محشر خیال

ڈاکٹر ام کلثوم۔ لاہور
مجھے کسی فرد یا فرد کے کسی کام پر تبصرہ کرنا ہمیشہ بڑا مشکل محسوس ہوتا رہا ۔ ایک کمزور بندہ کیسے دوسرے کی محنت اور اخلاص کا صحیح اندازہ کر سکتا ہے ۔دعا ہے رب کریم اس خاص نمبر کی تشکیل میں حصہ لینے والے تمام افراد کی مساعی کو شرف قبولیت بخش دیں ،آمین۔
کہا جاتا ہے’’ بندہ بندے دا دارو ‘‘، یہ حقیقت ہے کہ ہر انسان اپنے ضعف اور بےشمار کمزوریوں کے باعث محتاج ہے ، وہ تنہا اپنی ضروریات کی تکمیل کر سکتا ہے نہ آسائش کا حصول ممکن ہے ۔ زندگی کے ہر مرحلہ اور ہر دور میں معاونت کے لیے وہ دوسرے انسانوں کا محتاج ہے ۔ زندگی کی گاڑی کا سفر خوشگوار اور کامیاب ہی اس صورت میں ہو سکتا ہے جب یہ تعاون خیر خواہی کے جذبات کے ساتھ استوار ہو ۔
یوں ہر رشتہ ، وہ نسب کی بنیاد پر قائم ہو یا احتیاج کی بنیاد پر ، ایک امتحان ہے :لیبلوکم ایکم احسن عملا۔
امتحان آجر کا ہے اور اجیر کا بھی ، افسر کا ہے اور ماتحت کا بھی ، زبردست کا ہے اور زیردست کا بھی ، آقا کا ہے اور غلام کا بھی !
اسلام اپنی معاشرت کے ہر فرد کو اس میزان کو مستحضر رکھنے کی ہدایت کرتا ہے جو ہر دو افراد کے ایک دوسرے پر حقوق اور ذمہ داریوں کو جانچنے کے لیے قائم کیا جائے گا ۔ جس کے ایک پلڑے پر اجیر کی نافرمانی ، گستاخی ، جھوٹ اور خیانت ہوگی اور دوسرے پلڑے پر آجر کی تلخ نوائی ، حق تلفی ، ظلم اور جبر ہو گا ۔ پھر جس کا پلڑا بھاری ہو گیا ۔ ایک دوسرے کی حق تلفیوں کا بدلہ دیتے دیتے بڑے بڑے پاکباز اور نیکوکار مفلس ہو کر رہ جائیں گے ۔
یہی وہ ایمان ہے جس نے غلاموں اور لونڈیوں کو زبان دے دی ، انہیں عزت نفس کا شعور دے دیا ، معاشرہ سے آقا و غلام کی تمیز مٹ گئی ، مساوات کے اس درس نے انہیں علم و فضل کی اونچی مسندوں پر لا بٹھایا ، انہیں آقاؤں کاآقا بنا دیا ۔
کام میں معاونت کرنے والے زیردست افراد کو’’مددگار‘‘ کا عنوان دے کر ہم جیسے بھلکڑوں کو اس نعمت عظمیٰ کی یاددہانی کروا دی گئی کہ نعمتوں پر شکر گزاری سیکھ لیں قبل اس کے کہ وہ دن آ جائے جب ان کے بارے سوال کیا جائے گا :ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم۔
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے بڑی جامعیت سے آجر اور اجیر کو میزان کے دونوں پلڑے متوازن رکھنے کی یاددہانی کروائی ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیتے ہوئے انہیں کنگھی کے دندانوں کی مانند برابر ہونے کی تشبیہہ دی ۔ دنیا کی کوئی تہذیب ، کوئی معاشرہ ، کوئی ادب اس تعلق کو اتنے خوبصورت الفاظ سے بیان نہیں کر سکا ۔
اسلام ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیتا ہے جس کی بنیاد’’عدل‘‘ اور ’’احسان‘‘ پر اٹھائی گئی ہے ، یہ ایک دوسرے کی خیر خواہی کے حریص افراد کا معاشرہ ہے ، یہ ایسے افراد کا معاشرہ ہے جہاں ہر فرد سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند دوسرے کے ساتھ پیوستہ ہے ، تقویت دینے والا ہے ۔
سراپا لطف و کرم ، نرم خو ، مہربان اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کی کمزوریوں سے چشم پوشی کی تاکید کرتے ہوئے زیردست افراد کو ایک دن میں ستر مرتبہ معاف کرنے کا حکم دیا ، ان کے اپنے غلام اور خادم ان کے اس حسنِ سلوک کی گواہی دیتے ہیں ۔ ندا اسلام نے یہ پیغام بڑے احسن انداز میں منتقل کیا ہے ۔ لیکن آج نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ رکھنے والوں میں کتنے ہیں اس سنت پر عمل کرنے والے ؟
افشاں نوید کی یہ بات بڑی اہم اور مبنی بر حقیقت ہے کہ:
’’ماہنامہ بتول نے مددگار نمبر‘‘ نکال کر ہمیں اپنے رویوں پر نظر ثانی کی دعوت دی ہے ۔’’اوروں‘‘ کےلیے یہ صرف معاشرتی مسئلہ ہوگا مگر ہماری تو کامیابی ناکامی سے جڑا ہے ‘‘۔
بشریٰ تسنیم نے مددگار کی صفت کے وسیع مفہوم پر بڑی عمدہ روشنی ڈالی ، یہ تو رب کائنات کی صفت ہے ، کائنات کا سارا نظام تعاون اور ربط باہم پر استوار ہے ، ایک جسم کی صحت کا راز اس کے تمام اعضاء و جوارح کی ایک دوسرے سے ہم آہنگی میں پوشیدہ ہے ۔ اس تعاون میں کمزوری ، تعطل ، بے اعتمادی پورے نظام کو درہم برہم کر دیتی ہے ۔
بدقسمتی سے آج انسان الوہی رہنمائی سے بے نیازی اختیار کرتے ہوئے اپنے جیسے انسانوں کے بنائے ہوئے ضابطوں کو رہنما بنائے بیٹھے ہیں ، یہ یک طرفہ فیصلے دینے والے ناقص ضابطے انسانیت کو جس کرب اور اذیت میں مبتلا کیے ہوئے ہیں اس کا اندازہ شمارے میں دی گئی تحریروں سے بخوبی ہو رہا ہے ۔ جدت پسندی کے دعویدار یہ ضابطے ’’حقوق‘‘ کی بات کرتے ہیں تو ذمہ داریوں کا تعین ندارد ! معاشرہ میں خدا خوفی اور آخرت میں احساس جواب دہی کی بنیاد پر تربیت عنقا ہے ۔ انسانیت کو بھولا ہؤا یہ سبق یاد کروانا ہماری ذمہ داری ہے ، اللہ کرے یہ شمارہ اس ذمہ داری کی ادائیگی میں ہم سب کا معاون ہو ۔
قرون اولیٰ میں غلاموں اور لونڈیوں کو جس معاشرتی عزت و شرف سے نوازا گیا ، اگر ان کے کچھ حالات و واقعات پیش کر دیے جاتے تو اور بھی اچھا ہوتا ۔
٭٭٭
قانتہ رابعہ۔ گوجرہ
انسان کو حیوان کہنے پر تو دل آمادہ نہیں ہوتا ہاں بچپن سے کتابوں رسالوں میں سوشل اینیمل کا خطاب پڑھ پڑھ کر اس پر یقین ہی رہا کہ انسان اکیلے زندگی نہیں بسر کرسکتا ،وہ کسی نہ کسی کا محتاج ہے ۔کپڑے سینا سیکھ بھی لے تو کپڑوں کی بنت کے لیے جولاہوں اور آج کی زبان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کا محتاج ہے کھانا بنانا سیکھ لے تو بہر حال سبزی ترکاری بازار سے منگواتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ سارے کام کوئی ہر فن مولا کرنے کا دعویٰ کر بھی لے تو بہرحال اسے دوسراہٹ کی ضرورت ہی رہتی ہے یہ دوسراہٹ ہر قسم کے افسر اور ماتحت کی بھی ہوسکتی ہے گھریلو مالکن اور ملازمین کی بھی ہو سکتی ہے،دکاندار اور گاہک کی بھی۔
کام کرنے والوں کے لیے کام کروانے والوں کا ہونا بھی ازحد ضروری ہے۔ کام کرنے والے نہ ہوں تو کروانے والے کس کا منہ دیکھیں گے؟
بہرحال تمہید لمبی ہوگئی اس دوسرے طبقے کے لیے جس کی حیثیت آج ریڑھ کی ہڈی سے بھی اہم ہے اور کسی زمانے میں شہزادیوں کی جان دیو کی مٹھی میں ہوتی تھی اب بیگمات کی جان تو ان ماسیوں کی مٹھی میں بند ہوتی ہے سب سے بری خبر بیگمات کے لیے کام والی ماسی کی چھٹی ہوتی ہے۔
ہماری خواتین کی روزمرہ گفتگو اگر ریکارڈ کی جائے تو سب سے زیادہ وقت اور الفاظ انہی پر خرچ ہوتے ہیں ۔ہمارے صدقہ خیرات زکوٰۃ کی یہی امیدوار ہوتی ہیں ۔ہماری نبض شناس بھی یہی ماسیاں ہوتی ہیں جو ماسیاں کم اور ماہر نفسیات زیادہ ہوتی ہیں کہ باجی کس بات پر خوش ہوتی ہیں کس بات پر غصے میں آتی ہیں ان سے زیادہ کوئی نہیں جان سکتا ۔
اردو ادب میں اس طبقے پر نثر نظم میں گو بہت کچھ لکھا گیا ہے تاہم انفرادی طور پر ایک آدھ تحریر لکھنا ہوا میں اڑانے کے مترادف ہوتا ہے ۔ اردو ادب میں اس پر بہت کم تخصیص کے ساتھ پیش کیا گیا، میرے علم میں نہیں کہ مددگار نمبر کے عنوان سے کہیں جرائد اور رسائل نے کوئی نمبر نکالا ہو ۔ مسائل زیربحث لانا زبان کا چسکا ہوتا ہے اور مل بیٹھ کر افہام و تفہیم سے حل تلاش کرنا عظمت کا کام ہے ۔
یہ عظیم کام ماہنامہ بتول کے حصے میں آیا اور کچھ عرصہ قبل ہی مددگار نمبر کا اعلان کیا گیا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ قلیل مدت میں بہت جاندار اور موضوع کا بہت حد تک احاطہ کیے خوبصورت سرورق کے ساتھ رسالہ ہاتھ میں بھی آگیا ۔
رسالے کا شروع کی تاریخوں میں ملنا بہت ہمت کی بات ہے بالخصوص جب خاص نمبر بھی نکالنا ہو تو بر وقت نہیں قبل از وقت رسالہ قاری کے ہاتھ میں پہنچنا کہ قاریہ بھی لاہور سے سینکڑوں میل دور قیام پذیر ہو آج کے دور میں ادب دوستی کی بہت عمدہ کارکردگی کی اعلیٰ مثال ہے ۔
سرورق گو علامتی ہے لیکن بغور ملاحظہ فرمائیں توبنے ہوئے دائرے اور محنت مزدوری کرتے ہالے بہت کچھ سمجھا رہے ہیں ۔
قرآن و احادیث کی روشنی میں ان مددگاروں کے حقوقِ و فرائض پر بہت عمدہ تحریریں موجود ہیں ۔ میں اس بات کی بطور خاص مبارکباد دوں گی کہ اس مضبوط طبقے کو ہم لوگ اپنے اپنے حالات کے مطابق نام دیتے ہیں ،خواتین کی بات ہو تو ماسی ،آنٹی ،کام والی،ہیلپر جیسے مختلف نام ان کی پہچان ہیں لیکن مجموعی طور پر ان کے لیے’’مددگار‘‘ کا لفظ بہت ہی جامع معنی سموئے ہوئے ہے ۔ کوئی اہانت یا کم رتبے کا احساس نہیں ہوتا اعصاب پر سوار نہیں ہوتا ۔ان کے لیے اس سے اچھا لفظ شاید اردو لغت میں نہ ملے ۔حصہ نثر میں تمام تحریریں ہی بہت شاندار ہیں یہ نہیں کہ سب نے ان کے ایک جیسے دکھ بیان کیےہوں یا ایک جیسے مسائل پڑھ پڑھ کر یکسانیت محسوس ہو بلکہ ہر تحریر کا الگ موضوع ہے حالانکہ ہر ماسی ایک کہانی کے مصداق سب کی کہانیاں بھی دی جاسکتی تھیں لیکن مسائل ،کردار ، اور حقوق و فرائض سب الگ الگ موجود ہیں ۔عالیہ شمیم نے’’مجھےتلاش ہے‘‘ کے نام سے اپنی مہربان،ایماندار مخلص مددگار کا خاکہ اتنی عمدگی سے لکھا ہے کہ میرا دل چاہتا ہے میں ان سے دست بدستہ مؤدبانہ گزارش کروں آپ خاکہ نگاری میں بہت آگے جا سکتی ہیں ۔آپ اس میدان میں اپنا قلم آزمائیں ان شاءاللہ ہمیں بہترین خاکے پڑھنے کو ملیں گے ۔
آمنہ رومیصاکا اپنی مددگار پر خاکہ عالیہ کی کام والی کے بالکل برعکس ہے لیکن سو فیصد سچ ۔اصل میں انہوں نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہوتا ہے تو جو ایسا چلتر پنے کا پانی پی پی کر پروان چڑھی وہ آمنہ رومیصاکے در پر پہنچی ۔
آسیہ راشد نے کمال لکھا ،بہت عمدہ ۔اسی طرح اچھے مددگاروں میں شہلا خضر بھی چھائی رہیں ۔حمیدہ بیگم ،سعیدہ احسن،سعدیٰ مقصود کے خاکے گو پہلے بھی پڑھے ہیں لیکن بالکل بھی بوریت محسوس نہیں ہوئی یہ زندہ کردار ہیں ہمیشہ رہنے والے ۔سلمیٰ اعوان کی تحریر پر تبصرہ سورج کو چراغ دکھلانے کے مترادف ہے۔
مختصر تحریروں میں ساری تحریروں میں سبق موجود ہے۔
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے قدرے ہلکے پھلکے انداز میں ماسی نامہ لکھ کر پڑھنے والوں کو تھوڑی دیر کے لیے اردگرد کے مسائل سے ٹینشن فری کردیا ، بہت عمدہ تحریر۔ڈاکٹر بشریٰ تسنیم نے بھی قصہ مصری ماسیوں کا لکھ کر ہماری غلط فہمی دور کردی کہ بیرونی ممالک میں مددگار بھی ذرا وکھری ٹائپ کی اور اعلیٰ اقدار کی مالک ہوتی ہوں گی پر نہ جی وہ تو ہماری کام والیوں سے بھی چار ہاتھ آگے ہیں ۔حسن معاشرت میں غزالہ عزیزماسی اور باجی کے تعلقات کے ساتھ موجود ہیں۔ خواجہ مسعود صاحب نے مجھے ماسیوں سے بچائو لکھ کر پطرس کی یاد دلادی ۔
حصہ نظم بھی بھرپور ہے سب پڑھنے کے قابل ۔
اتنے مختصر عرصے میں یہ بہت کارآمد نمبر ہے جس پر ادارتی ٹیم کے ساتھ مدیرہ بتول صائمہ اسما مبارکباد کی مستحق ہیں مگر ایک شکوے کے ساتھ ،کیا آپ کی مددگار اس قابل نہیں تھی کہ اس پر آپ بھی کچھ لکھتیں ؟
مجموعی طور پر یہ ایک یادگار نمبر ہے جس کے لیے قارئین کی طرف سے بھر پور شکرانہ قبول فرمائیں۔
٭تفصیلی رائے کے لیے ممنون ہوں۔ میری تحریر کے لیےصفحات کی گنجائش نہیں بچی، معذرت @(ص۔ا)
٭٭٭
پروفیسر خواجہ مسعود۔راولپنڈی
خوشگوار حیرت بھی ہوئی کہ ا س بار ’’چمن بتول‘‘( شمارہ جون 2023،تین تاریخ کو ہی مل گیا اور لطف یہ کہ ایک اچھوتے موضوع پر ’’خاص نمبر ‘‘ہے۔مجلس ادارت اور سٹاف’’ چمن بتول‘‘ مبارک باد کا مستحق ہے کہ اتنا شاندار نمبر نکالا ہے جو کہ نامور خواتین لکھاریوں کے اس موضوع پر تخلیقات سے مزین ہے ( ’’ خدمتگار نمبر‘‘ ) یہ بلا شبہ ایک زبردست متنوع مضامین کا مرقع اورگلدستہ ہے ۔ سب لکھاریوں نے اپنے اپنے تجربات شیئر کیے ہیں ۔
٭٭٭
کوثر سلیم ۔لاہور
عرصہ دراز سے میں بھی ’’ بتول‘‘ کے پڑھنے والوں میں شامل ہوں ۔یہ ایک معیاری رسالہ ہے جس میں ہر موضوع کو زیر بحث لایا جاتا ہے ۔’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ ہماری بہت ہی پیاری صائمہ اسماکی ذہنی کاوش کا نتیجہ ہے جس سے ہمیں ملکی حالات سے آگاہی ملتی ہے۔اکثر سوچتی تھی کہ بتول کے بارے میں اپنے خیالات کو تحریر کی شکل دوں مگر مشکل لگا!اس ماہ ِ جون کا ’’ بتول ‘‘ ہاتھوں میں آیا، پڑھا سمجھا، چند حروف لکھنے کی جسارت کر رہی ہوں۔
پورے رسالے میں ہمارے گھروں کا اہم کردار ہماری مدد گار ہماری ماسی پر بڑے ہی خوبصورت انداز میںلکھاریوں نے طبع آزمائی کی۔ یہ وہ کردار ہے جو ہماری ضرورت بھی ہے اور ہماری کمزوری بھی ۔ تمام لکھنے والوں نے قرآن و سنت کی روشنی میں مدد گار کے حقوق اور ہمارے فرائض سے ہمیں آگاہ کیا ۔ زندگی کی پہلی سانس سے لے کر آخری دم تک ہمیں مدد گار کی ضرورت پڑتی ہے ۔
محترمہ ڈاکٹر بشریٰ تسنیم نے سارے رسالے کا لب ِ لباب مختصر لفظوں میں بیان کردیا ۔اللہ تعالیٰ نے اپنا نام ’’ الناصر‘‘ النصیر‘‘ رکھا مدد کامنبع اور سرچشمہ اللہ رب العزت کی ذات ہے ۔ اللہ تعالیٰ مدد خود فرماتا ہے اور عمل اپنے بندوں سے کرواتا ہے ۔ محترمہ آپا حمیدہ بیگم کی تحریر ’’ صابن کی پرچ‘‘ بہت ہی دل پر اثر کرنے والی ہے ۔ لکھتی ہیں ۔
’’ کاش مجھے اللہ کی کسی نا فرمانی پر اتنی ہی ندامت ہو جایا کرےجتنی آج مائی کو ایک چھوٹے سے نقصان پر ہوئی ‘‘۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی و مدد گار ہو، آمین ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here