بتول جون۲۰۲۳وہ کامنی سی چھوکری - بتول جون ۲۰۲۳

وہ کامنی سی چھوکری – بتول جون ۲۰۲۳

داخلی دروازے کی گھنٹی بجی ۔گرمیوں کی دوپہر میں عام طور پہ یہ وقت آرام کا ہوتا ہے۔
اس وقت کون آ گیا؟میں نے کی ہول سے جھانکاسیاہ برقعہ میں ملبوس ایک درمیانی سی عمر کی خاتون اور ساتھ چادر میں لپٹی ایک نوجوان لڑکی کھڑی تھی۔
’’جی کس سے ملنا ہے؟‘‘
’’خالہ جی ہیں ؟ ‘‘انہی سے ملنا ہے پتہ چلا تھا کہ صفائی کے لیے انہیں کام والی کی ضرورت ہے۔
تسلی کے بعد میں نے دروازہ کھول دیا۔انہیں بٹھا کے میں امی کو بلا لائی۔
خالہ جی ہم کام والیاں نہیں ہیں عزت دار لوگ ہیں۔بڑی مجبوری میں آئے ہیں آپ مہربانی کریں ۔بڑا خاندان ہے اب گزارا مشکل ہو رہا ہے ۔
نظریں جھکائے وہ جھجکتے ہوئے کہہ رہی تھی –
سانولی سلونی سی چہرہ قدرے گولائی لیے ہوئے، درمیانہ قدو قامت ،محنت اور معصومیت کا امتزاج ،آنکھوں میں ایک خاص چمک،گفتگو میں تہذیب کا عنصر نمایاں۔
یہ سلمیٰٰ تھی،جو اپنی نوعمر بیٹی اور نند کے ساتھ اگلے دن سے ہی کام پہ آنے لگی۔
خاموشی سے آتی۔ برقعہ اتار کے کھونٹی پہ لٹکاتی۔ توجہ اور ایمانداری سے کام کرتی اور سلام کر کے واپس چلی جاتی۔
اس کی چودہ پندرہ سالہ بیٹی اور اٹھارہ انیس سالہ نند کام کے دوران البتہ خوب باتیں کرتیں ۔کبھی بلا وجہ ہنسے چلی جاتیں، ڈسٹنگ کرتے ہوئے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے رک کے مختلف زاویوں سے خود کو دیکھ کے مسکراتیں ۔کبھی تو ڈریسنگ ٹیبل پہ پڑی پونی یا کیچر بھی اٹھا کے بالوں میں لگا لیتیں – پھر سلمیٰ کی ڈانٹ بھری آواز آتی۔
صفیہ…..!!جسے سن کے وہ پھر سے جلدی جلدی کام نمٹانے لگتیں ۔
کبھی کبھار کام ختم ہو جاتا تو سلمیٰ امی کے پاس بیٹھ کے کچھ دل کی باتیں کرتی -امی کو اس کا محبت بھرے لہجے میں خالہ جی کہنا بہت اچھا لگتا۔
اس کی مختصر کہانی یہ تھی کہ کم عمری میں شادی ہوئی ۔ساس سسر وفات پاچکے تھے۔ سلمیٰ کے میاں بڑے تھے، چھ سات نندوں اور دیور کو بھابھی نہیں ماں بن کے پالا ،جتنا ممکن ہؤا پڑھایا ،تربیت کی، کاموں پہ لگایا۔بچے بھی سلمیٰ کو ماں سمجھتے۔مہنگائی ہو گئی تو اپنے سب گھر والوں کی خاطر کام پہ آنے لگی۔
بہت محنتی تھی۔ اسے دیکھ کر مجھے مس صابرہ کا میڑک کی الوداعی پارٹی میں دیا گیا آٹو گراف یاد آ جاتا؎
گزری غم زمانہ کی بھٹی سے اس طرح
وہ کامنی سی چھوکری اسٹیل ہو گئی
تین سال سلمیٰ باقاعدگی سے آتی رہی اچانک اس نے آنا بند کر دیا ۔کوئی پیغام یا اتہ پتہ بھی نہ دیا۔امی ان دنوں طبیعت کی خرابی کے باعث خود بھی اس کا پتہ نہ کروا سکیں،بس انتظار میں رہیں کہ آ ہی جائے گی۔
دن مہینوں میں بدلتے گئے سلمیٰ نہ آئی ۔امی کی طبیعت سنبھلی تو ایک دن امی نے ڈرائیور سے گاڑی نکالنے کو کہا اور سلمیٰ کے گھر جا

پہنچیں۔
امی کو دیکھتے ہی سلمیٰ دوڑتے ہوئے آئی اور امی کے گلے لگ کے رونے لگی۔ کافی کمزور لگ رہی تھی۔امی بھی گھبرا گئیں۔امی کو کمرے میں بٹھا کے وہ پاس بیٹھ گئی آنکھیں خشک کرتے ہوئے اس نے بہت غمزدہ خبر سنائی۔
’’خالہ جی میری بیٹی فوت ہوگئی….میری صفیہ اللہ کے پاس چلی گئی….بس پھر ہمت نہیں ہوئی کام پہ آنے کی…. ایسے لگتا ہے کمر ہی ٹوٹ گئی ہے ‘‘۔
’’اوہو….ہؤا کیاتھا اسے؟‘‘
’’بس خالہ جی بخار ہی لمبا ہو گیا ڈاکٹروں کی سمجھ میں بھی کچھ نہیں آیا‘‘۔
امی نے اسے بہت تسلی دی ۔کام پہ آنے کو بھی نہ کہا، وہ جانتی تھیں کہ جوان اولاد کا غم کیسے انسان کو توڑ پھوڑ کے رکھ دیتا ہے۔پھر وقتاًفوقتاًامی اس کے لیے گھر پہ کچھ نہ کچھ بھجوائی رہتیں ۔اس کے بیٹے کے سکول کے اخراجات کا ذمہ لیا تو شکریہ ادا کرنے خود چلی آئی ۔بے پناہ خوش تھی اس کی آنکھوں میں ایک واضح چمک تھی ۔بیٹا بھی ساتھ تھا ،ساتویں جماعت میں پڑھ رہا تھا ۔باقی تین بیٹیوں کو گھر پہ ہی ہنر سکھا رہی تھی ۔
کچھ مہینوں بعد دوبارہ آئی تو چھوٹی نند ساتھ تھی۔ اس نے امی کو بتایا کہ تینوں نندوں کی شادیاں کر دی ہیں، دیور بھی کام اچھا کرنے لگا ہے اب اس کی شادی کرنی ہے۔
کہنے لگی، یہ نازیہ اپنے گھر میں خوش نہیں ہے، میں نے اسے کہا کہ خالہ جی کے پاس لے چلتی ہوں وہی تمہیں سمجھایئں گی۔خالہ جی اسے سمجھایئں کہ گھر بنانے میں محنت ہوتی ہے اپنا آپ مارنا پڑتا ہے۔لمبی چوڑی خواہشیں دل میں رکھنے سے اور اپنے آپ کو بس سب کچھ سمجھنے سے گھر نہیں بنتے….مٹی کرنا پڑتا ہے خود کو تو پھر پکا گھر بنتا ہے ۔
میں حیرت سے سلمیٰ کا فلسفہ سن رہی تھی۔
سلمیٰ کا خلوص تھا کچھ امی کے سمجھا نے بجھانے پہ نازیہ سمجھ گئی اور اپنے گھر جانے کے لیے راضی ہو گئی۔
یہ دسمبر کے آخری دنوں کی ایک اداس سی شام تھی جب دروازے پہ دستک ہوئی ۔کوئی بہت ہی جلدی میں تھا ،میرے پوچھنے پہ جواب ملا
’’باجی میں ….سلمیٰ‘‘۔
میں نے گیٹ کھول دیا۔ہانپتی کانپتی سلمیٰ گیراج میں بچھے پلنگ پہ ڈھے سی گئی۔
میں اسے دیکھ کے پہلی نظر میں تو پہچان ہی نہ سکی ۔بہت کمزور سا وجود….آنکھوں کی چمک جو اس کی شخصیت کی پہچان تھی کہیں نہ تھی اس کی جگہ عجیب سی ویرانی نے لے لی تھی۔رنگت سیاہ گال اندر کو دھنسے ہوئے۔
یکدم اسے کھانسی کا دورہ سا پڑ گیا۔
میں بھاگ کے پانی لائی اسے پلا یا۔امی کے پاس لے گئ۔امی بھی اسے دیکھ کے سخت پریشان ہوئیں۔
’’کیا ہو گیا ہے سلمیٰ‘‘۔
’’ ٹی بی ہو گئی خالہ جی۔ نشتر والوں نے مفت دوادے دی تھی۔پورا کورس ہونے والا ہے ‘‘۔
وہ دوبارہ کھانسی، پھر سانس بحال کر کے بولی۔
’’بس رضائیاں نکال صاف کرنے لگ گئی تھی…. سب کو دھو کے صاف کر کے دیں۔روئی اڑ اڑ کے سانس کے رستہ اندر جاتی رہی۔ اتنی کھانسی چھڑ گئی ہے خالہ جی، اب اپنی رضائی ٹھیک ہی نہ کر سکی۔
سردی بڑھ گئی ہے بس خالہ جی کوئی پرانا کمبل دے دیں تو میرا گزارا ہو جائے گا ‘‘۔
امی نے ڈانٹا کہ اتنی بیماری میں کیوں تم نے یہ سارا کام کیا کسی سے کہا کیوں نہیں۔پہلی دفعہ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔
’’بس خالہ جی سارے مصروف ہیں اپنے اپنے کاموں میں ‘‘۔
’’اچھا ایسا کرو کل بیٹے کو بھیج دینا میں کمبل دے دوں گی اسے‘‘۔
اگلے دن سلمیٰ پھر خود ہی چلی آئی۔امی نے پو چھا کہ بیٹا کیوں نہ آیا تو آنکھیں چرا گئی اور کہنے لگی۔
’’خالہ جی اس نے پڑھنا تھا میں نے سوچا خود ہی لے آتی

ہوں‘‘۔
امی نے بہت محبت سے نیا کمبل اس کے لیے خریدا تھا اسے لا کر دیاتو لمحہ بھر کو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں ۔بار بار کمبل پہ ہاتھ پھیرتی اور خالہ جی بہت بہت شکریہ کہتی جاتی
امی نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور ا سے تاکیدا ًکہا ’’سلمیٰ یہ کمبل اب تم نے خود لینا ہے تمہارے لیے خاص منگوایا ہے اب یہ نہ کرنا کہ بیٹی کے جہیز کے لیے رکھ لو‘‘۔
’’نہیں خالہ جی …. میں خود ہی لوں گی‘‘پھر بہت خوشی سے سلمیٰ وہ کمبل اٹھا کے چل دی۔
میں اور امی نم آنکھوں سے اس کے نحیف سے وجود کو جاتا دیکھتے رہے۔
یہ جنوری کی دو تاریخ تھی ،صبح سات بجے کا وقت تھا۔ ابھی سب ناشتہ کی تیاری کر رہے تھے کہ داخلی دروازے کی گھنٹی بجی۔ ابو جی نے گیٹ کھولا ۔چند لمحوں بعد ابو کی آواز کانوں میں پڑی۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
لاؤنج میں کھڑے ہم سب گھر والے پریشانی میں باہر کی طرف دوڑے تو ابو گیٹ بند کر کے واپس پلٹ رہے تھے۔ہماری سوالیہ نظریں ابو کی جانب اٹھیں تو ابو نے بتایا۔
’’ سلمیٰ کا شوہر آیا تھا….سلمیٰ کا رات انتقال ہو گیا ہے ‘‘۔
میں گم صم وجود لیے سوچتی رہی کہ کیا سلمیٰ کے معصوم بچوں کو بھی کوئی سلمیٰ مل سکے گی!
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here