۲۰۲۳ بتول دسمبرمصحف پاک کے لیے ایک نظم - اسما صدیقہ

مصحف پاک کے لیے ایک نظم – اسما صدیقہ

یہ میرے ہونے کا اک پتہ ہے

ہر اک سفر میں ہراک خطر میں جوتھام لیتا ہے بن کے رہبر
کبھی یہ دھیرے سے لاج رکھ لے،کبھی بنا ہے یہ سرکی چادر
جو نوعِ انساں کودے تمدن،عطائے رحمت ہے جو سراسر
یہ میرے ہونے کاایک پتہ ہے
ہراک تعلق کاراستہ ہے
یہ معجزہ جوہر عہدکاہے کئی زمانوں سے جاملا ہے
اندھیری شب کی کثافتوں میں کرن خزانوں کا اک ذخیرہ
بہت مقدس بہت مکمل ہیں باب سارے ،بہت منزہ ہیں مثلِ ہیرا
سدا سے دارو یہ ہرستم کا ،بنا تسلی کاایک مظہر
قسم قلم کی جوکھارہا ہے خدائے برتر
سرشت ِانساں میں چھپ گیا ہے اسی صداقت کاایک جوہر
قلوب واذہاں کی روشنی ہے
یہ کتنے سینوں میں جاگزیں ہے
خدائے واحد کی قربتوں کا جبھی امیں ہے
جو نوعِ انساں کی عظمتوں کا یہ ہم نشیں ہے
حروف اس کے تمام روشن، جہان ِمعنی میں لعل و گوہر
کہ اس کی سنگت میں جاگ جائے ہراک مقدر
یہاں پہ حکمت کے باب سارے شعورووجداں سے ہیں منور
کھلے جو فطرت کے راز سارے ظہورِ عرفاں سے ہیں معطر
ضیاوظلمت میں فرق کرنا اسی کے دم سے
وفاکو وحدت میں غرق کرنا اسی کے دم سے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here