ہم نے خانہ دارانہ زندگی کا آغاز’’اپنی مدد آپ‘‘ کے تحت جدہ سے کیا۔ اور وہاں اس زمانے میں مددگار رکھنے کی عیاشی ’’ہنوز دلی دور است‘‘ کے مصداق تھی۔ جان ناتواں اور اس کی ناتجربہ کاری نےکچھ قابل اور بہت سے ناقابلِ بیان کارنامے سر انجام دیے۔ پیاری ساس کا انوکھا لاڈلا اپنے متلون مزاج کی وجہ سے’’مزاجی خدا‘‘ کے مزے لوٹتا تو بچوں کی آمد ہماری مامتا کا امتحان لیتی رہی۔
ناچیز کو رب العالمین نے جدہ میں عمرہ اور حج کے زائرین کی روزانہ، ہفتہ وار، ماہانہ اور سالانہ مہمان داری کے لیے منتخب کیے رکھا، کبھی کبھار ہاتھ بٹانے کے لیے کسی فرد کی شدت سے ضرورت محسوس ہوتی۔ اس وقت ڈسپوزیبل برتنوں کی عیاشی بھی میسر نہ تھی۔ بھلا ہو دینی بہنوں کا جنہوں نے خود سے ہی یہ اصول طے کر لیا تھا کہ جس گھر میں رسمی یا غیر رسمی ملاقات کو جانا ہوگا، میزبان کے باورچی خانے کو سمیٹ کر، برتن دھو کر آئیں گی۔ تو اسی ادا پہ نہال ہو کر ہم تھکن سے مجبور دل سے یہ دعا کرتے کہ:
’’یاللہ کرم کر دے، کسی بہن کے دل کو نرم کردے‘‘۔
دل کو دل سے ایسی راہ نکلتی کہ کسی نہ کسی بہن کے دل میں ہلچل مچ ہی جاتی۔
ہم نے گھر کے کام کاج میں معاونت کا مزہ قاہرہ جا کر چکھا۔
ایک سیاحتی ادارے نے ہمیں کشادہ فلیٹ پندرہ دن کے لیے مع نوکرانی کثیر کرائے کے عوض دلوا دیا۔
فلیٹ میں داخل ہوئے ہی تھے کہ ایک خاتون گھنٹی بجا کر انتظار کی زحمت کیے بغیر، شاہانہ شان کے ساتھ، بے تکلفی سے پرس جھلاتے اندر داخل ہوئی۔ ہم نے اسے گھر کی مالکن سمجھا، اس کی چال ڈھال کی تمکنت، لباس، چہرے اور گیسووں کی آرائش و زیبائش قابلِ دید تھی۔ ہم نے اس کے مالکانہ حقوق کے مدِّ نظر انتہائی احترام و محبت سے ہاتھ ملایا اور پاکستانی قوم کی شائستگی کا نمائندہ بننے کی نیت رکھتے ہوئےعربی زبان میں ’’صوفے پہ تشریف رکھیے‘‘ کہنے کی کوشش کی۔ اس نے اپنا کالا چشمہ اتار کر اپنا تعارف کروایا جو ہم مصری ڈرامے دیکھنے کی وجہ سے گزارے لائق سمجھ ہی گئے کہ یہ رانی نہیں نوکرانی ہے۔
ہم ظاہر و باطن کے اس متضاد المیے پہ چونک ہی رہے تھے، وہ ایڑی والا سینڈل کھٹ کھٹ کرتی سٹور میں گھس گئی۔ چونکنےسے ذرا فارغ ہوئے تو ہم اس کی سرخ منی سکرٹ کی لمبائی اور گیسؤں کی آرائش کا اندازہ لگانے کی کوشش کرنے ہی لگے تھے کہ وہ سر پہ رومال باندھے، لمبا سا کرتہ پہنے گھسی چپل پائوں میں اٹکائے جھاڑو سمیت واپس آگئی۔ ہمیں بے اختیار جیری کو ٹام پہ ہنسنے کا منظر یاد آگیا۔ بہت زور سے دل چاہا کہ ہم بھی کارٹون کا کردار ادا کریں لیکن یہ سوچ کر کہ ہم مصری ڈراموں کے مصداق ’’مادام‘‘ ہیں اور جس کو ہم گھر کی مالکن سمجھ رہے تھے وہ مصری ڈراموں میں پائی جانے والی نوکرانی ہے۔ اب ہمیں مزید چونکنے سے باز رہنا ہی زیب دیتا ہے۔ اور جیری کی طرح ہنسنے کی تو بالکل اجازت نہیں۔ ہم اپنی خواہش کو ایسے دبا رہے تھے جیسے جیری کا ہنستے ہوئے پیٹ دبانا\۔
باتوں کی تیز رفتاری کے ساتھ (جو ہمارے سر کے اوپر سے گزر گئیں) اس نے اپنا کام مکمل کیا۔ اسے کھانا پکانے کی ہدایات دیتے ہوئے ہم نے خود کو مصری ڈراموں کی ہیروئن سمجھنے کی ناکام کوشش کی کیونکہ اس کی مشق جو نہیں کی تھی۔ بہر حال وہ دوبارہ میڈم کا روپ دھار کر واپس لوٹ گئی اور ہم نے اس کے سینڈل کی باریک اور لمبی ایڑی کے ساتھ متوازن چال پہ غور و فکر کرنے کا بے نتیجہ فریضہ سر انجام دیا۔
پہلی صبح ناشتہ خود تیار کیا اور پھوہڑوں کے سارے ریکارڈ توڑنے کی غرض سے کھانے کی میز پہ برتن چھوڑ دیے۔ ہمیں میز کے نظارے
سے خاصی کوفت ہوئی مگر دل میں گدگدی سی ہونے لگی، سیانے کہتے ہیں کہ جب دل میں گدگدی محسوس ہو تو اس کا مطلب ہے آپ خوش ہیں ہم نے سیانوں کی بات پہ یقین کیا اور مزید خوش ہوگئے کہ ہم واقعی خوش ہیں۔
پہلے دن دوپہر کا کھانا سیر سپاٹے میں ہی کھایا۔ رات کو فلیٹ میں واپس آئے تو دل باغ باغ ہو گیا سارا گھر، باورچی خانہ صاف ستھرا، میلے کپڑے دھلے ہوئے، بستر کی چادریں بدلی ہوئیں اور کھانا ہماری حسبِ ہدایت مرچ مسالے والا، بچیوں کے لیے مصری طرز پہ پاسٹا تیار تھا، جس کا ہم نے کوئی آرڈر نہ دیا تھا۔ میز پہ برتن سجے ہوئے پانی کا جگ سلیقے سے غلاف سے ڈھکا۔ ہم نے خود کو کسی بادشاہ کی بیگم سمجھا اور غائبانہ ہی کام کرنے والی کا شانہ تھپتھپایا۔
اگلی صبح وہ منہ اندھیرے ہی تشریف لے آئی اور مصری ڈراموں کی ماسی کے عین مطابق کل کی کارروائی پہ بخشیش طلب کی اور ساتھ ہی ہماری چھوٹی بچی کو گود میں لے کر اس کی بلائیں لیں۔ ہم نے جلدی سے بچی کو اس کے ہاتھوں سے چھڑایا اور اپنے سینےسے چپکا لیا کہیں اس مہربانی پہ بھی بخشیش نہ طلب کر لے۔ یہ نصیحت پہلے سے کر دی تھی تجربہ کاروں نے کہ مصر میں بخشیش کا بہت دور دورہ ہے۔
میاں نے اسے تسلی دی کہ ابھی ہم نے دو ہفتے اور رہنا ہے اور ویسے بھی ہم پیشگی ادائیگی کر چکے ہیں لہٰذا صبر کرو۔
صبر ضرور کیا مگر اس نے نہیں، ہم نے۔
اگلے ہی دن ہم شام کو واپس آئے تو ناشتے کی میز کا پھوہڑ پن ہمارا منہ چڑا رہا تھا۔ تھکے ہارے آنے پہ سلیقہ مندی کا مظاہرہ کرنا بلائے جاں تھا تو کھانے کے لیے بھی کچھ تیار کرنا تھا۔
ہم نے سوچا اس کو بخشیش نہ دینے کی یہ اچھی خاصی سزا ہے۔ اگلی صبح کیا کرنا چاہیے؟ پھوہڑ پن کا مظاہرہ یا سلیقہ مندی کا؟ اور کھانا پکانے کا سامان لا کر رکھنا چاہیے یا نہیں؟
لیکن کسی نتیجے پہ نہ پہنچے۔
ناشتے کے بعد ہم نے مارے باندھے آلو کی بھجیا سے ناشتہ کروایا اور اسی کو رات کے لیے رکھ چھوڑا۔ اور سامنے ہی میلے کپڑے رکھ دیے کہ شاید باد بہاری آجائے اور عقل مند ہوگی تو سمجھ جائے گی۔
شام کو واپس آنے پہ معلوم ہؤا کہ میڈم تشریف لائی تھیں اور گھر کی صفائی کر کے، کپڑے دھو کر ڈال گئی ہیں۔ اس کی عقلمندی پہ ہم نے اس کا قصور معاف کر دیا اور سوچا اب سامنا ہوگا تو اسے بخشیش ضرور دلوا دیں گے۔ تیسرے دن سبزی چولہے کے پاس رکھ دی مگر واپسی پہ وہ اسی حالت میں رکھی تھی۔
غرض کچھ سمجھ نہ آتا تھا کہ آج کا دن ہم سے کیا سلوک ہونے والا ہے۔ ایک روز وہ فجر کے وقت ہی دروازے پہ آن پہنچی چونکہ اندر سے دروازے میں چابی موجود تھی اس لیے اس کی چابی کام نہ آسکی۔ آٹھ دس سال کی بچی ساتھ تھی کہنے لگی، اس کو آپ سے ملوانے آئی ہوں اس کے انداز سے لگ رہا تھا ہمیں اس کے دیدار سے فیض یاب کرنے آئی ہے میں نے بچی کو پیار کیا، مصری لوگوں کے مزاج سے تھوڑی بہت واقفیت ہوگئی تھی، غیر ملکی سیاح سے بخشیش لینا ان کا حق ہے، کوئی جگہ اور وقت ایسا نہ تھا جب اس کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو۔ یہ محترمہ سمجھ رہی تھیں کہ ہم سعودی عرب سے یہاں آئے ہیں تو یقیناً کوئی موٹی آسامی ہوگی میاں صاحب نے اس کی گوشمالی کی کہ:
’’آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں‘‘
ہاتھ نچا نچا کر اس نے مزید ادائیں دکھائیں جس میں معذرت یا شرمندگی کا شائبہ تک نہ تھا۔ اس دن اس کی پوری کوشش تھی کہ بیٹی کے لیے کچھ اینٹھ لے مگر کامیاب نہ ہوسکی میاں صاحب کو یہ اصول یاد تھا کہ ہم نے جو دینا تھا دے چکے اور رہا میرا پرس تو وہ ان خرافات سے پاک تھا۔
اس دن وہ ’’ھٰذا فراق بینی وبینک‘‘ کا عندیہ دے کر چلی گئی۔ سیاحت کے متعلقہ فرد سے بات کی تو اس نے کہا ’’جتنا گڑ ڈالو گے اتنا میٹھا ہوگا‘‘۔ آپ کو ان سے کام لینے کا طریقہ نہیں آیا۔ سو ہم نے اس کی مدد سے خود کو آزاد کیا اور اپنی مدد آپ والا فارمولا ہی اپنا لیا۔
ہم جب پاکستان منتقل ہوئے تو دو متضاد خیال ایک دوسرے سے الجھنے میں مصروف تھے۔ اپنی مدد آپ والا فارمولا یا ماسی رکھنے کی عیاشی۔
ماسی ملنا پھر اس پہ اعتماد کرنا بھی کارے دارد تھا اور اس کے ساتھ بک جھک کرنے کے لیے بھی استعداد چاہیے تھی، جو ہم جیسے نالائق میں عنقا تھی۔
اپنی مدد آپ کے تحت کچھ مہینے گزارے لیکن سعودی عرب کے گھر میں صفائی کر لو تو وہ گھر منہ سے بولتا تھا کہ مجھ پہ دستِ کرم فرمایا گیا ہے مگر اس کرم کو پاکستان میں کسی گھر نے کبھی تسلیم کر کے نہ دیا۔
بہت سی ماسیاں ایک ایک دن کی آزمائش کے لیے تشریف لائیں۔ کسی کو ہم پسند نہ آئے اور کسی کو ہمارا مطالبہ (خاموشی سے کام کرنا کسی تیسرے فرد کے بارے میں بات کرنے کی تو قطعاً اجازت نہیں) ناقابلِ قبول لگا کسی کو گھر کا فرش پسند نہ آیا۔ اور کسی کی پاکی ناپاکی کے معیار کو ہم نے رد کر دیا۔ جس نے ہمیں پاس کر دیا تو بعد میں یہ عقدہ کھلا کہ ان کو ہم اور ہمارا گھر پسند نہ آیا تھا بلکہ ہماری ضرورت سے زیادہ اعتماد کرنے والی بے وقوفی اور ’’اچھا کوئی بات نہیں‘‘والا بے جا تکیہ کلام پسند آیا تھا۔ ہماری ایسی بے وقوفیوں کی وجہ سے ہی جب کسی ماسی نے ہمیں پسند کر لیا تو پھر ہماری ہو کر رہ گئیں جب تک کہ ہم نے گھر یا شہر یا ملک نہ بدلا اور وقت رخصتی ہر ماسی نے وہ رونا دھونا مچایا کہ ہمیں بھی رونا آنے لگتا۔
ہر دفعہ گھر، شہر اور ملک بدل جانے کی وجہ سے یہ دعا بار بار گڑگڑا کر کی گئی کہ ’’یارب! کوئی ایسی ماسی بھیج جو ہماری بے وقوفیوں سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائے اور ہمارے تکیہ کلام اور چشم پوشی کے ساتھ کھلے ہاتھ کے مزاج کو قدر کی نگاہ سے دیکھے‘‘۔
بہت سے قصے ہیں تفصیلات کیا بتائیں بہرحال ہر شہر اور ملک کے باسی کے مزاج میں اپنا الگ رنگ ہوتا ہے مگر ایک بات ہر جگہ مشترکہ دریافت کی کہ یہ گھروں میں کام کرنے والی ماسیاں ایک لحاظ سے دور اندیشی اور چھٹی حس میں کمال درجہ رکھتی ہیں ہم تو ان کو ولی اللہ کا رتبہ دینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔
بھلا کیا ایسا نہیں ہے؟
جس دن ہم بیمار ہوں، اچانک مہمان آجائیں، آندھی آجائے تو ان کی دور اندیشی اور چھٹی حس پوری طرح جاگ جاتی ہے اور ہمیں ماسی کی آمد کے لیے وظیفے کرنے پڑتے ہیں۔ اتنا انتظار تو کسی محب نے اپنے محبوب کا نہ کیا ہوگا اور سب جانتے ہیں کہ:
’’الانتظار اشد من الموت‘‘
٭٭٭