر بھی ہاتھ باندھے کھڑا تھا ۔کیف و رجز کی فضا میں اجمل خوش الحانی سے تلاوت قرآن کر رہا تھا ۔
چھت پر بیٹھے سفید سرمئی کبوتر خاموشی سے نیچے جھانک رہے تھے ۔انہیں دیکھ کر یہ گمان ہورہا تھا جیسے انہیں بھی بے صبری سے ان بابرکت ساعتوں کا انتظار تھا ، اورجب ایک بھولا بھٹکا اپنے ٹھکانے پہ واپس آگیا تھا۔٭
٭ ٭